ہم نے بھوگاہے صرف اسے حیدر
ہم نے کب زندگی گزاری ہے
۔۔۔۔۔بچپن میں اُس کی ماں اُسے نلکے کے نیچے بٹھاکرنہلایاکرتی تھی۔اس کا بھائی نلکے کی ہتھی چلاتا،ماں اُس کے پورے جسم پر صابن مَل کر اسے اچھی طرح سے صاف کرتی۔ ماں کا نہلانا اُسے اچھا لگتاتھالیکن جب وہ اس کے منہ پر صابن لگاتی اور اسے آنکھوں میں اس کی چبھن محسوس ہوتی تب وہ تکلیف کے باعث اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتا۔ صابن سے بھی زیادہ گھبراہٹ اُسے اُس وقت ہوتی جب اُس کا سر نلکے کے پھن کے عین نیچے ہوتا۔ پانی سیدھا اُس کے سر اور چہرے پر امنڈتاچلاآتااُسے ایسا لگتاجیسے وہ کسی گہرے پانی میں ڈوب رہاہو۔ وہ گھبراہٹ کے مارے چیخنے لگتا۔ ایسے موقعہ پر اس کابھائی شرارت سے نلکے کی ہتھی کو زیادہ تیزی سے چلانے لگتا۔ اُس کی گھبراہٹ تڑپنے جیسی حالت میں بدل جاتی۔ تب ماں اسے سینے سے لگالیتی۔ ماں کے سینے سے لگتے ہی اس کی ساری گھبراہٹ دور ہوجاتی۔
۔۔۔۔لڑکپن میں ایک بار اُسے اپنے باپ کے ساتھ ایک پہاڑ کی چوٹی پر جانے کا موقعہ ملا۔پہاڑکی چوٹی پر پہنچ کر اس نے نیچے دیکھا تو خوفزدہ ہوگیا۔وہ بلندی اور پانی دونوں سے ڈرنے لگا۔ اسے زمین سے جڑے رہنے میں عافیت محسوس ہونے لگی۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتاگیا بلندی اور پانی سے اس کا خوف بڑھتاگیا۔ایک بار وہ ایک بائیس منزلہ عمارت کی آخری منزل پرگیا۔ بائیسویں منزل کے ایک فلیٹ کی بالکونی سے جب اس نے نیچے جھانک کر دیکھاتو اسے لگاوہ ابھی نیچے گرپڑے گا۔ اس نے بالکونی سے پیچھے ہٹ کر دیوار کے ساتھ جڑکرآہستہ آہستہ کمرے کی طرف سرکناشروع کیااور جب وہ تین میٹر کافاصلہ طے کرکے بالکونی کے ساتھ ملحقہ کمرے میں گیاتو اس کاسانس ایسے پھولاہواتھا جیسے وہ ۳۰۰میٹر کی دوڑ کے آخری پوائنٹ پر پہنچاہو۔
۔۔۔۔۔جوانی میں ملازمت کے باعث اسے کئی گھر تبدیل کرنے پڑے۔ اسے اتفاق کہیں کہ ہر گھر کاباتھ روم بے حد مختصر ہوتا۔ نہانے والا سمٹ سمٹاکرشاور کے نیچے کھڑاہوسکتاتھا۔ کئی بار اس نے سوچا اس سے تو بچپن کا وہ نلکااور کھرّابہترتھا۔وہاں ایسی گھٹن تو نہیں تھی۔ تنگ باتھ روم میں جاکر کبھی کبھی اسے ایسے محسوس ہوتاجیسے وہ کوئی ملنگ ہے جو کسی شہزادی پر فریفتہ ہوگیاہے اور بادشاہ نے اسے سزا کے طورپر دیواروں میں زندہ چُن دینے کا حکم دے دیاہے۔ تب وہ نہائے بغیرہی گھبراکرباہر نکل آتا۔ نہاتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنی پوری کمرپرنہیں پھِرسکتاتھا۔ ماں کا کمرپر صابن مَلنا یادآتاتواسکا جی چاہتاکاش ماں زندہ ہوتی اور اب بھی میری کمرپر صابن مَل دیتی۔ ایسے ہی خیالوں کے دورن ایک بار اُس نے اپنی بیوی کو عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ اس کی بیوی نہ صرف اس کی ماں کی بھتیجی تھی بلکہ بڑی حد تک اس کی ماں کی ہم شکل بھی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے اس خواہش کا اظہارکردیاکہ وہ نہاتے وقت اس کی کمرپر صابن مَل دیاکرے۔ اس کی بیوی تھوڑا ساشرمائی پھر کہنے لگی:”مجھ سے یہ فلموں والے باتھ روم کے سین نہیں ہوسکتے“وہ بیوی کے جملے پر مسکرایااور سوچایہ پگلی کہاں جاپہنچی۔ یوں بھی باتھ روم میں اتنی جگہ ہی کہا ںہے کہ وہ بھی میرے ساتھ سماسکتی۔
۔۔۔۔۔ایک دن اس نے اخبارمیں خبرپڑھی:ایک عورت جسے مردہ سمجھ کردفن کردیاگیاتھادودِن کی مشقّت کے بعد اپنی قبر اُدھیڑ کر باہر نکل آئی یہ خبر پڑھ کر اس پر شدید گھبراہٹ طاری ہوگئی۔کسی زندہ انسان کو مردہ سمجھ کر دفن کردینا۔ لیکن قبر کے اندر لیٹاہواانسان کیسے اسے اُدھیڑسکتاہے؟اس نے خوف اور حیرت سے سوچا۔ پھر اس نے فرض کیاکہ اسے بھی اسی طرح مردہ سمجھ کر دفن کردیاجائے تووہ اپنی قبراُدھیڑسکے گایانہیں۔وہ تو سچ مچ وہیں دَم گھٹ کر مرجائے گااو رپھر گھبراکروہ کمرے سے باہر نکل آیا۔ رات کو جب سردی کے باعث اس نے کمبل اپنے منہ پرلیا، اسے ایسے لگاجیسے وہ کفن میں لپٹاہوا قبرمیں پڑاہے۔ اس نے گھبراکر کمبل کوچہرے سے ہی نہیں، سینے سے بھی اُتارپھینکااور بسترپر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔بعد میں اس نے اپنے ایک دوست کو اپنی گھبراہٹ اور گھٹن کے احساس کے بارے میں بتایاتو اس نے اسے مشورہ دیاکہ تیراکی سیکھ لو۔ اب وہ اپنے دوست کو کیابتاتاکہ وہ بچپن سے نلکے کے پانی سے بھی خائف ہے۔ تیراکی کیسے سیکھ لے!سو اس نے دوست کے مشورے کو مذاق کے رنگ میں ٹال دیا”کیا پتہ کل کلاں مجھے مہینوال کاکردارکرناپڑجائے پھر دریا میں ڈوبنے کے بجائے تیرکرپار لگ جاؤں گااور محبت کی رسوئی ہوجائے گی“
۔۔۔۔اس عرصہ میں اوزون کامسئلہ،آلودگی کا مسئلہ اور ایٹمی جنگ کا امکانی خطرہ۔ ان موضوعات پر اس کا مطالعہ بڑھتاگا۔وہ سوچتا:انسان نے مختلف نظریات اور مزعومہ برتری کی لڑائیوں میں نفرت کی آلودگی بڑھائی، بلندیوں کی آرزو میںاوزون میں شگاف ڈال دیئے، صنعتی ترقی اور اسلحے کی دوڑ میں ماں جیسے مقدس پانی کو ناپاک کردیا، جنگلوں کو اُجاڑدیا، اتنے ہولناک نیوکلیائی ہتھیاربنالئے کہ دھرتی کا دم گھٹ کررہ جائے۔ یہ ساری بلندیاں انسانیت کو قبر میں گرانے والی ہیں۔ جیتے جی قبر میں گرانے والی۔ اور پھر اس کا دم گھٹنے لگتا۔ اس پر شدید گھبراہٹ طاری ہونے لگتی۔ ایسے ہی خیالوں میں کھویاہوا وہ ایک بارٹرین کا سفر کررہاتھا۔ جب سوچتے سوچتے اس کا دم گھٹنے لگاوہ اٹھ کر ٹرین کے دروازے کے قریب آیا۔دروازہ کھلاہواتھا اس نے گیٹ کے دائیںبائیں نصب شدہ دونو ںڈنڈوں کو مضبوطی سے پکڑلیا۔اندر آتی ہوئی تیز ہواسے گھٹن کا احساس کم ہونے لگا۔اسے قدرے سکون مل رہاتھالیکن پھریکایک ا س کے ذہن میں عجیب سا خیال آیا۔چلتی گاڑی سے چھلانگ لگادو۔ پھر یوں لگاجیسے یہ خیال نہیں کوئی غیبی آواز ہے جو اسے حکم دے رہی ہے:چھلانگ لگادو۔وہ گھبراکراپنی سیٹ کی طرف لوٹ آیا۔ اگر وہ مزید تھوڑی دیر گیٹ پر کھڑارہتاتو یقینا چھلانگ لگادیتا۔ اس واقعہ کے بعد وہ کسی بھی بلندی والی جگہ جاتا، اسے یہی آواز سنائی دینے لگتی:نیچے چھلانک لگادو۔چھلانک لگادو۔ اور وہ گھبراکے نیچے آجاتا۔
۔۔۔۔اُس دن وہ صوبائی دارالحکومت سے واپس آرہاتھا۔ رستے میں ماں،باپ کی قبروں پر جانے کی آرزوہوئی اس لئے ان کے شہر کی طرف چل پڑا۔وہاں ان دنوں رستے میں دریا کاپُل زیر مرمّت تھا۔کام کی وجہ سے ساری رات پُل پر آمدورفت معطل رہتی تھی۔ اسے اس کا علم نہیں تھا۔ لیکن اب دریاکے اِس طرف آگیاتھاتو دوسری طرف جاکر ماں، باپ کی قبروں پر دعاکئے بغیر جانا اچھانہیں لگتاتھا۔چونکہ گرمیوں کے دن تھے اس لئے وہ دریاکے اس طرف مزے سے رات بسر کرسکتاتھا۔ اس نے ارادہ کرلیاکہ صبح رستہ کھلتے ہی دریاکے پارچلاجائے گا۔ لیکن رات دس بجے کے قریب ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس نے بتایاکہ وہ دریاکے دوسری طرف والے شہر کا باسی ہے اور ایک چھوٹے سے پُل سے واقف ہے جہاں سے پیدل دریاپار کیاجاسکتاہے۔ وہ بغیرسوچے سمجھے اس شخص کے ساتھ چل پڑا۔ یہ بمشکل دو فٹ چوڑا پُل تھاجس کے ایک طرف لوہے کے پائپوں کاجنگلہ سابناتھااور دوسری طرف سے بغیر جنگلے کے تھا۔ ا س نے آدھاپُل بے خیالی میںپارکرلیاتو اسے احساس ہواکہ وہ تو پُل صراط پر چل رہاہے۔ اس نے جنگلے کو پکڑے ہوئے اوپر دیکھا۔ ریلوے لائن والے پُل پر چندھیا دینے والی روشنی تھی۔ وہاں مزدور کام کررہے تھے۔ اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ نیچے نظر دوڑائی تو گرمیوں کا چڑھتاہوادریاتھا۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔تب اسے جتنی دعائیں یادتھیں اس نے ان کا وِرد شروع کردیاان میں علم میں اضافے سے لے کر والدین کی مغفرت تک کی کئی غیر متعلق دعائیں بھی شامل تھیں۔نہ وہ اوپر دیکھ سکتاتھانہ نیچے۔ تب اس نے اپنے آگے والے ہم سفر کو دیکھاتو وہ غائب تھا۔ خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ کون تھاور کیوں مجھے یہاں تک لاکرغائب ہوگیا۔ دریا کے دوسری طرف والے شہر کے رہنے والے نے مجھے دھوکہ کیوں دیا؟ ان خیالوں اور سوالوں کے ساتھ اس نے بے بسی سے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی۔ ایک طرف گہری تاریکی تھی اور ایک طرف ٹرین کے پُل پر ہونے والی تیز روشنی۔ گھبراہٹ میں اس کا ایک ہاتھ جنگلے سے ہٹ گیا۔ اس نے نیچے کی طرف دیکھا جہا ںدریا کا چڑھتاہوا پانی تھا، اضطراری طورپر اس کا دوسرا ہاتھ بھی جنگلے سے ہٹ گیا۔ اس کے قدم لڑکھڑائے تھے۔ پھر اسے وہی آواز سنائی دینے لگی: چھلانگ لگادو نیچے چھلانگ لگادو۔ پھر دریا میں گہری چھپاک کی آواز اس نے خود ہی سنی تھی۔ اس کے بعد اسے ایسا لگا جیسے اس کی ماں اسے نہلارہی ہے۔ اس نے اس کے منہ پر صابن مَل دیاہے۔ بھائی نے نلکے کی ہتھی تیز چلانی شرع کردی ہے۔ گھبراکر وہ تھوڑاسا تڑپاتو ماں نے بے تاب ہو کر اسے سینے سے لگالیا۔
اس کی ساری گھبراہٹ دور ہوچکی تھی۔
٭٭٭