عارف فرہادراولپنڈی کے نوجوان اور فعال شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ماہیے کی تحقیق و تنقید کے سلسلہ میں بہت سے ضروری حوالہ جات کی فراہمی سے لے کر دیگرمعاون امور تک راولپنڈی سے مجھے اختر رضا سلیمی اور ڈاکٹر وسیم انجم کی طرف سے بہت سپورٹ ملتی رہی تھی۔ ان کی اس تائید اور مدد کے لیے آج بھی تہہ دل سے دونوں دوستوں کا شکر گزار ہوں۔ لیکن عارف فرہاد کی جانب سے میرا جو ساتھ دیا گیاوہ تخلیقی،تنقیدی اور تحقیقی تینوں زاویوں سے اتنا زیادہ اور اتنا اہم ہے کہ اس کے لیے شکریہ کا لفظ اپنے تمام تر اخلاص کے باوجود رسمی سا لفظ بن جائے گا۔
بحث کے عروج کے زمانہ میں عارف فرہاد نے دیوانہ وار کام کیا۔تخلیقی سطح پر مسلسل عمدہ ماہیے کہے۔تنقیدی مباحث کو نہ صرف غور سے دیکھا اور ان میں شرکت کی بلکہ مجھے مناسب مشورے بھی دیتے رہے۔اپنے طور پر کام بھی کرتے رہے۔ہمت رائے شرما جی کی زمانی اولیت کے مسئلہ پر بہت سارے دوسرے شواہد جمع ہو گئے تھے لیکن عارف فرہاد نے لاہور جا کر وہاں سے ایسا حوالہ تلاش کیا جو اس بحث میں ایک طرح سے فیصلہ کن کردار ادا کر گیا۔احمد سعید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری،ایم اے او کالج لاہور کی کتاب’مسلم انڈینز آف بائیو گرافیکل ڈکشنری‘
کے صفحہ نمبر ۳۲۷کا حوالہ سامنے لانا حقیقتاً عارف فرہاد کی محنت تھی جس نے مجھے اپنے تحقیقی کام میں بہت تقویت دی۔اس حوالے کے سلسلہ میں میرا مضمون”مرزا صاحب کے جواب میں‘ ‘دیکھا جا سکتا ہے۔یہاں صرف یہ کہنا مقصود تھا کہ عارف فرہاد نے خلوصِ دل اور سچی لگن کے ساتھ اس علمی و ادبی معاملہ میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔
اُس زمانہ میں ہمارے ایک مخالف کرم فرما نے اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر وسیم انجم کے تعلیمی سلسلہ کو مشکل میں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔عارف فرہاد کا پی ایچ ڈی کا پراجیکٹ تو بطور خاص شروع ہونے سے پہلے ہی ان کرم فرما کی زد میں آگیا۔جب مجھے معلوم ہوا کہ عارف فرہاد کا پی ایچ ڈی کرنا کھٹائی میں پڑ گیا ہے تودلی افسوس ہوا۔ابھی تک یہ سب کچھ حسابِ دوستاںدر دل والا معاملہ تھا لیکن اب عارف فرہاد کی تحقیق و تنقید کی کتاب”ماہیے کے خدو خال“پر لکھنے بیٹھا ہوں تو مجھے یہ ساری باتیں یاد آتی گئی ہیں۔اور ایمانداری کے ساتھ اپنی دلی کیفیت کو بیان کرتا گیا ہوں۔
”اردوماہیے کے خدوخال۲۰۰۱ءمیں شائع ہوئی تھی۔تب تک تحقیق و تنقید کے حوالے سے ماہیے پر میری تین کتابیں شائع ہو چکی تھیں۔دوسرے بہت سارے دوستوں نے ماہیے کی بحث کے مختلف پہلوؤں پر عمدہ مضامین لکھے تھے،ان میں سے بعض سطحی نوعیت کے اور غیر ضروری بھی تھے لیکن بہت سارے معیاری اور علمی بحث کو آگے بڑھانے والے تھے۔تاہم ایسا سارا کام بکھری ہوئی صورت میں تھا۔عارف فرہاد کی کتاب ”اردوماہیے کے خدو خال“اس لحاظ سے کسی دوست کی پہلی کتاب تھی جس میں نہ صرف ماہیے کے خدو خال کو اجاگر کیا گیا بلکہ اس سلسلہ میں ہونے والی تب تک کی ساری بکھری ہوئی بحث کو یکجا کر دیا گیا۔
”چند اہم باتیں“کے زیر عنوان کتاب کا ابتدائیہ تحریر کرکے عارف فرہاد نے سلیقے کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا ہے۔اس کے بعد کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔باب اول میں ماہیا اور اس کی ابتدا،ماہیے کا مزاج،ماہیے کی عروضی اشکال اور ماہیے کی تقطیع کے عروضی قواعد کے عناوین کے تحت عارف فرہاد نے اپنے موقف کوعمدہ پیرائے میں بیان کیا ہے۔باب دوم میں ”ماہنامہ اوراق میں ماہیے کے فروغ پر ہونے والی ارتقائی بحث “اور” ماہنامہ اوراق میں شائع ہونے والے ماہیے “کے تحت تفصیل درج کی گئی ہے۔یہاں عارف فرہاد نے کج بحثی کرنے والوں کو نہ صرف اچھی طرح علمی گرفت میں لیا ہے بلکہ ماہیے کے خدو خال کوعمدہ طریقے سے مزید واضح کر دیا ہے۔
باب سوم میں” ماہیے کے حوالے سے چند اہم خطوط “کے زیر عنوان احمد ندیم قاسمی کا ایک خط اور میرے ۹۱خطوط کو شامل کیا ہے۔اپنے ان سارے خطوط کو پڑھتے ہوئے مجھے وہ زمانہ ایک بار پھر یاد آگیا جب ماہیے کی بحث میں مجھے اور میرے دوستوں کوکئی اطراف سے الجھایا جا رہا تھا۔تب ہی میںنے اپنی کتاب”ماہیا۔۔۔علمی بحث سے غوغائے رقیباں تک“ترتیب دینا شروع کر دی تھی کیونکہ دوسرے فریق نے محض طاقت کے بل پر ہر طرح کا جھوٹ پھیلانا شروع کر دیا تھا۔تب میں”۔۔۔غوغائے رقیباں“والی کتاب کے لیے ایسی ساری کاروائیوں کی روداد پورے شواہد کے ساتھ جمع کر رہا تھا۔میرے ۹۱خطوط میں سے مکتوب نمبر ۱۵محررہ ۱۴مئی ۱۹۹۸ءمیں ایک خامی راہ پا گئی ہے۔کتاب کے صفحہ نمبر ۱۳۱پر یہ جملہ درج ہے”احمدیوں سے میرا یہاں مکمل سوشل بائیکاٹ ہے“۔میں سو فی صد یقین کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ میری کسی تحریر میں ایسا لکھا ہوا نہیں ملے گا۔میری دانست میں یہ جملہ یوں ہو گا:
”احمدیوں کی طرف سے میرا یہاں مکمل سوشل بائیکاٹ ہے“۔
ہو سکتا ہے ۔۔”کی طرف“ کے الفاظ کتابت ہونے سے رہ گئے ہوں۔اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ کسی کے ساتھ محض اس سے اختلافِ عقیدہ کے باعث نفرت کرنایااس کا سوشل بائیکاٹ کرنا میری فطرت کے خلاف ہے۔میرے ہم مسلک ہوں یا غیر مسلک کے لوگ ہوں جو بھی اختلافِ عقیدہ کی بنا پر کسی کا سوشل بائیکاٹ کرتا ہے، در حقیقت اپنی علمی شکست کا اعتراف کرتا ہے۔یہ اصول کسی ایک کے لیے نہیں ہر ایک کے لیے ہے۔
ایک گمان یہ بھی ہے کہ چونکہ اس زمانہ میں بشیر سیفی نے علمی طور پر لاجواب بلکہ شرمندہ ہونے کے بعد آخری حربہ کے طور پر اپنے کسی شاگرد یامسعود اخترکے فرضی نام سے ایک مضمون چھپوایاتھا کہ ماہیے کی یہ بحث کافروں کی سازش ہے۔اس لیے عارف فرہاد نے مقامی طور پر اس کے ردِ عمل سے بچنے کے لیے میرے خط کو اس رنگ میں چھاپ دیا ہو، تاکہ مخالفت کا اثر زائل کیا جا سکے۔ مسعوداختر نامی کسی فرد کے اس الزام کے جواب میں تب ہی میں نے اپنا جواب بہ عنوان ”جوابِ آں غزل“ نوائے وقت راولپنڈی کے ادبی صفحہ پر چھپوایا تھا اور میرے جواب سے بھی زیادہ شاندار جواب اختر رضا سلیمی نے اپنے اخبار ہوٹل ٹائمز میںخود لکھ کر شائع کیا تھا۔(یہ میٹر بھی میں نے ”۔۔۔غوغائے رقیباں “والی کتاب میں سنبھال لیا تھا۔)
یہ ساری وضاحت اس لیے کرنا پڑی کہ میری نسبت کبھی بھی ایسا گمان نہیں کیا جانا چاہیے کہ میں کسی سے اختلافِ عقیدہ کی بنا پر نفرت کرتاہوں اور پھر اس میں اس حد تک جا سکتا ہوں کہ نعوذ باللہ دوسروں کا سوشل بائیکاٹ کرسکتا ہوں۔میں تو خود زندگی بھر اپنوں اور پرایوں سب کی ایسی نفرتوں کا شکار رہا ہوں۔میں ایسے اقدام کا مرتکب کیسے ہو سکتا ہوں۔
ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے
ہمیں معلوم ہے افسانۂگل
باقی ادبی مباحث میں کسی کے مذہبی عقائد سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔دلیل کا جواب دلیل سے دیا جانا چاہیے،جھوٹے اور اشتعال انگیز بیانات سے نہیں۔بہر حال تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔لیکن ان باتوں کا ماہیے کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
عارف فرہاد نے اپنی کتاب ”اردوماہیے کے خدو خال“کے باب چہارم میں تین ماہیا نگاروں کی ماہیانگاری کا خصوصی مطالعہ پیش کیا ہے۔حیدر قریشی،زُہیر کنجاہی اور مسعود ہاشمی۔اس سلسلہ میں بعض نسبتاً زیادہ بہتر ماہیا نگاروں کو بھی اس خصوصی مطالعہ میں شامل کر لیا جاتا تو یہ باب زیادہ اچھا ہو جاتا۔محض مذکورہ تین ناموں سے خصوصی مطالعہ کا حق ادا نہیں ہوا۔
کتاب کے باب پنجم میں عارف فرہاد نے ماہیے کا ایک اچھا انتخاب پیش کیا ہے۔اس میں ۱۵۵کے لگ بھگ ماہیا نگاروں کے ماہیوں کا انتخاب شامل کیا گیا ہے۔
میرے لیے تو ماہیے کی بحث میں علمی و ادبی محبت کے ساتھ شریک ہونا ہی بہت بڑا ساتھ تھا،عارف فرہاد نے نہ صرف بحث میں بھرپور شرکت کی،بلکہ اس بحث میں میرے لکھے کو عزت دی اور اس سب کچھ کے ساتھ کتاب کا انتساب بھی بڑی محبت کے ساتھ میرے نام کر دیا۔
اردو ماہیا کی تحقیق و تنقید کے سلسلہ میں عارف فرہاد کی کتاب”اردو ماہیے کے خدو خال“
ابتدائی قابلِ ذکر،اہم اور بنیادی کتابوں میں شامل رہے گی۔
عارف فرہاد کو ان کی اس محنت پر داد اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭