علامہ شارق جمال اور جناب ناوک حمزہ پوری انڈیا میں اردو کے کہنہ مشق شعراءہیں۔ دونوں کو میں اپنا بزرگ سمجھتا ہوں ”گلبن“ کے ماہیا نمبر میں مطبوعہ ان کے کوائف اور ماہیوں سے میرے دل میں ان کے لئے محبت پیدا ہوئی۔ یہ محبت تاحال قائم ہے چونکہ محبت میں تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ جائز ہوتی ہے اس لئے دونوں بزرگوں کے ماہیے کی بحث میں ادبی رویوں کو یہاں ایک ساتھ پیش کرتا ہوں۔
ماہنامہ ”نئی شناخت“ کٹک جلد اول شمارہ دوم میں علامہ شارق جمال ناگپوری کے چند مساوی الوزن ثلاثی ”ماہیے“ کے عنوان کے ساتھ شائع ہوئے تھے۔ یہ تب کی بات ہے جب ابھی بھارت میں درست وزن کی تحریک کی آواز پوری طرح نہیں پہنچی تھی۔ میں نے جہاں دوسرے ایسے احباب کا نوٹس لیا ،وہیں علامہ شارق جمال کے ”ماہیے“ بھی بطور ماہیا تسلیم نہیں کئے۔ میری کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ کے صفحہ نمبر ۲۴، ۲۵پر شارق جمال اور تین دیگر احباب کے ماہیوں کے ساتھ میرے یہ ریمارکس موجود ہیں۔
”ماہیوں میں تین یکساں وزن کے مصرعوں کی غلط روش بے خبری کے باعث عام ہوئی۔ پھراس کا ایسا بے محابا استعمال ہونے لگا کہ ہر شاعر نے من چاہا وزن گھڑ لیا۔ ماہئے کے ساتھ یہ تماشہ نو آموز شاعروں نے نہیں کیا۔ زیادہ تر ایسے شعراءہیں جو ایک عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں اور ادب کی دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔“
میرے ان اختلافی ریمارکس کو علامہ شارق جمال نے اپنی اناکا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ اپنے طور پر ماہیے کو سمجھنے کی کوشش کی اور پنجابی ماہیے کی لے کو اصولی طور پر مانتے ہوئے اردو میں اس کے عروضی پیمانے تلاش کئے۔ انہوں نے عروضی قاعدے کے مطابق مفعول مفاعیلن کے ساتھ دوسرے مصرعہ کے لئے مفعول فعولن کا وزن تجویز کیا۔ یہ وزن عروضی قاعدے کے عین مطابق ہے لیکن ماہیے کے فطری بہاﺅ میں نہیں آتا۔ ویسے کھینچ تان کر اسے لے میں لایا بھی جا سکتا ہے۔ میں نے اس وزن پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنے مضمون ”اردو ماہیے کی تحریک“ میں یوں اختلاف کیا تھا۔
”شارق جمال اپنے مضمون میں تمام تر اخلاص کے باوجود ماہیے کے فطری بہاﺅ کو سمجھنے کی بجائے عروضی زبان میں الجھ گئے ہیں۔ میں علم عروض میں ان کی مہارت کا معترف بھی ہوں اور قدر دان بھی، اور اس وجہ سے بھی ان سے محبت رکھتا ہوں کہ انہوں نے ماہیے کے غلط وزن کو ترک کر کے درست وزن کو اپنا کر عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم اپنے مضمون میں انہوں نے عروضی قاعدے کی بنیاد پر ماہیے کا جو وزن تجویز کیا ہے وہ ماہیے کے فطری بہاﺅ میں نہیں آ رہا“
(ماہنامہ سخنور کراچی۔ دسمبر ۱۹۹۸ء)
عروضی قواعد کی رو سے اپنے موقف میں حق بجانب ہونے کے باوجود علامہ شارق جمال نے اس اختلاف کو بھی اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور سہ ماہی ”کوہسار جرنل“ بھاگل پور کے شمارہ مارچ ۱۹۹۹ءمیں ”ماہیا۔ ایک مباحثہ“ کے تحت ماہیے کے تئیں پورے اخلاص کے ساتھ کہہ دیا کہ ”مساوی الوزن ماہیے تو کسی طرح ماہیے کے فارم میں نہیں آ سکتے۔ ہاں، پہلے مصرعہ کے ارکان مفعول مفاعیلن کے ساتھ دوسرے مصرعہ کے ارکان فاع مفاعیلن یا مفعول فعولن وزن اچھا لگتا ہے۔ کئی طرح کے وزن سے بہتر ہے کہ انہیں ارکان میں ماہئے کہے جائیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ شروع میں رکن فاع کا رکھنا عروضی قاعدے کے خلاف ہے لیکن آج کے لکھنے والوں کا اتفاق وزن فاع مفاعیلن پر ہی ہے تو بہتر ہے اسی ایک وزن ہی کو رواج دیا جائے۔ ماہیے تخلیق کرنے والوں کی تعداد بتاتی ہے کہ اس صنف سخن کو کافی شہرت ملے گی۔ آج بھی اسے جو شہرت ملی ہے وہ دوسری اصناف شاعری سے (غزل وغیرہ کو چھوڑ کر )زیادہ ہی ہے۔“
ماہیے کے سلسلہ میں علامہ شارق جمال کے رویے سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ماہیے کو بتدریج سمجھنے کے ساتھ اس کے عروضی خدوخال کو اجاگر کرنے کی مخلصانہ کاوش کی ہے۔ اس سارے تدریجی عمل میں ان کی شخصیت کا قلندرانہ رخ بھی سامنے آیا ہے کہ اس بحث میں انہوں نے فقیرانہ شان استغناءکے ساتھ اپنی اناکو بیچ میں نہیں آنے دیا اور جو ادبی سچائی محسوس ہوئی اسے خلوص کے ساتھ مان لیا۔
جناب ناوک حمزہ پوری نے ماہیے کی تفہیم میں ایک بڑی اہم اور بنیادی نوعیت کی بات تحریر کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں ”میں بھی اس امر کی تائید کرتا ہوں کہ عروض کو آہنگ کا تابع ہونا چاہئے نہ کہ آہنگ ہی کو عروض کا غلام بنا دیا جائے۔“
لگ بھگ اسی مفہوم کو انہوں نے اپنے مضمون ”ماہیے کا وزن“ مطبوعہ دو ماہی گلبن احمد آباد شمارہ ستمبر اکتوبر ۱۹۹۸ءمیں بھی دہرایا ہے۔ یوں اصولی طور پر ناوک حمزہ پوری ماہیے کی لوک لے کے حامی ہیں لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ان کی طرف سے ماہیے کی بحث میں کہیں کسی کی بے جا طرفداری اور کہیں کسی پر بے جا طنز کا رویہ ابھرنے لگا ہے۔ بے جا طرفداری میں ظہیر غازی پوری صاحب ان کی کمزوری محسوس ہونے لگے ہیں۔ ظہیر صاحب نے اپنے ایک مضمون میں خاصی عروضی کاری گری دکھائی تھی۔ دوسرے لوگوں کا مضحکہ اڑایا تھا۔ ان کی عروضی کاریگری کے جواب میں احمد حسین مجاہد نے مضمون ”اردو ماہیا عروضی تناظر میں“ تحریر کیا جو گلبن کے شمارہ ستمبر، اکتوبر ۱۹۹۸ءمیں چھپ چکا ہے۔ اس کے بعد ناوک صاحب کا جو خط گلبن کے شمارہ نومبر، دسمبر ۱۹۹۸ءمیں شائع ہوا ہے اس میں انہوں نے احمد حسین مجاہد صاحب کے مضمون پر اپنی اچھی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ظہیر صاحب کا ذکر ہی گول کر دیا ہے اور زیر بحث بات کو چھوڑ کر شارق جمال صاحب پر طنز کرنے لگے اور اس میں یہ بھی لکھ دیا۔
”طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ان کے پیش کردہ وزن کو خود حیدر قریشی صاحب نے مسترد کر دیا ہے“
احمدحسین مجاہد نے ظہیر صاحب کی ”عروضی مہارت“ کو اپنے مضمون میں ظاہر کر دیا تھا۔ شاید ان سے توجہ ہٹانے کے لئے ضروری تھا کہ تیر کا رخ شارق جمال صاحب کی طرف کر دیا جائے۔ ظہیر صاحب بھی بھلے آدمی ہیں۔ اپنی کسی مجبوری یا غرض کے باعث ماہیے کی بحث میں انہوں نے علمی بات ایک فیصد کی ہے اور سنی سنائی باتوں اور مخالفین کے بہتانوں کو زیادہ اجاگر کیا ہے۔ نتیجتاً ان کی اپنی ادبی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ اب تو وہ اسی بات سے خوش ہو رہے ہیں کہ انہیں کسی دوست نے خط لکھ دیا ہے کہ ماہیے کا تجربہ اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ماہیے کے سلسلے میں کتنے مخلص تھے۔ کبھی کبھی انسان کو اپنی مجبوریوں کے باعث ایسا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ بہرحال میں تو ظہیر صاحب کے لئے بھی خیر خواہی کے جذبات رکھتا ہوں۔ اﷲ انہیں خوش رکھے۔ تاہم اس سارے بحث مباحثہ میں ناوک حمزہ پوری صاحب کی شخصیت کا جو پہلو سامنے آیا ہے اس سے میرے اس تصور کو ہلکی سی، بہت ہی ہلکی سی ٹھیس پہنچی ہے جو ان کے بارے میں میرے ذہن میں بنا ہوا ہے۔ مجھے شارق جمال صاحب اور ناوک صاحب کی بزرگانہ شخصیات ایک جیسی لگتی ہیں۔ اسی لئے یہ چھوٹی سی شکایت لکھ دی ہے۔ ڈاکٹر مناظر ہوں، ظہیر ہوں یا حیدر قریشی۔ ہم سب کی بات اور ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اپنے دونوں بزرگوں علامہ شارق جمال اور جناب ناوک حمزہ پوری کے بارے میں میرے ذہن میں جو تصور بنا ہوا ہے اور دل میں جو تصویر بنی ہوئی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے اور وہ ہماری کوتاہیوں کے باوجود ہماری رہنمائی کرتے رہیں۔
ہمارے لئے دونوں بزرگوں کا وجود تبرک کا درجہ رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ سہ ماہی اسباق پونہ ۔ جولائی تا ستمبر ۱۹۹۹ء)