ہمت رائے شرما جی کے تئیں میرا رویہ سراسر محبت کا ہے۔ جب وہ ماہیے کے بانی کی حیثیت سے دریافت ہوئے تب ان کے بانی قرار پانے میں ان کی اپنی بعض تحریروں کی وجہ سے اور بعض دوسرے احباب کی تحقیقی بددیانتی کی وجہ سے اور بعض احباب کی غلط فہمی کی وجہ سے بہت سے شبہات پیدا ہوگئے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے تحقیقی زاویئے سے وہ شبہات دور کر کے اصل حقائق کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی توفیق ملی۔ ہمت رائے شرما جی نے ساڑھے سولہ سال کی عمر میں کسی رہنمائی کے بغیر پنجابی کے مطابق فلم ”خاموشی“ کے لئے اردو میں ماہیے لکھے تھے۔ اردو ماہیے کا بانی قرار پانے کے بعد میرا ان سے براہ راست رابطہ ہوا۔ ان کے اپنے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کبھی وقت انہیں اتنا بڑا اعزاز عطا کر دے گا چنانچہ اس خوشی میں انہوں نے اس عمر میں ماہیے کے سلسلے میں زیادہ سرگرمی کے ساتھ حصہ لینا چاہا۔ اسی خواہش کے نتیجہ میں انہوں نے ایک مضمون ”ماہیا“ تحریر کیا اور مجھے بھیجا۔ میں نے ان کی دلجوئی کی خاطر ان کی تھوڑی سی تعریف کی لیکن ساتھ ہی انہیں لکھ دیا کہ اسے کہیں بھی نہ چھپوائیں۔ دراصل اس مضمون میں شرما جی نے بعض بہت ہی بچگانہ سی باتیں کی تھیں۔ تحقیقی زاویئے سے تو اس سے پنجابی ماہیے کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑناتھا لیکن اس سے خود شرما جی کی علمی سبکی ہونا تھی۔ اسی لئے میں نے انہیں اس مضمون کی اشاعت سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے باوجود یہ مضمون ”قرطاس“ ناگپور اور ”سفیر اردو“ لیوٹن میں شائع ہوگیا ہے۔ میرے نزدیک اگر کسی نے اس مضمون کی اشاعت کیلئے شرما جی کو اکسایا ہے تو وہ ماہیے کی تحریک کا نادان دوست ہے اور اگر شرما جی نے خود ہی ایسا کرلیا ہے تو انہوں نے اپنے ساتھ زیادتی کی ہے۔ یہاں میں اس مضمون کے ایک بنیادی نکتہ پر بات کروں گا تاہم اس سے پہلے شرما جی کے تعلق سے اپنے پہلے سے لکھے ہوئے بعض الفاظ یہاں درج کرنا چاہتا ہوں تاکہ شرما جی کے مضمون کی ”معصومیت“ کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
٭ ”ہمت رائے شرما جی کے جو خطوط ”کوہسار“ میں شائع ہوئے ہیں ان کی روشنی میں مزید تحقیق کر کے اصل حقیقت تک تو پہنچا جا سکتا ہے لیکن ان پر مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمت رائے شرما جی گذشتہ آٹھ برسوں سے لقوہ اور فالج کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ویسے تو طویل عمر کے بعد پچاس ساٹھ سال پہلے کی باتیں پوری طرح یاد نہیں رہ پاتیں، ان کا تاثر سا باقی رہتا ہے جبکہ فالج تو ایسی بیماری ہے جو یادداشت کو متاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فلم ”خاموشی“ کے ماہیے لکھنے کا سن کبھی 1937ءبتایا ہے، کبھی 1939ءاور کبھی اسے پچاس ساٹھ سال کے اندازے سے ظاہر کیا ہے۔ ان تاریخوں میں جو تضاد ہے اس کا سبب صرف بیماری کی وجہ سے یادداشت کا متاثر ہونا ہے۔“ (مضمون ”اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما“ مطبوعہ ”انشائ“ کلکتہ ۔ستمبر 1998ء)
٭”چونکہ شرما جی کی یادداشت پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا اس لئے میں تذبذب کی حالت میں رہا اور اپنے پہلے مضمون میں شرما جی کا ایک خاص بیان شامل نہیں کیا، لیکن اب مئی 1936ءکا ثبوت مل جانے کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ ان کا بیان شائع کر رہا ہوں“ (مضمون ”اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما، فلم خاموشی کے گیت اور تحقیق مزید“ مطبوعہ ”جدید ادب“ مئی 1999ء)
٭ ”وہ (شرما جی) طویل عرصہ سے فالج کا شکار ہیں۔ بات کرتے کرتے کئی بار بات بھول جاتے ہیں۔ ذرا سی بات پر بچوں کی طرح بلکنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت اور ایسی کیفیت کا حامل کوئی شخص ایسی کاریگری نہیں کرسکتا جو مرزا حامد بیگ نے ان سے منسوب کر دی ہے۔“
(مضمون ”مرزا صاحب کے جواب میں“ مطبوعہ ”جدید ادب“ جرمنی، مئی 2000ء)
یہ تینوں مضامین میں نے شرما جی کی حمایت میں لکھے ہیں اور ان تینوں میں بھی اہمیت اصل حقائق کو دی ہے۔ محض شرما جی کے بیان کو اہمیت دینے کی بجائے میں نے پہلے حقائق کی چھان بین کی ہے اور اس کے بعد ان کے کسی بیان کو قبول کیا ہے یا نظر انداز کر دیا ہے۔ اب جو شرما جی نے مضمون لکھا ہے اس میں انہوں نے لفظ ”ماہی“ کی چرواہے کے معنی کی تردید کرتے ہوئے اسے ”ماہ“ (چاند) سے ماہی قرار دیا ہے۔ اس سے نئی نکتہ آفرینی کی حد تک تو مزہ لیا جا سکتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے ڈاکٹر رفعت اختر نے اسے اردو کے لفظ ”ماہی“ (مچھلی) سے جوڑ دیا ہے۔ سوان تک بندیوں کو معنوی قربت کے باعث نکتہ آفرینی کی حد تک قبول کیا جا سکتا ہے لیکن ماہیے کے سلسلے میں یہ بالکل واضح ہے کہ پنجابی میں اس کا مطلب ”چرواہا“ اور ”محبوب“ دونوں معنی میں مستعمل ہے۔
پنجاب کے نوجوان چرواہے جب بھینسیں چراتے تھے تو اس وقت اپنا ٹائم پاس کرنے کے لئے بانسری بجانے سے لے کر گنگنانے تک ایسے کام کرتے تھے کہ جانوروں پر بھی نظر رہے اور جی بھی بہلتا رہے۔ عام نوجوان چرواہے بھی کئی مٹیاروں کے دلوں کی دھڑکن بنے ہوں گے تاہم جب مہینوال اور رانجھے جیسے رومانوی کردار بھی چرواہے کے روپ میں سامنے آئے تو پھر یہ لفظ ”ماہی“ چرواہے سے زیادہ محبوب کے لئے مخصوص ہوتا گیا۔ پنجابی میں ماہیے کا رُوٹ اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ماہیے پر بہت زیادہ کام کرنے والے پنجابی سکالروں میں پروفیسر شارب سے لے کر تنویر بخاری تک سب یہی موقف رکھتے ہیں اور یہ ان لوگوں کا موقف ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ پنجابی ماہیے کی تحقیق اور دریافت پر صرف کیا ہے۔ شرما جی اپنی ساری متحرک اور ادبی لحاظ سے فعال زندگی میں ماہیے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھ پائے۔ اب اس علالت اور ذہنی ارتکاز قائم نہ رہنے کی حالت میں ان کی تحقیق کیونکر درست ہو سکتی ہے کہ انہوں نے ماہیے کی تحقیق کے سلسلے میں پنجابی سکالرز کو بالکل ہی نہیں پڑھا۔ یہاں پنجابی میں ”ماہی“ بمعنی چرواہا کے ثبوت کے طور پر وارث شاہ جیسے مستند اور کلاسک شاعر کے کلام سے چند مصرعے پیش کر رہا ہوں
ہیر اپنے والد کو کہتی ہے
”ماہی“ ڈھونڈ کے بابلا ! اساں آندا
صفت ایسدی کہی نہ جاوندی اے
اس کا مطلب یوں ہے کہ ہیر کہتی ہے کہ والد صاحب ! میں ایک ایسا ماہی (چرواہا) ڈھونڈ کے لائی ہوں جس کی خوبیاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ یہاں واضح طور پر ماہی بمعنی چرواہا آیا ہے۔ اگر چرواہا لانے کی بجائے صرف محبوب کے معنی میں اسے لیں تو اس کا مطلب یہ بنے گا کہ ہیر اپنے والد سے کہہ رہی ہے کہ والد صاحب! میں ایک ایسا محبوب ڈھونڈ کے لائی ہوں جس کی خوبیاں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ یہ مطلب قطعاً قصہ ہیر، رانجھا میں وارث شاہ نے بیان نہیں کیا اور وارث شاہ سے ایسی حماقت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چند مصارع اور بھی پیش کرتا ہوں، اس دعویٰ کے ساتھ کہ ان سب میں ”ماہی“ جمع اور واحد دونوں صیغوں میں چرواہا کے معنی میں آیا ہے۔
میری جان بابل جیویں ڈھول راجہ
جوہ وچ ”ماہی“ مجھیں چار دے سن
بھکھا جا ”ماہی“ مہیں نال چھڑیا
سارا پنڈ ڈرے اوس ماہیڑے توں
وارث شاہ میاں چا ویاہ دا سی
”ماہی“ مہیں دا ڈھونڈ لیائی آں
رانجھے ہیر ول کر دھیان میاں
اسدے کھانے دی خبر نہ کسے لیتی
سر ”ماہیا“ دے اوہدا کنڈڑا جے
سنجے پھرن کھیندے منگو ”ماہیاں“ دے
یہ صرف وارث شاہ کے چند حوالے ہیں۔ وگرنہ دوسرے قدیم اور مستند پنجابی شعراءکے کلام سے بھی اس کی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ سو میں ہمت رائے شرما جی کے مضمون کو ان کی ایک معصومانہ کاوش سمجھ کر نظر انداز کرتا ہوں۔ انہوں نے سب سے پہلا ماہیا ظہیر الدین بابر سے منسوب کیا ہے۔ یہ بھی ابھی تک صرف ایک مذاق والی بات لگتی ہے۔ اس لئے کہ خود شرما جی کے اپنے بیان میں تضاد ہے۔ پہلے لکھتے ہیں ”یہ ماہیا بابر کے بچپن کے دوست میر باقی خان نے گایا جو ترکی زبان میں تھا“ جبکہ چار سطروں کے بعد ہی یہ لکھتے ہیں ”جب میر باقی خان نے ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بھرا ہوا تھال بابر کو پیش کیا تو قلندر صفت بادشاہ نے برجستہ کہا:
مج کو نہ ہوا کج ہوس مانک و موتی
فقر اہلیغر بس
بولغو سیدور پانی وروتی
یہ تھا سب سے پہلا ماہیا نما شعر جو بابر نے اپنی زبانی اور اس وقت بولی جانے والی پنجابی زبان میں کہا تھا“۔
٭ چار سطر پہلے میر باقی خان نے ”پہلا ماہیا“ ترکی زبان میں گایا تھا اور چار سطروں کے بعد ہی لکھتے ہیں یہ ”ماہیا نما شعر“ بابر نے پنجابی میں کہا تھا۔ میں سمجھتا ہوں یہ سب کچھ صرف شرما جی کی علالت کا نتیجہ ہے تاہم ”توزک بابری“ سے اس سلسلے میں مزید تحقیق کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مجھے اب بھی ہمت رائے شرما جی سے محبت ہے لیکن ان کے مضمون سے چونکہ بنیادی قسم کا مغالطہ پھیل سکتا ہے۔ اس لئے میں اصل حقائق واضح کر کے اپنا فرض پورا کر رہا ہوں۔ ماہیے کے بانی آج بھی ہمت رائے شرما ہیں، اس کی تحقیق میں نہ ان کا کوئی سابق رول تھا نہ وہ اب بوجہ علالت ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
(مطبوعہ ماہنامہ ”اردو دنیا“ جرمنی، اکتوبر 2000ء)