ماہیے کے لئے بگڑو اور ٹپا کے نام بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن ماہیا نام زیادہ مقبول ہوا۔ ماہیے کی تحریری صورت کے سلسلے میں دو آراءہیں۔ پہلے موقف کے مطابق ماہیا تین مصرعوں کی نظم ہے:
کوٹھے اُتوں اُڈ کانواں
سد پٹواری نوں
جند ماہیے دے ناں لانواں
دوسرے موقف کے مطابق ماہیا ”ڈیڑھ مصرعہ کی نظم ہے۔ پہلی لائن آدھے مصرعے کی ہے جو ٹریگر کا کام کرتی ہے اور دوسری لائن پورے مصرعہ کی ہے جس میں جذبات کا شعری فائر ہوتا ہے“
(۱) اس موقف کے مطابق ماہیا یوں لکھا جاتا ہے:
کوٹھے اُتوں اُڈکانواں
سد پٹواری نوں جند ماہیے دے ناں لانواں
یہ اختلاف رائے صرف ماہیے کو تحریری صورت میں پیش کرنے کا ہے وگرنہ مذکورہ بالا دونوں ہئیتوں میں ماہیے کا اصل وزن محفوظ ہے۔ اگرچہ ماہیا کو تین مصرعوں کی ہیئت میں واضح پذیرائی مل چکی ہے اور یہی صورت ماہیے کی مقبول اور مروج صورت ہے تاہم دوسرے موقف سے بھی ماہیے کا مجموعی وزن بہرحال قائم رہتا ہے۔
ماہیے کے وزن کے سلسلے میں دو موقف سامنے آئے ہیں۔پہلا موقف تنویر بخاری کا ہے۔ان کے بقول ماہیے کا وزن یہ بنتا ہے:
مفعول مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
دوسرا موقف ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری کا ہے۔ ان کے بقول ماہیے کا وزن یوں ہے:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
وزن کی بحث میں دونوں پنجابی سکالرز کا اختلاف واضح طور پر سامنے آیا تھا۔ جہاں تک ماہیے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں کا تعلق ہے ان کا وزن مفعول مفاعیلن ۔۔ بھی ہو سکتا ہے اور فعلن فعلن فعلن بھی۔ غور کیا جائے تو ڈاکٹر جمال ہوشیارپوری کاموقف زیادہ جاندار ہے کیونکہ مفعول مفاعیلن بھی عملی طور پر حقیقتاً فعلن فعلن فعلن کا روپ دھار لیتا ہے: مفعولمفاعیلن ۔۔۔ تاہم تنویر بخاری کا موقف بھی یکسر غلط نہیں ہے کیونکہ بعض ماہیے ان کے بیان کردہ وزن پر بھی پورے اترتے ہیں۔ البتہ ماہیے کے دوسرے مصرعے کا وزن بنیادی وزن سے ایک سبب یعنی دو حروف کم ہوتا ہے۔ ماہیے کا پہلا اور تیسرا مصرعہ اگر مفعول مفاعیلن کے وزن پر ہے تو اس کے دوسرے مصرعے کا وزن فعل مفاعیلن بنتا ہے۔ یوں پورے ماہیے کا وزن یہ ہو گا:
مفعول مفاعیلن
فعل مفاعیلن
مفعول مفاعیلن
اگر ماہیے کا پہلا اور تیسرا مصرعہ فعلن فعلن فعلن کے وزن پر ہے تو اس کے دوسرے مصرعے کا وزن فعلن فعلن فع بنتاہے ۔ یوں پورے ماہیے کا وزن یہ ہو گا:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
ماہیے کے دوسرے مصرعہ کے وزن کے سلسلے میں تنویر بخاری اور ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری گہری نظر سے کام نہیں لے سکے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دونوں صاحبان ماہیے کے پہلے مصرعہ کو بنیاد مان کر اس کے وزن کی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماہیے کی دھن پرپورا دھیان نہ دینے کے باعث ماہیے کے پہلے اور تیسرے مصرعوں کے مقابلے میں دوسرے مصرعے میں ایک سبب کی کمی کا نازک فرق انہیں سمجھ میں نہ آ سکا ہو۔
اُردو زبان میں زحافات کا تعین ہے۔ جن حروف کو گرانے کی اجازت ہے ان کی وضاحت موجود ہے لیکن پنجابی زبان میں ایسا کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہے۔ ضرورت شعری کے مطابق اس کے حروف کو کھینچ کر لمبا بھی کر لیا جاتا ہے اور گرا کر مختصر بھی کر لیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران ملفوظی یا غیر ملفوظی حروف کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ پنجابی زبان میں اس رعایت کا فائدہ ماہیے میں بھی اٹھایا گیا ہے۔ چنانچہ جن صاحبان نے پنجابی ماہیے کو تحریری صورت میں دیکھا اور پھر اسے اردو قواعد کے مطابق سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی وہ اپنی تمام تر نیک نیتی اور اخلاص کے باوجود مغالطے کا شکار ہوئے۔ بعض ادباءنے کہاکہ ماہیے کے دوسرے مصرعے کا وزن پہلے اور تیسرے مصرعوں سے ایک سبب کم بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات ان کے برابر بھی ہوتا ہے۔ بعض ادباءنے یہ بھی کہہ دیا کہ بعض اوقات ماہیے کا دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعوں سے بڑھ بھی جاتا ہے (۲) ایسے تمام دوستوں کا مغالطہ اتنا بے جا بھی نہیں تھا۔ ماہیے کو تحریری صورت میں دیکھیں اور اردو قواعد ذہن میں ہوں تو لازما ایسا دھوکہ ہوتا ہے۔ پہلے ایسے چند ماہیے دیکھ لیں جن میں بظاہر ایسے لگتا ہے کہ کہیں ماہیے کا دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعے سے ایک سبب کم ہے تو کہیں تینوں مصرعے ہم وزن لگتے ہیں اور کہیں دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعوں سے بھی آگے نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے ماہیے جن میں دوسرا مصرعہ ایک سبب کم ہے:
باری وچ کھیس پیا آری اتے آری اے
اک دَم سجناں دا اک دَم یوسف دا
اووی ٹرپردیس کیا سارا مصر وپاری اے
ایسے ماہیے جن میں بظاہر تینوں مصرعے ہم وزن لگتے ہیں:
دو کاج قمیضاں دے
اساں کل ٹر جانا
فر میل نصیباں دے
٭٭
اسیں آپے ای بھل گئے آں
تیرے پچھے سجناں وے
سڑکاں تے رُل گئے آ
ایسے ماہیے جن میں بظاہر دوسرے مصرعہ میں ایک سبب زائد لگتا ہے:
اکھ رو رو سک گئی اے
لوکاں دی مویاں مکدی
ساڈی جیوندیاں مک گئی اے
٭
آلو، مٹر پکائے ہوئے نیں
ساڈے نالوں بٹن چنگے
جیہڑے سینے نال لائے ہوئے نیں
ماہیے کی ایسی تحریری صورتیں دیکھ کر ہمارے بعض ادیب یہ سمجھ بیٹھے کہ ماہیے کا دوسرا مصرعہ ماہیے کے پہلے مصرعہ سے ایک سبب کم بھی ہو سکتا ہے۔ ہم وزن بھی ہو سکتا ہے اور ایک سبب زائد بھی ہو سکتا ہے۔ پروفیسر عرش صدیقی یہی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اس رائے سے مجھے اختلاف نہیں کہ ماہیے کے دوسرے مصرعے میں پہلے سے ایک سبب کم ہوتا ہے۔ میں صرف اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ کم بھی ہو سکتا ہے اور بیش بھی۔ یوں بنیادی وزن فعلن تین بار باہر رہے گا اور دوسرا مصرعہ تین ڈھائی یا ساڑھے تین بار بھی ہو سکے گا۔ پنجابی ماہیے میں یہ تینوں صورتیں ملتی ہیں۔“ (۳)
جب ماہیے کو تحریری صورت میں دیکھنے کے باعث اس کے دوسرے مصرعہ کے وزن کا مسئلہ اتنا الجھا ہوا ہے تو کسی درست نتیجے تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟۔ اس سلسلے میں میرا موقف یہ ہے کہ ماہیا اصلاً لوک گیت ہے جس کی اپنی مخصوص دھن ہے۔ بس اسی دھن میں ہی اس کا اصل وزن موجود ہے۔ مختلف فلمی ماہیوں میں موسیقی کے نئے تجربے کئے گئے ہیں لیکن ہر تجربے میں ماہیے کی عوامی دھن کی روح نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنے اصل وزن کے ساتھ پوری طرح محفوظ ہے۔ سو ماہیے کی دھن سے ہی اس کا اصل وزن دریافت کیا جا سکتا ہے۔ پہلے دیہاتی عوامی دھن اور بعض فلمی ماہیوں کی معروف مثالیں دیکھ لیںان ماہیوں کو پڑھنے سے زیادہ سننا اور ان کی طرز کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے:
چِٹا ککڑ بنیرے تے ساڈے دل نے گوا ماہیا
ریشمی دوپٹے والیے تیری میری اک جندڑی
منڈا صدقے تیرے تے بھانویں بت نے جدا ماہیا
(معروف دیہاتی دھن ۔آواز : مسرت نذیر) (فلم ذیلدار)
ساڈی عجب کہانی اے کیوں مڑ مڑ تکدے او
بھل کے پرانے دکھڑے پانویں لکھ پردے کرو
نویں دنیا وسانی اے ساتوں لک نئیں سکدے او
(فلم : میرا ماہی) (فلم: یکے والی)
اسمانی تارے نیں ساڈا نازک دل ماہیا
بازی دل والی چناں کلیاں نوں ملے بھنورے
اسی جت کے وی ہارے وے سانوں توں گئیوں مل ماہیا
(فلم : من موجی) (فلم: پیشہ ور بدمعاش)
ان ساری دھنوں کو ذہن نشین کرلیں۔ پھر ہر گانے کی طرز پر مذکورہ بالا ماہیوں کی بجائے ان اوزان کو گنگنا کر دیکھیں اور پرکھیں:
فعلن فعلن فعلن
مفعول مفاعیلن
فعلن فعلن فع
فعل مفاعیلن
فعلن فعلن فعلن
مفعول مفاعیلن
ان دونوں اوزان کو ماہیے کی عوامی اور فلمی دھنوں پر روانی کے ساتھ گنگنایا جا رہا ہے۔کہیں جھٹکا لگنے یا اٹکنے کا احساس نہیں ہوتا۔اب یوں کریں کہ اوپر والی ساری دھنوں پر باری باری ان دو اوزان کو بھی گنگنا کر پرکھنے کی کوشش کریں:
فعلن فعلن فعلن مفعول مفاعیلن
فعلن فعلن فعلن مفعول مفاعیلن
فعلن فعلن فعلن مفعول مفاعیلن
یہاں آپ دوسرے مصرعوں کو سہولت اور روانی کے ساتھ نہیں گنگنا پائیں گے کیونکہ ماہیے کی دھن دوسرے مصرعے کو اسی صورت میں رواں کر سکے گی جب اس کا ایک سبب کم ہو گا۔ جب ماہیے کا دوسرا مصرعہ، پہلے اور تیسرے مصرعے سے ہم وزن ہونے کی صورت میں ہی لَے سے باہر ہو رہا ہے تو ایک سبب زائد ہونے کی صورت میں کیسے دھن میں لایا جا سکے گا۔
اس سیدھے سادھے اور آسان تجربے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ماہیے کا پہلا مصرعہ اور تیسرا مصرعہ تو ہم وزن ہیں لیکن دوسرا مصرعہ ان کے وزن سے ایک سبب یعنی دو حروف کم ہے ۔اگر تحریری صورت میں پنجابی ماہیے کا دوسرا مصرعہ کبھی پہلے اور تیسرے مصرعوں سے ایک سبب زائد اور کبھی ہم وزن نظر آتا ہے تو ایسا صرف پنجابی زبان کی لچک کے باعث نظر آتا ہے۔ پنجابی زبان کا یہ لچکیلا پن لسانی قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی کے باعث ہے۔ تاہم ماہیے کی دھن سے ماہیے کا وزن نہ صرف واضح طور پر مل جاتا ہے بلکہ اس سے ساری غلط فہمیاں بھی دُور ہو جاتی ہیں ۔ ماہیے کے وزن کی تقسیم کے سلسلے میں یہ ایک اہم اور بنیادی نکتہ ہے جس سے بالخصوص ماہیے کے دوسرے مصرعہ کے فرق کی نزاکت کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
ماہیے کی دھن کا اعجاز ہے کہ اس نے نہ صرف ماہیے کے وزن کا پوری طرح تحفظ کیا ہے بلکہ اس کی بقا اور ارتقاءکی بھی ضمانت بن گئی ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ماہیا عوامی گیت ہے۔ یہ گائی جانے والی شاعری پہلے ہے اور لکھی جانے والی، پڑھی جانے والی شاعری بعد میں ہے۔ وہی ماہیا حقیقی معنوں میں ماہیا ہے جو سہولت اور روانی کے ساتھ ماہیے کی مخصوص دھن میں گایا/گنگنایا جا سکتا ہے۔
پنجابی میں ماہیے کہتے وقت دوسرے مصرعے کے وزن کے باریک فرق کا اس لئے خیال نہیں کرنا پڑتا کہ پنجابی زبان کی لچک خود ہی اسے سنبھال لیتی ہے لیکن اردو زبان میں چونکہ ایسی عمومی لچک نہیں ہے اور اردو میں ماہیے کہتے وقت اردو قواعد کے مطابق ہی چلنا پڑتا ہے۔ اس لئے اردو میں ماہیے کہتے وقت اس کے دوسرے مصرعے کے حساس فرق کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ جو لوگ اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھ سکے انہوں نے ماہیے نہیں لکھے ثلاثی قسم کی کوئی چیز لکھی ہے۔
٭٭٭٭