(مخالفین کی مخالفت کے آئینے میں)
1990ءمیں ماہیے کے وزن کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ تب ایک طرف ماہیے کے خدوخال کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اخلاص کے ساتھ کام شروع ہوا اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں پر ماہیے کی لوک لَے بتدریج واضح ہوتی گئی۔ دوسری طرف ماہیے کی تحریک کی زبردست کامیابی اور مقبولیت سے برہم ہونے والوں نے اعتراض برائے اعتراض کے طور پر مسلسل پینترے بدلے۔ ایک اعتراض کا مدلل جواب مل جانے کے بعد اعتراض کا دوسرا محاذ کھول دیا گیا۔ علمی بحث میں کج بحثی کرنے کے ساتھ بہتان طرازی کا عمل روا رکھا گیا اور یہ کھیل ابھی تک جاری ہے۔ اردو ماہیے کی حالیہ تحریک کے دس سال اس برس پورے ہو رہے ہیں۔ ان دس برسوں میں معترضین کے کیمپ نے جس طرح بار بار اپنے موقف کو تبدیل کیا اور ہر حال میں اعتراضات کی گرد اڑانے کی کوشش کرتے رہے، یہاں اس کا ایک خاکہ پیش کر دینا مناسب رہے گا۔
۱۔ جب ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی پر اصرار کیا گیا تو تحدّی کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ پنجابی میں ماہیا صرف تین مساوی الوزن مصرعوں میں ہی ہوتا ہے۔
۲۔ جب یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ پنجابی ماہیے کی لوک لَے کی بنیاد پر دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی لازم ہے۔ تب یہ کہا جانے لگا کہ ماہیے کے لئے دونوں اوزان روا رکھے جائیں۔
۳۔ جب یہ بات نہیں چلی تو انتہائی غصے کے ساتھ کہا گیا کہ ماہیا اَن پڑھ دیہاتیوں کی گھڑت ہے۔ ان میں کسی وزن کی تلاش بے سود ہے۔
۴۔ جب اس غلط فہمی کو دور کر دیا گیا تو پھر کہا گیا کہ پنجابی ماہیا تو بے شک ایسا ہی ہے لیکن اردو میں تین مساوی الوزن مصرعوں کا ماہیا بھی مان لینا چاہئے۔ کوئی حرج نہیں ہوگا۔
۵۔ جب ماہیے کی دُھن کی بنیاد پر متبادل عروضی اوزان کی تلاش شروع ہوئی اور ہماری طرف سے تسکین اوسط کے حوالے سے بات کی گئی تو طنز کیا گیا کہ یہاں عروض کی ریڑھ ماری گئی ہے لیکن جب علم عروض میں مہارت رکھنے والے ہمارے احباب نے اسے غلط ثابت کر دیا تو نئے شوشے چھوڑے جانے لگے۔
۶۔ جب علمی سطح پر مخالفین کی ساری دلیلیں غیر موثر ہو گئیں تو چڑ کر ماہیے کی بحث کو کافروں کی سازش قرار دے دیا گیا۔
کوئی جب نہ جواب آیا
میرے خلاف کئی
فتوے وہ لکھا لایا
(ناصر نظامی)
۷۔ جب یہ حربہ بھی کامیاب نہ ہوا تو ماہیے کی تحریک سے متعلق شخصیات کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے ذاتی حملے کئے گئے۔ بہتان طرازی کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔
۸۔ جب ایک طرف سے بہتان طرازی کی مہم کا دباﺅ بڑھایا گیا تو دوسری طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ماہئے کو سہ مصرعی فارم کی بجائے ڈیڑھ مصرعی فارم میں کر لیا جائے۔
۹۔ جب ڈیڑھ مصرعی فارم کی تجویز کو ”چور دروازہ“ بنا کر ثلاثی نگاروں کو ماہیا نگار منوانے کی چال بتایا گیا تب مخالفین نے حکماً کہنا شروع کر دیا کہ ماہیا ہوتا ہی ڈیڑھ مصرعی فارم میں ہے۔
۱۰۔ جب پنجابی ماہیے میں سہ مصرعی تحریری ہیئت کی مضبوط روایت کو واضح کیا گیا” پنجابی ادبی بورڈ ۔ لاہور“ اور ”لوک ورثہ کا قومی ادارہ ۔ اسلام آباد“ کی شائع کردہ سہ مصرعی فارم کے پنجابی ماہیوں کے ضخیم انتخاب کی کتابوں کے حوالے دیئے گئے تو اس کا کوئی مدلل جواب ہی نہیں دیا گیا۔ سہ مصرعی ”ثلاثی“ قسم کی چیزیں ”ماہیے“ کے لیبل کے ساتھ پیش کرنے والوں کو کسی نے میلی نظر سے بھی نہیں دیکھا۔ سارا غم و غصہ ماہیے کی لوک لے کو محفوظ رکھنے والوں کے خلاف ہی اتارا جاتا رہا۔
۱۱۔ جب ہمت رائے شرما جی کے ایک دو خطوط میں ان کی ماہیا نگاری کا سال سہواً ۱۹۳۸ءاور ۱۹۳۹ءلکھا گیا تو چراغ حسن حسرت کے ۱۹۳۷ءکے ثلاثی طرز کے گیت کو ماہیے کا اولین اردو نقش قرار دے کر شور مچا دیا گیا لیکن جب اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی کے اولین ماہیے کہنے کا سال (مئی) ۱۹۳۶ءثابت ہوگیا تو شور مچانے والوں کو شرمندہ ہونے کی توفیق نہیں ملی۔
۱۲۔ جب حسرت کا سہارا لیا گیا تو یہ اصول وضع کیا گیا۔ ”جہاں تک اردو ماہیے کا تعلق ہے اسے اگر پنجابی سے لی ہوئی صنف کے بجائے خالص اردو ہی کی نووارد صنف تسلیم کرلیا جائے تو تب بھی، یہ اردو میں بھی ڈیڑھ مصرعے والی صنف ہے“۔ مخالفین کے اس اصول کی رو سے خالص اردو کی صنف کے طور پر بھی ہمت رائے شرما جی نے سب سے پہلے ماہیے کہے تھے۔ فلم ”خاموشی“ کے یہ ماہیے ان کے شعری مجموعہ ”شہاب ثاقب“ میں سہ مصرعی ہیئت میں ادبی رنگ اور ادبی شان کے ساتھ شامل ہیں۔ اردو ماہیے کی تحریک کی دس سالہ مخالفت کا یہ مختصر سا خاکہ ہے۔ تمام نام اور مکمل حوالہ جات میری کتاب ”ماہیا ۔ علمی بحث سے غوغائے رقیباں تک“(۱) میں شائع ہوں گے۔ بے شک ماہیے کے مخالفین کی بے تکی اور حاسدانہ مخالفت اور ان کے تضادات نے اردو ماہیے کی تحریک کے لئے ”دیسی کھاد“ کا کام کیاہے۔
(مطبوعہ سہ ماہی اسباق پونہ ،انڈیا۔ اکتوبر تا دسمبر 1999ئ
عکاس وہاڑی،پاکستان۔ جنوری 2000ئ)
(۱)”ماہیا۔علمی بحث سے غوغائے رقیباںتک“کا میٹر میرے پاس محفوظ ہے لیکن اب اس کتاب کو شائع نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔(ح۔ق)