ماہنامہ ”نیرنگ خیال“ راولپنڈی تاریخ ساز ادبی جریدہ ہے۔ حکیم محمد یوسف حسن نے جولائی 1924ءمیں لاہور سے اس کا اجراءکیا تھا۔ اس کے ابتدائی لکھنے والوں میں علامہ اقبال، سر عبدالقادر، آغا حشر کاشمیری، نیاز فتح پوری، پریم چند، امتیاز علی تاج، محمود شیرانی، یگانہ چنگیزی، قاضی عبدالغفار، سیماب اکبر آبادی، ریاض خیر آبادی، اختر شیرانی اور اس دور کے اور کتنے ہی اہم لکھنے والے شامل تھے۔ ”نیرنگ خیال“ کے سالناموں کے ساتھ اس زمانے میں اس کے کئی اہم خصوصی نمبرز نکالے گئے۔ ان نمبرز میں سب سے اہم ترین ”اقبال نمبر“ ہے جو آج بھی حوالے کی مستند دستاویز ہے۔ 1967ءمیں حکیم محمد یوسف حسن اس رسالے کے مدیر اعلیٰ بن گئے اور سلطان رشک اس کے مدیر مقرر ہوئے۔ حکیم صاحب کی وفات کے بعد بھی سلطان رشک اس رسالہ کے مدیر ہیں۔ اکتوبر 1999ءکا شمارہ ”نیرنگ خیال“ کا ماہیا نمبر ہے۔ اس سے پہلے پاکستان سے پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ کا اردو ماہیا ایڈیشن اور دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد کا ماہیا نمبر شائع ہو چکے ہیں۔ ”نیرنگ خیال“ کے اس ماہیا نمبر کی یہ تاریخی حیثیت بنتی ہے کہ یہ پاکستان سے کسی ادبی رسالے کا پہلا ماہیا نمبر ہے۔ سلطان رشک نے اس نمبر کے لئے خاص طور پر معروف شاعر احمد حسین مجاہد اور نوجوان ادیب محمد وسیم انجم کو بطور مرتبین شامل کیا۔ دونوں مرتبین نے ممکنہ حد تک خاصی محنت کی ہے اور اسے ایک یادگار نمبر بنا دیا ہے۔ اداریہ اول سلطان رشک کا تحریر کردہ ہے جبکہ اداریہ دوم محمد وسیم انجم نے لکھا ہے۔ ان اداریوں کے بعد جو مضامین شامل کئے گئے ہیں ان کی ترتیب یوں ہے۔
-1 پنجابی لوک گیت ماہیے کی تحریری ہیئت از حیدر قریشی
-2 اردو ماہیا، عروضی تناظر میں، از احمد حسین مجاہد
-3 امین خیال ”یادوں کے سفینے میں“ از ناصر نظامی
-4 ماہیے کی عروضی اشکال از عارف فرہاد
-5 اردو ماہیے کی ہیئت از اختر رضا کیکوٹی
-6 اردو ماہیے کو بساتے ہوئے شہر اور بستیاں، از حیدر قریشی
-7 اردو ماہیے کی تاریخ میں سب سے پہلے از ارشد خالد
ان مضامین میں ایک طرف ماہیے کی لے کی بنیاد پر اس کے عروضی پیمانے واضح کرنے کی مخلصانہ کوششیں کی گئی ہیں تو دوسری طرف ماہیے کی ہیئت کے سلسلے میں اڑائی گئی ساری گرد کو صاف کیا گیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ جب ماہیے کی لے کی بنیاد پر دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی والی بات پکی ثابت ہوگئی اور مساوی الوزن سہ مصرعی، ماہیئے کے لئے کوئی دلیل نظر نہ آئی تو یار لوگوں نے حسب سابق ماہیے کی سہ مصرعی اور ڈیڑھ مصرعی فارم کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ اس سلسلے میں سہ مصرعی فارم کو رد کرتے ہوئے ماہیے کے لئے ڈیڑھ مصرعی فارم کا حکم سنایا گیا۔ مخالفین نے خاصے مغلوب الغضب ہو کر غم و غصے کا اظہار کیا لیکن ان کے تیروں کا رخ صرف ہماری طرف رہا۔ تین مساوی الوزن ”ماہیے“ لکھنے والوں کو کسی نے میلی نظر سے بھی نہیں دیکھا۔ بعد میں پتہ چلا یہ شوشہ ہی ان لوگوں کے اشارے پر چھوڑا گیا تھا تاکہ ماہیے کی لوک لے کی بنیاد پر قائم ماہیے کے وزن میں نقب لگائی جا سکے۔ بہر حال اس موضوع پر ”نیرنگ خیال“ کے ماہیا نمبر میں نہ صرف کھل کر یار لوگوں کے شور شرابے کو واضح کیا گیاہے بلکہ اپنے اصولی موقف کو بھی واضح کر دیا ہے۔ عروضی پیمانوں اور سہ مصرعی ہیئت کے مسئلوں سے ہٹ کر اور ان مباحث کو چھوڑ کر ماہیوں کی پرکھ کے سلسلے میں عملی تنقید کا آغاز بھی اس نمبر کے ذریعے ہوا ہے۔ ماہیے کا یہ دور جس میں ماہیے کی تاریخ جنم لے رہی ہے، ایک مضمون کے ذریعے بعض تاریخی امور کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس نمبر میں ایک سو ماہیا نگاروں کے ماہیے شامل کئے گئے ہیں۔ یہ تعداد ”گلبن“ کے ماہیا نمبر کے ماہیا نگاروں کے لگ بھگ ہی ہے۔ اس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس میں پہلے سے فعال ماہیا نگاروں کے علاوہ کئی خوش گو شعراءماہیا نگار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ ایسے شعراءمیں ترنم ریاض، بشریٰ رحمٰن، ڈاکٹر فراز حامدی، ہیرا نند سوز، کرشن کمار طور، آصف ثاقب، رستم نامی، بخش لائل پوری، ثروت محی الدین، جمشید مسرور، قاضی حسیب، ناصر نظامی اور بعض دیگر شعراءشامل ہیں۔ پہلے سے ماہیا نگاری میں متحرک شعراءمیں سے امین خیال، احمد حسین مجاہد، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، نذیر فتح پور، عارف فرہاد، سلطانہ مہر، ڈاکٹر صابر آفاقی، سجاد مرزا، قاضی اعجاز محور، خاور اعجاز، شرون کمار ورما، یوسف اختر، پروین کمار اشک، مسعود ہاشمی، سلیم انصاری، سعید شباب، عذرا اصغر، ثریا شہاب، شاہدہ ناز، ارشاد ہاشمی، زہیر کنجاہی، جاوید خان، محمد وسیم انجم، اختر رضا کیکوٹی، کلیم شہزاد، انوار فیروز، اعزاز احمد آذر، فراغ روہوی، شبہ طراز، شوکت ہاشمی، ہارون الرشید، منور احمد منور، تاج الدین تاج، ذوالفقار احسن، پرزرق صنم، حسن عسکری کاظمی، احمد رئیس، سلطان سکون، سلیم احمد سلیم، شاہد جمیل، عارف حسن خان، محمد ارباب بزمی، نیاز احمد صوفی، عاصی کاشمیری، کامنی دیوی، صابرہ خاتون حنا، کوثر بلوچ، انور مینائی، شعر اورینوی، احمد کمال حشمی، اقبال حمید، اشراق حمزہ پوری، تنویر خیال، ایم این اے ریحان، کے دوش بدوش ضمیر یوسف، شمیم انجم وارثی، سلطان کھاروی، دلدار ہاشمی، منصور عمر، وسیم عالم، یونس احمر، اسلم حنیف، محمد یعقوب فردوسی، مشتاق احمد، نیاز بلوچ، یاسمین سحر، بلال حمزہ پوری، ساحر شیوی، سرفراز تبسم، سہیل اقبال، طفیل خلش ، مخلص وجدانی، واحد محسن، بشارت احمد بشارت، اجمل پاشا، ارشد اقبال آرش اور احسان سہگل تک ماہیا نگاروں کی ایک دنیا آباد ہے۔ سینئر اور بزرگ شعراءمیں علامہ شارق جمال، علقمہ شبلی، قیصر شمیم، علامہ نادم بلخی، اجمل جنڈیالوی، امداد نظامی اور پربھا ماتھر کے اسماءشامل ہیں۔ ماہیے کے پیشروﺅں میں قتیل شفائی کے نئے ماہیے اور اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی کے تازہ ماہیے بھی اس نمبر کی زینت ہیں۔ اس نمبر سے اردو ماہیے کی تحریک ایک نئے موڑ تک آ گئی ہے۔ ایک تاریخی حیثیت کے حامل ادبی رسالے کا یہ ماہیا نمبر ایک تاریخی کارنامہ ہے جس کے لئے رسالہ کے مدیر اور مرتبین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
(مطبوعہ ماہنامہ ”قرطاس“ ناگپور ماہیا نمبر۔مئی تا اگست ۲۰۰۰ء)