ماہیے کا بنیادی موضوع محبت ہے۔ اس موضوع کے تحت محبوب کے حسن کی تعریف، پیار کے اظہار اور اقرار، محبت میں تکرار، عہد و پیمان، ملن اور جدائی ، گلے شکوے اور کھلی ڈلی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے مضامین آجاتے ہیں۔ شادی بیاہ کے مختلف جذبات، دیہاتی ماحول اور دھرتی سے وابستگی بھی ماہیے کے اہم موضوع ہیں۔ مختلف رشتہ داریوں کا ذکر بھی ماہیے کا موضوع رہا ہے۔
ان موضوعات کے علاوہ حمد، نعت ، منقبت ، میلے ٹھیلے، روز مرہ زندگی کے معاملات اور زندگی کے مسائل بھی ماہیے میں بیان ہوتے رہے ہیں۔ اگرچہ ایسے بعض موضوعات کو پنجابی میں ہلکا سا ہی چھوا گیا ہے۔
گزشتہ پانچ چھ سال کے مختصر سے عرصہ میںاردو ماہیے کے جو نمونے سامنے آئے ہیں ان میں نہ صرف پنجابی ماہیے کے تقریباً تمام موضوعات ملتے ہیں بلکہ پنجابی روایت سے آگے کا سفر بھی دکھائی دیتا ہے۔
حمدیہ ماہیوں میں اس انداز کے ماہیے ملتے ہیں:
ہے سارا کمال اس کا
ایسا جمالی وہ
ہر شے میں جلال اس کا
(نذیر فتح پوری)
توندیا ہے جاپوں کی
پار لگا مجھ کو
میں کشتی ہوں پاپوں کی
(پروین کمار اشک)
کوئل کو کو بولے
سن کرحق کی صدا
دل اللہ ہو، بولے
(آل عمران)
سچ ہے کہ بھلاوا ہے
ہم سے نہیں مطلب
جو کچھ ہے خدا کا ہے
(رشید اعجاز)
تو خود میں اکیلا ہے
تیرے دم سے مگر
سنسار کا میلہ ہے
(حیدر قریشی)
منظر بھی نکھر جائیں
اس کا اشارہ ہو
حالات سنور جائیں
(ذوالفقار احسن)
حمدیہ ماہیوں کے ساتھ خوبصورت نعتیہ ماہیے بھی کہے گئے ہیں ۔
ان میں کہیں حضرت محمد ﷺ سے محبت کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کی غلامی کرنے پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے اور کہیں حضور ﷺ کی پاک زندگی کے بعض منور گوشے بیان کئے گئے ہیں۔
لذت ہی نرالی ہے
داور محشر سے
لو ہم نے لگالی ہے
(رشید اعجاز)
کیا شستہ کلامی ہے
ہر شے سے بہتر ہے
احمد ﷺ کی غلامی ہے
(اجمل جنڈیالوی)
جو اپنی قبائیں تھیں
سرورِ عالم ﷺ نے
دشمن کو عطا کر دیں
(نذیر فتح پوری)
سب صبحوں کا تاج ہوئی
رحمتِ عالم ﷺ کو
جس شب معراج ہوئی
(حیدر قریشی)
آنحضرت ﷺ کی ذات بابرکات کی نسبت سے مدینہ شریف کی برکات کا ذکر بھی ماہیوں میں کیا گیا ہے:
اس اور اجالے ہیں
جائیں مدینے جو
وہ قسمت والے ہیں
(سعید شباب)
سوہنا گلدستہ ہے
شہر مدینہ پر
اک نور برستا ہے
(آل عمران)
اک بات ہے سینے میں
جان مری نکلے
مولا کے مدینے میں
(اجمل جنڈیالوی)
روزوں کا مہینہ ہے
میری آنکھوں کا
مسکن وہ مدینہ ہے
(عارف فرہاد)
اشکوں سے ہیں آنکھیں تر
لاکھوں درودو سلام
اے رحمتوں کے پیکر
(شاہدہ ناز)
پھولوں سے بھری ڈالی
روضہ اطہر کی
دیکھوں گی کبھی جالی
(شاہدہ ناز)
دعائیہ اور فقیری مزاج کے ماہیے بھی کہے گئے ہیں جنہیں حمدو نعت کے دینی موضوع کے تسلسل میں دیکھا جا سکتاہے۔
یہ نگری فقیروں کی
بڑھ کر ہیروں سے
قیمت یہاں منکوں کی
(ضمیر اظہر)
اس روز ہی بِہتر تھے
آج یقیں آیا
جس روز بَہتّرتھے
(نذیر فتح پوری)
درگاہ میںکیا آﺅں
پاپ کی گٹھڑی ہوں
نذر انہ میں کیا لاﺅں
(پروین کمار اشک)
برفی میں پستہ ہے
بخش خطا میری
جو نا دانستہ ہے
(خاور اعجاز)
رشتوں ناتوں کے ذکر میں ماں، باپ،بہن، بھائی،بیوی،شوہر، بیٹے ، بیٹیوں وغیرہ کے بارے میں بض عمدہ ماہیے کہے گئے ہیں:
اک نور خلاﺅں میں
دیکھو تاثیریں
دادی کی دعاﺅں میں
(آل عمران)
ممتا بھرا سینہ ہے
دل مری امی کا
چاہت کا خزینہ ہے
(بسمہ طاہر)
گڑیا کہلاتی ہے
اپنے بابا کے
جب پاﺅں دباتی ہے
(افتخار شفیع)
تلخی نہ بڑھا بھائی
دودھ کا رشتہ ہے
مت زہر ملا بھائی
(نذیر فتح پوری)
کچھ کانچ سے گہنوں کے
رشتے ٹوٹ گئے
اک بھائی سے بہنوں کے
(یوسف اختر)
غم خوار نہیں کوئی
پہلا سا بہنوں
میں پیار نہیں کوئی
(امین خیال)
اس دل کی تورانی ہے
اور بیٹا اپنی
چاہت کی نشانی ہے
(اجمل پاشا)
برگد کی جٹائیں ہیں
ساتھ مرے اب بھی
ابو کی دعائیں ہیں
(حیدر قریشی)
بعض رشتوں کے حوالے سے غزالہ طلعت کے یہ ماہیے اپنی الگ شان رکھتے ہیں۔
سچائی گماں جیسی
رب نے بنائی نہیں
نعمت کوئی ماں جیسی
صورت مرے بھائی کی
یاد دلاتی ہے
باباکی جدائی کی
اب راج دلاروں سے
من آنگن مہکا
بچپن کی بہاروں سے
شوہر مرے اچھے ہیں
وعدہ نہیں کرتے
وعدے کے تو سچے ہیں
دھرتی کے حوالے سے جو ماہیے کہے گئے ہیں انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتاہے۔ پہلا حوالہ دھرتی سے براہ راست تعلق اور وابستگی کو ظاہر کرتا ہے جب کہ دھرتی کا دوسرا حوالہ اس کے ثقافتی مظاہرے سے منسلک ہو کر سامنے آتا ہے۔ پہلے دھرتی سے براہِ راست تعلق کے ضمن میں ایسے ماہیے دیکھیں جو ارض وطن سے محبت کا اظہار ہیں۔
ہمیں جان سے پیارا ہے
پاک وطن اپنا
قسمت کا ستارا ہے
(رانا غلام شبیر)
اک لمبی کہانی ہوں
فخر ہے یہ مجھ کو
میں پاکستانی ہوں
(آل عمران)
ہر رُت ہریالی ہے
پاک وطن تیری
کیا شان نرالی ہے
(امین خیال)
چترال کو چلتے ہیں
سنگ پہاڑوں کے
جہاں رنگ بدلتے ہیں
(امین خیال)
دھرتی سے محبت کاایک انداز ارض وطن سے شروع ہو کر پورے کرۂ ارض تک پھیل جاتا ہے۔ دھرتی سے محبت کے اظہار میں دھرتی کے کرب کو محسوس کرنے کا رویہ بھی سامنے آیا ہے۔ اس نوعیت کے چند ماہیے دیکھیں:
تعبیر اک خواب کیا
مٹی کی چاہت میں
جسموں کو گلاب کیا
(یوسف اختر)
کیا باد بہاری ہے
سبز پری جیسی
یہ دھرتی ہماری ہے
(امین خیال)
زرخیز زمینوں میں
راوی بہتا ہے
پنجاب نگینوں میں
(عارف فرہاد)
مٹی کی انا بولی
میری آنکھوں کے
ساون میں اٹھی ڈولی
(عارف فرہاد)
بارش کو توآنے دے
جلتی ہوئی دھرتی
کی پیاس بجھانے دے
(مناظر عاشق ہرگانوی)
آنکھوں میں اداسی ہے
میری طرح شاید
دھرتی بھی پیاسی ہے
(ارشد نعیم)
دھرتی کا دوسرا حوالہ ثقافتی مظاہر سے منسلک ہے ۔یہاں پنجاب کے ماحول کی خوشبو بھی ملتی ہے۔ ایسے ماہیوں میں دیہاتی ماحول، گندم کے کھلیان، سرسوں کا ساگ، اناروں کے پھول ، انگور کی بیلیں، پنگھٹ ، چڑیوں کی چہکاریں اور گائے کے دودھ کی دھاریں، غرض دھرتی کے مختلف ثقافتی مظاہر ماہیا نگاروں کی محبت یا کسی روگ کے ساتھ مل کر نمایاں ہوئے ہیں۔
چند ماہیے دیکھیں:
کھلیان ہے گندم کا
چھاج میں ہر دانہ
سندیس ہے بالم کا
(منزہ اختر شاد)
کتری ہوئی امبی ہے
آج اکیلی ہوں
اور رات بھی لمبی ہے
(منزہ اختر شاد)
کھیتوں میں کھلی سرسوں
ماہی نہیں آیا
آنا تھا اسے پرسوں
(ضمیر اظہر)
ماہی کبھی آملنے
پھول اناروں کے
شاخوں پہ لگے کھلنے
(ضمیر اظہر)
بچپن کے کھیلوں کو
سائیں ہرا رکھے
انگور کی بیلوں کو
(پروین کمار اشک)
برگد ہو کہ بیری ہو
جگنو نہیں ملتے
جب رات اندھیری ہو
(شجاعت علی راہی)
خواہش کبھی چھاﺅں کی
اور کبھی چاہیں
دھوپ آپ کے گاﺅں کی
(غزالہ طلعت)
پھولوں سے بھری جھولی
چاند ستاروں کی
پنگھٹ پہ کھڑی ٹولی
(نذر عباس)
اک بنڈل پانوں کا
دھان کے کھیتوں میں
زر بکھرا کسانوں کا
(امین خیال)
جب اونچی ہوں پروازیں
سنتے نہیں پنچھی
پھر پیڑوں کی آوازیں
(سعید شباب)
وہ چڑیوں کی چہکاریں
دن کے نکلتے ہی
پازیب کی جھنکاریں
(اجمل پاشا)
بستی کی بہاروں کے
نغمے سے ، گائے
کے دودھ کی دھاروں کے
(اجمل پاشا)
مختلف میلوں کے تعلق سے تو ابھی تک اردو ماہیے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ البتہ عید کی تقریب کی نسبت سے چند ماہیے ضرور کہے گئے ہیں:
ہم پھول سجائیں گے
عید کے دن یارو
روٹھوں کو منائیں گے
(ذوالفقار احسن)
مت دن اب گِن ڈھولا
عید مبارک ہے
ترے وصل کا دن ڈھولا
(امین خیال)
میں عید مناﺅں گی
ہاتھ پہ مہندی کا
اک چاند بناﺅں گی
(قاضی اعجاز محور)
یہ کیسی نوید آئی
موقع نہیں پھر بھی
تم آئے کہ عید آئی
(نذیرفتح پوری)
میلوں ٹھیلوں کی طرح شادی بیاہ کی تقریب کے تعلق سے بھی ابھی تک اردو میں ماہیے نہیں کہے گئے۔ جبکہ پنجابی ماہیوں میں شادی بیاہ کے ڈھیرسارے ماہیے کہے گئے ہیں۔ زندگی کے مسائل اور معاملات کے سلسلے میں اردو ماہیا ظلم و جبر کی نشاندہی کر کے اس کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے معاشرتی منافقتوں کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ پنجابی میں اس نوعیت کے ماہیے بہت کم ملتے ہیں۔ اردو میں ایسے ماہیوں کو ترقی پسند تحریک کے اثرات کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ پہلے ظلم و جبر کی نشاندہی اور اسکے خلاف احتجاج یا ہلکے سے رد عمل کی چند مثالیں دیکھیں:
اندھوں کی حکومت ہے
بہروں کی بستی میں
انصاف اکارت ہے
(نذیر فتح پوری)
برگد ہے نہ سایہ ہے
آگ نے بستی کو
کچھ ایسا جلایا ہے
(نذیر فتح پوری)
فصلوں کی کٹائی میں
بھوک نہیںمٹتی
دن بھر کی کمائی میں
(ذوالفقار احسن)
یہ خوف و خطر کب تک!
شیر رہو بن کر
جنگل میں جیو جب تک
(قمر ساحری)
بے نور فضا چیخے
ماتم میں کس کے
رہ رہ کے ہوا چیخے
(انور مینائی)
طوفان اٹھاتے ہو
اپنی فضاﺅں میں
کیوں آگ لگاتے ہو
(مناظر عاشق ہرگانوی)
اک خوف کا ڈیراہے
نس نس میں سب کی
دہشت کا بسیرا ہے
(بسمہ طاہر)
گھنگھور اندھیرا ہے
کوئی کرن یا رب!
بڑی دور سویرا ہے
(بسمہ طاہر)
معاشرے کے منافقانہ کردار کو بعض ماہیوں میں یوں بے نقاب کیا گیا ہے کہ معاشرے کی مصلحت پسندی، مفاد پرستی واضح ہو جاتی ہے۔
بظاہر ماہیا نگار جیسے اپنی بات کر رہا ہے لیکن حقیقتاً وہ پوری سوسائٹی کے مصلحت پسندکرداروں کو سامنے لا رہا ہے:
ہم لوگ بھکاری ہیں
چڑھتے سورج کے
ہم لوگ پجاری ہیں
(شجاعت علی راہی)
دیوار سے آگے ہے
میں کیسے پہنچوں
وہ دار سے آگے ہے
(خاور اعجاز)
ظلم اور جبر کے خلاف کہیں عزم و عمل کی صورت میں اور کہیں دعا یا امید کی صورت میں ماہیا نگاروں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے:
چپ چاپ سے دکھ سہنا
جرم بڑا ہے یہ
مظلوم بنے رہنا
(امین خیال)
مکھ روشن تاروں کے
ہمت والے ہی
رخ موڑیں گے دھاروں کے
(امین خیال)
سکھ چین کا موسم دے
زخمی دھرتی کو
برسات کا مرہم دے
(سعید شباب)
موسم کو بدلنے دو
تازہ ہواﺅں کو
کچھ دیر تو چلنے دو
(نذیر فتح پوری)
دل سوچ میں ڈوبا ہے
آﺅفضا بدلو
ہر سمت اندھیرا ہے
(مناظر عاشق ہرگانوی)
رنگین کہانی دو
اپنے لہوسے تم
گلشن کو جوانی دو
(مناظر عاشق ہرگانوی)
اردو میں خیال کی گہرائی یا نکتہ آفرینی کے ایسے ماہیے ملتے ہیں جو پنجابی ماہیے سے زیادہ اردو شاعری کی عطا ہیں:
کیا روپ جوانی ہیں
نقش جو دنیا میں
موجود ہیں فانی ہیں
(ضمیر اظہر)
ہم باہر رُلتے ہیں
حالانکہ دروازے
سب اندر کھلتے ہیں
(سعید شباب)
آنکھیں سرہانے پر
کھولیں گے ان کو
لیکن ترے آنے پر
(خاور اعجاز)
ہر شے کے نکھرنے تک
چاک میں گردش ہے
کوزے کے اترنے تک
(قمر ساحری)
تو درد، میں آنسو ہوں
فیصلہ مشکل ہے
تو میں ہے کہ میں تو ہوں
(پروین کمار اشک)
دریا میں بھی صحرا ہے
غور سے دیکھو تو
صحرا میں بھی دریا ہے
(انور مینائی)
لفظوں پہ نہ جا بابا
عقل کی باتیں کیا
سن دل کی صدا بابا
(رشید اعجاز)
من مچلے تو تن مچلے
ربط ہے دونوں میں
تن مچلے تو من مچلے
(نذیر فتح پوری)
آکاش پہ ہیں تارے
چلتی سرائے میں
مہمان ہیں ہم سارے
(تنویر نوازش)
خوابوں سے نکلتے ہیں
آﺅحقیقت کی
اس دنیا میں چلتے ہیں
(اجمل پاشا)
اک ایسی گھڑی آئی
شہر ستم میں بھی
آنسو کو ہنسی آئی
(صدف جعفری)
لفظوں میں اثر بھرلے
پیار کے لہجے سے
ہر دل میں توگھر کر لے
(صدف جعفری)
محبت کا موضوع ماہیے کا محبوب ترین موضوع ہے۔محبوب کے حسن و جمال کی تعریف او راس سے والہانہ محبت کا اظہار کیا جاتاہے۔اردو ماہیے میں ایسے ماہیوں کی چند مثالیں دیکھیں:
چنری پہ کناری تھی
لال پر اندی بھی
ہمراز ہماری تھی
(عارف فرہاد)
پاکیزہ تری آنکھیں
پیاسوں کی خاطر
مشکیزہ تری آنکھیں
(عارف فرہاد)
ہم ایک کے لکھ دیں گے
ماہی اگر مانگے
جاں قدموں میں رکھ دیں گے
(امین خیال)
بے مثل جوانی ہے
خوشبو فدا تجھ پہ
تو پھولوں کی رانی ہے
(انور مینائی)
بادل اور پروائی
دیکھ کے گوری کو
لینے لگے انگڑائی
(سعید شباب)
خوشبوکی طرح مہکو
شاخ پہ اس دل کی
پنچھی کی طرح چہکو
(سعید شباب)
یہ پیار کا رشتہ ہے
اس کی چکوری میں
ماہی مرا چندا ہے
(ضمیر اظہر)
اے جذبۂ بے تابی
پانی کے اندر بھی
ہے پیاس سلگتی سی
(مناظر عاشق ہرگانوی)
ہم چاندنی راتوں میں
بھول گئے سب کچھ
تیری میٹھی باتوں میں
(رانا غلام شبیر)
کچھ خواب رنگیلے ہیں
امرت میں ڈوبے
دو ہونٹ رسیلے ہیں
(افتخار شفیع)
قاضی اعجاز محور کے ماہیوں میں محبت ، جدائی، انتظار اور دوبارہ ملنے کی امید کی ایک مربوط کہانی بنتی دکھائی دیتی ہے۔
سڑکوں پہ چلے تانگا
مانگا خدا سے جب
اک ساتھ ترا مانگا
O
اک پھول چنبیلی کا
وقت نہیںکٹتا
سکھیوں میں اکیلی کا
O
بادل بھی نہیں جائے
تانگ تھی جن کی وہ
مہماں بھی نہیں آئے
سڑکوں پہ چلے لاری
اپنے مقدر میں
کب ہوگاملن پیاری
بے چین نہ ہو ماہیا
آج اکیلے ہیں
کل ہوں گے دو ماہیا
فرحت نواز کے ہاں محبت میں بے اختیاری کی ایسی کفیت ہے جو چھپائے نہیں چھپتی۔ ان کے یہ ماہیے دیکھیں جن میں محبت کو چھپانے کی کاوش میں ہی محبت ظاہر ہوئی جارہی ہے:
تتلی کو اڑاﺅں میں
پیار کے رنگ کئی
کس کس کو چھپاﺅں میں
O
وعدوں میں جکڑتا ہے
ہوش نہیں رہتا
جب ہاتھ پکڑتا ہے
O
پازیب چھنکتی تھی
اس کی ہنسی تھی یا
کوئی دھنک چمکتی تھی
O
موتی میں چمک آئی
نام لیا تیرا
لہجے میں کھنک آئی
محبت کی یادیں اردو ماہیے میں کہیں بھنور کی طرح نمودار ہوئی ہیں تو کہیں گریزاں سایہ دیوار کی طرح ظاہر ہوئی ہے۔ کہیں پناہ اور سہارا بن کر آئی ہیں تو کہیں ایمان بن کر۔۔۔
یادیں جب فریاد بننے لگتی ہیں تو دوبارہ ملنے کی امید ایک کرن بن کر اپنی جھلک دکھانے لگتی ہے۔
دریا کا کنارا ہے
یاد بھنور ہے اور
دیوانہ تمہاراہے
(رانا غلام شبیر)
یادوں کا سہارا بھی
مجھ سے گریزاں ہے
دیوار کا سایہ بھی
(مناظر عاشق ہرگانوی)
یادوں کی پناہوں میں
زندگی گزرے گی
اب ہجر کی بانہوںمیں
(سعید شباب)
لج پیار کی پالی ہے
یاد تری سجنا
ایمان بنا لی ہے
(تنویر نوازش)
کیوں اتنی جدائی ہے
آجا سجن اب تو
تری یاد بھی آئی ہے
(بسمہ طاہر)
پھر پھوٹے کرن شاید
آس کا سج جائے
خوشبو سے چمن شاید
(صدف جعفری)
امین خیال کے ماہیوں میں یاد پہلے تڑپ بنتی ہے اور پھر لذت اور سرور میں ڈھل جاتی ہے:
پل پل تڑپاتے ہو
دل سے ذرا پوچھو
کب یاد نہ آتے ہو
O
سب خوشیاں مناتے ہیں
گذرے ہوئے لمحے
دل کو تڑپاتے ہیں
O
کچھ بدلیاں ہیں چھائیاں
تیرے تصور سے
سج جاتی ہیں تنہائیاں
کوئی یاد میں روتا ہے
دل میں سرور نیا
اک پیدا ہوتا ہے
پنجابی ماہیے میں چھیڑ چھاڑ کے ایسے مضامین عام ملتے ہیں جن میں جنسی خواہش یا تجربے کا اظہار برملا ہوتا ہے۔ اردو میں ماہیا نگاروں نے ابھی تک پنجابی ماہیے کی اس روایت پر دھیان نہیں دیا۔ میں نے اس نوعیت کے مٹھی بھر ماہیے کہے ہیں۔ دو ماہیے بطور نمونہ درج ہیں:
گل عشق کی شان کی تھی
لت پت ہونا تھا
یہ فصل ہی دھان کی تھی
کلیوں کی چٹک بھی تھی
سانولی لڑکی میں
اپلوں کی مہک بھی تھی
ایسے ماہیوں کے برعکس دکھ، درد کے مضامین اردو ماہیے میں بکثرت اور عمدگی سے بیان ہوئے ہیں۔ ایسے ماہیوں میں کہیں خواہشیں بجھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں تو کہیں حسرتوں میں ڈھلتی دکھائی دیتی ہیں:
اے کاش کبھی برسے
روز گذرتا ہے
بادل مری چھت پر سے
(پروین کمار اشک)
جذبوں کا دھواںہوں میں
جھانک مرے اندر
اک جلتا مکاں ہو ں میں
(انور مینائی)
آسودۂ جاں ہوں گے
جب تک تو آئے
ہم لوگ کہاں ہوں گے
(خاور اعجاز)
اے کاش کہ یوں ہوتا
درد مرے دل میں
اٹھتا تو کوئی روتا
(صدف جعفری)
اک گیلا چو ماہیا
میری طرح تو بھی
تنہا کبھی رو ماہیا
(قاضی اعجاز محور)
سب کیکر پھول گئے
بھولی نہ میٹاریں
پردیسی بھول گئے
(قاضی اعجاز محور)
گہرے دکھ درد کے اظہار میں محبت کی ناکامی، محبوب کی بے وفائی یا لمبی جدائی کے مضامین ماہیے میں کچھ یوں بیان ہوئے ہیں:
گاگریا پھوٹ گئی
عمروں کی یاری
پل بھر میں ٹوٹ گئی
(امین خیال)
دریاﺅں کا پانی ہے
دکھ کی جہاں بھر میں
بس ایک کہانی ہے
(امین خیال)
دل درد کا جنگل تھا
رات سلگ اٹھا
کُل عالم صندل تھا
(پروین کمار اشک)
آنسو ہیں کہ موتی ہیں
روشن آنچل میں
تارے سے پروتی ہیں
(شجاعت علی راہی)
ہر زخم فروزا ں ہے
درد کے صدقے میں
ہر سمت چراغاں ہے
(رشید اعجاز)
یہ دکھ ہیں جوانی کے
زخم ابھی تازہ
ہیں پریم کہانی کے
(رانا غلام شبیر)
ہر سمت اداسی ہے
مل کے بچھڑ جانا
گو بات ذراسی ہے
(احمد حسین مجاہد)
اے میرے سخی داتا
میں کب اجڑا تھا
کچھ یادنہیں آتا
(احمد حسین مجاہد)
کمرے میں پڑے صوفے
درد جدائی کے
مرے ساجن کے تحفے
(نوید رضا)
ہوں دکھ کی پناہوں میں
تنہا چلوں کب تک
اجڑی ہوئی راہوں میں
(انور مینائی)
باغوں میں بہار آئے
اس کی محبت میں
ہم سانس بھی ہار آئے
(یوسف اختر)
تو چاند بہاروں کا
بجھتا شرارہ میں
پت جھڑ کے چناروں کا
(ضمیر اظہر)
ہے رات چراغوں کی
اپنی دوالی ہے
جلتے ہوئے داغوں کی
(نذیر فتح پوری)
جو درد کے مارے ہیں
نام انہیں کیا دیں
ٹوٹے ہوئے تارے ہیں
(منظر نقوی)
سنتا ہے کوئی چھپ کے
شب کی اداسی میں
نغمات مری چپ کے
(ایم۔اے تنویر)
دل اپنے کشادہ تھے
اس لیے رونا پڑا
ہم ہنستے زیادہ تھے
(حسن عباس رضا)
ساجن میں ترے غم میں
کتنا رویا تھا
اپریل کے موسم میں
(عارف فرہاد)
موسم کیوں پیلا تھا
میرے ساجن کا
ہر بول رسیلا تھا
(عارف فرہاد)
کب تیری عنایت ہے
دل زخمی کرنا
دنیا کی روایت ہے
(خاور اعجاز)
سہرے کی لڑی جاناں
دو دن کی چھاﺅں
پھر دھوپ کڑی جاناں
(خاور اعجاز)
دریاﺅں کا پانی ہے
اپنی محبت کی
دل دوز کہانی ہے
(افتخار شفیع)
آنکھوں میں نمی سی ہے
آپ سے کیا پردہ
اک شے کی کمی سی ہے
(افتخار شفیع)
ان ماہیوں میں دکھ کا احساس دریا کے پانی، خوشبو، ستارے، زخم فروزاں، گیلی لکڑی کا دھواں، اداس خاموشی کا نغمہ، غرض ہر روپ میں آنسو بن کر آنکھ سے اترتا دکھائی دیتا ہے۔ دکھ کی یہ کیفیت جو آنسو بن کر اپنا اظہار کر جاتی ہے۔ خواتین ماہیا نگاروں کے ہاں بھی پائی جاتی ہے۔
ہم قول کے پکے تھے کانٹوں پہ بسیرا ہے
روگ لگا بیٹھے جان مِری جب سے
ترے پیار میں سچے تھے رُخ آپ نے پھیرا ہے
(بسمہ طاہر) (بسمہ طاہر)
یہ رات اندھیری ہے راتوں کو جگاتا ہے
دل ہے یا فرحت وہم ہے یا کیا ہے
زخموں کی ڈھیری ہے رہ رہ کے ڈراتا ہے
(فرحت نواز) (فرحت نواز)
اشکوں سے بھری آنکھیں برفانی ہوائیں ہیں
کیسے یقین کروں دل کے دریچے میں
جھوٹی ہیں تری باتیں زخموں کی چتائیں ہیں
(شاہدہ ناز) (شاہدہ ناز)
خواتین ماہیا نگاروں میں دردکی کسک ،ہلکے سے شکوے اور حالات سے سمجھوتہ کر لینے کی صورت میں یوں ابھری ہے:
رت بدلی ہے جاڑوں کی
برف نہیں پگھلی
پر اونچے پہاڑوں کی
(غزالہ طلعت)
پتھروں میں بھی جھرنے ہیں
برتن اپنے ہمیں
اب ان ہی سے بھرنے ہیں
(غزالہ طلعت)
تاروں کی جھلمل ہے
میری دعاﺅں میں
تو آج بھی شامل ہے
(شاہدہ ناز)
آکاش پہ بادل ہے
تجھ سے وفا مانگے
دل کتنا پاگل ہے
(شاہدہ ناز)
دکھوں اور غموں کو ہنسی خوشی جھیلنے کا رویہ بھی ماہیے میں نمایاں ہو رہا ہے۔اس کی دو مثالیں دیکھ لیں:
غم دل کا نہاں رکھنا
لب پہ سدا اپنے
مسرور بیاں رکھنا
(صدف جعفری)
دکھ سکھ کا میل دکھا
ہنستے گاتے ہوئے
اس ہجر کو جھیل دکھا
(فرحت نواز )
حمد، نعت، دعا، رشتے داریاں، دھرتی، دیہاتی ماحول، تقریبات، زندگی کے مسائل، محبت اور اس سے جڑے ہوئے مضامین ، یہ تمام موضوعات ماہیے کے مزاج سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہو کر اردو ماہیے میں بیان ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں اگر ہلکے سے اوپرے پن کا احساس ہوتا ہے تو ایسے مضامین میں جو پنجابی ماہیے میں نہیں ملتے۔ ظاہر ہے اردو ماہیے میں ان موضوعات کے اظہار کا تجربہ ا بھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ آگے چل کر ایسے موضوعات بھی ماہیے کے مزاج کا حصہ بن جائیں گے۔ میں نے ماہیے کے موضوعات کے اس ذکر میں تفصیل سے دانستہ اجتناب کیا ہے کیونکہ تفصیل سے لکھنے کی صورت میں ہر موضوع الگ مضمون کا تقاضا کرتا۔ اسی لیے میں نے صرف موضوع کو نشان زد کر کے اس سے متعلق ماہیے پیش کر دئیے ہیں تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ اصلاح احوال کی تحریک کے پانچ چھ برس کے اندر ہی درست وزن کے ماہیے کو اردو میںکتنا فروغ ملا ہے۔ متعدد شعرائے کرام نے اس طرف متوجہ ہو کر اپنے محسوسات اور جذبات کا اظہار کر کے ماہیے کے وسیع امکانات کا دروا کر دیا ہے۔ اردو ماہیے کے اس سرگرم ابتدائی دور میں ان ماہیا نگاروں کی ادبی خدمات ماہیے کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہیں گی۔
یہ ابھی اردو ماہیے کی ابتداءہے ۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے برسوں میں ماہیا اپنے خدو خال اور مزاج کوبرقرار رکھتے ہوئے اپنے موضوعات میں وسعت پیدا کرے گا اور پنجاب کا یہ لوک گیت اپنے رس اور مٹھا س کے باعث ”اردو شاعری کی ایک مقبول صنف“قرار پائے گا۔
_______________________
(۱) اس سلسلے میں ابھی تک صرف میں نے اور بشارت احمد بشارت نے چند ماہیے کہے ہیں جن میں شادی کے موقع پر مختلف نوعیت کے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔
٭٭٭٭