اختر رضا سلیمی(اسلام آباد)
سوال:آپ کب سے لکھ رہے ہیں؟
جواب۱۹۷۱ءمیں پہلی غزل کہی تھی۔ویسے چھوٹی موٹی تُک بندی تو اسکول کے زمانے سے جاری تھی۔
سوال:پہلی مطبوعہ تحریر؟
جواب:ہفت روزہ ”لاہور“کے غالباً مئی ۱۹۷۲ءکے کسی شمارہ میں وہ غزل شائع ہوئی ‘جو میں نے ۱۹۷۱ءمیں کہی تھی۔
سوال:جب ”اوراق“ لاہور کے ذریعے ماہیے کے درست وزن کی نشاندہی کی گئی تو آپ نے اسے ایک تحریک کی صورت دی ۔ا بتدا میں آپ کے موقف کو لائقِ اعتنا نہیں سمجھا گیا ۔کیا آپ کو یقین تھا کہ مستقبل قریب میں آپ کے موقف کو پذیرائی ملے گی؟
جواب:میرے ذہن میں صرف اتنی سی بات تھی کہ ماہیے کے بارے میں بے خبری کے باعث جو ایک چھوٹی سی غلطی راہ پاگئی ہے اس کی نشاندہی ہونے پرماہیا نگار حضرات اسے خوشدلی سے درست کرلیں گے۔اسی لئے میںنے ماہیے کی لَے کو مدِ نظر رکھ کر ماہیے کہنے شروع کئے۔ساتھ ہی احباب پر ماہیے کا وزن واضح کرنا شروع کیا۔میرے گمان میں تو یہ بھی نہیں تھا کہ ایک سیدھی سی بات کہنے پر مجھے اتنا برا بھلا کہا جائے گااور اس قدر مخالفت کی جائے گی۔بس جیسے ہی مخالفت شروع ہوئی ہمارے موقف کو پذیرائی ملنا شروع ہو گئی۔آپ کو مزے کی ایک بات بتاؤں۔مجھے یارلوگوں کی بے جا مخالفت پر حیرانی تھی۔اسی دوران ڈاکٹر انور سدید ایبٹ آباد آئے۔میں نے بڑی سادگی کے ساتھ اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ یار لوگ سیدھی سی بات کو سمجھ ہی نہیں رہے۔تب ڈاکٹر انور سدید نے مسکرا کر کہا ادب میں ایسے ہی ہوتاہے۔ پھر انہوں نے مشورہ دیا کہ مخالف کو مخالفت کرنے دیں۔آپ اپنے موقف کو مضامین کے ذریعے پیش کرنا شروع کردیں۔سو مضامین لکھنے کے سلسلے میں ڈاکٹر انور سدید کا مشورہ بے حد مفید رہا۔بعدمیںجب”تخلیق“لاہور میں میری شدید مخالفت کی گئی تب میں نے اپنی تائید میں دوسرے مقتدر ادباءکے ساتھ انور سدید کی تحریروں کے حوالے بھی دئیے تو مجھے یہ دیکھ کر پہلے تو حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر انور سدید جیسے” حق گو نقاد“نے اپنے لکھے کا دفاع کرنے کی بجائے” معنی خیز“خاموشی اختیار کرلی۔لیکن اب سوچتا ہوں کہ ادب کے تئیں ایک تو ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں اور وہ زیادہ وقت صحافت کو دے رہے ہیں دوسرے یہ کہ غالباً وہ مجھ میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے مجھے اکیلے ہی مخالفین کا سامنا کرنے دینا چاہ رہے تھے۔سو مجھے تو مخالفت کا بھی گمان نہ تھا۔اور یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر میری اتنی شدید مخالفت نہ ہوتی تو ماہیے کو ایسی پذیرائی نہیں ملتی۔
سوال:کسی سلسلے میں جب آدمی کی مخالفت ہونے لگتی ہے تو وہ سوچتا ہے کہ میں نے مفت کی درد سری مول لے لی ہے۔آپ نے جب ماہیے کے درست وزن کی تحریک کا بیڑہ اٹھایا تو ہر طرف سے آپ کی مخالفت شروع ہو گئی۔آپ کو اس وقت کبھی ایسا خیال آیا؟
جواب: جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا ہے کہ مخالفت پر مجھے بڑی حیرانی ہوتی تھی کہ اتنی سیدھی سی بات‘بالکل سامنے کی بات لوگوں کو سمجھ میں کیوں نہیں آرہی!لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے رنگ ڈھنگ واضح ہوتے گئے اور ادبی زندگی ‘جینے کا طریقہ بھی سمجھ میں آتا گیا۔کبھی کبھی یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ماہیا میری پہلی ترجیح نہیں ہے لیکن مجھے اسی میں زیادہ کام کرنا پڑرہا ہے۔لیکن پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ کوئی ادبی صلاحیت ملنا‘اسے بروئے کار لانے کی توفیق ملنا اور پھر اس کا مثمر بہ ثمرات ہونا سب خدا تعالی کی مہربانی سے ہوتا ہے۔سو اگر وہ مجھے اس میدان میں زیادہ کام کرنے کی ہمت اور توفیق دے رہا ہے تو میں اس پر بھی اس کا شکر گزار ہوں۔
سوال: ماہیے کے وزن کے حوالے سے کچھ لوگوں نے ابتدا میں آپ کے موقف کی حمایت کی لیکن جلد ہی وہ آپ کے موقف کی مخالفت کرنے لگ گئے۔اس تبدیلی کی کوئی خاص وجہ؟
جواب: بعدمیں مخالفت کرنے والوں میں ماہیا نگار تو صرف ایک ہی ہیںلیکن انہوں نے بھی جتنے ماہیے کہے ہیں‘مخالفت کرنے کے باوجود ہمارے موقف کے مطابق ہی کہے ہیں۔لہٰذا ان کی مخالفت کا سبب از خود ظاہر ہے۔باقی جن ایک دو دوستوں نے موقف تبدیل کرنے کی کوشش کی میں نے بروقت ان کی نشاندہی شواہد کے ساتھ کر دی ۔میری کتاب’اردو ماہیے کی تحریک‘میں ان کا مکمل حوالہ موجود ہے وہ اس سے آگے بات کریں تو میں مزید وضاحت کرنے کو تیار ہوں۔انہوں نے کسی ذاتی رنجش میں ہی موقف تبدیل کیا تھا۔تاہم ہمارا موقف کسی فرقے کا عقیدہ نہیں ہے کہ اس سے اختلاف کرنے والوں کو مرتد قرار دے دیا جائے‘یاان کی مخالفت پر کمر کس لی جائے۔
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست،ہاں جب ہم پر حملہ ہوگا تب ہم اپنا دفاع ضرور کریں گے۔
سوال: آپ نے ماہیے کی سہ مصرعی ہیئت پر اصرار کیا حالانکہ پنجابی میں دونوں ہئتیں (ڈیڑھ مصرعی اور سہ مصرعی)ملتی ہیں؟
جواب:پہلے تو یہ وضاحت کر دوں کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق پنجابی میں ماہیے کی دو نہیں بلکہ تین تحریری صورتیں ملتی ہیں۔ایک یک سطری‘دوسری ڈیڑھ سطری اور تیسری سہ مصرعی۔اوریہ بات بھی درست نہیں ہے کہ میں نے سہ مصرعی ہیئت پر اصرار کیا ہے۔آپ میری کتاب ”اردو ماہیے کی تحریک “میں شامل میرے مضامین”اردو ماہیے کی تحریک“اور”پنجابی لوک گیت ماہیے کی تحریری ہیئت“دیکھ لیں اور ”اوراق“شمارہ جولائی اگست ۱۹۹۹ءمیں شامل میرا مضمون”ماہیے کی بحث“بھی دیکھ لیں۔میں نے کہیں بھی اصرار نہیں کیا لیکن سہ مصرعی ہیئت کو پنجابی میں بھی اور اردو میں بھی ماہیے کی مقبول صورت ضرور لکھا ہے۔اپنے لکھے کو یہاں دہرا دیتا ہوں:
”پنجابی ماہیے کا بطور لوک گیت مجموعی وزن یہی بنتا ہے فعلن فعلن فعلنفعلن فعلن فعفعلن فعلن فعلن(دوسرے متبادل اوزان میں بھی اسی طرح ایک سبب کی کمی رہے گی)اب اسے چاہے ایک مصرعہ بنا کر لکھ لیں‘ڈیڑھ مصرعے بنا کر لکھ لیں یا تین مصرعوں کی مقبول صورت کو اپنا لیں۔ماہیے کا مجموعی وزن بہر حال وہی رہے گا جو ماہیے کی لَے کے مطابق ہے۔مجھے ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم اب بصری لحاظ سے سہ مصرعی ماہیا زیادہ اچھا لگتا ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ سو اب ماہیے کی تحریک جس مقام پر آگئی ہے ‘یہاں ڈیڑھ مصرعی ہیئت کو غلط کہے بغیر میں یہ ضرور کہوں گا کہ سہ مصرعی صورت میں ماہیا زیادہ ہرا بھرا لگتا ہے“۔
تو جناب میں تو تینوں ہیئت میں ماہیے کو مانتا ہوںلیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اس سے ماہیے کے وزن میں نقب نہ لگائی جائے۔ہیئت کو”چور دروازہ“بنا کر ماہیے کی لوک لَے سے الگ نہ کیا جائے۔ویسے ڈیڑھ مصرعی ہیئت پر بے جا اصرار کرنے والوں سے میں نے ”اوراق“کے مذکورہ شمارہ میں یہ سوال کئے تھے کہ وہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب پنجابی کے مقتدر دانشور سہ مصرعی ہیئت میں ماہیے کی کتابیں مرتب کرکے چھاپ رہے تھے اور یہ سارے کام مقتدر سرکاری ادبی اداروں کی نگرانی میں ہوئے تھے؟ اور اس وقت یہ لوگ کہاں تھے جب ۱۹۸۳ءسے مساوی الوزن ”ماہیے“کہنے والے سہ مصرعی فارم میں ماہیے کہہ رہے تھے؟ تادمِ تحریر نہ ان مقتدر پنجابی دانشوروں کو کسی نے برا بھلا کہا ہے ‘نہ مساوی الوزن سہ مصرعی ”ماہیے“ کہنے والوں کو کسی نے میلی نظر سے دیکھا ہے؟سو اب میرا سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ مصرعی فارم کا شوشہ چھوڑنے والوں کے تیروں کا رُخ صرف ہماری ہی طرف کیوں ہے؟جن اہم پنجابی دانشوروں نے پنجابی ماہیے کی سہ مصرعی فارم والی کتب مرتب کی ہیں اور جن اردو کے مساوی الوزن ”ماہیا نگاروں“نے اب تک یہی فارم اختیار کر کھی ہے انہیںکیوں بچا لیا جاتا ہے؟اور صرف ہم پر ہی کیوں ”نظرِ کرم“فرمائی جاتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب مخالفین کو ہر سطح پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تب جان بوجھ کر سہ مصرعی فارم کا شوشہ چھوڑنے کے لئے بندے چھوڑے گئے۔یہ واضح حقیقت ہے۔
سوال:آپ کے بقول ماہیا وہی ہے جس کے دوسرے مصرعے میں ایک سبب کم ہو ۔بشیر سیفی ‘ارشد محمود ناشاد اور ان کے ہم نواؤں کا کہنا ہے کہ پنجابی میں نہ صرف مساوی الوزن ماہیے موجود ہیں بلکہ دوسرے مصرعہ میں ایک سبب زائد والے ماہیے بھی موجود ہیں؟
جواب: در اصل انہوں نے میرے مضامین کو دھیان سے نہیں پڑھا۔اس لئے میری کہی ہوئی ایک بات کو آدھا لے اُڑے ہیں۔میری کتاب”اردو ماہیے کی تحریک“کے صفحہ نمبر۱۳۱‘۱۳۲کو پڑھ کر دیکھیں۔میں نے نشاندہی کی ہے کہ پنجابی ماہیے میں صرف مساوی الوزن اور دو حرف کم یا زائد والے ہی نہیں بلکہ چار حرف کم یا زائد والے ماہیے بھی ملتے ہیں۔ایسی صورت میں تو ماہیے کی یہ پانچوں ہیئت رائج کر لینی چاہئیں۔لیکن ایسا غدر اسی صورت میں ہوگا جب آپ پنجابی ماہیے کو اردو عروض کے مطابق دیکھیں گے لیکن اگر آپ ماہیے کی لَے کو بنیاد مان لیں تو پھر نہ کوئی کنفیوژن رہتا ہے نہ کوئی غدر مچتا ہے۔بشیر سیفی تو بہت بہادر آدمی ہیں میرے لکھے کو اپنا موقف بنا کر پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی میری مخالفت بھی کرتے ہیں،انہوں نے ماہیے کی دُھن والے میرے موقف کو بڑے مزے سے اپنا موقف بنا کر بیان کر دیا اور ساتھ ہی میری مذمت بھی فرمادی
جو میرے لکھے سے استفادہ بھی کر رہا ہے
خلاف باتیں وہی زیادہ بھی کر رہا ہے
سوال: آپ نے ماہیے کو پابندِ لَے گردانا ہے۔اُدھر مساوی الوزن ماہیے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دوسرے مصرعے میں ایک سبب کی کمی والا ماہیا لَے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔اس تضاد نے ماہیے کے قارئین کو الجھا کر رکھ دیا ہے؟آپ اپنے موقف کی وضاحت فرمائیں گے؟
جواب: میرے علم میں نہیں ہے کہ کس نے ایسی بات کہی ہے۔لیکن جس نے بھی یہ کہا ہے کہ دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم والا ماہیا لَے پر فِٹ نہیں بیٹھتا‘اس نے بڑی ہی بچکانہ بات کی ہے۔۱۹۳۶ءسے اب تک اردو ماہیے کے گائے گئے جتنے نمونے دستیاب ہو ئے ہیں سب کے سب ہمارے موقف کی تصدیق کرتے ہیں۔ہمت رائے شرما‘قتیل شفائی‘قمر جلال آبادی ‘ساحر لدھیانوی‘نذیر قیصر‘وپن ہانڈا تک فلمی ماہیا نگاروں کے کم از کم سات نمونے تو میں خود پیش کرچکا ہوں۔یہ سارے ماہیے ‘پنجابی لَے کے مطابق لکھے اور گائے گئے ہیں اور انہیں لکھنے والا ہر شاعر ہمارے موجودہ موقف سے بے تعلق تھا اس کے باوجود ہمارے موقف اور ان کے ماہیوں میں جو تعلق ہے وہ صاف ظاہر ہے۔مجھے تو وہ صاحب کو ئی بہت بھولے بھالے لگتے ہیں جنہوں نے ایسی بات کہہ دی۔باقی ماہیے کے سلسلے میں جتنا الجھاوا پیدا کیا جارہا ہے وہ صرف معترضین اپنے آپ کو اور ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔جہاں تک ماہیا نگاروں اور ماہیے کے عام قاری کا تعلق ہے وہ ماہیے کو بخوبی جان چکے ہیں معترضین کو بخوبی علم ہے کہ ماہیا نگار ان کی بات کو نظر انداز کرکے درست وزن کے ماہیے کہہ رہے ہیںاور قارئین بھی حقیقت سے آگاہ ہیں۔
سوال:اردو ماہیے پر وزن اور ہیئت کے حوالے سے تو خاصی بحث ہو چکی ہے لیکن اس کے مزاج کو کسی نے در خورِ اعتنا نہیں جانا حالانکہ ماہیے کا اپنا ایک مخصوص مزاج بھی ہے۔اس پر بھی تو بحث ہونی چاہئے؟
جواب:مزاج کے حوالے سے تھوڑا بہت کام تو ہوا ہے لیکن یہ درست ہے کہ اس پر مزید کام کی ضرورت ہے۔تاہم ضروری ہے کہ ماہیے کے مزاج پر بات کرنے والا پنجابی ماہیے کو اس کے ہر پہلو سے کسی نہ کسی حد تک ضرور جانتا ہو۔یہاں مجھے ایک ”نقاد“ یاد آگئے۔موصوف مجھ پر اس لئے بگڑ گئے کہ میں نے ماہیے کے ڈانڈے ہندی گیت کے ساتھ ریختی جیسی فحش صنف سے کیوں ملا دئیے حالانکہ پنجابی ماہیے میں حمد و نعت سے لے کر فحش گوئی تک ہر موضوع پر ماہیوں کا ذخیرہ موجود ہے۔بندے نے صرف تنویر بخاری کے مرتب کردہ انتخاب ہی کو پڑھ رکھا ہو تو وہ ایسے بچکانہ اعتراض سے بچ سکتا ہے۔سو ماہیے کے مزاج پر بات کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے پنجابی ماہیے کو ہمت کرکے ہر پہلو سے دیکھ اور سمجھ لیں۔
سوال:گزشتہ دس سالوں میں اردو ماہیے کو بے حدپذیرائی ملی ‘جس میں آپ کی کوششوں کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے اور اب تو حیدر اور ماہیا لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔آپ کو کیسا لگتا ہے؟
جواب:اچھا لگتا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ محض اس چکر میں بعض اچھے دوست گنوا بیٹھا ہوں۔حامد سروش اور سیدہ حنا سے میری بہت اچھی دوستی تھی وہ ہاتھ سے گئی۔بشیر سیفی سے گہری دوستی نہ سہی لیکن اچھی ہائے ہیلو تھی۔ماہیے کی بحث میں ان کے آنے سے پہلے انہیں مجھ سے ایک دوستانہ سی شکایت ہوئی تھی۔میں اسے دور کرنا چاہ رہا تھا لیکن اس سے پہلے ہی انہوں نے اپنی کاروائی شروع کردی۔سو اچھا لگنے کی خوشی کے ساتھ ہلکا سا تاسف کا احساس بھی ہے۔
سوال:کوئی بھی صنف سخن ہو ارتقائی مراحل بتدریج طے کرتی ہے۔کسی بھی صنف سخن کو پنپنے میں خاصا وقت لگتا ہے لیکن ماہیا اچانک آیا اور چھا گیا۔اس کے اسباب پر روشنی ڈالیں گے؟
جواب:میرے ذہن میں اس کے دو اسباب آتے ہیں۔ہو سکتا ہے اور اسباب بھی سامنے آئیں۔پہلا سبب تو یہ کہ اردو میں کسی سہ مصرعی صنف کی جستجو بڑھ گئی تھی۔ثلاثی‘ہائیکو اور تروینی جیسی سہ مصرعی اصناف شاعری میں کسی سہ مصرعی صنف کی جستجو کا احساس دلاتی ہیں۔ان سب کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔تاہم ان میں سے کوئی بھی شاید ثقافتی سطح پر جُڑ نہیں پارہی تھی۔ان کے برعکس ماہیا تو یہاں کی ثقافت میں رچا ہوا تھا سو جیسے ہی سہ مصرعی صنف کی طلب کو ماہیا ملا ‘ماہیا مقبول ہوگیا۔دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ حالیہ دس برسوں میں جتنی ماہیے کی مخالفت ہوئی ہے کسی اور ادبی اشو پراتنی کسی کی مخالفت نہیں ہوئی اور یہ تو ہوتا ہے کہ جس چیز کی زیادہ مخالفت ہو لو گ اس میں زیادہ دلچسپی لینے لگتے ہیں۔سو ماہیے کے مخالفین نے بھی اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کیاہے۔ لوگوں کو اس طرف متوجہ کر دیا ہے۔ باقی لوگ خود سیانے ہیں‘دونوں موقف جاننے کے بعد خود ہی بہتر فیصلہ کرلیتے ہیں سو اس لئے بھی ماہیا مقبول ہوا ہے ۔
سوال:بعض نقاد تو یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ماہیا اگر طوفان کی صورت آیا تو جھاگ کی صورت بیٹھ بھی جائے گا یعنی ماہیا کا کوئی مستقبل نہیں؟
جواب:دنیا جس ڈگر پر جا رہی ہے مجھے تو اس سے ادب کے مستقبل پر بھی تشویش ہونے لگتی ہے۔جہاں تک ماہیے کا تعلق ہے ہم نے اپنی توفیق کے مطابق کام کیا ہے۔اور ہمارے کام سے زیادہ خدا نے پھل پھول لگادئیے ہیں۔اردو میں کتنی اصناف کبھی بے حد مقبول تھیں اب ان کا ہو نا نہ ہونا ایک برابر ہے۔اس کے باوجود ادب کی ترویج کی تاریخ میں ان اصناف کے کردار کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔سو ماہیے نے تو اتنے مختصر سے عرصہ میں اپنے لئے ایک اہم جگہ بنا لی ہے۔اس لئے مجھے اس کے مستقبل کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ویسے آپ دیکھیں تو اس قسم کا پروپیگنڈہ وہ لوگ کر رہے ہیں جو ماہیے کی بحث میں علمی لحاظ سے ہر سطح پر شکست کھا چکے ہیںاور اپنے دل کے بہلانے کے لئے نجومی بابا بن رہے ہیں۔
سوال:بعض لوگ کہتے ہیں کہ حیدرنے ماہیے کو سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہے؟
جواب:اگر میرے مجموعی ادبی کام کے تناظر میں دیکھاجائے تو ماہیے کے چکر میں میرا دوسرا کام کسی حد تک نظر انداز ہوا ہے۔اپنی غزلوں‘اپنے خاکوں اور افسانوں‘اپنے سفرنامے اور” کھٹی میٹھی یادوں“کے حوالے سے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوں لیکن میں ایمانداری سے محسوس کرتا ہوںکہ ماہیے کی بحث میں میرا وہ سارا کام پس پشت چلا گیا ہے۔سو ماہیے کی شہرت مجھے سستی نہیں مہنگی پڑی ہے۔پھر اوپر سے یارلوگوں کی ملامت۔جو بھی علمی سطح پر لاجواب ہوااس نے شخصی دشمنی قائم کر لی۔جہاں چور اور بے وزن شاعروں اور افسانہ نگاروں کو آسمان پر چڑھا دیا گیا وہاں حیدر قریشی کے لئے زمین پر رہنے کا حق بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔سو ماہیے والی شہرت سے تنویر سپرا مرحوم کا ایک شعر یاد آگیا ہے
عزت بڑھی تو ساتھ ہی رُسوائی بڑھ گئی
تنخواہ کے حساب سے مہنگائی بڑھ گئی
ویسے آپ دیکھیں کہ جن لوگوں کی ادب میں کوئی حیثیت ہی نہیں تھی وہ صرف اس لئے اہم ہو گئے کہ وہ ماہیے کے مخالف ہیں۔تو ماہیے نے تو اپنے مخالفوں کو بھی شہرت عطا کردی ہے۔
سوال:ابتدا میں ماہیے لکھنے والے محدود تھے تو ماہیوں کا معیار بلند تھا لیکن جوں جوں ماہیے لکھنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی معیار کم ہوتا گیا اور اب تو بقول شخصے اچھا ماہیا ڈھونڈنا پڑتا ہے؟
جواب:پہلی بات تو یہ کہ جس صنف میں بھی زیادہ لکھنے والے ہوں گے اس میں غیر معیاری میٹر اتنا ہی زیادہ ہو گا۔سو یوں صرف ماہیے کو مطعون کرنا ٹھیک نہیں ہے معیار کی صورتحال تو ہر مقبول صنف میں تقریباًایک جیسی ہے۔باقی یہ رسائل کے مدیران پر بھی منحصر ہے کہ وہ کس معیار کی تخلیقات قبول کرتے ہیں۔”جدید ادب“کے دونوں شمارے اٹھا کر دیکھ لیں اور ان میں شامل ماہیوں کے معیار پر مجھ سے بات کر لیں۔”اردو دنیا“ جرمنی میں چھپنے والے ماہیوں کا عمومی معیار بھی بہت عمدہ ہوتا ہے۔پھرآپ”اوراق“میں چھپنے والے ماہیوں کے عمومی معیار کو دیکھ لیں۔”کوہسار“بھاگل پور اور ”اسباق“پونہ میں بھی عام طور پر معیاری ماہیے چھپتے ہیں۔
”نیرنگِ خیال“کا ماہیا نمبر معیار کے لحاظ سے بھی ایک عمدہ نمبر ہے۔چھوٹی موٹی استثنائی مثالیں تو درگزر کرنا پڑتی ہیں۔ویسے آپ یہ بھی دیکھیں کہ ایسی بات کہنے والے وہ لوگ تو نہیں جو علمی میدان میں ہر سطح پر مار کھانے کے بعد کبھی نجومی بننے لگے ہیں اور کبھی ماہیے کے معیار پر برہمی دکھانے لگے ہیں۔میرے ماہیوں کو بھی اب تو برا بھلا کہا جانے لگا ہے۔بہر حال جیسے کسی کو خوشی ملتی ہے خوش رہے!
سوال: آپ نے توماہیے پر تخلیقی‘ تحقیقی و تنقیدی تینوں سطحوں پر کام کیا ہے۔آپ کے علاوہ چند ایسے نام جنہوں نے تحقیقی و تنقیدی سطح پر کام کیا ہو؟
جواب: تحقیقی سطح پر مربوط کام تو دوسرے دوستوں نے بہت کم کیا ہے تاہم میری تحقیق میں بہت سارے دوستوں نے ایسا میٹر تلاش کرنے میں میری مدد کی جس سے میری تحقیق کو ٹھوس بنیاد ملی۔ایسے دوستوں میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی‘ احمد حسین مجاہد اور عارف فرہاد کے نام خاص طور پر لوں گا۔ہمت رائے شرماجی نے بھی بے حد اہم نوعیت کے میٹر کی فراہمی میں میری بہت مدد کی۔ویسے ماہیے کے بانی ہمت رائے شرماجی کی دریافت ڈاکٹر مناظر عاشق کا تحقیقی کا رنامہ ہے ۔ مجھے اس پر بعد میں مربوط کام کرنے کی توفیق ملی۔جہاں تک تنقید کا تعلق ہے اسے دو خانوں میں بانٹ لیں۔ماہیے کی پہچان کرانے میں گہرے عروضی حوالے سے آصف ثاقب‘احمد حسین مجاہد‘ناوک حمزہ پوری‘شارق جمال‘اسلم حنیف ‘ڈاکٹر مناظر عاشق اور بعض دیگر دوستوں نے اپنی اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق کام کیا ہے۔جبکہ ماہیے کے وزن اور ثقافتی پہچان کے حوالے سے سعید شباب‘امین خیال‘ناصر عباس نیر‘ڈاکٹر انور سدید ‘گوہر شیخ پوری‘کے بعض مضامین خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ماہیے کی عمومی بحث اور ماہیا نگاروں کی ماہیا نگاری پر تجزیاتی یا تعارفی مضامین کو ماہیے کی عملی تنقید میں شمار کرنا چاہئے ۔اس میدان میںڈاکٹر جمیلہ عرشی ‘فراز حامدی ‘ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ‘اکبر حمیدی‘ ہارون الرشید‘عارف فرہاد‘ اختر رضا کیکوٹی‘محمد وسیم انجم‘ناصر نظامی‘سعید شباب‘اور متعدد دیگر نام ہیں جو لگن اور خلوص کے ساتھ ماہیے کی عملی تنقید میں اپنی اپنی توفیق کے مطابق کام کر رہے ہیں۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ماہیے کی تنقید کے حوالے سے ماہیا نگاروں نے نہ سکہ بند نقادوں کا انتظار کیا ‘نہ کسی کے بارے میں گلے شکوے کئے‘ نہ کسی کو طعنے دئیے‘ ادب کے اس عمومی رویے کے برعکس ماہیا نگاروں نے اپنے تنقید نگاروں کا کارواں بھی خود ہی تشکیل دیا اور سارا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا۔
سوال: آپ نے ایک جگہ ماہیے کو ”کتابِ دل“ کہا ہے۔اس کی وضاحت کریں گے؟
جواب: یار! یہ تو سیدھی سی بات ہے اس کی کیا وضاحت کروں۔دل اور دماغ کی تفریق کو ذہن میں رکھیں اور پھر کتابِ دل پر غور کریں۔ماہیا گہری فکر کے مقابلہ میں قلبی کیفیات کی زیادہ بہتر طور پرعکاسی کرتا ہے۔دل کی باتیں دوسرے دل میں بھی جلد ہی اتر جاتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ماہیا اپنے اظہار کی سادگی اور بیانیہ میں ہی لطافت پیدا کردکھا تا ہے۔
سوال: کیا ماہیا عشقیہ مضامین کے علاوہ دیگر موضوعات کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا؟
جواب: پنجاب کے بیشتر لوک گیت کسی خاص خاص علاقے میں زیادہ مقبول ہیں۔ماہیا واحد لوک گیت ہے جوپنجاب کے ہر علاقے سے لے کر صوبہ سرحد کے ہندکو اور کشمیر کے گوجری علاقہ تک یکساں مقبول ہے اور اس مقبولیت کا ایک سبب یہ ہے کہ ماہیا زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتا ہے۔زندگی کا کوئی ایسا رُخ نہیں جو ماہیے کا موضوع نہ بنا ہو۔محبت سے سیاست تک ہرموضوع ماہیے کا موضوع رہا ہے۔جب پنجابی ماہیے میں سارے موضوعات پر ماہیے ملتے ہیں تو اردو ماہیے کے لئے بھی سارے موضوع روا ہیں۔البتہ اس میں اردو ماہیا نگاروں کو یہ احتیاط کرنا پڑے گی کہ موضوع کے ساتھ اس کے مزاج کو بھی ملحوظ رکھیں۔اس وضاحت کے باوجوداس میں کوئی شک نہیں کہ ماہیے کا غالب موضوع محبت ہی ہے۔اس لحاظ سے ماہیے کو غزل کا ہم مزاج کہہ سکتے ہیں کہ غزل کا غالب موضوع بھی محبت ہے جبکہ غزل میں بھی سارے موضوع برتے جا سکتے ہیں۔ سو ماہیے میں بھی ایسا کیا جاسکتا ہے‘ بس برتاؤکا سلیقہ آنا چاہئے۔
سوال: انوار فیروز کے نام ایک خط میں آپ نے ماہیے سے ملتی جلتی ایک جرمن لوک صنف کا ذکر کیا تھا اس میں اور ماہیے میں کیا مماثلتیں ہیں؟
جواب:میں ”کوہسار“بھاگلپور میں چھپنے والے اپنے مضمون”مزید۔۔۔کچھ ماہیے کے بارے میں“اس کا ذکر کرچکا ہوں۔یورپ بھر میں کارنیوال کا جو جشن منایا جاتا ہے اس میں صرف جرمنی میں”Bütten reden“ضرور ہوتی ہے۔مجھے اس کا علم ارشاد ہاشمی صاحب چیف ایڈیٹر ”اردو دنیا“کے ذریعے ہواتھا۔اس شاعری کی کھوج لگائی تو پتہ چلا کہ اس میں مصرعوں کی تعداد مختلف ہوتی رہتی ہے تاہم جوBüttسہ مصرعی یا ڈیڑھ مصرعی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر ماہیے سے مشابہت رکھتے ہیں۔کارنیوال کے موقعہ پر پڑھی جانے والی یہ شاعری صرف اور صرف طنزو مزاح پر مشتمل ہوتی ہے۔اسے حسنِ اتفاق کہئے کہ پنجابی ماہیے میں بھی طنزیہ اور مزاحیہ ماہیوں کا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔میں اس مشابہت پرکام کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی جاب کی مصروفیت‘گھریلو ذمہ داریاں اور پہلے سے موجود ادبی ذمہ داریاں اس کی مہلت ہی نہیں دے رہیں۔یہاں ایکBüttترجمہ کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ترجمہ ارشاد ہاشمی نے کیا ہے:
Burgermeister ist sehr schlau ۔۔۔۔۔۔۔افسر وہ سیانا ہے
Wen viel zu tun ist ۔۔۔۔۔۔۔۔کام کا زور ہو تو ّMacht er oft Blau ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کر لیتا بہانہ ہے
ارشاد ہاشمی نے جرمن زبان میں ایک ماہیا کہا ہے۔اسے جرمن میں پہلا ماہیا کہا جاسکتاہے لیکن جرمن احباب اسے پڑھ کر شایدBüttقرار دیں:
Es gibt nicht zu lachen
Ausländer Kommen
Hier muß sauber machen
سوال: ماہیے پر آپ کی اگلی کتاب کونسی آرہی ہے؟
جواب:میں نے ”ماہیا۔۔۔علمی بحث سے غوغائے رقیباں تک“کا بیشتر کام مکمل کر لیا ہے۔لیکن اسے چھپوانے میں مجھے ابھی تھوڑا تامل ہے۔مجھے ہلکا سا احساس ہے کہ شاید میری مخالفت میں ظلم کی حد تک چلے جانے والے دوستوں کو کسی مرحلے پر اپنی زیادتی کا احساس ہو جائے۔اس کے تھوڑے سے آثار ایک دو طرف سے دکھائی بھی دئیے ہیں۔سو اگر متعلقہ دوست سکوت اختیار کرتے ہیں تو میں اس کتاب کی اشاعت ہی روک دوں گا تاکہ جو ہو چکا اس پر مٹی ڈال دی جائے۔لیکن اگر یہ صرف ایک دھوکا ہوا تو پھر مجھے مجبوراً وہ سارا ریکارڈ کتابی صورت میں محفوظ کرنا ہوگا۔سرِ دست میںماہیے کے حوالے سے اپنی تین کتابیں ترتیب دے رہا ہوں۔۱۔ماہیوں کا دوسرا مجموعہ۲۔”اردو ماہیے کی تحریک“کی اشاعت کے بعد کے مطبوعہ مضامین۔اس میں ”غوغائے رقیباں“والا میٹر نہیں ہوگا۔۳۔ماہیے کے جن مجموعوں کے لئے مجھ سے پیش لفظ یا تاثرات لکھوائے گئے ان کا مجموعہ۔تاہم اس میں صرف وہی میٹر شامل کروں گا جومطبوعہ کتب میں چھپ چکے ہیں۔لہٰذا جن احباب نے مجھ سے تاثرات لکھوائے ہیں لیکن ابھی تک اپنے مجموعے نہیں چھپوائے وہ اپنے مجموعے جلد چھپوالیں۔
سوال:آپ نے غزل بھی کہی‘نظم بھی۔افسانہ بھی لکھا‘انشائیہ اور خاکہ بھی۔تحقیق بھی کی اور تنقید بھی اور ان سب پر مستزاد کہ ماہیے پر تخلیقی‘تنقیدی اور تحقیقی تینوں سطح پر کام کیا۔اتنی اصناف میں آپ اپنی شناخت کسے سمجھتے ہیں؟
جواب: میرا خیال ہے کہ میری شناخت اگر کبھی بنے گی تو میرے سارے کام کے تناظر میں بنے گی۔ایک بات واضح کردوں کہ اگر کوئی کمزور تخلیق کار کئی اصناف میں کام کرے گا تو اس کا ضعف بڑھے گالیکن اگر کوئی اچھا تخلیق کار کئی اصناف میں اظہارکرے گا تو اس کا ایک کم ازکم معیار ہر صنف میں دکھائی دے گا۔میں ریاکاری کی انکساری سے کام نہیں لوں گا۔مجھے اتنا علم ہے کہ اگر آنے والے وقت میں ادب کی کوئی اہمیت اور قدرو قیمت رہی تو میرے کام کے بارے میں ‘میری ادبی شناخت کے بارے میں آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا۔وہ وقت جس میں ‘۔۔ ۔ ۔ میں‘ ۔ ۔ ۔ ۔آپ ‘۔۔۔۔میرے موجودہ مخالفین ۔۔۔۔اور موجودہ دوستوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہوگا۔تب جو بھی فیصلہ ہوگا درست فیصلہ ہوگا!
٭٭٭