سہ ماہی ”کوہسار“ بھاگل پور کے شمارہ مارچ ۱۹۹۹ءمیں ممتاز شاعر قتیل شفائی کا مضمون ”کچھ ماہیے کے بارے میں“ پڑھ کر خوشی ہوئی۔ انہوں نے بالو اور ماہیا کے کرداروں کے بارے میں عمدہ معلومات فراہم کی ہے۔ اسی معلومات میں اضافہ کرنے کیلئے میں بھی مزید کچھ مواد پیش کر رہا ہوں۔ اقبال بیگم گجرات (پاکستانی شہر) کے ایک معزز وکیل کی بیٹی تھی۔ اقبال نام کی نسبت سے اسے بالو کہتے ہیں اور اس کا بالو نام ہی مقبول ہوگیا۔ ماہنامہ ”شمع“ نئی دہلی کے فلم اور ٹی وی نمبر (۱۹۸۸ء) میں پاکستانی فلمی صحافی یاسین گوریجہ صاحب کے مضمون ”فلم ۔ شمالی ہند سے پاکستان تک“ میں یہ معلومات ملتی ہیں۔
”بالو کا اصلی نام اقبال بیگم تھا۔ وہ گجرات کے ایک وکیل کی بیٹی تھی جسے ایک تانگے والا اغوا کر کے لے گیا تھا یا وہ خود اس تانگے والے کے ساتھ فرار ہو کر کلکتہ پہنچ گئی تھی۔ ان دنوں وہ اسٹیج پر کام کر رہی تھیں۔ تانگے والے کا نام محمد علی عرف ماہیا تھا۔ ریہرسل میں بالو کو ہیروئن کے طور پر لیا گیا۔ اس کے ساتھ بی این بالی، حیدر باندی، بے بی نور جہاں، حسن دین وغیرہ نے کام کیا۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران پنجاب کے وزیراعلیٰ سکندر حیات خان بھی سیٹ پر آئے۔ انہوں نے، کے ڈی مہرہ کی کوشش کو سراہا۔ ”ہیر سیال“ نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ پنجاب میں ۱۹۳۶ءمیں یہ فلم ریلیز ہوئی اور ہر جگہ اس نے سلور جوبلی منائی۔“
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بالو اور محمد علی ماہیا کا رومانس بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے پہلے نصف کا حصہ ہے۔ اسی مضمون میں آگے چل کر یاسین گوریجہ فلم ”سسی پنوں“ کے ذکر میں لکھتے ہیں۔ ”اسے داﺅد چاند نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ ”ہیر سیال“ والی بالو اس فلم کی ہیروئن تھی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد بالو بیمار رہنے لگی۔ اس کے خاوند محمد علی ماہیا نے اسے کلکتہ کے بازار حسن کی زینت بنا دیا۔ یہیں وہ آتشک کی بیماری میں مبتلا ہو کر اﷲ کو پیاری ہوگئی۔ البتہ وہ ایک ایسی یادگار چھوڑ گئی جس نے بعد میں پاکستان کی صف اول کی ہیروئن بن کر نام پیدا کیا۔ اس ہیروئن کا نام صبیحہ خانم ہے“۔۔۔۔ قتیل شفائی صاحب نے بالو کی بیماری ٹی بی بیان کی ہے جو درست ہو سکتی ہے۔ یاسین گوریجہ کے اس بیان سے کہ ”فلم کی کامیابی کے بعد بالو بیمار رہنے لگی“ ٹی بی کا قیاس درست ہو سکتا ہے۔ البتہ جب اسے بازار حسن میں بٹھا دیا گیا تو پھر اسے آتشک کی بیماری بھی لگ گئی۔ میرا خیال ہے ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکالنے کے بعد مقدمہ بازی اور پھر سکینڈل کی تشہیر نے بالو کو اندر ہی اندر کچوکے لگائے ہوں گے۔ یہی اذیت ٹی بی کا باعث بنی ہوگی۔ بازار حسن نے آتشک کا موذی مرض دے دیا اور یوں پانچ چھ سال کے مختصر سے عرصہ میں وہ گھر سے فرار کے بعد شہرت اور رسوائی سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس سارے سانحہ میں یہ ایک روشن پہلو بھی ہے کہ اقبال بیگم ایک شریف خاندان کی اولاد ہو کر کوٹھے تک جا پہنچی لیکن اس کی بیٹی صبیحہ خانم نے کوٹھے سے فلم اور فلم سے اپنا گھر آباد کرنے کا سفر مکمل کیا۔ بالو وکیل کی بیٹی تھی۔ اعزاز احمد آذر کا یہ ماہیا بالو کے نام کے بغیر بھی بالو ہی کے ذکر سے بھرا ہوا لگتا ہے۔
اس میں بھی ہیں راز کئی
لڑکی وکیلوں کی
دے گئی تاریخ نئی
محمد علی اور اقبال بیگم کے معاشقے کے حوالے سے امین خیال جی نے اپنے مضمون ”پنجابی ماہیا“ میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ محمد شفیع اور ایک اور بالو کی عشق کی داستان کا ذکر بھی کیا ہے۔ تاہم یہ سارے قصے اسی صدی کے اوائل کے ہیں جبکہ لوک گیت ماہیا تو صدیوں سے پنجابی عوام میں رائج ہوا ہے۔
حال ہی میں مغربی ممالک میں کارنیوال کے جشن منائے گئے ہیں۔ جرمنی میں اس میلے کو فاشنگ کہتے ہیں اور صرف جرمنی میں ہی۔۔۔ سارے یورپ میں سے صرف جرمنی میں اس موقع پرBütten Reden لازماً ہوتی ہے۔ مجھے اس کا قطعاً علم نہیں تھا۔ جرمنی میں مقیم میرے دوست ارشاد ہاشمی نے ایک بار مجھ سے سرسری سا ذکر کیا کہ یہاں جرمنی میں بھی ماہیے سے ملتی جلتی شاعری پائی جاتی ہے۔ اتفاق سے اس دن ارشاد ہاشمی صاحب بھی میرے ہاں موجود تھے جب ایک جرمن خاتون میرے ایک پرانے شاگرد کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے تشریف لائیں۔Frau Häring سے ہم نےBütt کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ دو مصرعوں میں بھی، تین مصرعوں میں بھی اور اس سے زیادہ مصرعوں میں بھی۔ پھر انہوں نے جرمنی کے مختلف علاقوں کی فاشنگ کی تقریبات کی الگ الگ ثقافتی پہچان پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ تھوڑے تھوڑے سے فرق کے باوجودBütt پڑھنے کا رواج سارے علاقوں میں ہے اور اس کے بغیر یہ تقریب مکمل ہی نہیں ہو سکتی۔Frau Häring نے بتایا کہ صدیوں پرانی مختلف علاقوں کی ثقافتی پہچان اب ایک مرکزی ثقافتی پہچان میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ یہ ساری دلچسپ باتیں تھیں لیکن مجھے توBütt کی تلاش تھی۔ اس معاملے میں بھی ارشاد ہاشمی صاحب بازی لے گئے۔ ایک دن وہ چندBütt لے کر آئے۔ میں نے انہیں دیکھا تو حیران رہ گیا۔ انہیں پنجابی اور اردو ماہیے سے گہری مشابہت تھی۔ ارشاد ہاشمی صاحب کے فراہم کردہBütt انہیں کے اردو ترجمہ کے ساتھ پیش ہیں۔
افسر وہ سیانا ہے Burgermeister ist sehr schlou
کام کا زور ہو تو Wen Viel Zu Tun Ist
کرلیتا بہانہ ہے Macht er oft bluou
تھا شوق اسے جتنا Er Wolte ran
دیکھئے کام وہ اب Jetz muf zeigen
کرسکتا ہے کتنا was er kann
ارشاد ہاشمی صاحب نے خود بھی جرمن زبان میں ایک ماہیا کہا۔ جرمن زبان میں اسے پہلا ماہیا کہنا چاہئے لیکن شاید جرمن احباب اسی ماہئے کوBütt کہیں گے۔
Es gibt nicht zu lachen
Auslander kommen
Hier mub souber machen
بعد میںFrau Häring نے مجھے ڈھیرے سارےBütt فراہم کر دیئے۔ ان میں مصرعوں کی تعداد مختلف ہے لیکن سہ مصرعی فارم کےBütt حیرت انگیز طور پر ماہیے جیسے لگتے ہیں۔ ابھی ان پر غور کر رہا ہوں۔Frau Häring اور ارشاد ہاشمی صاحب نے ساتھ دیا تو ہم ماہیے جیسے بہت سارےBütt دوسروں سے الگ کر کے یک جا کر سکیں گے۔ شاید!
ماہئے کی بحث کے سلسلے میں سب سے پہلا باقاعدہ مضمون افتخار احمد نے ”اردو ماہیے“ کے زیر عنوان لکھا تھا۔ یہ مضمون دو ادبی رسائل میں یکے بعد دیگرے شائع ہوا تھا۔ ماہنامہ ”صریر“ کراچی کے شمارہ اگست ۱۹۹۲ءمیں اور ماہنامہ تجدید نو اسلام آباد کے شمارہ اکتوبر ۱۹۹۲ءمیں۔ ان دونوں رسائل کا ماہیے کی تحریک کا آغاز کرنے میں تاریخی کردار بنتا ہے۔ تاہم تحقیقی زاویے سے یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مذکورہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ”نوائے وقت“ راولپنڈی کی اشاعت ۲۴مئی ۱۹۹۲ءمیں شائع ہوا تھا۔ تب اس کے ادبی صفحہ کے مدیر انوار فیروز تھے۔ سو ماہیے کی بحث کا سب سے پہلا مضمون روزنامہ ”نوائے وقت“ راولپنڈی میں جناب انوار فیروز کی زیر نگرانی شائع ہوا۔ آپ خود بھی ایک عمدہ ماہیا نگار ہیں۔ امید ہے یہ ساری باتیں ماہیے سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنیں گی۔
(مطبوعہ سہ ماہی کوہسار بھاگلپور۔ اگست ۱۹۹۹ء)