چراغ حسن حسرت کلکتہ کے اخبار ”نئی دنیا“ میں کولمبس کے نام سے فکاہی کالم لکھا کرتے تھے ۔ ۱۹۳۰ءکے بعد وہ کلکتہ سے لاہور آ گئے۔ یہاں وہ مختلف اخبارات سے منسلک رہے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۳۷ء میں پنجابی ماہیے کے حسن سے متاثر ہو کر اردو میں چند ”ماہیے“ کہے ان کے ایسے دو ”ماہیے“ دیکھیں:
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
راوی کا کنارا ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر
افسانہ ہمارا ہو
پنجابی ماہیے کی جادوگری او رچراغ حسن حسرت کی ماہیے سے محبت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حسرت پنجابی ماہیے کے وزن کی نزاکت کا خیال نہیں رکھ سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے تین یکساں مصرعوں کے ”ماہیے“ لکھ دیئے۔ ان ماہیوں کے لگ بھگ ۲۰سال بعد فلم پھاگن آئی تو اس کے ایک گیت میں پہلی بار پنجابی ماہیے کے درست وزن کے مطابق اردوماہیے پیش کئے گئے۔ اس فلم کے پروڈیوسر اردو کے مشہور ادیب راجندر سنگھ بیدی تھے اور مذکورہ ماہیے قمر جلال آبادی نے لکھے تھے۔ ان ماہیوں کو محمد رفیع اور آشا بھونسلے نے گایا تھا:
تم روٹھ کے مت جانا
مجھ سے کیا شکوہ
دیوانہ ہے دیوانہ
کیوں ہو گیا بے گانہ
ترا مرا کیا رشتہ
یہ تو نے نہیں جانا
٭
میں لاکھ ہوں بے گا نہ
پھریہ تڑپ کیسی
اتنا تو بتا جانا
فرصت ہو تو آ جانا
اپنے ہی ہاتھوں سے
مری دنیا مٹا جانا
اب تک کی معلومات کے مطابق یہ ماہیے اردو کے سب سے پہلے ماہیے ہیں جو پنجابی ماہیے کے وزن پر پورے اترتے ہیں۔ اس لحاظ سے قمر جلال آبادی اردو کے سب سے پہلے ماہیا نگار قرار پاتے ہیں۔
اس گیت کے چند برس بعد اردو کے ایک اور معروف اور ممتاز شاعر ساحر لدھیانوی نے بھی اردو ماہیے لکھے ۔ یہ ماہیے فلم ”نیا دور“ کے لئے محمد رفیع نے گائے تھے۔ قمر جلال آبادی کے ماہیے اس وزن کے مطابق تھے۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
ساحر لدھیانوی نے ماہیے کے دونوں اوزان میں زحافات کی رعایت کے ساتھ اپنے ماہیے پیش کئے ۔
دل کے لے دغا دیں گے
یار ہیں مطلب کے
یہ دیں گے تو کیا دیں گے
مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
٭
دُنیا کو دکھا دیں گے
یاروں کے پسینے پر
ہم خون بہادیں گے
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
ساحر لدھیانوی اور قمر جلال آبادی اس لئے درست پنجابی وزن کے مطابق ماہیے لکھ سکے کہ انہوں نے اردو ماہیے لکھتے وقت پنجابی ماہیے کو کسی عروضی حوالے سے سمجھنے کی بجائے اسے اس کی دھن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔
ماہیے کی اصل دھن میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے ماہیے ۱۹۵۰ءسے ۱۹۶۰ ءکے عرصہ میں آئے۔ اسی عرصہ کے دوران بشیر منذر، عبدالمجید بھٹی، منیر عشرت اور ثاقب زیروی نے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی پیش کئے۔ تاہم ابھی ماہیا نگاری کو تحریک کی صورت نہیں ملی تھی۔ اردو میں ماہیا نگاری کی موجودہ تحریک کا سلسلہ اسی کی دہائی میں ہونے والے ”تجربے“ سے براہ راست جوڑا جا سکتا ہے۔ ۱۹۸۳ ءمیں علی محمد فرشی کے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ”ماہیے“ کے طور پر چھپے۔ علی محمد فرشی کے چند ”ماہیے“ پاکستان ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ کئے گئے تھے۔ ان کی گائیکی سن کرہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ماہیے کی اصل لے میں نہ آنے کے باعث انہیں گانے والا بھی مشکل میں ہے اور گائیکی کا انداز بھی پنجابی کی کسی بھی دھن سے میل نہیں کھا رہا۔ علی محمد فرشی حقیقتاً تین ہم وزن مصرعوںکے ہائیکو لکھنے کے بعد تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیے لکھنے لگے تھے۔ تحریری صورت میں اردو میں ہائیکو کا تجربہ ویسے بھی ہلکا پھلکا سا تھا۔ ایسے میں ماہیے کے مزاج سے قریب ثلاثی سامنے آئے تو قارئین ادب نے انہیں پسند کیا۔ علی محمد فرشی کے بعد نصیر احمد ناصر اور سیدہ حنا نے بھی ”ماہیانگاری“ کا آغاز کیا۔ یہ دونوں بھی پہلے تین یکساں مصرعوں کے ہائیکو لکھ رہے تھے۔ چونکہ ہائیکو کے اصل وزن کا مسئلہ سامنے آ رہا تھا اس لئے ان دونوں شعراءنے بھی ”ماہیے“ کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کر دی لیکن ہائیکو نگاری کی طرح ماہیا نگاری میں بھی تین یکساں وزن کے مصرعے ہی لکھنے لگے۔ اس میں مذکورہ بالا تینوں شعراءکا کوئی قصور نہیں تھا کیونکہ تینوں ہی ماہیے کے دوسرے مصرعے کے نازک فرق سے بے خبر تھے۔ یہاں علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر اور سیدہ حنا کے چند ثلاثی بھی دیکھ لیں جو انہوں نے ماہیے کے نام سے چھپوائے:
جو فرق تھا زر کا تھا
تعبیر محل کی وہ
میں خواب کھنڈر کا تھا
کفنی کوئی سلتی ہے
کب اس کو خبر میری
اس شہر میں ملتی ہے
(علی محمد فرشی)
ہاتھوں کی لکیروں میں
اک نام سلگتا ہے
بے آب جزیروں میں
سُنتا ہے نہ کہتا ہے
گُم اپنے خیالوں میں
پاگل کوئی رہتا ہے
(نصیر احمد ناصر)
کیچڑ میں کنول دیکھا
بے آسرا بچے کو
روتے ہوئے کل دیکھا
اک فاختہ بیٹھی ہے
پنکھ اس نے سمیٹے ہیں
لگتا ہے کہ زخمی ہے
٭
دیمک لگی الماری
اب اس میں رکھا کیا ہے
بیمار ہے بے چاری
چاندی کی کٹوری ہے
بیوی مرے بھائی کی
کہتے ہیں چٹوری ہے
(سیدہ حنا)
نصیر احمدناصر اور علی محمد فرشی کے مقابلے میں سیدہ حنا کی ”ماہیا نگاری“ زیادہ مقبول ہوئی۔ بھارت کے دیپک قمر براہ راست ان سے متاثر ہوئے۔ وصی محمد وصی نے اثر قبول کیا، پھر یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ یوں علی محمد فرشی کی اولیت کے باوجود غلط وزن کے ماہیوں کو سیدہ حنا کے ذریعے فروغ حاصل ہوا۔ ماہیوں میں تین یکساں وزن کے مصرعوں کی غلط روش بے خبری کے باعث عام ہوئی، پھر اس کا ایسا بے محابا استعمال ہونے گا کہ ہر شاعر نے من چاہا وزن گھڑلیا۔ وزن کے گمراہ کن استعمال کی یہ مثالیں بھی دیکھ لیں:
شجر سے ٹوٹا
سکوت جیسے
حجر سے ٹوٹا
نکال خنجر
برہنہ سر ہے
سنبھال خنجر
(ماہیے از فیروز مرزا مطبوعہ دو ماہی گلبن احمد آباد شمارہ جولائی اگست ۱۹۹۳ء)
آنکھوں میں بھری ہے ریت
طوفان کے ہاتھوں سے
پامال ہوئے میرے کھیت
رنگین اندھیرے میں
تری یاد مجھے لے لیتی ہے
بانہوں کے گھیرے میں
(ماہیے از سیما شکیب مطبوعہ سہ ماہی ارتکاز کراچی شمارہ اکتوبر ۱۹۹۵ ء)
روشنی کا کہیں لشکر بھی نہیں
شب مرے شہر سے گزری لیکن
جاگتی صبح کا منظر بھی نہیں
راستے میں کہیں اشجار نہیں
دھوپ ہے آج بدن کی قسمت
دور تک سایہ دیوار نہیں
(ماہیے از شارق جمال ناگ پوری مطبوعہ : ماہنامہ ”نئی شناخت“ کٹک۔ جلد ۱، شمارہ ۲)
اگرچہ اب قفس میں بھی نہیں ہوں
میں نیلے پانیوں پر کیا اُڑوں گا
کہ اپنی دسترس میں بھی نہیں ہوں
مرے اندر کوئی تنہا بہت ہے
نہ جانے کیوں خوشی کی ساعتوں میں
لپٹ کر مجھ سے وہ روتا بہت ہے
(ماہیے از حسن عباس رضا ۔ مطبوعہ ”اوراق“ لاہور ۔ شمارہ جون، جولائی ۱۹۹۲ء)
ماہیے کے ساتھ یہ تماشا نو آموز شاعروں نے نہیں کیا۔ زیادہ تر ایسے شعراءہیں جو ایک عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں اور ادب کی دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ جب ماہیا نگاری کے لئے اصل پنجابی ماہیے کے وزن کی پابندی اٹھا لی جائے گی تو پھر ان سے بھی بڑھ کر آزاد ”ماہیے“ لکھے جائیں گے۔
چراغ حسن حسرت کے ”ماہیوں“ کے لگ بھگ بیس سال کے بعدپہلے قمر جلال آبادی نے پھر ساحر لدھیانوی نے کسی بحث کے بغیر اردو میں درست وزن کے ماہیے پیش کر کے اصلاح کی ایک صورت نکالی تھی۔ پھر ان سے لگ بھگ بیس سال کے بعد جب نئی نسل کے بعض شعراءماہیے کی طرف راغب ہوئے تو انہوں نے بھی بے خبری کے باعث چراغ حسن حسرت والا وزن اختیار کیا۔ اس غلط روش کی طرف توجہ کرنے میں بھی تقریباً دس سال کا عرصہ لگ گیا۔
ماہیے کے وزن کی درستی کے سلسلے میں سب سے پہلے ممتاز عارف نے توجہ دلائی۔ ”اوراق“ شمارہ اگست ۱۹۹۰ءمیں ان کا یہ خط شائع ہوا:
”اوراق کے تازہ شمارے میں جو ماہیے شائع ہوئے ہیں وہ غنائیت سے تو واقعی لبریز ہیں لیکن ماہیے کا جو ایک مخصوص وزن ہے بعض ماہیے اس پر پورا نہیں اترتے۔ مثلا” دل اس سے لگا بیٹھے / اک شخص کی چاہت میں / ہم جان گنوا بیٹھے ٭
پانی پہ جمی کائی/ کیا لطف محبت کا/ جب دل میں بدی آئی ۔۔۔۔ میری ناقص رائے اور معلومات کے مطابق ماہیے کا روایتی اور درست وزن ایسے ہے:
باغوں میں پڑے جھولے/ تم ہمیں بھول گئے/ ہم تم کو نہیں بھولے۔۔۔۔۔۔۔ ماہیا چونکہ بنیادی طور پر پنجابی کی صنف ہے اس لئے دو مثالیں پنجابی ماہیوں کی ملاحظہ فرمائیں: کوئی کانا وے کھاری دا/ دکھیاں بندیاں نو/ انج طعنہ نئیں ماری دا
ممٹی اُتے کاں بولے/چٹھی آئی سجناں دی/وچ میرا وی ناں بولے۔ یہ بات اپنی جگہ لائق تحسین ہے کہ آپ ماہیے (اردو ماہیے) کی روایت کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں آپ ماہیے کو خوب سے خوب تر بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ لیکن میری گزارش ہے کہ ماہیوں کی اشاعت کے وقت ماہیے کے مخصوص وزن کو پیش نظر ضرور رکھیں“۔
ممتاز عارف نے ماہیا کے درست وزن کے سلسلے میں بجا طور پر نشاندہی کی تھی۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے حسرت کے اس ”ماہیے“ کو درست وزن میں کر دیا جو حقیقتاً تین یکساں مصرعوں پر مشتمل تھا۔ مذکورہ ”ماہیے“ کا دوسرا مصرعہ ”تم بھول گئے ہم کو“ ہے اور درست وزن میں لانے کے لئے اسے ”تم ہمیں بھول گئے“ ہی کرنا چاہئے تھا لیکن ممتاز عارف نے از خود تصرف سے کام لے کر غلط مثال دی تھی۔ ممتاز عارف کی بیان کردہ مثال پر انحصار کے نتیجہ میں آگے چل کر درست وزن والوں کو حق پر ہونے کے باوجود ایک بار خفت کا سامنا کرنا پڑا، جب غلط وزن والوں نے اس بحث کو علمی اور تحقیقی انداز میں آگے بڑھانے کی بجائے مناظرا نہ رنگ دینے کی کوشش کی۔ ہر چند علمی اور تحقیقی کام میں مناظرانہ رنگ زیادہ دیر تک اور دور تک نہیں چل سکتا کیونکہ اہل علم کے نزدیک وقتی جملے بازی نہیں، حقائق معتبر ہوتے ہیں۔ تاہم اگر ممتاز عارف نے قمر جلال آبادی یا ساحر لدھیانوی کے ماہیوں کے حوالے دیئے ہوتے تو اچھا تھا۔ ممتاز عارف کے خط کی اشاعت کے نتیجہ میں، میں نے ماہیے کے وزن پر کافی غور کیا۔ اسی غور و خوض کے دوران ایک لہر میں مجھ سے چند ماہیے بھی ہو گئے۔ یہ ماہیے ماہنامہ ”ادب لطیف“ لاہور کے شمارہ نومبر ۱۹۹۰ءمیں شائع ہوئے۔ ان میں سے چند ماہیے یہ ہیں:
سوہنی ہے نہ ہیر ہے وہ
اس کی مثال کہاں
آپ اپنی نظیر ہے وہ
آنکھوں میں ستارے ہیں
ہجر کی شب میں بھی
وہ پاس ہمارے ہیں
٭
کچھ ہم نے ہی پی لی تھی
یا پھر سچ مچ ہی
وہ آنکھ نشیلی تھی
مل مہکی فضاﺅں سے
یار نکل باہر
اندر کے خلاﺅں سے
نومبر میں یہ ماہیے چھپے اور دسمبر ۱۹۹۰ءکے ”اوراق“ میں میرا ایک خط شائع ہوا۔ جس میں ممتاز عارف کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے اس وقت کے ”ماہیا نگاروں“ کو واضح مشورہ بھی دیا گیا۔ اس خط کا متعلقہ حصہ پیش ہے:
”ممتاز عارف نے اپنے خط میں ماہیے کے وزن کا مسئلہ اٹھایا ہے جو خاصا وزن رکھتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے ماہیا نگاروں کو باہم طے کر لینا چاہئے کہ انہیں اردو ماہیے کو اصل پنجابی ماہیے کی طرح رکھنا ہے یا اس کا حشر بھی ہائیکو جیسا کرانا ہے“۔
میرے اس مشورے پر کسی ”ماہیا نگار“ نے توجہ نہ فرمائی ۔ ”ادب لطیف“ میں میرے ماہیوں کی اشاعت کے بعد ”تجدید نو“ شمارہ اگست ۱۹۹۱ءمیں اور سہ ماہی ”ابلاغ“ شمارہ جولائی تا ستمبر ۱۹۹۱ءمیں میرے ماہیے شائع ہوئے۔ ”ادب لطیف“ اور ”تجدید نو“ میں چھپنے والے ماہیوں کے خلاف تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن ابلاغ میں میرے ماہیے چھپتے ہی شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا (کرایا گیا) ۔ شاید ایسا اس لئے ہوا کہ سیدہ حنا اس رسالے کی مدیرہ تھیں۔ وصی محمد وصی کے نامناسب خط اور سید حامد سروش کی مناظرانہ حاشیہ آرائی سے یہ فائدہ ہوا کہ ماہیے کے وزن کا مسئلہ نمایاں ہو کر سامنے آ گیا اور مسئلہ نمایاں ہو کر سامنے آنے سے شعرائے کرام کو ماہیے کے اصل وزن کا علم ہونے لگا چنانچہ پھر اصل وزن کی حمایت میں سنجیدگی سے اور تفصیل سے اظہار ہونے لگا اور ماہیے کے خدوخال کو سمجھنے کی کوشش ہونے لگی۔
٭٭٭٭