سہ ماہی”مژگاں “ کلکتہ کے شمارہ جنوری تا مارچ۲۰۰۰ء میں ” کھلی ادبی بحث“ کے تحت پرویز اختر کے جو تاثرات شائع ہوئے ہیں مجھے ان کے حوالے سے جواباً کچھ عرض کرنا ہے۔انہوں نے ماہیے کی اب تک کی بحث کا پورا مطالعہ کیا ہوتا تو ماہیے کے جواز کا سوال نہ اٹھاتے بلکہ اس سلسلے میں میری وضاحت سے بات آگے بڑھاتے۔دو ماہی”گلبن“احمد آباد کے ماہیا نمبر میں میرا مضمون ”ماہیے کی کہانی“ شائع ہوا تھا ۔اس میں ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کے تین سوالات کے جواب بھی دئیے گئے تھے ۔ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا”ماہیا سے پہلے اردو میں ہائیکو،ثلاثی اور بعض دیگر سہ مصرعی اصناف موجود ہیں۔ان کے ہوتے ہوئے ماہیا کی ضرورت کیوں پیش آئی؟“اسی بات کو پرویز اختر نے اپنے تاثرات میں گھما پھرا کر دہرایا ہے۔سو اس کے جواب میں اپنے مضمون کا وہی حصہ یہاں دہرا دیتا ہوںجو دو سال پہلے ”گلبن“ کے ماہیا نمبر میں چھپ چکا ہے۔
”میرے خیال میں کسی ادبی صنف کا آغاز کبھی بھی کسی پلاننگ کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔غزل قصیدے سے الگ کیوں ہوئی؟بّرِ صغیر میں داستانوں کی عظیم روایات کے ہوتے ہوئے ہمیں ناول اور افسانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ایسے سوال تو شاید ہر ادبی صنف کے بارے میں کئے جاسکتے ہیںجبکہ حقیقتاً ہر صنف خودرو پودوں کی طرح اپنی زمین اور اپنی زبان سے خودبخود اُگ آتی ہے۔جو تجربے دوسری زبانوں سے آتے ہیں وہ بھی جب تک نئی زبان اور کلچرکے اندر تک اتر کر اپنی جڑیں مضبوط نہ کر لیں تب تک برگ و بار نہیں لا سکتے۔اس لئے ماہیے کے بارے میں کسی”نظریہءضرورت“کی تلاش مناسب نہیں ہے ۔ہاں امکانات پر ضرور غور کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ بھی ایک امکانی بات ہے کہ ہائیکو اور ثلاثی کے تجربات اردو میں کسی سہ مصرعی صنف کی داخلی جستجو رہے ہوں لیکن ہائیکواور ثلاثی ثقافتی سطح پر اردو میں جُڑ نہیں پا رہے ہوں،تب ماہیے نے چُپکے سے اپنے ادبی اور ثقافتی وجود کا اظہار کر دیا ہو۔ممکن ہے پنجابی اور اردو کی لسانی قربت اور بّرِ صغیر کے ایک بڑے علاقے میں اپنی ثقافتی جَڑیں ہونے کے باعث ماہیادوسری تمام سہ مصرعی اصناف کے مقابلے میںکہیں زیادہ زرخیز ثابت ہو“
پرویز اختر نے ایک طنز یہ فرما دیا ہے کہ ”محض موجد بننا۔۔۔!!یہ تخلیق کا زوال ہے نہ کہ کمال!کیا تخلیق کار کا مقصد یہ ہے کہ وہ محض موجد بن کر رہ جائے؟“
ماہیے کا موجد ہونے کا کسی کا بھی دعویٰ نہیں ہے۔اردو میں اس کا اوّلین نقش ہمت رائے شرما کے ہاں ملتا ہے اور ۱۹۳۶ءمیں ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ فلم ”خاموشی‘ ‘کیلئے لکھے جانے والے ان کے یہ ماہیے کبھی انہیں اردو ماہیے کا بانی بنا دیں گے۔ہاں جو لوگ بھی اس نئی صنف کے فروغ میں دلچسپی لے رہے ہیں اور حاسدوں ،بد خواہوں کی مخالفانہ ملامت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ،ان کی ماہیے کے لئے خدمات تو بہر حال ادب کی تاریخ میں رہیں گی۔
موصوف کبھی تو یہ کہتے ہیں کہ ثلاثی میں جو بات کہی جاسکتی ہے اسے ماہیے میں کیوں کہا جائے اور کبھی اس بات پر برہم ہونے لگتے ہیں کہ جب بات غزل کے دو مصرعوں میں مکمل ہو سکتی ہے تو تین مصرعوں کی کیا ضرورت ہے؟(تین مصرعوں کا اعتراض بھی صرف ماہیے پر ہے۔ثلاثی یا ہائیکو یا کسی اور سہ مصرعی صنف پر نہیں ہے۔)۔
یہاں پھر اپنی ۱۹۳۹ءکی ایک تحریر دہرا دیتا ہوں تاکہ یہ بھی واضح ہو سکے کہ یا تو ہمارے معترضین کا مطالعہ کچا پکا اور ادھورا ہے اور یا وہ جان بوجھ کر ایک وقفہ کے بعد پرانے اعتراض دہرانے لگے ہیں۔موصوف صرف غزل کے حوالے سے اعتراض کر رہے ہیں میں نے غزل سمیت نظم اور گیت کے حوالے سے بات کی تھی۔
”اردو شاعری کی تین بڑی روایات گیت،غزل اور نظم مجھے ماہیے میں یکجا ہوتی دکھائی دے
رہی ہیں۔ماہیا بنیادی طور پر ایک چھوٹی سی نظم ہے لیکن اس میں تین مصرعوں کے باوجود پہلے اور آخری مصارع میں قافیہ،ردیف کا التزام اسے غزل کے شعر کے قریب کر دیتا ہے۔پھر کوزے میں دریا بند کرنے کا غزل کے شعر کا وصف بھی ماہیے میں موجود ہے۔مزاجاً ماہیا گیت جیسا ہے۔ ۔ ۔۔لہٰذا اگر اس صنف کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملا تو اس کے وسیع تر امکانات کھل کر سامنے آئیں گے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی بنیادی اینٹ درست رکھی جائے۔“
(بحوالہ ”اوراق“ لاہور شمارہ:نومبر،دسمبر ۱۹۳۹ء)
پرویز اختر نے لکھا ہے:”اب تک ماہیہ کے نام پر جو دستیاب ہوا ہے ،اس کی روشنی میں ماہیہ کے علمبرداروں اور اس کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والے ادب نوازوں سے یہ سوال ضرور کرنا چاہوں گا کہ کیا وہ ادب اور اس سے جڑی ہوئی صنف کی اہمیت و افادیت اور قوت سے واقف ہیں؟ کیا وہ واقعی اس صنف سے پوری طرح انصاف کر پا رہے ہیں؟“
چونکہ میں بھی اس صنف کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں اس لئے اس سوال کا رُخ اپنی جانب بھی سمجھتا ہوں۔میں اس صنف کے حوالے سے اتنی واقفیت تو رکھتا ہی ہوں کہ پرویز اختر صاحب جو سوال اس صدی میں اُٹھا رہے ہیں ان کے جواب میں گزشتہ صدی میں دے چکا ہوں۔
رہی انصاف کرنے بات، تو صاحب !یہ بتائیے ادب کی دوسری اصناف کے ساتھ کتنا انصاف ہو رہا ہے؟وہاں بھی بیک وقت اچھا بھی لکھا جارہا ہے اور برا بھی لکھا جارہا ہے۔بے وزن غزلیں بھی لکھی جارہی ہیں لیکن اس غلطی کا الزام غزل کے سر تو نہیں تھوپا جاسکتا۔ایسے ہی اگر بعض لوگ کمزور ماہیے کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ماہیے کی صنف کو ہی برا کہہ دیا جائے ۔ مجھے علم نہیں ہے کہ میں کسی بھی ادبی صنف کے ساتھ انصاف کر پارہا ہوں یا نہیں،تاہم یہاں اپنے چند ماہیے پیش کئے دیتا ہوں ۔
رائن سے چناب ملا یوں روشن جان ہوئی جب ’عصر‘ اشارہ ہوا
کوئی حقیقت تھی دل میں کہیں جیسے سود میں ڈھلنے لگا
یا خواب سے خواب ملا مغرب کی اذان ہوئی جتنا بھی خسارہ ہوا
(رائن جرمنی کا مشہور دریا ہے)
اک روح تھی سیلانی اک یاد تھی بستے میں بچپن کے خزانے میں
چھوڑ کے شہرِ دل کھو گئی جانے کہاں کتنے زمانے تھے
جو ہو گئی ملتانی اس عمر کے رستے میں اُس ایک زمانے میں
یہ بھید نہ کھل پائے نہیں ،ہم نہیں روئے تھے اس درد خزانے کے
دل بھر آنے پر چاند کی کرنوں میں چل دو نفل ہی پڑھ
کیوں آنکھ بھی بھر آئے کچھ موتی پروئے تھے رب کے شکرانے کے
الجھن سے چھڑاتے ہوئے تھے دیس میں پردیسی خوش قسمتی کا مارا
باندھ لیا دل کو آکے ولایت میں دل کلہم کلا
بال اس نے بناتے ہوئے اب ہو گئے ہیں دیسی اور کثرتِ نظّارا
پھولوں کو پرونے میں منظر ترے گاؤں کے کچھ رشتے ٹوٹ گئے
سوئی تو چُبھنی تھی گرم دوپہروں میں برتن مٹی کے
اس ہار کے ہونے میں ہنستی ہوئی چھاؤں کے ہاتھوں سے چُھوٹ گئے
تو کس کا سوالی تھا گندم کی کٹائی پر پھرتے ہیں اکیلے میں
دامنِ دل جس کا چھوڑ دیا گاؤں ساتھ نہیں کوئی
خود اپنا ہی خالی تھا گوری کی سگائی پر صدمات کے میلے میں
مل مہکی فضاؤں سے مہکار ہے کلیوں کی جھُک آئے فلک سائیں
یار نکل باہر جیسے دعا کوئی دیکھی تھی ہم نے
اندر کے خلاؤں سے دھرتی پہ ہو ولیوں کی بس ایک جھلک سائیں
سب صبحوں کا تاج ہوئی کثرت کی زبانی ہیں
رحمتِ عالَم کو کعبہ کی دیواریں
جس شب معراج ہوئی وحدت کی نشانی ہیں
کیا ان ماہیوں سے ماہیے کے آئندہ امکانات کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا؟اس بارے میں اب پرویز اختر خود انصاف کریں یاقارئین ادب انصاف کریں۔مجھے اس برس کا ”گلبن“ کا غزل نمبر مرتّب کرنے کاموقعہ ملا تھا تو غزل کے ابتدائی دور کی غزلیں دیکھ کر مجھے جہاں غزل کے ارتقا کو سمجھنے میں آسانی ہوئی وہیں ذاتی طور پر مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ غزل کے مقابلہ میں ماہیے کو اپنے امکانات اجاگر کرنے میں زیادہ بہتر زبان اور فضا نصیب ہوئی ہے۔اس لحاظ سے اس کے پنپنے کے اور ادب میں اپنی مستقل حیثیت بنانے کے اچھے مواقع موجود ہیں۔اس لئے اس کے تئیں جارحانہ اور متعصبانہ رویہ اپنانے کی بجائے ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔کوتاہیوں اور غلطیوںکی نشاندہی ضرور کریں لیکن ماہیے کی خیر خواہی اوربہتری کے جذبے کے ساتھ۔
یہی صحت مند رویہ ہے!
(مطبوعہ سہ ماہی” مژگاں“،کلکتہ۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۰ء)