بھید اپنے فقط ہمیں جانیں
اپنے منکر نکیر بھی ہم ہیں
۔۔۔۔میرے بچپن میں ہی میرے اباجی نے ایک طرح سے میرے دل میں اس کا شوق پیدا کیاتھا۔ وہ مجھے قصّے، کہانیاں سنانے کی بجائے بزرگانِ دین کے حالات و واقعات دلچسپ پیرائے میں سناتے۔ ایسے واقعات میں بہت سی باتیں میری سمجھ میں تو نہیں آتی تھیں لیکن انہیں سننے میں انوکھاسامزہ ضرور آتاتھا۔ ایک دفعہ اباجی نے اپنے مرشد کی جڑواں بہن کے بچپن کاایک دلچسپ اور حیرت انگیز واقعہ سنایا:
۔۔۔۔”جنت بی بی بڑی اللہ والی تھی۔ بچپن میں ایک دفعہ اس نے خواب دیکھا کہ وہ سمندر کے کنارے کھڑی ہے۔ سمندر کی لہریں اس کی ٹانگوں تک آآکر لوٹ جاتی ہیں۔ بیدار ہونے پر جنت بی بی نے اپنی ماں کو اپنا خواب سنایا۔ ماں اس خواب کو سن کر بے حد حیران ہوئی کیونکہ جنت بی بی کی شلوار بھی گیلی تھی۔“
میں نے اباجی کی بات سن کر بچپنے کی معصومانہ ہنسی کے ساتھ کہا:”نیند میں ان کی پِشی نکل گئی ہوگی۔“
اباجی میری بات سن کر بے ساختہ مسکرادئے۔ پھر انہوں نے وضاحت کی کہ جنت بی بی کی شلوار صرف گیلی ہی نہیںتھی۔ اس پر سمندر کی ریت بھی چپکی ہوئی تھی۔ اس واقعہ کی پراسراریت نے میرے دل میں یہ شوق پیداکیاکہ میرے ساتھ بھی اس سے ملتا جلتا کوئی واقعہ پیش آئے۔ بڑا ہوا تو کئی کہانیوں میں اس انداز کے فرضی قصے پڑھے لیکن میری خواہش تو ذاتی تجربے کی تھی۔ اس خواہش کے دوران مجھے دو بزرگوں کے ایسے روحانی تجربات پڑھنے کا موقعہ ملا:
حضرت ابو عبداللہ جلارحمت اللہ علیہ مدینہ منورہ میں قیام فرماتھے۔ وہاں انہیں فاقوں کی نوبت آگئی۔جب بھوک سے بے حال ہوگئے تو روضۂنبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں فاقے سے ہوں اور آپ کے ہاں مہمان ہوں۔ اپنی عرض کے بعد نڈھال ہوکر سوگئے تو دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور اپنے دستِ مبارک سے آپ کو ایک روٹی عنایت فرمائی ہے۔ آپ نے آدھی روٹی کھالی جب نیند سے جاگے تو باقی آدھی روٹی آپ کے ہاتھ میں موجود تھی۔
دوسرا واقعہ حضرت حسن بصریؒکا تھا:
شمعون نامی ایک ستر سالہ غیر مسلم نے آپ سے کہا میری ساری زندگی تو کفرو ضلالت میں بسر ہوگئی ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا اب مسلمان ہوجاؤ شمعون نے کہااگر آپ لکھ دیں کہ خدا مجھے عذاب نہیں دے گا تو میں ایمان لے آتاہوں۔ آپ نے خط لکھ دیا۔ تب شمعون نے کہاکہ اس پر بصرہ کے معتبر افراد کی گواہی بھی کرادیں۔ چنانچہ گواہی کراکے خط شمعون کو دے دیاگیا۔ شمعون مسلمان ہوگیا اور اس نے وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو یہ خط میرے ہاتھ میں دے کر مجھے دفن کیاجائے۔ جب شمعون فوت ہوا تو اس کی وصیت کے مطابق خط اس کے ہاتھ میں رکھ کر اس کی تدفین کردی گئی۔ اُس رات حضرت حسن بصریؒ سخت اضطراب کی حالت میں تھے۔ باربار یہ خیال آئے کہ مجھے اپنی بخشش ہونے کا علم نہیں تو کسی اور کی بخشش کا خط کیوں لکھ دیا۔ اسی تشویش کے دوران آنکھ لگ گئی۔ خواب میں دیکھتے ہیں شمعون جنت میں پہنچاہواہے اورحضرت حسن بصریؒ سے کہتا ہے میرے مولانے ویسے ہی اتنے کرم کردیئے ہیں کہ آپ کے خط کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس لئے اپنایہ خط واپس لے لیں۔ حضرت حسن بصریؒ جب بیدار ہوئے تو وہ خط آپ کے ہاتھ میں موجود تھا۔
۔۔۔۔ان واقعات کو پڑھنے کے بعد بزرگانِ دین سے تمام تر عقیدت کے باوجود میںذ ہنی شکوک و شبہات میں مبتلاہوگیا۔ تب میں شوگرملز میں ملازم تھا۔ دسمبر کے آخری دن تھے۔اس شام کو میری شام چھ بجے سے رات دو بجے تک والی شفٹ تھی۔ جب میں ڈیوٹی کے لئے جارہاتھا تو مجھے ہلکا ہلکا سا بخارہورہاتھا۔ میں نے لیبارٹری میں بمشکل دو گھنٹے کام کیا تھاکہ بخار تیز ہوگیا۔ اپنے معاون کو اپنی ڈیوٹی سونپ کرمیں لیبارٹری کے متروک ڈارک روم میں چلاگیا۔وہاں فلٹر کلاتھ کاصرف ایک ٹکڑاپڑاتھاجسے میں نے بچھونا بنالیا، سرہانے ایک اینٹ رکھی اور سکڑ کر لیٹ گیا۔ جیسے جیسے بخار چڑھ رہاتھا ٹھنڈک کااحساس بڑھ رہاتھا۔ اوپر کوئی رضائی، کمبل یا چادر نہ ہونے کے باعث کپکپی ہونے لگی تھی۔ اچانک ایسے لگاجیسے کسی نے آکر میرے اوپر رضائی ڈال دی ہو اور پھر مجھے گہری نیند آگئی۔ رات ڈیڑھ بجے جب چھٹی کا پہلا سائرن بجاتو میری آنکھ کھل گئی۔میرا جسم پسینے سے بھراہواتھا، بخار ٹوٹ چکاتھا۔ میں نے اپنے اوپر پڑی ہوئی رضائی کو ایک طرف کیااور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مگریہ کیا؟ ڈارک روم میں کسی رضائی کا نام و نشان نہ تھا۔ یہ کیا بھید تھا؟ میں خوشی اور حیرت سے مغلوب ہوگیا۔ میں نے اپنی یہ واردات سارے عزیزوں اور دوستوں کو سنائی۔ کسی نے مجھے رشک بھری نظروں سے دیکھا اور کسی نے اسے میرا وہم قراردیا۔ اباجی نے کہا کہ جو کچھ ہوا تھااسے اپنے تک رکھنا تھا۔ تم اس اسرار کو برداشت نہیں کرسکے اس لئے اب آئندہ ایسے تجربے کی لذّت سے محروم کردےئے جاؤگے۔ اور واقعی میں ایسے تجربے کی لذت سے محروم ہوگیالیکن روحانیت سے میرا لگاؤبڑھ گیا۔ میرے شکوک و شبہات ختم ہوگئے۔ میں نے اولیائے کرام کی زندگیوں میں ایسے تجربات کا باقاعدہ مطالعہ شروع کردیاکہ ان کے مطالعہ کی بھی اپنی ایک لذت تھی۔
٭٭
۔۔۔۔پہلے تجربے کے پورے بیس سال بعد کل رات پھر ایک انوکھی واردات ہوگئی ہے۔مجھے ایک ہفتہ سے انفیکشن کی شکایت تھی۔ جب گلابالکل بیٹھ گیاتب ڈاکٹر کے پاس گیا۔ پہلے تو ڈاکٹر نے بیماری کے ایک ہفتہ بعد آنے پر سرزنش کی پھر پنسیلین کی گولیاں دیں۔ اس نے کہاکہ پورے سات دن تک صبح، دوپہر، شام باقاعدگی سے ان کے استعمال سے آرام آجانے کی امید ہے لیکن ان سات دنوں میں ایک وقت کی بھی بے قاعدگی نہ ہو۔ ڈاکٹر کی اتنی تاکید کے باوجود پہلے ہی دن میں شام کی گولی کھانا بھول گیا۔ کچھ دن بھر کی تھکن تھی کچھ سستی۔ اٹھنے کو دل نہیں کررہاتھا۔ باربارارادہ کرتاکہ ابھی اٹھ کر گولی لے لیتاہوں لیکن نیند مجھ پر حاوی ہوتی گئی۔ پھر یوں لگا جیسے کسی نے کیپسول نما پینسلین کی موٹی سی گولی میرے منھ میں ڈال دی ہے، میں بغیر پانی کے اسے نگلنے کی کوشش کررہاہوں اور بالآخر نگل گیاہوں۔ صبح جب میں بیدارہواتواس تجربہ کی حیرت اور خوشی میرے انگ انگ میں بھری ہوئی تھی۔پورے بیس سال بعد میں نے کائنات کے عظیم تر اسرار کو یاشاید اس کی پرچھائیں کو پھر ہلکاساچھوا تھا۔ مجھے یقین تھاکہ میری پینسلین کی گولیوں میں سے ایک گولی ضرور کم ہوگی۔میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ گولیوں کو چیک کیاتو کوئی گولی کم نہیں تھی۔ اتنی ہی گولیاں تھیں جتنی رات کو سونے سے پہلے موجود تھیں۔ میری حیرت اور خوشی کچھ بجھنے لگی لیکن ایک دم جیسے ان کی روشنی پہلے سے بڑ ھ گئی۔ گولیاں بے شک جوں کی توں موجودتھیں لیکن میرا اسرار بھرا تجربہ بھی سچ تھا۔ ڈاکٹر نے جس انفیکشن کے خاتمہ کے لئے سات دن کی میعاد بتائی تھی وہ پہلے ہی دن ختم ہوچکی تھی۔ میرا گلابالکل ٹھیک تھا۔ کہیں ہلکی سی خراش کا احساس بھی نہیں تھا۔ میں نے زورسے آواز دے کر اپنی بیوی کو بلایااور اسے اپنے رات کے تجربہ کے بارے میں بتانے لگا۔ اس دوران میرے بچے بھی آگئے تھے اور اور میرے قصے کو دلچسپی سے سن رہے تھے۔
۔۔۔۔۔جب میں اپناتجربہ بیان کرچکاتب مجھے یادآیاکہ مجھے تو اس بھید کو صرف اپنے تک رکھنا چاہئے تھا۔اب مجھے اگلے تجربے کے لئے پھر بیس سال انتظار کرناہوگا۔ لیکن میں اب ۴۴سال کاہوچکاہوں اور ۶۳سال سے آگے جانے کی تو خواہش ہی نہیں رکھتا۔ اس کا مطلب ہے اب میں کسی اور روحانی تجربے سے آشنا نہ ہوسکوں گا۔
لیکن میں ۶۳سال سے آگے جینے کی خواہش کیو ںنہیں رکھتا؟
یہ بھی ایک بھیدہے، اور یہ بھید تو اب میں کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا۔
٭٭٭