بیسویں صدی کا آخری سال ماہیے کی مقبولیت میں حیران کن اضافے کا سال بن کر رخصت ہو رہا ہے۔ اس سال کے آغاز میں دو شعری مجموعے ”پھر وہی دن کا اجالا“ (نیاز احمد صوفی) اور ”خود سے ایک سوال“ (ثریا شہاب) شائع ہوئے۔ دونوں مجموعوں میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ماہیے بھی شامل تھے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ شعراءکرام اس نئی اردو صنف کو ایک باوقار شعری صنف کے طور پر قبول کر رہے ہیں۔ اس برس ماہیے کے متعدد مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں قابل ذکر مجموعوں کے نام یہ ہیں۔ وہ چاند گواہ میرا (کلیم شہزاد)، موسم سبھی اک جیسے (عاصی کاشمیری)، سب رنگ الفت کے (وسیم عالم)، چھیاں چھیاں (فراغ روہوی)، پھوہار (نسیم فائق ) ، سوچ سمندر (بخش لائل پوری)، شمیم انجم وارثی نے ”مغربی بنگال میں ماہیا نگاری“ میں 34 ماہیا نگاروں کے کوائف کے ساتھ ان کے منتخب ماہیے مرتب کئے۔ تحقیق اور تنقید کے حوالے سے میری دو کتابیں اسی برس شائع ہوئیں۔ ”اردو ماہیے کی تحریک“ راولپنڈی سے جبکہ ”اردو ماہیے کے بانی ۔ ہمت رائے شرما“ دہلی سے شائع ہوئی۔ ماہنامہ ”نیرنگ خیال“ راولپنڈی نے اپنی اکتوبر کی اشاعت ماہیا نمبر کے طور پر پیش کی۔ ”نیرنگ خیال“ کے مدیر سلطان رشک نے اس سلسلہ میں احمد حسین مجاہد اور محمد وسیم انجم کو مرتبین خصوصی مقرر کیا اور ایک عمدہ نمبر پیش کرنے میں کامیاب رہے۔
”نیرنگ خیال“ کے ماہیا نمبر کے علاوہ دیگر ادبی جرائد میں ”اوراق لاہور“، ”کوہسار“،بھاگل پور ، ”سخنور“ کراچی، ”اسباق“ پونہ، ”گلبن“ احمد آباد، ”جدید ادب“ جرمنی، ”عکاس“ وہاڑی، ”شعر و سخن“ مانسہرہ، ”بیاض“ لاہور ماہیے کے فروغ میں پیش پیش رہے۔ دیگر ادبی جرائد میں ”کتاب نما“ دہلی، ”ایوان اردو“ دہلی، ”شاعر“ ممبئی، ”تخلیق“ لاہور، ”صریر“ کراچی، ”عوامی منشور“ کراچی، ”تیرنیم کش“ مراد آباد، ”قرطاس“ ناگپور، ”انشائ“ کلکتہ، ”گل کدہ“ ، ”سہسوان اور” انتساب“سرونج کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ اخبارات میں روزنامہ ”جنگ“ لندن، روزنامہ ”نوائے وقت“ اسلام آباد، روزنامہ ”منصف“ حیدر آباد، ”پاکستان لنک“ لاس اینجلس، ”فرائیڈے نیوز“ اسلام آباد، ”ویکلی صداقت“ پونہ، ”میرٹھ میلہ“ میرٹھ، ”سنڈے ٹائمز“ گوجرانوالہ، ”بے باک“ مالیگاﺅں، ”پاکستان“ انگلینڈ، ”راوی“ بریڈ فورڈ اور ویکلی ”صدائے پوٹھوہار“ گوجر خان میں مضامین یا تخلیقات کی صورت میں ماہیے کا چرچا رہا۔ ماہنامہ ”فلمی ستارے“ دہلی اور ماہنامہ ”بچوں کی باتیں“ لندن تک بھی ماہیے کا چرچا ہوا۔ جرمنی سے ارشاد ہاشمی اور جاوید خان کے جاری کردہ باتصویر ماہانہ ادبی خبرنامہ ”اردو دنیا“ میں ماہیے کی ایک دنیا آباد رہی۔
ماہیے کی تنقید اس برس وزن کی بحث سے آگے بڑھ کر ایک طرف تہذیبی و ثقافتی حوالے سے سامنے آئی تو دوسری طرف ماہیے کے مجموعوں پر لکھے گئے مضامین اور تبصروں سے عملی تنقید میں وسعت پیدا ہوئی۔ اس انداز کے مضامین اور تبصرے لکھنے والوں میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر شوکت واسطی، امین خیال، قیصر شمیم، علقمہ شبلی، ڈاکٹر رفعت اختر، عارف فرہاد، اختر رضا کیکوٹی، قیصر نجفی، کلیم شہزاد، جان کاشمیری، سلیم انصاری، ارشد خالد، سید اختر الاسلام، نینا جوگن، اکبر حمیدی اور نیاز احمد صوفی کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ ماہیے کی عروضی بحث میں احمد حسین مجاہد، اسلم حنیف، ناوک حمزہ پوری اور شارق جمال ماہیے کی لے کو بنیاد مانتے ہوئے عروضی پیمانوں کی تلاش میں خلوص کے ساتھ جستجو کرتے رہے۔ تحقیقی زاویئے سے میرے دو مضامین ”اردو ماہیے کے بانی ۔ ہمت رائے شرما“ اور ”اردو ماہیے کے بانی ۔ ہمت رائے شرما، فلم خاموشی کے گیت اور تحقیق مزید“ ڈاکٹر مناظر عاشق کے دو مضامین ”فلم خاموشی اور ہمت رائے شرما“ اور ”اردو کے دوسرے ماہیا نگار قتیل شفائی“ شائع ہوئے۔ قتیل شفائی نے ”کچھ ماہیے کے بارے میں“ کے زیر عنوان ماہیے کے لوک پس منظر کو اجاگر کیا۔ پرویز بزمی نے ماہیے کے تین مصرعوں کی بجائے ڈیڑھ مصرعوں کی فارم پر اصرار کیا۔ ان کا مضمون ”اوراق“ میں شائع ہوا اور ”اوراق“ ہی میں میرا جوابی مضمون شائع ہوگیا۔ یوں قصۂزمین برسرزمین ہی نمٹا دیا گیا۔ تحقیق و تنقید کی مذکورہ بالا میری دو کتابوں کے علاوہ مجموعی طور پر اس برس 60 سے زائد مضامین اور تبصرے شائع ہوئے۔ ارشد خالد، قیصر نجفی اور امین خیال کے دو دو تبصرے، عارف فرہاد کے چار مضامین، اختر رضا کیکوٹی کے پانچ مضامین، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے آٹھ مضامین اور میرے 12 مضامین شائع ہوئے۔ باقی دوستوں کا ایک ایک مضمون یاتبصرہ شائع ہوا۔ ”نیرنگ خیال“ کے ماہیا نمبر میں محمد وسیم انجم کے اداریہ کو بھی مضمون شمار کیا جانا چاہئے جبکہ ”عکاس“ کا اداریہ تو ماہیے کی سہ مصرعی ہیئت کے مسئلے پر حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ ادھر ”اردو دنیا“ میں ارشاد ہاشمی نے ستیہ پال آنند کی ماہیے کی لوک روایت سے بے خبری کو مدلل کے طور پر اجاگر کیا۔ ”کوہسار“ کے ایک مباحثہ میں قتیل شفائی اور شارق جمال کا موقف شائع ہوا۔ کلکتہ ریڈیو سے ماہیے کے تعارف پر مبنی فراغ روہوی کا ایک مضمون نشر ہوا۔ غیر مطبوعہ ہونے کے باوجود اسے بھی اس برس کے مضامین میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
اس برس تک ماہیا نگاروں میں اب اتنے چمکتے دمکتے نام آ گئے ہیں کہ سب کو اس جائزہ میں درج کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ماہیے کے اہم تخلیق کاروں میں امین خیال، اعزاز احمد آذر، بشریٰ رحمٰن، شرون کمار ورما، ہیرا نند سوز، کرشن کمار طور، احمد حسین مجاہد، عارف فرہاد، ڈاکٹر صابر آفاقی، قاضی اعجاز محور، انوار فیروز، سجاد مرزا، خاور اعجاز، سلطانہ مہر، ثریا شہاب، آصف ثاقب، رستم نامی، سلیم انصاری، فراغ روہوی، نذیر فتح پوری، مناظر عاشق ہرگانوی، نینا جوگن، شاہدہ ناز، بخش لائل پوری، عاصی کاشمیری، سیما شکیب، عذرا اصغر، شبہ طراز، یاسمین سحر، نسیم فائق، شمیم انجم وارثی، پربھا ماتھر، عنبر شمیم، فراز حامدی، ترنم ریاض، عبدالاحد ساز، پرکاش تیواری، ارشاد ہاشمی، جاوید خان، سعید شباب، احمد کمال حشمی، اظہر نیئر، ضمیر یوسف، شاہد جمیل، ناصر نظامی، مسعود ہاشمی، پرویز بزمی، اختر رضا سلیمی، منور احمد منور، تاج الدین تاج، ثروت محی الدین، امداد نظامی، ایم این اے ریحان، احمد رئیس، سلطان سکون، یوسف اختر، کلیم شہزاد، سلیم احمد سلیم، زہیر کنجاہی، ذوالفقار احسن، قاضی حسیب، سہیل اقبال، پرزرق صنم، دلدار ہاشمی، نیاز احمد صوفی، مشتاق احمد تک نام لکھنے کے بعد بھی مجھے احساس ہو رہا ہے کہ کم از کم اتنے ہی اور اہم ماہیا نگاروں کے نام ابھی مزید درج کئے جا سکتے ہیں۔ اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما اور ماہیے کے ایک اہم پیش رو قتیل شفائی کے تازہ ماہیے بھی اس برس شائع ہوئے۔
ماہیا نگاری کے مختلف رویوں میں پنجابی مزاج اور پنجابی لفظیات سے مزین اردو ماہیے کہنے کا رویہ مقبول رہا تاہم پنجابی لفظیات سے ہٹ کر بھی بے حد عمدہ ماہیے کہے گئے۔ پنجاب سے جغرافیائی لحاظ سے دور دراز کے علاقوں میں ایک طرف نامانوس قسم کے ماہیے سامنے آئے تو دوسری طرف بعض ماہیے حیرت انگیز طور پر ماہیے کی مانوس فضا لئے ہوئے تھے۔ بچوں کے لئے ماہیے کہنے کا دلچسپ تجربہ کیا گیا اور پیروڈی کے انداز میں ماہیے کہنے کا تجربہ بھی کیا گیا۔ فکری گہرائی کا احساس دلانے والے ماہیے بھی سامنے آئے۔ ایسے ماہیوں کی چند مثالیں یہاں پیش کرنے سے ماہیے کے سفر کی نوعیت کا بہتر اندازہ کیا جا سکے گا۔
کھڑکی میں چندا ہے
عشق نہیں آساں
یہ روح کا پھندا ہے
(بشریٰ رحمٰن)
چھاگل بھر دیتی ہے
کثرت خوشیوں کی
پاگل کر دیتی ہے
(امین خیال)
فریاد نہیں کرتے
درد کی دولت کو
برباد نہیں کرتے
(علقمہ شبلی)
ممکن نہیں چھپ جانا
انٹرنیٹ میں تجھے
ڈھونڈے ترا دیوانہ
(ارشاد ہاشمی)
مجھے اپنا کر ڈالا
پھولوں سے ماہی نے
مرا دامن بھر ڈالا
(ترنم ریاض)
سانسوں میں گھٹن جیسا
کون چھپا ہے یہ
سینے میں چبھن جیسا
(سلطانہ مہر)
بازار میں سایا ہے
چھوڑ مرا بازو
شاید کوئی آیا ہے
(ذوالفقار احسن)
برسات ہے رنگوں کی
چڑھتی جوانی ہے
ہولی ہے امنگوں کی
(قیصر شمیم)
یہ کیسی کہانی ہے
دور تلک جس میں
راجہ ہے نہ رانی ہے
(فراغ روہوی)
اک اشک قبو ل ہوا
جاگتی آنکھوں پر
خوابوں کا نزول ہوا
(احمد حسین مجاہد)
دریا کے بہاﺅ میں
ڈوب گئے ہم بھی
گوری ترے چاﺅ میں
(عارف فرہاد)
گرداب میں رہتے ہیں
تجھ کو پا کر بھی
ہم خواب میں رہتے ہیں
(تاج الدین تاج)
اس انداز کے ماہیوں سے اس برس کی ماہیا نگاری کے رویوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ماہیے کے روشن امکانات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ماہیے کے سلسلے میں اس برس متعدد تقریبات بھی ہوئیں۔ ”چھیاں چھیاں“ اور ”پھوہار“ کی رسم اجراءکلکتہ میں ہوئی۔ ”موسم سبھی اک جیسے“ کی تقریب رونمائی ”نوٹنگھم“ انگلینڈ میں ہوئی۔ ”وادی کوکن“ کی تقریب ممبئی میں ہوئی۔ کلکتہ میں ایک بڑا اہم ماہیا مشاعرہ ہوا جس میں علاقے کے تمام اہم شعراءنے ماہیے سنائے۔ پونہ میں دو ماہیامشاعرے ہوئے۔ دہلی کے ایک سہ روزہ سیمینار میں ماہیے کے بارے میں متعدد سوال پوچھے گئے اور حاضرین نے ماہیے کو سمجھنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ ان تقریبات میں مجموعی طور پر علقمہ شبلی، قیصر شمیم، ڈاکٹر مناظر عاشق، فراغ روہوی، انیس دہلوی، سیفی سرونجی، شمیم انجم وارثی، عاصی کاشمیری، ایوب مرزا، یعقوب مرزا، شوکت واسطی، ساحر شیوی، نذیر فتح پوری، افتخار امام صدیقی، کالی داس گپتا رضا، دلدار ہاشمی، اقبال حمید، پربھا ماتھر، ف س اعجاز، عاصم شہنواز شبلی اور ترنم ریاض جیسے اہم ادباءنے کسی نہ کسی حوالے سے اہم نوعیت کی شرکت کی۔ یہ ساری اہم تقریبات پاکستان سے باہر ہوئی ہیں۔ صرف ایک تقریب انگلینڈ میں اور باقی سب انڈیا میں۔ اس پر مجھے اسی برس ”جنگ“ لندن میں چھپنے والے بشیر بدر کے یہ الفاظ یاد آ گئے ہیں۔ ادب میں نئے تجربات کے سوال پر انہوں نے کہا ”تجربے ہوتے رہنے چاہئیں…. ماہیے بھی لکھے جا رہے ہیں، پنجاب میں اس کا سکوپ زیادہ ہے۔“ بشیر بدر نے جس تناظر میں یہ بات کہی ہے بالکل درست ہے لیکن ماہیے کی مذکورہ بالا تقریبات کے خاکے سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ماہیے نے پنجاب سے باہر کہیں زیادہ گہما گہمی پیدا کر رکھی ہے۔
بیسویں صدی کے اس آخری سال کے حوالے سے اطمینان بخش طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اردو ماہیا اپنے ممکنات کے ساتھ، اپنی ساری کامیابیاں اور کامرانیاں لئے ہوئے، باوقار طور پر اکیسویں صدی میں داخل ہو رہا ہے۔ اکیسویں صدی میں ماہیا ایک شعری صنف کے طور پر اردو میں اپنی جڑیں مزید گہری کرے گا اور اپنے درخت کی پہچان اپنے پھل سے کرائے گا۔
(انشاءاﷲ)
(مطبوعہ ادبی صفحہ ڈیلی جنگ لندن۔۲۷جنوری ۲۰۰۰ء
قرطاس۔ناگپور،انڈیا،ماہیا نمبر۔مئی تا اگست ۲۰۰۰ء)