اردو ماہیے کو اردو دنیا میں جو حالیہ مقبولیت ملی ہے اس کے نتیجہ میں ماہیے کے موضوعات میں وسعت آرہی ہے بعض ایسے موضوعات جو ماہیے کی لوک روایت کا حصہ رہے ہیں اردو میں نہ صرف انہیں اپنایا گیا بلکہ ان میں لوک روایت سے آگے کا سفر بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ پنجابی ماہیے میں مختلف حوالوں سے شہروں اور دیہاتوں کا ذکر ملتا ہے چند مثالیں پیش ہیں۔
۱۔ ڈھارے دی کنڈی آ
منڈیا لہور دیا
تیری اکھ بڑی گنڈی آ
۲۔ باگ وچ لا ڈیرا
منڈیا لہور دیا
عتبار نہیں تیرا
۳۔ بدو ملہی نوں جانواں گے
ماہی ساڈا کالے رنگ کا
اونہوں قلعی دی کرانواں گے
۴۔ بدوملہی نوں جانواں گے
ماہی دیاں لمیاں مُچھاں
اوتھوں وان وٹانواں گے
۵۔ سُنیا ایں چنڈ راہناں
چُن کے لُٹیا ای
تاہیوں غیراں وچ پھُنڈ باہناں
ان ماہیوں میں لاہور، بدو ملہی اور چنیوٹ کے قریب ایک گاﺅں چنڈ کا ذکر ملتا ہے پنجابی ماہیے کی یہ روایت از خود اور وسیع پیمانے پر اردو ماہیے میں در آئی ہے متعدد شہروں اور بستیوں کے ناموں سے اردو ماہیا بستا اور آباد ہوتا جارہا ہے اس وقت مجھے جو رسائل ،اخبارات اور کتب دستیاب ہیں ان میں بھی شہروں، بستیوں اور ملکوں کا ذکرِ فراواں ملتا ہے سو اپنے اس مضمون میں مختلف ماہیا نگاروں کے ایسے ماہیے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
دینی ماہیوں میں مدینہ منورہ کا خاصا ذکر ہوا ہے ان میں مدینہ شریف سے آنحضرتﷺ کی نسبت کے حوالے سے گہری محبت اور عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے۔
اُس اور اجالے ہیں
جائیں مدینے جو
وہ قسمت والے ہیں
(سعید شباب)
اک بات ہے سینے میں
جان مری نکلے
مولا کے مدینے میں
(قاضی اعجاز محور)
روزوں کا مہینہ ہے
میری آنکھوں کا
مسکن وہ مدینہ ہے
(عارف فرہاد)
٭
٭
٭
مرکز گنجینے کا
شہروں میں افضل
ہے شہر مدینے کا
(امین خیال)
روشن سا ستارہ ہے
شہر مدینہ میں
جنت کا نظارہ ہے
(شاہدہ ناز)
بھرلاﺅ سینے میں
نور برستا ہے
آقا کے مدینے میں
(اختر رضا سلیمی)
مدینہ شہر کے حوالے سے تو بے شمار ماہیے کہے جاچکے ہیں تاہم بعض ماہیوں میں مکہ شریف کا ذکر بھی مدینہ شریف کے ساتھ آیا ہے۔
اک سبز نگینہ ہے
مرکز دنیا کا
مکہ یا مدینہ ہے
(اجمل جنڈیالوی)
اب دور سفینہ ہے
پھر بھی مرے دل میں
مکہ ہے، مدینہ ہے
(علقمہ شبلی)
دل مکہ مدینہ ہو
نورالٰہی سے
روشن ہر سینہ ہو
(محمد وسیم انجم)
یہاں تک تو مکہ اور مدینہ کا ذکر تھا بخش لائل پوری کے ایک ماہیے میں کاشی اور مدینہ کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے
کاشی ہو مدینہ ہو
سجدے لاحاصل
جب پاک نہ سینہ ہو
٭
بخش لائل پوری نے قلب کی صفائی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے تو ضمیر یوسف نے برملا کہا ہے:
نفرت ہے نہ کینہ ہے
پاک ہے ہر گوشہ
دل میرا مدینہ ہے
٭
نذیر فتح پوری کے ہاں اجمیر شریف کا حوالہ اولیائے کرام سے ان کی عقیدت کو ظاہر کرتاہےé
اجمیر میں جا سجنی
پریم کے ساگر سے
دل اپنا لگا سجنی
بنارس کی صبح کا حوالہ اایک طرف گنگا کی مذہبی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے تو دوسری طرف اس کا حُسن، محبوب کے حسن کی تشبیہ بن جاتا ہے ۔
بہتا ہے سرن ڈھولا
صبح بنارس کی
تو پہلی کرن ڈھولا (یوسف اختر)
تاریکی زنداں ہوں
صبح بنارس تُو
میں شام غریباں ہوں (شجاعت علی راہی)
کراچی، ملتا ن اور لاہور کا ذکر بعض ماہیا نگاروں کے داخلی تجربوں سے یوں ماہیے میں آیا ہے۔
رنگ گورا ڈاچی کا
دیکھو کر ڈالا
کیا حال کراچی کا
ملتان کے آم اچھے
اچھا لگتا ہے
جس شخص کے کام اچھے
وہ دور نہیں دیکھا
ہم نے بزرگوں کا
لاہور نہیں دیکھا
(صابر آفاقی)
(صابر آفاقی)
(پروین کماراشک)
ملتان، دلی اور راولپنڈی کا تذکرہ بہ انداز دگر یوں ملتا ہے۔
یہ ناز سے کہتا ہوں
پیروں کی نگری
ملتان میں رہتا ہوں
پردیس میں رہتے ہیں
دلی کے جنگل میں
دُکھ پنڈی کے سہتے ہیں
شہروں کی کہانی ہے
لڑکا پنڈی کا
لڑکی ملتا نی ہے
(ارشد اقبال آرش)
(پروین کماراشک)
(خاور اعجاز)
عارف فرہاد کے ماہیوں میں راولپنڈی پتھر دل صنم کا شہر بن کر ابھرتا ہے۔
دل کے لئے غم ڈھونڈے
راولپنڈی میں
کیا کوئی صنم ڈھونڈے
عمروں کے روگ ملے
پنڈی میں دل کو
پتھریلے لوگ ملے
اس کے برعکس کابل کا محبوب عارف فرہاد دکو زیادہ مرغوب ہے لیکن بالآخر وہ نوشہرہ کی خوشبو سے مشام جاں کو معطر کر لیتے ہیں۔
کابل سے ہو اآئی
بہتے دریا میں
پھولوں کو بہا لائی
چاندی کی کٹوری ہے
کابل کی لڑکی
ہر چیز سے گوری ہے
چمبیلی کی کلیوں میں
خوشبو ر ہتی ہے
نوشہرہ کی گلیوں میں
ڈاکٹر صابر آفاقی نے ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی کی ماہیے کے لئے خدمات کو محبت کی نظر سے دیکھا تو مناظر عاشق کے علاقہ برہ پورہ کا ذکر یوں آفاقی صاحب کے ماہیے میں چلا آیاé
اک دریا بہتا ہے
عاشق ماہیے کا
برہ پورہ میں رہتا ہے
بعض شہروں اور وادیوں کا ذکر اردو ماہیے میں اس طرح آیا ہے:
مدہوش نظارے ہیں اک راگ روانی میں
لوگ پشاور کے پیار کا نغمہ ہے
جی دار ہیں،پیارے ہیں جہلم کے پانی میں (مسعود ہاشمی)
یہ گوجرانوالہ ہے
شہر محبت کا
ہر شخص نرالا ہے
(امین خیال)
جہلم ترے دھاروں کی
بھول نہیں سکتے
ہم آگ چناروں کی
(یوسف اختر)
چنبیلی کی کلیوں میں
گم ہے مرا بچپن
گجرات کی گلیوں میں
(عاصی کاشمیری)
٭
٭
٭
چترال کو چلتے ہیں
سنگ پہاڑوں کے
جہاں رنگ بدلتے ہیں
(امین خیال)
گرمی سے نہ گبھرانا
جب کبھی دل چاہے
کاغان چلے آنا
(سلطان سکون)
کشمیر میں رہتا ہوں
کشمیری رنگ میں
میں ماہیے کہتا ہوں
(صابر آفاقی)
٭
٭
٭
شملے کا دسمبر ہے
رات کٹے کیسے
پردیس میں دلبر ہے
(شباب للت)
جھرنا کشمیر کا ہے
کس سے کریں شکوہ
قصہ تقدیر کا ہے
(جاوید خان)
لو ٹوٹ گیا سپنا ناراں کی ہوائیں ہیں بجلی سی لپک جائے
بالاکوٹ میں بھی طعنے ہیں یاروں کے سربن وادی کو
اب کوئی نہیں اپنا اور تیری جفائیں ہیں کرنوں کی سڑک جائے
(احمد حسین مجاہد) (احمد حسین مجاہد) (آصف ثاقب)
ابھی تک تو شہروں کی بات ہوری تھی اردو ماہیے میں بعض ماہیانگاروں کی ذات کے حوالے سے ان کے دیہاتوں کا ذکر بھی ملتا ہے یوں گوہاڑی، جھنگی اور کیکوٹ جیسے گم نام گاﺅں بھی اردو ماہیے کو آباد کرنے لگے ہیں۔
کیا تیز کلہاڑی ہے
جس گاﺅں جنما
نام اس کا گوہاڑی ہے
(صابر آفاقی)
دکھ درد ہی سہتا ہوں
ہوں کیکوٹ کا اور
پنڈی میں رہتا ہوں
(اختر رضا سلیمی)
جھنگی کی وادی ہے
ہم بھی گئے تھے سجن
عارف کی شادی میں
(اختر رضا سلیمی)
ایک طرف اردو ماہیے میں غیر معروف دیہاتوں تک کے نام آرہے ہیں تو دوسری طرف یورپی ممالک کے معروف شہروں کی رونقوں سے بھی ماہیا سجنے لگا ہے اس سلسلے میں سجاد مرزا کی یورپ کی سیاحت ان کے کام آئی ہے۔ ان کے چند ماہیے دیکھیںé
کولون کے فوارے
دل میں سمائے ہیں
برسات کے نظارے
وہ بون کی شاہراہیں
چھوڑ کے مرزا جی
کیوں بھرتے ہیں اب آہیں
لندن کے حسیںچہرے
دیس میں مرزا کو
رہتے ہیں سدا گھیرے
پیرس کی ہے دو شیزہ
ہاتھ میں چھتری کا
اک پھول ہے پاکیزہ
ڈاکٹر صابر آفاقی آسٹریلیا کی سیاحت کے بعد وہاں کی یادوں کو یوں سینے سے لگائے ہوئے ہیںé
رنگین بہاروں کو
بھول نہیں سکتا
سڈنی کے نظاروں کو
ان شہروں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے نام بھی ڈاکٹر صابر آفاقی ، سجاد مرزا اور جاوید خان کے ماہیوں میں آئے ہیںé
وہ حُسن وہ رعنائی
ایک حسیں دیکھا
نیپال کی یاد آئی
(صابر آفاقی)
طوفان میں رہتا ہے
اپنا حیدر اب
المان میں رہتا ہے
(صابر آفاقی)
اٹلی کے حسیں لوگو
دل میں رہو بستے
تم بولو کہ نہ بولو
(سجاد مرزا)
جب سے ہیں سجن من میں
دل ہی نہیں لگتا
اب مغربی جرمن میں
(جاوید خان)
امین خیال کے ماہیوں میں پاکستان کے ساتھ جرمن، انگلینڈ، جاپان اور چین کا ذکر ان کے کسی نہ کسی شخصی حوالے سے آیا ہے۔
اک چاند اک تارہ ہے
پاکستان مجھے
جندجان سے پیارا ہے
رحمت کی پڑی جھالیں
پاکستان کو بھی
سرسبز بناڈالیں گے
گھوڑے پر زین پڑے
حاصل علم کرو
گو جانا چین پڑے
جرمن کی فوجیں ہیں
امن اگر ہو تو
موجیں ہی موجیں ہیں
جاپان میں رہتے ہو
درد جدائی کے
تم کیسے سہتے ہو
انگلینڈ نہ جا بیٹا
اپنے دیس میں رہ
تو آدھی کھا بیٹا
اس مضمون میں پیٍش کئے گئے سارے ماہیوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پنجابی ماہیے میں شہروں اور دیہاتوں کا حوالہ اردو ماہیے میں نہ صرف خوبصورتی سے آیا ہے بلکہ اس میں پنجابی روایت سے آگے کا سفر بھی دکھائی دیتا ہے ۔ملکوں، شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے ایسے ذکر سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ماہیا پوری طرح ارضی اور ثقافتی بنیاد سے جڑا ہوا ہے۔ ہمارے ادب کی مختلف اصناف میںتجریدیت کی بے معنی ماورائیت کے برعکس ماہیے نے اس طرح ادب میں ارضی، ثقافتی، جسمانی اور بامعنی تخلیقیت کی اہمیت کا احساس پیدا کرنے کی کاوش کی ہے مجھے امید ہے کہ اردو ماہیا اپنی ثقافتی قوت کے بل پر ہمارے ادب میں اس مثبت رویے کو فروغ دینے کا موجب بنے گا۔آخر میں اسی موضوع سے متعلق اپنے چند ماہیے میں پیش کئے دیتا ہوں
یادوں کے خزینے میں
خانپور اپنا تو
آباد ہے سینے میں
اک روح تھی سیلانی
چھوڑ کے شہر دل
جو ہوگئی ملتانی
اک اپنا ہزارہ تھا
کتنے مناظر کا
خوش رنگ نظارہ تھا
٭
٭
٭
مولا کی عنایت تھی
اپنے مقدر میں
جرمن کی ولایت تھی
خود کار نظام ملے
جرمنی میں آکر
کتنے آرام ملے
دل شہر مدینہ ہو
نور محبت سے
روشن ہر سینہ ہو
(مطبوعہ ماہنامہ ”نیرنگ خیال“ راولپنڈی۔ماہیا نمبر اکتوبر1999 ئ)