بھارت کے اہم ماہیا نگاروں میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ یوں تو وہ کثیر الجہت ادیب ہیں اور انتہائی متحرک اور فعال بھی۔۔شاعری ، افسانہ، تنقید، تحقیق تو ان کے خاص میدان ہیں ہی لیکن ادب میں ہونے والے نئے تجربات کا بھی انہوں نے ہمیشہ محبت کے ساتھ سواگت کیا ہے۔ کوئی نیا تجربہ اد ب میں کامیاب ہو یا نا کام۔یہ تو بعد کی بات ہے۔ مناظر عاشق ہر گانوی کی خوبی ہے کہ انہوںنے نئے تجربات کو پنپنے کے مواقع ضرور دئیے ۔آزاد غزل، ہائیکو، نثری نظم کے سلسلے میں یہ فیصلہ تو وقت کرے گا کہ ان میں سے کون سا تجربہ ادب کا جزو بنتا ہے اور کون سا ختم ہو جائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان نئے تجربات کے سلسلے میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی کی خدمات کی ایک اہمیت بنتی ہے، تخلیقی سطح پر بھی اور بحث مباحثہ کی سطح پر بھی۔
جب ماہیے کے غلط وزن کا تجربہ اردو میں رائج ہوا توڈاکٹر مناظر نے بھی تین یکساں وزن کے ثلاثی ”ماہیے“ کے نام سے لکھے ۔ ان کے ایسے ”ماہیے“بھارت کے بعض ادبی رسائل میں چھپ چکے ہیں۔ جب انہیں ماہیے کے اصل وزن کا علم ہوا تو انہوںنے نہ صرف درست وزن کو اپنا لیا بلکہ ماہیے کے پنجابی روپ کو سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش بھی کرنے لگے۔ان کی اس سچی لگن کا ثمر ان کا وہ طویل مضمون ہے جو ”اردو میں ماہیا نگاری “کے عنوان سے ماہنامہ ”صریر“ کراچی کے شمارہ جنوری ۱۹۹۷ءمیں چھپ چکا ہے۔ یہی مضمون ان کی مرتب کردہ کتاب ”رم جھم رم جھم“ میں بھی بطور”حرف اول“ شامل ہے۔اس مضمون سے ماہیے کے تئیں ان کی محبت اور اخلاص کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے ماہیوں میں جو چیز فوراً متوجہ کرتی ہے وہ گھٹن کا احساس ہے۔ یہ گھٹن سیاسی اور مذہبی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے اور کسی اور نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے۔
طوفان اٹھاتے ہو
اپنی فضاﺅں میں
کیوں آگ لگاتے ہو
زخموں کی کہانی ہے
شہر کی ویرانی
دیکھی نہیں جاتی ہے
کیسی یہ ملہاریں
آنگن آنگن کیوں
نفرت کی دیواریں
عالم انجانا ہے
محفل سونی ہے
خالی پیمانہ ہے
گلشن کی زبانوں پر
مہر خموشی تھی
ہر پھول کے ہونٹوں پر
موسم طوفانی ہے
سونے والے سن
گھر گھر ویرانی ہے
شبنم پر پہرہ ہے
بندش ہے گل پر
بلبل بے چہرہ ہے
منظر میں نہ آنے دے
خون کا قطرہ بھی
خنجر میں نہ آنے دے
سماجی جبر کے باوجود گلشن وطن سے مناظر عاشق کی وابستگی کم نہیں ہوتی ۔کبھی وہ ”اہل محبت“کی بدلی ہوئی نگاہوں پر حیران ہوتے ہیں اور کبھی مصلحت آمیز خاموشی میں عافیت محسوس کرتے ہیں:
آئی ہے سحر کیسی
اہل محبت کی
بدلی ہے نظر کیسی
دل اپنا بچا کر رکھ
ٹھیک نہیں موسم
خود کو پس منظر رکھ
اور کبھی تمام تر ،زیادتی ، نا انصافی اور گھٹن کے باوجود گلشن وطن کے لیے خون کا نذرانہ پیش کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں:
رنگین کہانی دو
اپنے لہو سے تم
گلشن کوجوانی دو
سماجی گھٹن کے موضوع سے قطع نظر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے ماہیوں میں کہیں موسم کی دیوانگی اور محبت کا منظر دکھائی دیتا ہے تو کہیں خوابوں کی شکست کا احساس جاگتا ہے۔ کہیں وہ جلتی ہوئی دھرتی کی پیاس بجھانے کے لیے بارش کی تمنا کرتے ہیںتو کہیں محبت کا سفر طوفانی لہروں پر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
گل ہے پیمانہ ہے
آﺅمل بیٹھیں
موسم دیوانہ ہے
ہر گام پہ تڑپے ہیں
وقت کے ہاتھوں ہم
تقدیر سے الجھے ہیں
لمحوں کی حکایت کیا
ٹوٹ گئی ساری
خوابوں کی یہ جنت کیا
بارش کو تو آنے دے
جلتی ہوئی دھرتی
کی پیاس بجھانے دے
گھر تے طوفانوں میں
ساتھ مرا تیرا
موجوں کی لہروں میں
ڈاکٹر مناظر عاشق کی ماہیانگاری فی الوقت رائج ماہیا نگاری کے مطابق ہے لیکن جب وہ کبھی لفظ کے جامہ کی جستجو کرتے ہیں اور کبھی وسعت معنی کی طلب ان کے ہاں شدت اختیار کرنے لگتی ہے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر کا ماہیا نگار”کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے“ کا ورد کر رہا ہے۔ اسی مقام پر اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر مناظرعاشق ہرگانوی کی ماہیا نگاری اردو میں نئی راہیں تراشنا چاہتی ہے۔ نئی روایت تشکیل دینا چاہتی ہے ۔ان کی تخلیقی جستجو اس میں کس حد تک کامیاب ہو گی؟اس کا فیصلہ تو اس وقت ہو گا جب ان کے ”کچھ اور چاہیے“ کا ارادہ لفظ و معنی سے نئی سطح پر ہم رشتہ ہوگا، تاہم اس وقت ان کی جستجو کی سچائی کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ نثری نظم اور ہائیکو کے تجربات کے مقابلہ میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی آزاد غزل کے تجربہ میں زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ اب ماہیے سے ان کی محبت اور وابستگی دیکھتے ہوئے لگتاہے کہ وہ ماہیے کے میدان میں آزاد غزل کے تجربہ سے بھی زیادہ کامیاب اور سرخرو ہوں گے۔
جلتی ہوئی سوچوں کو
لفظ کا جامہ دے
احساس کے زخموں کو
طوفاں کی روانی دے
شاعر کے لفظوں
میں وسعت معنی دے
احساس مروت دے
آج کے انسان کو
پھر ذوق محبت دے
کرنوں کا قرینہ کیا
شام کے سورج کا
اے دوست بھروسہ کیا
ساغر ہے نہ صہبا ہے
ہے یہ عجب محفل
ہر شخص ہی الجھا ہے
ہر سمت شرارا ہے
حسن کے جلوﺅں کا
انداز دل آرا ہے
درویش دعا دیتے
خوابوں کا شیشہ
آنکھوں میں سجا دیتے
جینے کی ادا رکھو
خواب پریشاں کو
پلکوں پہ سجا رکھو
تصویر سیاسی تھی
شاخ ثمرور پر
پتھر کی گواہی تھی
تہذیب ادا ٹوٹی
دھوپ چمکنے سے
شبنم کی انا ٹوٹی
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے اس انداز کے ماہیوں سے ان کے اندر کی طلب ، جستجو اور اس کے امکانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔جب سے اردو میں درست وزن کی ماہیا نگاری کو فروغ ملنے لگا ہے تب سے بعض دوستوں نے ماہیے کے مزاج کا مسئلہ بھی اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ گویا جب تک غلط وزن میں ”ماہیے“ پیش کئے جا رہے تھے تب تک ماہیے کے مزاج کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔اس مسئلے پر میں الگ سے اور کافی تفصیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرچکا ہوں یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔البتہ میں یہاں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے چند ایسے ماہیے پیش کرنا چاہتا ہوں گا جو یار لوگوں کے مبینہ مزاج کے بھی عین مطابق ہیں:
ساون کی فضاﺅں میں
خوشبو کاا فسانہ
زلفوں کی گھٹاﺅں میں
توہین وفا کرنا
آپ کاشیوہ ہے
ہر دل پہ جفا کرنا
اے جذبۂ بے تابی
پانی کے اندر بھی
ہے پیاس سلگتی سی
ظلمت میںگھری ہو گی
دشت میں سرگرداں
آشفتہ سری میری
چاہت کے نشیمن میں
لفظ محبت لکھ
بکھراﺅہے آنگن میں
برکھا رت آئی تھی
پھولوں کے آنگن
ہریالی چھائی تھی
شب کی حیرانی تھی
دل ڈوبا ڈوبا
کتنی ویرانی تھی
پھولوں میں لہکتی ہے
خوشبو محبت کی
سانسوں میں مہکتی ہے
ماہیے کے خدو خال او رمزاج سے آشنائی اور ماہیا نگاری سے اپنی تخلیقی محبت کے باعث ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے مختصر سے عرصہ میں اس جدید تحریک میں اپنے لیے ایک اہم اور محترم مقام بنا لیا ہے۔ درست ماہیا نگاری کی تحریک کے اس ابتدائی دور میں وہ ان متحرک ماہیا نگاروں اور نقادوں میں شامل ہیں جن کے ذکر کے بغیر آنے والے دور میں ماہیے کی تاریخ مکمل نہیں کہلا سکے گی۔
٭٭٭٭