اس مضمون کے لئے وزیر آغا صاحب نے مجھے 21 نومبر 1999ءکے خط میں فرمائش کی ہے اور 10 دسمبر تک مضمون طلب بھی فرمایا ہے جبکہ یہاں میرے پاس ”اوراق“ کی مکمل فائل موجود نہیں۔ 1992ءسے پہلے کے چند حوالہ جات اور چند اہم تحریروں کی فوٹو کاپیاں میرے پاس موجود ہیں۔ یوں بیشتر اہم روداد تو اس مضمون میں آ جائے گی تاہم ممکن ہے مزید حوالہ جات دستیاب ہونے کی صورت میں یہ مضمون زیادہ بہتر ہو جاتا۔ (حیدر قریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اوراق“ میں ماہیا نما ثلاثی 1986ءسے ذرا پہلے چھپنا شروع ہوئے تھے۔ نصیر احمد ناصر اور علی محمد فرشی نے اس سلسلے میں اچھا تخلیقی کام کیا۔ ”اوراق“ کے شمارہ اپریل ۔ مئی 1987ءمیں قیوم طاہر کے اسی انداز کے ”ماہیے“ شائع ہوئے۔ پھر سیدہ حنا اس میدان میں آئیں۔ یہ ”ماہیے“ اپنے مقامی رنگ کے باعث پرکشش تھے۔ خصوصاً مساوی الوزن سہ مصرعی ہائیکو کے مقابلہ میں ان کا رس اور کسی قدر لوک رنگ سے ملتا جلتا انداز زیادہ متاثر کرتا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ماہیے کے وزن کی طرف سب سے پہلے ”اوراق“ میں ممتاز عارف نے توجہ دلائی تھی لیکن شمارہ اگست 1990ءسے پہلے ،ممتاز عارف کی نشاندہی سے پہلے، ”اوراق“ کے کسی شمارہ میں حسن عباس رضا کے چند درد بھرے ”ماہیے“ شائع ہوئے تھے۔ ان میں سے دو ماہیے تو مکمل طور پر ماہیے کی لوک لَے کی پابندی کر رہے ہیں۔
دل اپنے کشادہ تھے
اس لئے رونا پڑا
ہم ہنستے زیادہ تھے
ہم سہمے پرندے ہیں
سبز رتوں میں بھی
پرواز سے ڈرتے ہیں
سو کہا جا سکتا ہے کہ ماہیے کے درست وزن کی نشاندہی سے پہلے ادبی رسائل کی سطح پر درست وزن کے اولین دو نمونے یہی ماہیے تھے اور یہ ماہیے ”اوراق“ ہی میں شائع ہوئے تھے۔ ”اوراق“ کے شمارہ اگست 1990ءمیں ممتاز عارف کا وہ تاریخی خط شائع ہوا تھا جس کے بارے میں انہیں خود بھی اندازہ نہ ہوگا کہ یہ ایک تحریک کا پیش خیمہ بن جائے گا۔ تاہم ممتاز عارف کے خط میں بعض سقم بھی موجود تھے جن میں سب سے بڑا سقم یہ تھا کہ انہوں نے حسرت کے ”ماہیا نما“ کو تھوڑے سے تصرف کے ساتھ ماہیا کر دیا تھا جبکہ مثالی نمونہ پیش کرنے کے لئے فلم ”پھاگن“ اور فلم ”نیا دور“ کے ماہیے زیادہ مناسب تھے۔ ممتاز عارف نے ماہیے کی لے کی بنیاد پر اس کے وزن کو دریافت کرنے کی کاوش تو نہیں کی لیکن ماہیے کے ”مخصوص وزن“ کا اشارہ کر کے انہوں نے ماہیے کی لے کی طرف توجہ کرنے کی راہ ضرور ہموار کر دی۔ پھر انہوں نے مدیر ”اوراق“ سے بجا طور پر یہ گذارش کی کہ ”ماہیوں کی اشاعت کے وقت ماہیے کے مخصوص وزن کو پیش نظر ضرور رکھیں۔“
”اوراق“ کے شمارہ دسمبر 1990ءمیں میرے خط میں ممتاز عارف کے موقف کی بھرپور تائید کی گئی اور ساتھ ہی جملہ ”ماہیا نگاروں“ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ وہ مل کر طے کر لیں کہ اردو ماہیے کو اصل پنجابی ماہیے کی طرح رکھنا ہے یا اس کا حشر بھی ہائیکو جیسا کرانا ہے۔ اس کے بعد ماہیے کی لوک لے کے حوالے سے ”اوراق“ کے خطوط کے صفحات پر تذکرہ تو ہوتا رہا لیکن ابھی اس مسئلے پر کوئی مضمون یا درست وزن کے ماہیے ”اوراق“ میں شائع نہیں ہوئے تھے جبکہ ”ادب لطیف“ لاہور شمارہ نومبر 1990ءمیں میرے ماہیے شائع ہوئے اور روزنامہ ”نوائے وقت“ راولپنڈی شمارہ 24 مئی 1992ءمیں افتخار احمد کا مضمون ” اردو ماہیے“ شائع ہوا۔ یہی مضمون بعد میں ”صریر“ کراچی اور ”تجدید نو“ اسلام آباد میں بھی شائع ہوا ۔اور میرے ماہیے ”ادب لطیف“ کے معاًبعد ”صریر“، ”ابلاغ“ اور بعض دیگر رسائل میں شائع ہوئے۔ اس عرصہ میں ”اوراق“ میں تین ہم وزن مصرعوں کے ماہیے شائع ہوتے رہے۔ ”اوراق“ کے شمارہ نومبر ، دسمبر 1992ءمیں سعید شباب نے ”اوراق“ میں پنجابی ماہیے کے وزن والے ماہیے چھاپنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا:
”امید ہے دیگر ادبی جرائد کی طرح ”اوراق“ بھی اب اصل وزن کے ماہیے چھاپنا شروع کر دے گا۔“
سعید شباب کے اسی خط کے ساتھ ”اوراق“ کے شمارہ نومبر ، دسمبر 1992ءمیں ایم اے تنویر کے ”ماہیوں“ کے ساتھ حیدر قریشی اور نوید رضا کے درست وزن کے ماہیے شائع ہوئے۔ اس سے اگلے شمارہ میں ایم اے تنویر اور سیدہ حنا کے مساوی الوزن سہ مصرعی ”ماہیوں“ کے ساتھ پھر حیدر قریشی کے ماہیے شائع ہوئے لیکن شمارہ مئی ، جون 1993ءکی سب سے بڑی اہمیت یہ تھی کہ اس میں ناصر عباس نیئر کا ایک اہم مضمون ”ماہیا اور اردو میں ماہیا نگاری“ شائع ہوا۔ ماہیے کی تہذیبی و ثقافتی پہچان کے حوالے سے یہ ایسا بنیادی نوعیت کا اہم مضمون تھا جس سے آج بھی نہ صرف استفادہ کیا جا سکتا ہے بلکہ کئی حوالوں سے یہ نئے ماہیا نگاروں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔
مضمون کے دوسرے حصہ میں ناصر عباس نیئر نے دونوں طرح کے ماہیوں کو جائز قرار دیا۔ اس کے جواب میں، میں نے ”ماہیے کے وزن کا مسئلہ“ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ اسے ”اوراق“ میں خطوط کے صفحات پر شائع کیا گیا تاہم پورا مضمون شائع کر دیا گیا۔ ناصر عباس نیئر کے مضمون نے ماہیے کے وزن کی بحث کو متحرک کر دیا تھا۔ شمارہ نومبر ، دسمبر 1993ءمیں ایم اے تنویر کے ”ماہیوں“ کے ساتھ حیدر قریشی، رشید اعجاز، نذیر فتح پوری اور غزالہ طلعت کے ماہیے شائع ہوئے۔ 1994ءسے 1999ءتک چھ سال کے عرصہ میں ”اوراق“ میں ان لوگوں کے ماہیے شائع ہوئے۔
شمارہ
درست وزن والے ماہیا نگار
مساوی الوزن مصرعوں والے ماہیا نگار
جولائی ۔ اگست 1994
نذیر فتح پوری، رشید اعجاز
سیما پیروز، نثار ترابی
فروری ۔ مارچ 1995ئ
فرحت نواز، سعید شباب، رشید اعجاز، شجاعت علی راہی
سیما پیروز، نثار ترابی، ایم اے تنویر
اگست ۔ ستمبر 1995ئ
ضمیر اظہر، نذیر فتح پوری، شجاعت علی راہی،یوسف اختر
نثار ترابی، علی محمد فرشی
جنوری ۔ فروری 1996ئ
پروین کمار اشک، حیدر قریشی، نذیر فتح پوری، فرحت نواز،
شجا عت علی راہی، مناظر عاشق ہرگانوی
۱* ایم اے تنویر
جولائی ۔ اگست 1996ئ
حیدر قریشی، احمد حسین مجاہد، سعید شباب، قاضی اعجاز محور، اجمل پاشا، ندیم شعیب، نذیر فتح پوری
نسیم سحر، علی محمد فرشی
جنوری ۔ فروری 1997ئ
حیدر قریشی، سعید شباب، پروین کمار اشک، اجمل پاشا
سیما پیروز، سجاد مرزا *۲
جولائی ۔ اگست 1997ئ
شاہدہ ناز، حیدر قریشی،
نذیر فتح پوری، یوسف اختر
جنوری ۔ فروری 1998ئ
سلطانہ مہر، ثریا شہاب،
شاہد جمیل، انور مینائی * ۴
مناظر عاشق * ۳
جولائی ۔ اگست 1998ئ
حیدر قریشی، ثریا شہاب، عارف فرہاد، ذوالفقار احسن، یوسف اختر، رستم نامی
جنوری۔فروری
1999ئ
پرویز بزمی، حیدر قریشی، یوسف اختر، مناظر عاشق، سلطانہ مہر، مسعود ہاشمی
علی محمد فرشی
جولائی ۔ اگست 1999ئ
حیدر قریشی، سلطانہ مہر، شرون کمار ورما، ترنم ریاض
جب سے ”اوراق“ میں پنجابی ماہیے کی لے سے مطابقت رکھنے والے ماہیے چھپنا شروع ہوئے ہیں تب سے اب تک غلط وزن میں ”ماہیے“ کہنے والے چھ ماہیا نگاروں کے ”ماہیے“ مجموعی طور پر 16 بار شائع ہوئے اور درست وزن میں ماہیے کہنے والے 28 ماہیا نگاروں کے ماہیے 58 بار شائع ہوئے۔ اس صورتحال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ لوک لے کی بنیاد پر کہا جانے والا ماہیا مسلسل مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ماہیے کی اس مقبولیت میں ان مباحث کا بہت عمل دخل ہے جو ”اوراق“ کے صفحات پر ہوتی رہی ہیں۔
ناصر عباس نیئر کے مذکورہ بالا مضمون کے بعد ڈاکٹر صابر آفاقی، احمد صغیر صدیقی، نسیم سحر اور ضیا شبنمی نے اپنے خطوط میں اختلافی زاویے کو نمایاں کیا تاہم ان میں سے ڈاکٹر صابر آفاقی بہت جلد ماہیے کے درست وزن کو مان گئے اور احمد صغیر صدیقی سلیقے سے اس بحث سے ہی الگ ہو گئے ۔ ویسے احمد صغیر صدیقی نے اپنے اعتراض کے باوجود یہ لکھا کہ
”دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی کو طبلے کی تھاپ سے پورا کیا جاتا ہے“
جبکہ نسیم سحر نے جو ماہیے کو زیادہ بہتر جانتے ہیں، یہ حیران کن بات لوک لے والے ماہیے کے بارے میں لکھی کہ
”ماہیے کو ترنم سے الاپتے ہوئے جب دوسرے مصرعہ پر پہنچیں تو جھٹکا سا لگتا ہے۔“
حالانکہ یہ صورت حال مساوی الوزن سہ مصرعی ماہیوں میں پیش آتی ہے۔
ضیاءشبنمی نے تادم تحریر کوئی ماہیا نہیں لکھا لیکن ماہیے کے بارے میں سب سے مزیدار بات انہوں نے لکھی۔ ان کے الفاظ میں ”یار لوگوں نے ماہیے کے بھی درمیانی مصرعے پر وار کیا ہوا ہے۔ میرے خیال میں پنجابی ماہیا اس قید سے آزاد ہے۔ اگر آزاد نہیں ہے تو اردو ماہیے کواس سے آزاد ہونا چاہئے۔
“ خطوط کے صفحات پر دیگر ادیبوں میں عارف فرہاد، ہیر انند سوز، شاہد جمیل، نصیر احمد ناصر، ذکاءالدین شایاں، ناصر شہزاد اور صادق عدیل فرشتہ نے اپنے خطوط میں اختلافی رائے کا یا دوسرے موقف کی تائید کا انداز اختیار کیا لیکن اول الذکر تینوں اہم ادیب اب لوک لے کے مطابق عمدہ ماہیے کہہ رہے ہیں۔
ہمارے موقف کی حمایت میں کھل کر لکھنے والوں میں سعید شباب، نیاز احمد صوفی، ارشد خالد، راز سنتوکھ سری، ملاپ چند، عبدالقیوم، احمد حسین مجاہد، غلام شبیر رانا، طاہر مجید، اجمل پاشا اور ڈاکٹر عنوان چشتی کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ بعض خطوط میں اگرچہ رواروی میں ماہیے کا ذکر کیا گیا لیکن ان سے بھی ماہیے کی طرف قارئین کی تھوڑی بہت توجہ مبذول ہوئی۔ ایسے مکتوب نگاروں میں رام لعل، جوگندر پال، افضل گورایہ، عابد انصاری، فیروز شاہ، سرمد جمالی، عباس رضوی، تنویر قاضی، فوزی خان، سحرسیال، مشتاق احمد، سجاد مرزا، ایم ڈی شاد، سرفراز تبسم، اکبر حمیدی وغیرہ شامل ہیں تاہم ماہیے کے فروغ میں نثار ترابی کے ایک طویل خط کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ”اوراق“ کے شمارہ اگست ، ستمبر 1995ءمیں شائع ہونے والے نثار ترابی کے خط میں ان کا موقف کھل کر سامنے آیا تو شمارہ جنوری ، فروری 1996ءمیں میرا جوابی خط شائع ہوا۔ یہ دونوں خطوط ماہیے کی تفہیم میں خاصے مفید ثابت ہوئے۔
”اوراق“ کے شمارہ جنوری ، فروری 1997ءمیں ”ماہیا اور ماہیا نگاری“ کے زیر عنوان ایک الگ سیکشن بنایا گیا۔ اس میں میرے مضمون ”ماہیے کا فروغ“ کے ساتھ چار درست وزن والے ماہیا نگاروں کو شامل کیا گیا۔ جولائی ، اگست 1997ءکے شمارہ میں میرے ماہیوں کے مجموعہ ”محبت کے پھول“ پر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا مضمون اور ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے مرتب کردہ ماہیوں کے انتخاب ”رم جھم رم جھم“ پر اجمل پاشا کا تبصرہ شائع ہوا۔
1998ءمیں ”اوراق“ کے دونوں شماروں میں گہما گہمی اور گرما گرمی رہی۔ ایک طرف امین خیال کے ماہیوں کے مجموعہ ”یادوں کے سفینے“ پر ذوالفقار احسن کا تبصرہ اور نذیر فتح پوری کے ماہیوں کے مجموعہ ”ریگ رواں“ پر اسلم حنیف کا مضمون شائع ہوا تو دوسری طرف ظہیر غازی پوری نے ”اردو ماہیا فن، تکنیک اور موضوع“ کے زیر عنوان ایک مضمون ماہیے کی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ پیش کیا۔ اس مضمون کی بعض بنیادی اغلاط کی میں نے بھی اپنے تفصیلی خط میں نشاندہی کی لیکن ”جیسا مضمون ویسا جواب“ کے مصداق اس کا اصل جواب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے مضمون ”اردو ماہیا۔ بحث در بحث“ میں پیش کیا۔ بعد میں ظہیر غازی پوری نے بعض وضاحتیں کرنا چاہیں لیکن وہ عذر گناہ بدتراز گناہ ثابت ہوئیں۔ ماہیے کی خیر خواہی کے جذبے سے مضمون لکھنے والے ظہیر صاحب آخر میں اس بات پر خوش دکھائی دینے لگے کہ انہیں کسی دوست نے خط لکھ دیا ہے کہ ماہیے کا انجام بھی آزاد غزل جیسا ہوگا اس لئے اس بحث میں نہیں الجھیں۔
اسی برس میں میرا مضمون ”ماہیا کیوں؟“ ’اوراق“ کے جنوری کے شمارہ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون ماہیے کے تعلق سے ڈاکٹر کرسٹینااوسٹر ہیلڈ کے تین اہم سوالوں کے جواب پر مبنی تھا۔ اس مضمون کے نتیجہ میں مجھے ماہیے کے ادبی اور ثقافتی کردار پر غوروفکر کرنے کا موقع ملا۔
بیسویں صدی کے آخری برس کے پہلے شمارہ میں میرا تحقیقی نوعیت کا مضمون ”اردو ماہیے کے بانی ۔ ہمت رائے شرما“ ”اوراق“ نے شائع کیا لیکن اس شمارہ کا ہنگامہ خیز مضمون پرویز بزمی نے تحریر کیا تھا۔ ”پنجابی ماہیا کی ہیئت اور وزن“ کے زیر عنوان چھپنے والے مضمون میں پرویز بزمی نے دعویٰ کیا کہ ماہیا سہ مصرعی نہیں بلکہ ڈیڑھ مصرعی صنف ہے۔ اس مضمون کی غلطیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے میں نے پرویز بزمی کے بنیادی اعتراض کا مدلل جواب دیا جو ”اوراق“ کے شمارہ جولائی ، اگست 1999ءمیں شائع ہوا۔
اسی شمارہ میں علی محمد فرشی کے ماہیا نما ثلاثی کے مجموعہ ”دکھ لال پرندہ ہے“ پر ستیہ پال آنند کا مضمون شائع ہوا۔اردو ماہیے کی تحریک کے نتیجہ میں اب اگر مہاراشٹر، بہار یا راجستھان کے کسی ادیب سے بھی پوچھا جائے تو وہ پنجابی ماہیے کے بارے میں اتنی بات تو آسانی سے بتا دے گا کہ پنجابی ماہیے میں عمومی طور پر عورت کی آواز سنائی دیتی ہے۔
اسی بنیاد پر میں نے اپنی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ میں اس کے سرے ہندی گیت کی قدیم روایت سے بھی جوڑے تھے لیکن ستیہ پال آنند نے اپنے مضمون میں اسے ہندی گیت کی ”روایت کے برعکس“ لکھتے ہوئے ”مرد کی طرز سخن“ قرار دیا ہے جو علمی لحاظ سے حیران کن بات ہے۔ ستیہ پال آنند نے ”دکھ لال پرندہ ہے“ کے ایسے اوزان کے ماہیوں کی بابت بھی خاموشی اختیار کی ہے۔
تیری سیج گلابی
اپنے باغوں سے کچھ
سپنے بھیج گلابی
دور چمکتے تارے
کروٹ کروٹ روئیں
ہم خوابوں کے مارے
اک بے نام سا رشتہ
میں پاگل سودائی
وہ انجان فرشتہ
ماہیے کی ڈیڑھ مصرعی ہیئت کے حوالے سے مجھے یاد آ رہا ہے کہ جب علی محمد فرشی، نصیر احمد ناصر اور سیدہ حنا اپنے ہم وزن ”ماہیے“ سہ مصرعی فارم میں لکھ رہے تھے تب انجم نیازی نے کسی بحث کے بغیر ”اوراق“ میں اپنے ویسے ہی ”ماہیے“ ڈیڑھ مصرعی فارم میں شائع کرائے تھے لیکن تب بھی کسی نے اس فارم میں دلچسپی نہیں لی تھی۔
ماہیے کے مزاج کے سلسلے میں بعض لوگوں نے اہم سوال اٹھائے ہیں اور خصوصاً غزل کے مضامین سے اسے بچانے کی تاکید کی ہے۔ پھر ماہیے کے معیار کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ”اوراق“ میں چھپنے والے ماہیوں کا ایک بڑا حصہ معیاری تخلیقات پر مشتمل ہے۔
جہاں تک غزل کے مضامین سے بچنے کی تاکید کا تعلق ہے، مشورہ اچھا بھی ہے اور ماہیے کے لئے مفید بھی ثابت ہوگا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو غزل اتنی طاقتور صنف ہے کہ آزاد نظم بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں سکی۔ ماہیا تو ویسے بھی بعض مضامین کے اظہار میں غزل سے خاصا قریب ہے اور تو اور جدید نظم کے شاعر نصیر احمد ناصر بھی جب اپنے انداز میں ”ماہیا“ کہتے ہوئے یہ کہتے ہیں۔
دیوار نہ در ہوتا
ناصر کسی بستی میں
ایسا کوئی گھر ہوتا
(مطبوعہ ”اوراق“ اپریل ۔ مئی 1987ئ)
تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ غالب کی ”بے درو دیوار کا گھر“ بنانے کی خواہش غیر ارادی طور پر ان کے ہاں آ گئی ہے۔
سو غزل کے مضامین سے بچنے اور ماہیے کے مزاج کو برقرار رکھنے کی تلقین جاری رہنی چاہئے تاہم غیر پنجابی علاقوں میں نئے تجربات کے باعث اگر کہیں اجنبیت کا ہلکا سا احساس ہوتا ہے تو اس سے بھی مانوسیت پیدا کرنی چاہئے کہ یہ مرحلہ ابھی ماہیے کا بالکل ابتدائی مرحلہ ہے۔ یہاں ”اوراق“ میں چھپنے والے آٹھ برسوں کے ماہیوں کا ایک انتخاب پیش کر رہا ہوں تاکہ ماہیے کے معیار کی بات کرتے وقت ایسے ماہیوں کو بھی مدنظر رکھا جا سکے۔
جب اونچی ہوں پروازیں
سنتے نہیں پنچھی
پھر پیڑوں کی آوازیں
(سعید شباب)
OOO
اے میرے سخی داتا
میں کب اجڑا تھا
کچھ یاد نہیں آتا
(احمد حسین مجاہد)
OOO
دکھ سکھ کا میل دکھا
ہنستے گاتے ہوئے
اس ہجر کو جھیل دکھا
(فرحت نواز)
OOO
تصویر نہیں بدلی
عمریں بیت گئیں
تقدیر نہیں بدلی
(اجمل پاشا)
OOO
وہ دور نہیں دیکھا
ہم نے بزرگوں کا
لاہور نہیں دیکھا
(پروین کمار اشک)
OOO
ماہی کبھی آ ملنے
پھول اناروں کے
شاخوں پہ لگے کھلنے
(ضمیر اظہر)
OOO
بے چین نہ ہو ماہیا
آج اکیلے ہیں
کل ہوں گے دو ماہیا
(قاضی اعجاز محور)
OOO
رنگین کہانی دو
اپنے لہو سے تم
گلشن کو جوانی دو
(مناظرعاشق ہرگانوی)
OOO
ہونٹوں پہ مچلتی ہے
پیاس ہے اندر کی
آنکھوں میں بھی پلتی ہے
(نذیر فتح پوری)
OOO
انگلی میں انگوٹھی ہے
سارے زمانے سے
پھر آج وہ روٹھی ہے
(ندیم شعیب)
OOO
بیٹھے ہوئے ناﺅ میں
دونوں سلگتے ہیںٍ
اس پریت الاﺅ میں
(یوسف اختر)
OOO
صورت مرے بھائی کی
یاد دلاتی ہے
بابا کی جدائی کی
(غزالہ طلعت)
OOO
ساحل پر چھل آئی
کل تجھے آنا تھا
پر تیری نہ کل آئی
(ایم اے تنویر)
لذت ہی نرالی ہے
داور محشر سے
لو ہم نے لگا لی ہے
(رشید اعجاز)
بیری کی گھنی چھاﺅں
درد کے ماروں سے
مسعود بھرے گاﺅں
(مسعود ہاشمی)
OOO
تاریکی ءزنداں ہوں
صبح بنارس تو
میں شام غریباں ہوں
(شجاعت علی راہی)
پانی میں اگے بوٹے
جاگ پڑی آنکھیں
پر خواب نہیں ٹوٹے
(نوید رضا)
سُونا ہے یہ گھر ماہیا
پل پل در کی طرف
اٹھتی ہے نظر ماہیا
(پرویز بزمی*۵)
کیوں شہر ہوا ویراں
تم ہی خبر لینا
داتا کے سجن میراں
(سلطانہ مہر)
OOO
موجوں کے کٹاﺅ میں
عمر گذاری ہے
ہم نے ترے چاﺅ میں
(عارف فرہاد)
OOO
اشکوں سے بوائی کی
قسمت میں لکھی
تھی فصل جدائی کی
(ثریا شہاب)
OOO
چڑیوں نے چنے تنکے
ترے دوارے ہم
مہمان تھے دو دن کے
(رستم نامی)
OOO
بازار میں سایا ہے
چھوڑ مرا بازو
شاید کوئی آیا ہے
(ذوالفقار احسن)
OOO
اک گندل سرسوں کی
پل میں ٹوٹ گئی
تھی یاری برسوں کی
(شرون کمار ورما)
OOO
مل مجھ سے اکیلی تو
نام سے ان کے اب
مت چھیڑ سہیلی تو
(انور مینائی)
OOO
اک پھول چنبیلی کا
ملنا لگا اچھا
بچپن کی سہیلی کا
(شاہدہ ناز)
OOO
کتنی بے حال ہوئی
کوئی سنبھالے مجھے
میں غم سے نڈھال ہوئی
(ترنم ریاض)
OOO
مہکا رہے کلیوں کی
جیسے دعا کوئی
دھرتی پہ ہو ولیوں کی
(حیدر قریشی)
بن نیند کے ہی سو جا
خواب کہیں رکھ دے
اور میری طرح ہو جا
(شاہد جمیل)
اردو کے پیاروں کو
اﷲ خوش رکھے
سب ماہیا نگاروں کو
(ہمت رائے شرما)
اردو ماہیے کی تحریک کا آغاز ”اوراق“ سے ہوا۔ بعض دیگر ادبی رسائل کے اہم اور تاریخی کردار کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سال بھر کے وقفہ کے بعد جب ”اوراق“ نے اردو ماہیے کے فروغ میں دلچسپی لی تو ایک بڑا ادبی فورم ہمیں مل گیا۔ چونکہ ہمیں اپنے موقف کی سچائی کا مکمل یقین تھا اسی لئے ”اوراق“ میں چھپنے والے مخالفین کے موقف کا فائدہ بھی ہمیں پہنچا۔ ہمارے جوابی موقف سے نہ صرف ماہیے کے خدوخال مزید واضح ہوئے بلکہ اس تحریک کو بڑی ادبی سطح پر مقبولیت بھی نصیب ہوئی۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر وزیر آغا کے بعض خطوط نہ صرف میری حوصلہ افزائی کا موجب بنے بلکہ انہوں نے میری درست سمت میں رہنمائی بھی کی۔ آج میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے مضبوط موقف کے خلاف کئے گئے اہم اعتراضات میں سے ایک اعتراض بھی ایسا نہیں ہے جس کا مدلل جواب نہ دے دیا گیا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ
*۱: اس شمارہ میں ایم اے تنویر کے درست وزن کے دو عمدہ ماہیے بھی شامل ہیں۔
*۲: سجاد مرزا اب مسلسل درست وزن میں ماہیے کہہ رہے ہیں۔
*۳: ڈاکٹر مناظر عاشق نے ”اوراق“ کے اگلے شمارہ میں اپنے ”تجرباتی ماہیوں“ کے بارے میں خود وضاحت کر دی تھی۔
*۴: انور مینائی اس شمارہ کے بعض ماہیوں میں وزن کے لحاظ سے تھوڑا سا لڑ کھڑائے ہیں۔
*۵: برادرم پرویز بزمی سے معذرت کے ساتھ ان کا ماہیا سہ مصرعی فارم میں دے رہا ہوں۔
(مطبوعہ ”اوراق“ لاہور خاص نمبر، جنوری ۔ فروری 2000ئ)