’’ بھائی تو اس آفت کا مارا تھا ہی ا ب بہن کو بھی چسکا لگ گیا ہے ۔۔۔۔خدا ہی کوئی ہدایت دے ان نامعقولولوں کو ‘‘ نالاں نالاں سی یہ آواز رسوئی سے آئی تھی۔
’’دیکھو تو۔۔۔۔کیسے پتھر بنے بیٹھے ہیں۔مجال ہے جوآپس میں بھی کوئی بات کر لیں ‘‘رسوئی سے ملحق لِونگ ایریا سے فوراً تائیدی ردعمل آیا۔
کمرے میں ،تقریباًآ ٓمنے سامنے بیٹھے دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے لاتعلق آن لائن چیٹنگ میں یوں منہمک تھے جیسے آس پاس اور کوئی موجود نہ ہو۔
معروف کی دوستی نفیسہ نامی لڑکی سے تھی جب کہ عافیہ کسی ساحل سے پینگیں بڑھارہی تھی۔ بات آگے بڑھی تو اپنا اپناایڈریس ایکسچینج کیا گیا، مشغولیت بارے باتیں ہوئیںاور پسند نا پسند کا ذکر چھڑا۔ ساحل کے ایڈرس میں اپنے ہی شہر کا نام دیکھ کر عافیہ کو ایک جھٹکا سا لگا، کیوںکہ ایسے تعلقات میں شہربھر کی دوری کو بوجوہ ترجیح دی جاتی ہے،لیکن پھر اپنا اور اپنے شہر کا صحیح نام بتانے سے گریز کرتے ہوئے اس نے چیٹ جاری رکھی ۔فرضی ناموں کے استعمال میں بہرحال یہ فایدہ رہتا ہے کہ ایک دوسرے پر کتنا بھی کھُل ڈُل جائو ایک دفاعی پردہ اور محفوظ فاصلہ بہر حال بنا رہتا ہے اور کل کلاں معاملہ بگڑ بھی جائے توبات گھر اور گلی محلے تک نہیں پہنچتی۔
ڈِسکشن کچھ کچھ ’ نان ویج‘ رنگ پکڑنے لگا توعافیہ انگڑائی لیتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ ایک نظر بھائی کی طرف دیکھا جو اِس کی موجودگی سے بے نیاز اپنے مصروف تھا۔وہ مسکرا کراپنے کمرے میں آ گئی۔دروازہ بند کیا اور چیٹ پہ بحال ہو گئی۔
’’اپنے روم میں آگئی‘‘
’’تو ابھی تک کہاں تھی‘‘
’’بھائی کے روم میں تھی ،۔۔۔۔۔مطلب بھائی کے پاس گئی تھی کسی کام سے، وہیں بیٹھی تمھارے میسیجز کا جواب دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔بٹ ۔ڈونٹ وَرّی، آئی ایم بیک اِن مائی رُوم نائو۔۔۔بولو کیا پوچھ رہے تھے۔۔۔؟‘‘
’’عافیہ۔۔۔۔۔تویہ تم ہو!!؟؟؟؟؟؟؟؟‘‘ دوسرے کمرے سے چیخ کی صورت اُٹھنے والی یہ ٓاواز معروف کی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...