۱۹۹۲ءمیں ماہیے کے وزن کی بحث ادبی رسائل میں وضاحتی خطوط سے آگے بڑھی۔ پروفیسر افتخار احمد نے اس موضوع میں دلچسپی لی۔ میرے ساتھ ان کی کئی نشستیں ہوئیں۔پھر انہوں نے ”اردو ماہیے“ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون لکھا۔ یہ مضمون ماہنامہ ”صریر“ کراچی کے شمارہ اگست ۱۹۹۲ءمیں اور ماہنامہ ”تجدید نو“ کے شمارہ اکتوبر ۱۹۹۲ءمیں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے ماہیے کے وزن کے سلسلے میں بتایا کہ یہ وزن یوں ہے۔
مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم کرنے کی بجائے ایک حرف ملفوظی کم کرنے سے بھی یعنی فعل مفاعیلن کی جگہ فعلن مفاعیلن سے بھی کام چل جاتا ہے۔ انہوں نے یہ پتے کی بات لکھی:
”اگر پنجابی ماہیے کے تینوں مصرعے یکساں نہیں ہیں تو پھر اردو کے کسی بھی شاعر کی سند پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔ اردو کے کسی اچھے سے اچھے شاعر نے بھی اگر ماہیے لکھتے وقت پنجابی ماہیے کا وزن ملحوظ نہیں رکھا تو یہ اس کی غلطی ہے۔ ایسے ماہیے ثلاثی قسم کی چیز تو کہلا سکتے ہیں ”ماہیے “ہر گز نہیں۔ پروفیسر افتخار احمد کے مضمون نے اہل علم کو فوراً اپنی طرف متوجہ کیا ، چنانچہ نوجوان نقاد اور انشائیہ نگار ناصر عباس نیئر نے ماہنامہ ”صریر“ کے شمارہ اکتوبر ۱۹۹۲ءمیں اپنی رائے دیتے ہوئے واضح الفاظ میں لکھا:
”اردو ماہیے کو پنجابی ماہیے کے وزن کے ہاتھ پر بیعت کرنی ہو گی“۔ پروفیسر ڈاکٹر عرش صدیقی نے ماہنامہ تجدید نو دسمبر ۱۹۹۲ءمیں اپنے ایک مضمون میں جہاں پروفیسر افتخار احمد کے موقف سے اتفاق کیا، وہیں کچھ نئی باتیں بھی کیں۔۔۔۔ لیکن ان کے مضمون کے ذکر سے پہلے اپنے ایک مضمون کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ماہنامہ ”صریر“ کے دسبر ۱۹۹۲ءکے شمارہ میں میرا ایک مضمون شائع ہوا۔ ”ماہیا اور اس کا دوسرا مصرعہ“ اس مضمون میں ماہیے کا وزن میں نے بھی وہی بیان کیا جو افتخار احمد لکھ چکے تھے۔ تاہم اس میں ماہیے کی صنف کا تھوڑا سا تعارف اور اس کے مختلف موضوعات کے تذکرہ کے ساتھ پنجاب کے دیہاتی ماہیوں اور فلمی ماہیوں کی مثالیں دے کر ماہیے کے وزن کو واضح کیا۔ میں نے اس مضمون میں تین ہم وزن مصرعوں کے غلط ماہیے لکھنے والوں کے بارے میں لکھا کہ :
”ابتداءمیں جن شعراءنے اسے اپنایا بعد میں آنے والوں نے انہیں کی تقلید کی اور یوں گزشتہ چند برسوں میں اردو ماہیا بھیڑ چال کا شکار رہا۔ تین یکساں مصرعوں میں ماہیے لکھنے والوں کو ماہیا نگاری میں تو سہولت ہو گئی لیکن اس سے پنجابی ماہیے کی روح اور جسم دونوں کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ اصل پنجابی وزن کے مطابق ماہیے لکھ کر ہمیں تھوڑی بہت محنت ضرور کرنا پڑے گی لیکن اس سے جہاں ہم ماہیے کی ثقافتی جڑوں سے منسلک ہوں گے وہیں اردو میں بھی ایک انوکھا اضافہ ہو گا“۔
پروفیسر عرش صدیقی نے پروفیسر افتخار احمد کے مضمون ”اردو ماہیے“ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ پتے کی بات کی کہ ماہیے کا وزن مفعول مفاعیلن کے مطابق بھی ہو سکتا ہے اور فعلن فعلن فعلن کے مطابق بھی۔ دراصل پنجابی میں تنویر بخاری نے ماہیے کا وزن مفعول مفاعیلن بیان کیا تھا جبکہ ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری نے اسے فعلن فعلن فعلن قرار دیا تھا۔ لیکن اردو والے ابھی اس سے واقف نہیں ہوئے تھے۔ البتہ ایسا ضرور ہو رہا تھا کہ میرے بعض ماہیے (پہلے اور تیسرے مصرعوں میں) مفعول مفاعیلن کے مطابق ہوتے تھے اور بعض تین بار فعلن کے مطابق۔ ابھی تک عروضی صورت حال ہمارے سامنے پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی ۔ بس ماہیوں کو گنگنا کر پنجابی دھن پر پرکھنے کے باعث دونوں اوزان میں ماہیے ہو رہے تھے۔ اسی وجہ سے میں بھی اور پروفیسر افتخار احمد بھی، ہم دونوں شروع میں اس غلط فہمی کا شکار رہے کہ دوسرے مصرعہ میں فعل مفاعیلن کی جگہ فعلن مفاعیلن بھی لایا جا سکتا ہے۔ پروفیسر عرش صدیقی نے اس غلط فہمی کو دور کیا اور اردو دنیا کو فعلن فعلن فعلن والے وزن سے باخبر کیا۔ انہوں نے لکھا:
”یہ بات درست ہو گی کہ ماہیے کے لئے مفعول مفاعیلن اور فعلن فعلن فعلن کے دونوں اوزان بالکل درست ہیں۔ ان دونوں اوزان سے اگر ایک ایک سبب کم کر دیا جائے تو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی بلکہ فعلن والی بحر میں تو یہ عین فطری قواعد کے مطابق ہوتا ہے“۔ پروفیسر عرش صدیقی نے ماہیے کے وزن کی بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنا موقف یوں واضح کیا:
”اس رائے سے مجھے اختلاف نہیں کہ ماہیے کے دوسرے مصرعے میں پہلے سے ایک سبب کم ہوتا ہے۔ میں صرف اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ کم بھی ہو سکتا ہے اور بیش بھی۔ یوں بنیادی وزن فعلن تین بار باہر رہے گا اور دوسرا مصرعہ تین ڈھائی یا ساڑھے تین بار بھی ہو سکے گا۔ پنجابی ماہیے میں یہ تینوں صورتیں ملتی ہیں“۔
اصل میں پروفیسر عرش صدیقی اپنے اخلاص کے باوجود ماہیے کی مخصوص دھن سے اس کاوزن دریافت کرنے کی بجائے پنجابی ماہیے کو اردو قواعد کے مطابق پرکھنے لگے تھے اسی لئے دوسرے مصرعہ کے وزن میں فعلن کے لئے ڈھائی بار سے بڑھ کر تین اور ساڑھے تین بار تک کے مغالطہ میں پڑ گئے۔ پروفیسر عرش صدیقی کے بیان کردہ تینوں اوزان یہاں لکھ رہاہوں۔ تینوں کو باری باری ماہیے کی کسی معروف دھن میں آزما کر چیک کریں:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع (ڈھائی بار فعلن)
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن علن (تین بار فعلن)
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن فع (ساڑھے تین بار فعلن)
فعلن فعلن فعلن
سوائے پہلے وزن کے کسی بھی وزن کو آپ ماہیے کی دھن میں نہیں گنگنا سکیں گے۔ اس تجربے کا ذکر میں شروع میں بھی کر آیا ہوں اور اسی آسان تجربے سے ماہیے کے وزن کو اس کی دھن سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
۱۹۹۲ءکے سال میں ماہیے کے وزن کی بحث سے جہاں اس کے خدوخال نمایاں ہوئے وہیں درست وزن میں ماہیا نگاری کا احساس بھی پیدا ہوا۔ چنانچہ میں جو ۱۹۹۰ءسے اکیلا ہی درست وزن میں ماہیے کہہ رہا تھا۔ اکتوبر ۱۹۹۲ءکے تجدید نو میں میرے ساتھ کچھ اور دوست بھی آن ملے۔ یہ نئے ماہیا نگار سعید شباب، اجمل جنڈیالوی اور نوید رضا تھے۔ دسمبر ۱۹۹۲ءمیں رانا غلام شبیر اور تنویر نوازش کے ماہیے بھی تجدید نو میں چھپے۔ ان دونوں کے ماہیے زیادہ تر درست وزن میں تھے لیکن بعض ماہیوں میں جھٹکے بھی محسوس ہو رہے تھے۔ ۱۹۹۳ءمیں بھارت میں بھی درست وزن میں ماہیا نگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ نذیر فتح پوری اور رشید اعجاز نے اس برس درست وزن میں ماہیے کہے جو ”اوراق“ کی زینت بنے۔ پاکستان میں بھی شعرائے کرام نے درست وزن کے ماہیے کہنے شروع کر دیئے۔ امین خیال، غزالہ طلعت، نذر عباس، ارشد نعیم اور نوید رضا کے ماہیوں نے وزن کی درستی میں اہم کردار ادا کیا۔ درست وزن کے بیشتر ماہیے ”اوراق“ لاہور، ”صریر“ کراچی، ”تجدیدنو“ اسلام آباد، ”توازن“ بھارت اور ”اسباق“ بھارت میں شائع ہوئے۔
۱۹۹۳ءمیں ماہیے کے وزن کے ساتھ اس کے مزاج کا مسئلہ بھی سامنے آیا۔ خاور اعجاز نے ”تجدید نو“ کے شمارہ فروری ۱۹۹۳ءمیں اپنے مضمون میں ماہیے کے دونوں اوزان کو درست مانتے ہوئے لکھا کہ ماہیے کے سلسلے میں وزن سے زیادہ اس کے مزاج کو اہمیت دی جانی چاہئے جبکہ ماہنامہ ”صریر“ کے شمارہ جون، جولائی ۱۹۹۳ءمیں ڈاکٹر فہیم اعظمی کی یہ رائے سامنے آئی :” ماہیے کی انفرادیت مضمون اور معنی میں نہیں بلکہ ہیئت یا اوزان میں ہے“ ۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں آراءالگ الگ طور پر ماہیے کی تصویر کا صرف ایک رخ پیش کر رہی تھیں کیونکہ ماہیے کا پورا تاثر ماہیے کی ہیئت (درست وزن) اور ماہیے کے مزاج سے مل کر بنتا ہے۔ ویسے خوشی کی بات ہے کہ خاور اعجاز نے مزاج پر زیادہ زور دینے کے باو جود درست وزن ہی میں ماہیے کہے اور ڈاکٹر فہیم اعظمی نے بھی ۱۹۹۴ءتک اپنے موقف کو مزید بہتر بنا لیا ”صریر، شمارہ ستمبر ۱۹۹۴ءمیں انور مینائی کے خط کے جواب میں، ان کے ایک ماہیے کے وزن کے ذکر میں ڈاکٹر فہیم اعظمی نے لکھا:
”دھن تو ٹھیک ہے لیکن موضوع احساس، وارفتگی، تمثال تو وہ نہیں ہوتے“۔
دھن کی صورت میں ماہیے کے وزن کے ساتھ، ماہیے کے موضوع، احساس، وارفتگی اور جذبات وغیرہ کا ذکر کر کے ڈاکٹر فہیم اعظمی نے ماہیے کے مزاج کی اہمیت کا بھی احساس کیا ہے۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ شروع شروع میں اردو ماہیے کے وزن کی درستی کی تحریک میں ماہنامہ ”صریر“ نے سب سے زیادہ خدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر فہیم اعظمی نے نہ صرف ہمارے موقف سے اتفاق کیا بلکہ اسے فروغ دینے میں پیش پیش رہے۔ ”صریر“ میں ماہیے کی بحث کو نمایاں کرنے کے لئے مضامین کی اشاعت کے ساتھ ساتھ قارئین کے خطوط کے صفحات پر انہوں نے بارہا ہمارے موقف کی تائید کی۔ تین یکساں مصرعوں کے ثلاثی کبھی بھی ماہیے کے عنوان سے ”صریر“ میں نہیں چھاپے۔ ایک نئے شاعر نثار ترابی نے اپنے ثلاثی کا مجموعہ ماہیے کے لیبل کے ساتھ پیش کیا ”صریر“ کے لئے اس کتاب کا اشتہار بنا کر بھیجا۔ ڈاکٹر فہیم اعظمی نے وہ اشتہار تو چھاپ دیا لیکن اس میں ماہیے کے متعلق تمام الفاظ حذف کر دیئے۔ ”صریر“ کے شمارہ اگست ۱۹۹۴ءکے صفحہ نمبر ۸۲پر چھپنے والے اس اشتہار کا متن یہ ہے:
معلوم کسے گوری/اڑتی ہوئی عمروں کی/کٹ جائے کہاں ڈوری
بارات گلابوں کی
شاعر: نثار ترابی
رابطہ: حمید ساغر4 ۔ چوہدری ولایت بلڈنگ، چوک وارث خان، مری روڈ، راولپنڈی فون 559128
اقبال جوزف فون : 8692188
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ابتدائی اور نازک مرحلے میں ماہیے کے سلسلے میں ”صریر“ کی خدمات ہر ادبی رسالے سے زیادہ ہیں۔ ۱۹۹۳ءمیں بھارت کے معروف اردو روزنامہ ”ہندسماچار“کی ۳۰مئی کی اشاعت میں زاہد عباس کا ایک مضمون شائع ہوا۔ ”اردو میں ماہیا نگاری“ کے عنوان سے چھپنے والے اس مضمون میں وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو اس سے پہلے میں اور پروفیسر افتخار احمد لکھ چکے تھے۔ تاہم اس مضمون کی اہمیت اور افادیت یوں بنتی ہے کہ یہ بھارتی پنجاب کے ایک معروف روزنامہ کے ذریعے بھارت میں ماہیے کے درست وزن کی پہچان او رتعارف کا باعث بنا اور اس کی گونج پاکستان کے ادبی رسائل میں بھی سنی گئی۔
ماہنامہ ”صریر“ شمارہ جون جولائی ۱۹۹۳ءمیں سعید شباب کا ایک اہم مضمون ”ماہیے کی تفہیم میں پیش رفت“ شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے چراغ حسن حسرت کے ”ماہیوں“ کو ماہیے سے ان کے خلوص کا مظہر قرار دیا لیکن واضح کیا کہ: ”وہ پنجابی ماہیے کی ساخت کو گہری نظر سے جانچ نہ سکے“ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ پنجابی کلچر سے جڑے ہوئے نہیں تھے“۔ پھر انہوں نے قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے ماہیوں کا ذکر کر کے واضح کیا کہ ان شعراءنے ۔۔۔۔۔ ”بغیر کسی بحث کے اس طریقے سے اردو دنیا کے سامنے ماہیے کے مثالی نمونے پیش کر دیئے تھے اور حسرت کی غلطی کی احسن طور پر نشاندہی کردی تھی“ ۔۔۔ انہوں نے ماہیا نگاری کی تازہ روش کا جائزہ لیتے ہوئے فراخ دلی سے یہ اعتراف کیا کہ : ”ہر چند اس وقت دس سے زائد شعراءماہیے کے اصل وزن کو ملحوظ رکھ رہے ہیں، تاہم مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ دو تین شعراءکو چھوڑ کر باقی شعراءکے ہاں (مجھ سمیت) ماہیے کا اعلیٰ شعری معیار سامنے نہیں آرہا ۔ ہر چند یہ ماہیے ”ہلے ہلارے“ اور ”پھوئیاں پھوئیاں پھہار“ جیسے ماہیوں سے کہیں بہتر ہیں لیکن اعلیٰ شعری معیار تک پہنچنے کے لئے ہم سب کو ابھی محنت اور ریاضت کرنی ہو گی“۔
”صریر“ کے اسی شمارہ میں ایم اے تنویر کا ایک مضمون ”اردو ماہیے پر اوزان کی پابندی“ بھی شائع کیا گیا۔ اس مضمون میں ایم اے تنویر پر خود واضح نہیں کہ وہ ماہیے کے وزن کے سلسلے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔ مثلاً پہلے وہ خود سوال کرتے ہیں کہ : ”ہم کیوں اردو ماہیے پر پنجابی ماہیے کے وزن کا اطلاق کریں“؟ گویا یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پنجابی ماہیے کے وزن میں دوسرا مصرعہ ایک سبب کم ہوتا ہے۔ لیکن آگے چل کر انہوں نے یہ کہا کہ اردو میں ماہیے کے دونوں اوزان کو قبول کر لینا چاہئے۔ انہوں نے چند پنجابی ماہیے اور اردو کے تین یکساں مصرعوں کے ثلاثی ”ماہیے“ کے نام سے پیش کئے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ ”مندرجہ بالا پنجابی اور اردو ماہیے میں آپ دوسرے مصرعے کا ایک رکن کم کر ہی نہیں سکتے اور اگر دوسرے مصرعہ کی جگہ کوئی اور مصرعہ ایک رکن کم کر کے لکھیں گے تو ماہیے کی ساری خوبصورتی ختم ہو کر رہ جائے گی“۔
جہاں تک پنجابی ماہیوں کو تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیے سمجھنے کا تعلق ہے اس کا جواب کتاب کے شروع میں ”ماہیے کے وزن کا مسئلہ“ کے تحت بھی آ چکا ہے اور اس حصے میں پروفیسر عرش صدیقی کے مضمون کے حوالے سے بھی وضاحت سے بیان ہو چکا ہے۔ اس لئے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک ایم اے تنویر کے پیش کردہ اردو ماہیوں کا تعلق ہے، میں ان میں سے صرف دو ماہیوں کو ان کی اصل صورت میں پیش کرنے کے ساتھ اصل وزن میں بھی کر کے دکھاتا ہوں۔ درست وزن میں لانے سے نہ صرف ان کی شعری خوبصورتی قائم رہتی ہے بلکہ ان میں کفایت لفظی کی خوبی بھی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ ثلاثی سے ماہیے بھی بن جاتے ہیں:
شاعرہ کی پیش کردہ صورت
ماہیے کے وزن میں لانے کی صورت
ہر نقش مٹا ڈالا
تم نے تو محبت کی
اک کھیل بنا ڈالا
(سیدہ حنا)
ہر نقش مٹا ڈالا
تم نے محبت کو
اک کھیل بنا ڈالا
٭
گلدان سجا رکھوں
تم آﺅتو آنکھوں میں
مسکان سجا رکھوں
(شبہ طراز)
گلدان سجا رکھوں
آﺅتو آنکھوں میں
مسکان سجا رکھوں
مئی جون ۱۹۹۳ءکے ”اوراق“ لاہور میں ناصر عباس نیئر کا ایک اہم مضمون شائع ہوا۔ ”ماہیا“ اوراردو میں ماہیا نگاری“۔ یہ ایک عالمانہ مضمون تھا۔ ناصر عباس نیئر نے اسے خاصی محنت اور تحقیق کے بعد لکھا تھا۔ اس مضمون میں ماہیے کے مزاج کو اس کے ثقافتی اور نفسی حوالوں سے عمدہ طریقے سے واضح کیا گیا۔ ناصر عباس نیئر لکھتے ہیں:
”نقادوں نے پہلی لائن کو ”ضرورت شعری “ کی تخلیق قرار دیا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ پہلی لائن آخری لائن کی محض ”قافیائی ضرورت“ کی کفالت پر مامور نہیں۔ پہلی لائن اصلاً ماہیے کے عقبی دیار کی طرف اشارہ کرتی ہے نیز پہلی لائن کی مدد سے اس تہذیبی دھارے سے وابستہ ہونے کی کوشش بھی کی جاتی ہے جس کی اخلاقیات سے ماہیا کہنے والا انحراف کرتا ہے“
لیکن اسی مضمون میں چند صفحات آگے چل کر ناصر عباس نیئر لکھتے ہیں:
”ماہیے کا پہلا مصرعہ ماہیے کے موضوع سے متعلق نہیں ہوتا مگر ماہیے کے شعری آہنگ کے تابع ہو کر اتنا برا بھی نہیں لگتا“۔ ناصر عباس نیئر کے ہاں اس تضاد اور کنفیوژن کا بھی ایک سبب ہے۔ اصل میں پنجابی ماہیوں میں بعض اوقات تو پہلے مصرعہ کا باقی ماہیے سے اتنا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ ماہیا تہہ دار معنویت کا حامل نظر آنے لگتا ہے اور بعض اوقات ایسے بھی لگتا ہے کہ پہلا مصرعہ محض آخری مصرعہ کی قافیائی کفالت کر رہا ہے ۔ ماہیے کے مزاج اور اس کے عقبی دیار کی نشاندہی میں ناصر عباس نیئر نے عالمانہ نکتہ آفرینی سے کام لیا ہے۔ چند اقتباسات دیکھیں:
”ماہیا ہمارے تہذیبی ارتقا کے ایسے مرحلے پر نمودار ہوا جب زرعی نظام مشینوں کی زد پر نہیں آیا تھا۔ زرعی نظام پر انسان کی قوت بازو اور جسمانی مشقت کا غلبہ تھا۔ چنانچہ رویوں اور اقدار کاایک خاص سسٹم رائج تھا۔ اس سسٹم میں جدید صنعتی زندگی کی نفسیاتی پیچیدگی، جذباتی پراگندگی نیز ذہنی گہرائی اس قدر نہیں تھی۔ جذبہ ماحولیاتی آلودگیوں اور معدے کی بیماریوں کے مضرات سے پاک تھا۔ اس کا رخ بھی واضح تھا۔ چنانچہ جب یہ جذبہ ماہیے میں ظاہر ہوا تو کسی رمز و ایما اور ابہام سے مملو نہیں تھا۔ اپنے محبوب سے لپٹنے اور جسمانی وصال سے سیراب ہونے کی صاف سیدھی خواہش تھی جو ماہیے میں ظاہر ہوئی“۔
”ذہن بالعموم چیزوں کو اجزا میں بانٹ کر ان کی تفہیم کرتا ہے مگر جسم کا نظام خیال، تفہیم اور تجزیے کے چکر میں پڑنے کی بجائے اجزاءکو متحد کرنے اور ایک کل کی تشکیل دینے پر ہر دم مائل رہتا ہے۔ یوں بھی عورت فطرتاً جسمانی سطح کی تخلیق کاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ عورت کے فطری مزاج کی یہی خصوصیت ماہیے میں پیش ہوئی ہیں“۔
”عورت سوائے چند گھریلو ذمہ داریوں کے (جن میں مرد سے اس کے ازدواجی تعلقات اور وفاداری اہم ترین تھی) کوئی دوسری معاشرتی خدمت انجام نہیں دے سکتی تھی۔ ماہیے میں چونکہ اسی عورت کی ”نفسی شخصیت“ سرایت کئے ہوئے ہے اس لئے ماہئے کے موضوعات محبت، رومان سے آگے معاشرتی سچائیوں اور کائناتی حقیقتوں کی سرحدوں تک نہیں جا سکے۔۔۔۔ ماہیے میں اگر کہیں زمانے کے دکھ درد، سماجی ناانصافیوں اور دیگر معاشرتی سچائیوں کا موضوع آیا بھی ہے تو شکایت کی صورت میں آیا ہے“۔
اُردو میں ماہیا نگاری کے حوالے سے ناصر عباس نیئر نے دو اہم باتیں کہی ہیں :
”پہلی بات یہ کہ ماہیا اردو ادب کے تمول کا باعث بن سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اردو زبان میں مقامی زبانوں کے الفاظ کی آمیزش ایک باقاعدہ رجحان کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ لسانی لین دین کا عمل نثر کی سطح تک محدود ہو تو ایک مزاحیہ صورت حال پیدا کرنے پر منتج ہوتا ہے جبکہ شاعری کی سطح پر غیر زبانوں کے الفاظ ”غیریت“ اور نامانوسیت کو تج کر اپنے محسوس ہوتے ہیں۔ نثر میں لفظوں کو چمٹے سے پکڑ پکڑ کر اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ شاعری میں لفظ اور خیال کے درمیان کوئی فاصلہ، کوئی دوئی نہیں ہوتی، وہ شعری آہنگ میں یوں گھل مل جاتے ہیں جس طرح چینی پانی میں! ۔۔۔۔۔ سو پنجابی الفاظ جب ماہیے کے توسط سے اردو میں پہنچیں گے تو واقعی اردو زبان و ادب کے تمول کا باعث بنیں گے ۔۔۔۔۔ دوسری بات یہ کہ ماہیے میں جذبے کے اظہار کی جو کھلی کھلی کیفیت ہوتی ہے وہ پیچیدہ دکھی زندگی کو ایک اعصابی نوعیت کی آسودگی فراہم کر سکتی ہے“۔
ماہیے کے وزن کے سلسلے میں ناصر عباس نیئر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ دوسرے مصرعہ میں ”ایک سبب“ کم رکھنے کا موقف بھی درست ہے اور تینوں مصرعے ہم وزن رکھنے کا موقف بھی درست ہے کیونکہ پنجابی میں دونوں طرح کے ماہیے ملتے ہیں۔ یہاں ناصر عباس نیئر بھی پنجابی ماہیے کو صرف تحریری صورت میں دیکھ کر ایسی بات کہہ گئے ہیں جبکہ پنجابی زبان کی لچک کے باعث بظاہر ایسے ماہیے بھی مل جاتے ہیں جن کا دوسرا مصرعہ تحریری صورت میں بقول پروفیسر عرش صدیقی تین بار فعلن سے بڑھ کر ساڑھے تین بار فعلن کے وزن پر بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ دھوکہ ہر اس محقق کو ہو گا جو ماہیے کو صرف تحریری صورت میں دیکھے گا۔ اس کے برعکس جو بھی ماہیے کی دھن پر اسے آزمائے گا اسے ماہیے کا وزن سمجھنے میں کبھی بھی غلطی نہیں ہو گی۔ ناصر عباس نیئر نے ایک جگہ لکھاہے:
”وزن کا مسئلہ اس قدر اہم نہیں ہے جتنا اہم ماہیے کے اصل مزاج اور عقبی دیار کو برقرار رکھنا ہے“۔۔۔۔ ماہیے کے اصل مزاج اور عقبی دیار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن وزن کا مسئلہ ان سے زیادہ اہم ہے، کیونکہ جب ایک ماہیا اپنی ظاہری صورت میں ماہیا ہی نہیں ہو گا تو محض ماہیے کے مزاج سے کیا ہو گا۔ وزن ماہیے کے لئے جسم کا اور مزاج اس کے لئے روح کا درجہ رکھتا ہے۔ تھوڑا آگے چلنے کے بعد ناصر عباس نیئر کو مزاج کے ساتھ وزن کی اہمیت کا بھی احساس ہو گیا۔ چنانچہ پھر ان کے موقف میں توازن پیدا ہو گیا: ”نئی صنف کی مخصوص ہیئت، خارجی خدوخال کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے منفرد داخلی اوصاف کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا“۔
ماہیے کے وزن کے سلسلے میں ناصر عباس نیئر کو جو مغالطہ ہوا، میں نے اس کے جواب میں ایک مضمون ”ماہیے کے وزن کا مسئلہ“ اوراق میں اشاعت کے لئے بھیجا جسے ”اوراق“ شمارہ نومبر، دسمبر ۱۹۹۳ءمیں خط کی صورت میں شائع کیاگیا۔ وزن کے سلسلے میں ان کی غلط فہمی کا تفصیلی جواب دینے کے بعد میں نے مضمون کے آخر میں لکھا:
”اردو شاعری کی تین بڑی روایات گیت، غزل اور نظم مجھے ماہیے میں یک جا ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ماہیا بنیادی طور پر ایک چھوٹی سی نظم ہے لیکن اس میں تین مصرعوں کے باوجود پہلے اور آخری مصارع میں قافیہ، ردیف کا التزام اسے غزل کے شعر سے قریب کرتا ہے۔ پھرکوزے میں دریا بند کرنے کا غزل کے شعر کا وصف بھی ماہیے میں موجود ہے۔ مزاجاً ماہیا گیت جیسا ہے (اس حقیقت کا اظہار ناصر عباس نیئر نے بھی کیا ہے) لہٰذا اگر اردو میں اس صنف کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا تو اس کے وسیع تر امکانات کھل کر سامنے آئیں گے لیکن اس کے لئے بے حد ضروری ہے کہ اس کی بنیادی اینٹ درست رکھی جائے۔ اس کے وزن کے معاملے میں دو طرح کے موقف سامنے آئے ہیں۔ ایک تو وہ ادبا جو غلط فہمی کے باعث نیک نیتی سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید ماہیے کے تینوں مصارع ہم وزن ہیں، ان کی غلط فہمی کو اس طرح کے مضامین اور ادبی مباحث سے دور کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے وہ شعرائے کرام ہیں جو پہلے تو بے خیالی اور لاعلمی کے باعث تین یکساں وزن کے مصارع میں غلط ماہیے لکھتے رہے لیکن جب انہیں غلطی کی طرف توجہ دلائی گئی تو بجائے غلطی کی اصلاح کرنے کے اسے حق بجانب ثابت کرانے پر تل گئے“۔
”اوراق کے اسی شمارہ میں ملاپ چند کا ایک خط شائع ہوا۔ اس خط کا یہ اقتباس اہمیت کا حامل ہے:
”قطع نظر اس سے کہ پنجابی زبان میں زحافات کا کوئی ضابطہ نہیں ہے اس لئے ماہیے کے وزن کا تعین اس کی اصل دھن کی بنیاد پر ہی کیا جانا چاہئے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر ماہیا کی اصل دھن موجود نہ ہوتی تب بھی ناصر عباس نیئر کے بیان کی بنیاد پر بھی اردو میں صرف وہی ماہیا قبول کیا جانا چاہئے تھا جس کے دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہے کیونکہ تین یکساں مصرعوں کا ماہیا تو ثلاثی میں ضم ہو جاتا“۔
۱۹۹۳ءمیں ایک اور اہم مضمون ”ماہیے کی ہیئت اور وزن“ سامنے آیا۔ غزالہ طلعت کا یہ مضمون ”صریر“ کے اکتوبر کے شمارہ میں شائع ہوا۔ غزالہ طلعت نے دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم رکھنے کے موقف سے اتفاق کیا اور شکوہ کیا کہ : (جنہوں نے پہلے تین ہم وزن مصرعوں کے ”ماہیے“ لکھے) پہلے ان ”ماہیے کہنے والوں کو خوش آمدید کہا گیا لیکن جب یہ سلسلہ چل نکلا تو پھر اس کا بھی سنجیدگی سے نوٹس لیا جانے لگا اور یہاں بھی ساری پہلی تعمیر شدہ عمارت کو منہدم کرنا پڑا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ کسی تجربے کو غلط طور پر رواج دے دیا جائے تو اسے اس کی غلطی سمیت قبول کر لیا جائے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کسی بھی تجربے کے آغاز ہی میں اس کی بنیادوں کی درستی چیک کر لینی چاہئے تا کہ پھر بعد میں پہلی تعمیر کو گرانے کی نوبت نہ آئے“۔
۹۳۔۱۹۹۲ءاردو ماہیے کی تاریخ میں اس لحاظ سے بے حد اہم برس ہیں کہ ان دو برسوں میں ماہیے کے خدوخال اور مزاج کی بحث کے سلسلے میں نو مضامین لکھے گئے اور ہر مضمون میں ہمارے بیان کردہ وزن کو بہرحال تسلیم کیا گیا۔ جو ادباءکسی دوسرے وزن کو بھی روا سمجھ رہے تھے ان کی غلط فہمی کی وجہ اور پوری وضاحت بھی انہیں برسوں میں بیان کی گئی۔ یوں اردو میں ماہیے کو سمجھنے کے لئے ایسا بنیادی کام ہو گیا جس سے ماہیے کا وزن اور مزاج دونوں واضح ہو گئے۔ ان دو برسوں میں درست وزن میں ماہیا نگاری کی طرف بھی پیش قدمی ہوئی۔ امین خیال، سعید شباب، خاور اعجاز، نذیر فتح پوری، رشید اعجاز، غزالہ طلعت، رانا غلام شبیر، نوید رضا، تنویر نوازش، اجمل جنڈیالوی، شبہ طراز، ارشد نعیم، نذر عباس ان دو برسوں میں ماہیا نگار کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ ہر چند ان میں سے دو تین ماہیا نگاروں کے ہاں وزن پر گرفت کمزور بھی دکھائی دیتی ہے ، تاہم درست وزن کو اپنانے کا رویہ اب فروغ پانے لگا تھا۔
٭٭٭٭