(لوک گیت سے ادبی صنف تک)
پلوشہ مومند (پشاور) حیدر قریشی(جرمنی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام حیدر صاحب!
سب سے اول تو معذرت قبول کیجئے ،میری گزشتہ میل آپ کے لئے زحمت کا باعث ہوئی تھی۔اس پہ میں شرمندہ ہوں۔اردو ادب کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھے یقیناً اردو میں ہی بات کرنی چاہئے تھی۔اس میل میں میں نے جو بات کی تھی اس کا خلاصہ یہ ہے۔
۱۔ گو ماہیے کی تیکنیکی باریکیوں سے میں واقف نہیں لیکن اس کے بارے میں میرا گمان یہ ہے لوک ادب کی ایک صنف ہے اور لوک ادب میرے مشاہدے کے مطابق ہر معاشرے میں ہم عصر ادب سے الگ حیثیت رکھتا ہے۔لوک ادب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کا مصنف ہونے کا دعویٰ کوئی نہیں کرتا بلکہ جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے اسے ساری کمیونٹی کا مشترکہ اثاثہ اورمشترکہ میراث سمجھا جاتا ہے۔اس ضمن میں ،میں نے پشتو کی لوک شاعری کی اصناف کی مثالیں دیں تھیں کہ ان میں شاعری ہو تو رہی ہے لیکن ان کی آتھر شپ کلیم نہیں کی جاتی۔ کیونکہ یہی لوک لٹریچر کی اصل سپرٹ ہے۔
۲۔اردو ادب میں لوک شاعری کی کوئی روایت موجود نہیں ،اس لئے اردو شاعری میں ایک صنف کی حیثیت سے ماہیے کا تعارف کچھ آرٹیفیشل سی بات لگتی ہے۔
۳۔ ماہیا شاید پنجابی لوک شاعری کی صنف ہے اس لئے اس کی خوبصورتی اور نزاکتوں کا احساس وہی لوگ زیادہ کر سکتے ہیں جن کی مادری زبان پنجابی ہے۔ایک پختون کی حیثیت میں ،میں ان لوگوں کے احساسات کا احترام تو کر سکتی ہوں لیکن ماہیے کے ساتھ وہ وابستگی محسوس نہیں کر سکتی جو ان کو ہے۔آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔اﷲ حافظ
پلوشہ
28ستمبر ۲۰۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ بی بی
سلام مسنون
آپ کی رومن اردو میں لکھی ای میل ملی۔شکریہ
۱۔آپ کی بات اصولاً درست ہے کہ لوک گیت پورے معاشرے کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں اور ان پر کسی کی ا نفرادی تصنیف کا لیبل نہیں ہوتا۔یہ بھی درست ہے کہ لوک گیت اپنے معاشرے کے مزاج کے عکاس اور ترجمان ہوتے ہیں۔تاہم کسی لوک سرمائے کاتدریجی سفر کرتے ہوئے لوک روایت سے ادبی روایت میں ڈھلنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔اس کے لئے متعدد مثالیں مل سکتی ہیں۔اس وقت جو مثالیں بالکل سامنے ہیں ان میں سب سے پہلے ہندی دوہا کو لے لیجئے۔یہ ہندی کا لوک گیت تھا۔اس کی غنائیت کے جادو نے ممتاز شعراءکو اپنا اسیر بنایا تو دوہا ادبی صنف کے طور پر لکھا جانے لگا۔ہندی سے یہ اردو میں بھی آیا۔اگرچہ اردو میں بعض دوستوں نے کچھ بے خبری کے باعث اور کچھ بسرام پر گرفت کی مہارت نہ ہو پانے کے باعث ہم وزن اشعار کو (یا دو پدوں کو)دوہے کے نام سے لکھا ہے تاہم اس میں شک نہیں کہ ہندی کا یہ لوک گیت اردو میں اپنے اصل چھندوں کے مطابق بہت خوبصورتی سے لکھا گیا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔یہ بر صغیر کے اندر کی بالکل سامنے کی مثال ہے کہ لوک گیت ادبی صنف بن گیا ہے۔بلکہ ابھی مجھے خیال آیا ہے کہ برصغیر کے ہندی گیت بھی تو اصلاً لوک گیت ہی تھے۔صدیوں پہلے یہ صرف گائی جانے والی لوک شاعری تھی اور اس کے شعراءکا کوئی تعین نہ تھا۔آریائی اور دراوڑی تہذیبوں کے ٹکراؤاور ملاپ سے جنم لینے والی یہ لوک شاعری برصغیر کی شاعری کی ابتدا تھی۔ پھر اسی بے نام حوالے سے نام والے حوالے سامنے آنے لگے۔ہندی اور اردو گیت نگاروں کی ایک طویل فہرست بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ماہیا جو پنجاب کی لوک شاعری تھی ایک عرصہ تک گایا جاتا رہا۔فلمی شاعری نے آ کر جب اس لوک گیت سے استفادہ کیا تو ایک طرح سے لوک شاعری اور ادب کے درمیان رابطے کا کام کردیا۔ ایسا کسی ادبی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا۔
۱۹۳۶ءمیں ساڑھے سولہ سال کے ایک لڑکے(ہمت رائے شرما) نے اپنے شہرامرتسر کے ایک ناکام عاشق کے پنجابی ماہیے گانے سے متاثر ہو کر فلم خاموشی کے لئے اردو میں اسی طرز کو استعمال کرتے ہوئے ماہیے لکھ دئیے۔پھر ایک لمبے وقفہ کے بعد قمر جلال آبادی،ساحرلدھیانوی اور قتیل شفائی نے بھی اردو فلمی گیتوں میں جان ڈالنے کے لئے ماہیے سے استفادہ کیا ۔فلم سے ہٹ کراردوادب میں اس کے تجربے وقفے وقفے سے ہوئے ۔اور دوہے کی طرح یہاں بھی یار لوگوں نے لوک روایت پر غور کئے بغیر اسے برابر مصرعوں میں بانٹ کر ”ماہیوں“ کے ڈھیر لگانے شروع کر دئیے۔میں نے اور میرے دوستوں نے صرف یہ اصرار کیا ہے کہ اگر یہ لوک شاعری اردو میں جڑیں پکڑ رہی ہے تو اس کی لوک روایت کو برقرار رکھنا چاہئے۔یہاں ایک اور وضاحت بھی کرتا چلوں کہ اردو کے ساتھ ساتھ بہت سے شعراءکرام ایک عرصہ سے پنجابی میں ماہیے کہہ رہے ہیں۔پنجابی کے ادبی رسالوں میں ایسے شعرا کے ماہیے میں اپنے بچپن سے پڑھتا آرہا ہوں۔
۲۔ بے شک اپنی محدود عمر کے حساب سے اردو زبان کی اپنی لوک روایت نہیں ہے،لیکن اردو زبان نے جن زبانوں کی آمیزش سے جنم لیا ہے ان کی لوک روایات پر بھی اس کا اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا ان کی لفظیات پر حق بن چکا ہے ۔ جب عربی اور فارسی سے غزل،اور دوسری شعری اصناف لی جا سکتی ہیں،ہندی سے دوہا اور ہندی گیت لئے جا سکتے ہیں تو اس لحاظ سے پنجابی سے اردونے جتنا لسانی استفادہ کیا ہے اس کے عین مطابق ماہیے سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔کیا خیال ہے؟
۳۔بے شک ماہیے کے مزاج کو پنجابی حضرات زیادہ بہتر طور پرپیش کر سکتے ہیں لیکن جب کوئی ادبی تجربہ آگے بڑھتا ہے تو اپنی روایت میں رہتے ہوئے اس میں بہت سے نئے تجربات بھی ہوتے ہیں۔ان تجربات میں کہیں کچھ”غلط سا“ بھی سر زد ہو سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر اگر اس کے اثرات ادب کے لئے مفید ثابت ہوں تو پھر اس کی ادبی حیثیت خودبخود مستحکم ہوتی جائے گی۔میں نے اپنے بعض مضامین میں مثالیں دے کر بتایا ہے کہ پنجاب کے بعض شعراء اپنے زعمِ پنجابیت میں کیسے کیسے کمزور اور بے رس ماہیے کہہ رہے ہیں اور ان کے مقابلہ میں مہاراشٹر ، بنگال، راجستھان اور بہار کے صوبوں کے شعراءکے ماہیوں میں ماہیے کا بنیادی مزاج نسبتاً زیادہ عمدگی سے آگیا ہے۔یہ سارے حوالے میرے مضامین میں چھپ چکے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ ۱۹۹۲ءسے اب تک بمشکل گیارہ سال کے عرصہ میں اردو ماہیا کو تین سو شعراءنے تخلیقی طور پر آزمایا ہے۔یہ کوئی معمولی پیش رفت نہیں ہے۔ایسا محض پروپیگنڈے کے زور پر نہیں ہوتا بلکہ کسی زبان میں کسی صنف کی داخلی طلب ہی اس حد تک لاتی ہے۔میرا خیال ہے کہ مختصر شعری اصناف کے جتنے نئے تجربے گزشتہ پچاس سال کے دوران اردو میں ہوئے ہیں، اردو ماہیا اپنی متعدد خصوصیات کی بنا پر ان سارے تجربوں میں سب سے کم عمر ہو کر بھی سب سے زیادہ مقبول ہوا ہے۔پنجابی ماہیے کی جس خوبصورتی اور نزاکت کا آپ نے حوالہ دیا ہے ،میرے مضمون ”ماہیے کا جواز“ میں شامل میرے ماہیوں کو اسی زاویے سے پڑھئے۔۔۔خدا کرے انہیں پڑھ کر آپ کا دل پسیج جائے۔
بہر حال آپ کے خط نے مجھے لوک اصناف اور ادبی اصناف کے درمیان فرق کے حوالے سے اور ان میں باہمی تعلق کے حوالے سے سوچنے کا موقعہ دیا ہے ۔ابھی تک کی سوچ یہاں تک لائی ہے۔میں اب غزل کے عربی دور کی بھی کچھ معلومات حاصل کرتا ہوں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ عربی غزل ایک زمانے میں ’اورل‘ رہی ہے۔زبانی کلامی بولیں تو لوک کے قریب ہو جاتے ہیں لیکن خیر یہ بعد کی باتیں ہیں۔فی الوقت آپ کے سوال کے تین پہلوؤں کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کردیا ہے۔اب مزے کی بات تب ہے کہ آپ ماہیے کہنا شروع کر دیں۔ریحانہ صاحبہ کا شکریہ مجھ پر دہرے طور پر واجب ہو گیا ہے ۔۔ایک تو اس لئے کہ انہوں نے ”جدید ادب“کی اشاعت کے خواب کو سچ کر دکھایا اور دوسرے اب اس لئے کہ ان کے توسط سے آپ کے ذریعے ماہیے کی بحث میںایک سنجیدہ اور علمی نکتہ سامنے آیا اور مجھے اس پر غور کرنے کا نہ صرف موقعہ ملا بلکہ مزید تحقیق کا شوق بھی پیدا ہو گیا۔چونکہ وہ میرے شکریہ کہنے پر مائنڈ کرتی ہیںسو ان کا بھی شکریہ اور آپ کا بھی شکریہ،دونوں شکریے آپ کو پہنچیں۔ اﷲ آپ دونوں کو خوش رکھے۔ والسلام نیک تمناؤں کے ساتھ
حیدر قریشی
۲۸ستمبر ۲۰۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام حیدر صاحب آپ فوک اور نان فوک لٹریچر کے باہمی تعلق کے بارے میں تحقیق شروع کرکے یقیناً ایک بڑا کام کریں گے۔میری طرف سے اس سلسلے میں پیشگی شکریہ قبول کیجئے۔آپ کے خط میں ایک دو جملے ایسے تھے جن سے مجھے گمان گزرا کہ گویا آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ماہیے کی صنفی حیثیت سے مجھے اختلاف ہے۔ایسا نہیں ہے۔میں صرف یہ نہیں سمجھ پا رہی کہ فوک لٹریچر کی ایکgenre نان فوکcontemporary لٹریچر میںauthership claims کے ساتھ کس طرح شامل ہو سکتی ہے۔آپ نے ہندی دوہے اور فلموں میں پنجابی ماہیے سے استفادے کی بات لکھی ہے۔میرے ذہن میں اس سے یہ سوال اٹھے ہیں۔
۱۔لفظیات اور صوتیات کے حوالے سے اردو ہندی سے زیادہ قربت رکھتی ہے یا پنجابی سے؟
۲۔اصناف سخن میں اپنی ساخت کے حوالے سے غزل، اور اقسام کے تنوع کے اعتبار سے نظم کو جو حیثیت حاصل ہے اس کو دیکھتے ہوئے لوک شاعری کیprimitive قسم کی اصناف کاcontemporary literature میں متعارف کرواناکس حد تک درست ہے؟۔”ماہیے کے جواز“میں آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ کسی بھی ادبی صنف کا آغاز کسی پلاننگ کے ساتھ نہیں ہوتا۔اس سے مجھے صد فیصد اتفاق ہے۔لیکن یہ معاملہ کسی نئی صنف کے آغاز کا نہیں بلکہ ادب کی ایک قسم کی صنف کوادب کی دوسری قسم میں بطور صنف متعارف کرانے کا ہے۔قصیدے سے غزل کے الگ ہونے اور داستانوں کی روایت کی موجودگی میں ناول اور افسانوں کے لکھے جانے کی مثال آپ نے دی ہے۔اس سلسلے میں بھی میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کہ غزل کے الگ ہوجانے اور ناول اور افسانے لکھنا شروع ہونے کے بعد قصیدوں اور داستانوں کو زیادہ اہمیت ملی یا پھر ان نئی اصناف کو؟ اگر نئی اصناف کو زیادہ اہمیت ملی تو اس کی وجہ کیا تھی؟کیا ایسا نہیں کہ یہ نئی اصنافintellectuallyزیادہ ترقی پانے والے ذہن سے مطابقت رکھتی ہیں؟آپ کے خیال میں غزل اور نظم کی موجودگی میں ماہیے کی کیا حیثیت ہے؟ اور کتنے فیصدintellectually developed اذہان کے لئے یہ قابلِ قبول ہے؟
۳۔جہاں تک فلمز کا تعلق ہے تو دنیا کے جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں کے مشاہدے کے مطابق تو میری رائے یہی ہے کہ یہاں فلم بین طبقہ دراصل انہیں لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کو فوک لورزیادہ اپیل کرتا ہے۔اسی لئے اگر ساحر جیسے بڑے شعراءان کے لئے بننے والی اردو فلمز میں ان کی لوک شاعری کی کسی صنف کو استعمال کرتے ہیں تو یہ یقیناً معاشرے کے ایک حصے کی ذہنیت کو ان کے بخوبی سمجھ لینے کی دلیل ہے۔فلمی شاعری کے تقاضے الگ ہوتے ہیں۔اس بات کا علم آپ کو بھی بخوبی ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا قتیل کی بجائے میر،غالب اور اقبال کی شاعری فلم میں زیادہ استعمال ہوتی۔کیا آپ فلمی شاعری کو غیر فلمی شاعری کے ساتھ یکساں درجے کا سمجھتے ہیں؟
ایک اور سوال میں صرف اپنی معلومات کے لئے کرنا چاہ رہی ہوں اور وہ یہ کہ پنجابی زبان میں غزل گوئی کا آغاز کب ہوا ہے اور سب سے بڑا غزل گو شاعر کسے مانا جاتا ہے؟ آپ کے جواب کی منتظر رہوں گی۔
پلوشہ
۶اکتوبر ۲۰۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ بی بی سلام مسنون
آپ کے خط کا جواب خاصی تاخیر سے دے رہا ہوں۔ای میلز سے آپ کو میری مجبوریوں اور مصروفیات کا اندازہ ہو چکا ہے اس لئے ان کا ذکر یہاں کرنا مناسب نہیں ہے۔آپ اس تاخیر کی اجازت دے چکی ہیں۔لہٰذا بغیر کسی رسمی تمہید کے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ ایک بنیادی اور اصل سوال کے جواب کے اندر سے محض مزید سوال اٹھاتے چلے جانے سے بات نہیں بنے گی جب تک پہلے سوال کو کسی نتیجے تک نہ پہنچا دیا جائے۔آپ کا بنیادی سوال یہ تھا کہ لوک شاعری کا کوئی مصنف نہیں ہوتا،یہ پورے معاشرے کی ترجمانی کرتی ہے ۔اس لئے کوئی لوک شاعری کیونکر ادبی صنف بن سکتی ہے کہ اس میں تو باقاعدہ مصنف ہوتا ہے۔میں نے اس سلسلے میں ہندی دوہا،ہندی گیت دو اہم مثالیں دی ہیں کہ یہ قدیم ہندوستان کے لوک گیت تھے اور اب ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے ادب کا اہم حصہ ہیں۔دوہا اور گیت دونوں ادبی طور پر لکھے جا رہے ہیں اور ان کے شعراءکی ایک طویل فہرست ہے۔اس لئے ہمیں پہلے یہیں رُک کر طے کرنا چاہئے کہ کیا لوک گیت کا ادبی صنف میں ڈھلنا روا ہے یا نہیں ہے؟یہ ایک اصولی بات طے ہو گی یا رد ہو گی۔رد ہونے کی صورت میں ہمیں اردو اور ہندی کے سارے ادبی دوہوں اور ادبی گیتوں سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا اور قبول ہوجانے کی صورت میں ماہیے کے ادبی صنف میں ڈھلنے کا ایک اورجواز سامنے آجائے گا۔لہٰذا پہلے اس نکتے پر رُکئے اور اسے واضح کیجئے کہ یہاں تک کیا طے ہوتا ہے۔ یہ آپ کا پیش کردہ بے حداہم اوربنیادی نکتہ ہے۔ تاہم اس بنیادی نکتے پر اصل توجہ مرکوزرکھنے پر اصرار کے ساتھ میں یہاں آپ کے اٹھائے گئے
نئے تین سوالات کے جواب میں بھی اپنی سوچ کے مطابق کچھ عرض کئے دیتا ہوں۔
۱۔ آپ نے لکھا ہے:” لفظیات اور صوتیات کے حوالے سے اردو ہندی سے زیادہ قربت رکھتی ہے یا پنجابی سے؟“آپ کے ذہن میں کیا بات ہے آپ کھل کر کہتیں تو میں زیادہ وضاحت کر سکتا تاہم جہاں تک میں اس حساب کتاب کی نوعیت سے اندازہ کر پایا ہوں اس کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ جو ہندی بہت زیادہ سنسکرت آمیز ہے اس کے مقابلہ میں اردو زبان ۔۔پنجابی اورسرائیکی سے زیادہ قریب ہے۔اس کی مثال کے لئے صرف ولی دکنی کے دور میں ہی چلے جائیں تو اس دور کی شاعری سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس پر پنجابی اور سرائیکی طرز کی مقامی زبانوں کا کتنا گہرا اثر تھا۔تاہم زبانوں کے معاملہ میں کوئی ایسا نسخہ بنانا مشکل ہے کہ اس میں فلاں زبان اتنے ماشہ ،فلاں زبان اتنے تولہ اور فلاں زبان اتنے گرام شامل ہے۔ سو مختلف اوقات میں ہندوستان کی مختلف مقامی زبانوں کے الفاظ اردونے اپنے اندر جذب کئے ہیں۔شیرانی صاحب کی تحقیق کے مطابق تو اردو کا مولد ہی پنجاب تھا۔تاہم یہ سب اضافی باتیں ہیں۔میرے نزدیک ان کا آپ کے بنیادی سوال سے کچھ اتنا زیادہ تعلق نہیں ہے۔تاوقتیکہ آپ اس کی خود وضاحت کردیں کہ اس کا یہ تعلق ہے۔
۲۔ آپ کے دوسرے سوال میں بیک وقت دو الگ الگ سوال ہیں۔ایک سوال یا اعتراض یہ کہ:
”ماہیے کے جواز“میں آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ کسی بھی ادبی صنف کا آغاز کسی پلاننگ کے ساتھ نہیں ہوتا۔اس سے مجھے صد فیصد اتفاق ہے۔لیکن یہ معاملہ کسی نئی صنف کے آغاز کا نہیں بلکہ ادب کی ایک قسم کی صنف کوادب کی دوسری قسم میں بطور صنف متعارف کرانے کا ہے۔“
جواباً عرض ہے کہ میرے مضمون ”ماہیے کا جواز“میں بات چل رہی تھی ان معترضین کی جو کہہ رہے تھے کہ ثلاثی اور ہائیکو وغیرہ سہ مصرعی اصناف کے ہوتے ہوئے ماہیے کا نیاتجربہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اور اسی تناظر میں ان کو جواب دیا جا رہا تھا۔آپ کے سوال کے جواب میں تو بہت ہی سیدھی سی اور آسان سی دو مثالیں دے دی ہیں ہندی دوہے اور ہندی گیت کی جو بڑی کامیابی کے ساتھ لوک شاعری سے ادبی شاعری میں ڈھل گئے۔
آپ کے دوسرے سوال کے اندر کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ داستانوں کے ہوتے ہوئے ناول اور افسانے، اور قصیدے کے ہوتے ہوئے غزل ابھری ۔غزل قصیدے سے اور ناول و افسانے داستانوں سے زیادہ مقبول ہو گئے۔۔۔سو وضاحتاً عرض ہے کہ غزل کے قصیدے سے الگ ہونے کے بعد بھی ایک عرصہ تک قصیدے کا بول بالا رہا۔غزل نے حضرت امیر خسرو کے دور سے سفر شروع کیااور صدیوں پر محیط ایک عرصہ تک قصیدے کے سامنے کسمپرسی کے عالم میں رہی۔یہ تو کئی صدیوں کے بعد غزل نے جا کر طاقت پکڑی تھی۔غزل کے مقبول ہوجانے کے بعد بھی قصیدے کی روایت تب تک مضبوطی کے ساتھ قائم رہی جب تک برصغیر میں بادشاہت رہی۔اس لئے قصیدے کے غائب ہونے میں بادشاہت اور شاہی دربار کے غائب ہونے کی وجہ شامل ہے۔اسی طرح داستان تو بجائے خود ایک افسانوی مجموعہ ہوتی تھی۔جو کئی افسانوں کو الگ الگ بیان کرتی تھی اور پھر سارے افسانوں کو گویا غزل کے اشعار کی طرح پرو لیتی تھی۔یعنی داستان میں بیان کی گئی کہانیاں اپنی الگ اکائی بھی رکھتی تھیں اور پوری داستان کی مالا میں پروئی ہوئی بھی تھیں ۔ داستانیں بھی درحقیقت لوک گیت کی طرح سنائی جانے والی چیزیں تھیں۔وقت بدلنے کے ساتھ اور مختلف سیاسی و سماجی صورتحال کے اثر انداز ہونے کے نتیجہ میں وہی کہانیوں کی صنف افسانوں کا چولہ پہن کر خالصتاً ادبی چیز بن گئی۔میرا خیال ہے کہ کسی بھی اچھی ادبی صنف کی کسی دوسری اچھی ادبی صنف سے کوئی دشمنی یا مقابلہ بازی نہیں ہوتی۔ہر ایک کا اپنا اپنا دائرۂکار ہوتا ہے۔اس لئے ماہیے کو کسی صنف کے مد مقابل لانے کا رویہ مناسب نہیں ہے۔اگر اس بنیاد پر بات کی جاتی تو غزل کو اپنی ابتدائی دو تین صدیوں کے بعد ہی مرجانا چاہئے تھا کیونکہ دو تین صدیوں تک تو وہ قصیدے کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں سمجھی جاتی تھی۔کسی شمار میں ہی نہیں تھی۔
تیسرے سوال میں آپ نے فلمی شاعری اور ادبی شاعری کے معیار اور فرق کا مسئلہ پیش کرتے ہوئے فلمی شاعری کو لوک شاعری سے قریب قراردیا ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ آپ نے میرے پہلے جواب پر توجہ نہیں کی۔میں نے لکھا تھا:
” ماہیا جو پنجاب کی لوک شاعری تھی ایک عرصہ تک گایا جاتا رہا۔فلمی شاعری نے آ کر جب اس لوک گیت سے استفادہ کیا تو ایک طرح سے لوک شاعری اور ادب کے درمیان رابطے کا کام کردیا۔ ایسا کسی ادبی منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوا۔“
میں نے فلمی شاعری کو لوک شاعری اور ادب کے درمیان رابطے کی کڑی کے طور پر پیش کیا تھا ۔میرے اس جملے پر آپ غور کریں تو آپ کو مزید وہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی جو آپ نے فلمی اور لوک شاعری کے حوالے سے لکھا ہے ۔ تاہم یہیں سے ہم پھر آپ کے اصل اور بنیادی سوال اور اس کے جواب کی طرف لوٹتے ہیں کہ کیا لوک گیت ادبی صنف میں ڈھل سکتا ہے؟اگر ایسا کسی مصنوعی طریقے سے نہیں بلکہ فطری انداز میں ہورہا ہے تو ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے ،اب بھی ہو سکتا ہے اور آئندہ بھی ہو سکتا ہے۔
ابھی تک کی ساری گفتگو میں اٹھائے گئے آپ کے سوالوں کے جواب اپنی توفیق اور علم کے مطابق دے دئیے ہیں۔اب میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس کے بعد جو کچھ لکھنا چاہیں ،ایک خط اور سوالنامہ کی صورت میں نہیں بلکہ مضمون کی صورت میں لکھیں۔اس سے آپ کا نکتہ نظر بہتر طور پر کھل کرسامنے آسکے گا اور مجھے بھی آپ کے علمی نکات کو ان کے پورے تناظر میںسمجھنے میں آسانی ہوگی۔
پنجابی غزل کی ابتدا کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے۔اس کے بارے میں اس زمانے میں پڑھا تھا جب ایم اے پنجابی کرنے کا موڈ بنا تھا۔لیکن اب کچھ یاد نہیں ہے۔غزل کے شاعروں میں صوفی فقیر محمد فقیر کی غزل مجھے بہت اچھی لگی تھی۔ان کے بعض شعر آج بھی یاد ہیں۔
امید ہے آپ اپنی جستجو کے اس سفر کو اب بڑی سطح پر جاری رکھیں گی اور اس سلسلہ میں باقاعدہ مضمون لکھیں گی۔میں آپ کے مضمون کا خیر مقدم کروں گا اور اسے ”جدید ادب“ میں شائع کروں گا۔اﷲ آپ کو خوش رکھے۔ والسلام
دعا کے ساتھ
حیدر قریشی
۲۴اکتوبر ۲۰۰۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی، شمارہ جنوری ۲۰۰۴ء)