امریکہ میں اور انگریزی ادب میں پوپ کہانی کے خدو خال پراتنی بحث نہیں ہوئی جتنی چند برسوں کے اندر اردو ادب میں ہو چکی ہے۔اس کا کریڈٹ سب سے زیادہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کو جاتا ہے۔ان کی کتاب”کہانی بول پڑتی ہے“کی اشاعت سے پہلے اردو میں پوپ کہانی کا ذکر یک طرفہ اور بیت برائے بیت کی حد تک تھا۔ اردو فکشن سے دلچسپی رکھنے والے بیشترسنجیدہ ادباء”پوپ کہانی“کے نام سے پیش کیے جانے والے میٹر کوبطور صنفِ ادب سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔اس سلسلہ میں ڈاکٹر انور سدید،سید ظفر ہاشمی،نیلم احمد بشیر،نجم الحسن رضوی،نوید سروش،لطیف راز،شمشاد احمد وغیرہ کسی لاگ لپیٹ کے بغیرپوپ کہانی کے نام سے پیش کی جانے والی تحریروں کو پہلے سے موجود افسانچے کی صنف ہی قرار دے رہے تھے۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے جب پوپ کہانی کے تالاب میں”کہانی بول پڑتی ہے“کا پتھر پھینکا تو تالاب میںدائرہ در دائرہ لہر یں بننے لگےں۔ایک طرف مختصر ترین کہانی کی کھوج کا سلسلہ شروع ہوا جو شیخ سعدی اور خلیل جبران سے ہوتا ہوااردو میں منٹو،جوگندر پال اور منشا یاد جیسے پختہ افسانچہ نگاروں تک پہنچا۔یہ سلسلہ مزید تحقیق کی طرف گیا تو ماضی بعید میں ۶۲۰سال قبل مسیح میںاے سَپ(Aesop)نامی ایک یونانی افسانچہ نگار دریافت ہو گیا، جسے اب تک کی دریافت کے مطابق مختصر کہانی یا افسانچے کا باوا آدم قرار دیا جا سکتا ہے۔قدیم ترین کے ساتھ جدید تر صورت یہ سامنے آئی کہ Shortest Storiesلکھنے میں غیر معمولی شہرت کی حامل امریکی مصنفہ محترمہ لِڈیا ڈیوس(Lydia devis)کو سال ۲۰۱۳ء کا بکر پرائز دیا گیا۔ان کے نام کے ساتھ ان کیs Shortest Storieکا بطور خاص چرچا ہوا۔اس انگریزی لفظ کا اردو ترجمہ افسانچہ ہی ہو سکتا ہے۔لِڈیا ڈیوس پر پوپ کہانی لکھنے کا کوئی الزام نہیں آیا۔ایک طرف مختصر ترین کہانی کی شناخت مسلسل واضح ہورہی تھی۔دوسری طرف پوپ کہانی اپنی شناخت کے بحران میں گھر گئی۔ادبی دنیا کے اصرار کے باوجود پوپ کہانی کے خدو خال کو واضح کرنے کی بجائے اسے گرامر کہہ کر جان چھڑائی جا رہی تھی ۔افسانچے سے اسے الگ ظاہر کرنے کے سوال کا جواب ہی نہیں دیا جا رہا تھا۔تب ہی ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے ”کہانی بول پڑتی ہے“کے ذریعے اردو دنیا کو امریکی پوپ کہانی کا رکنگ وینکلس سے متعارف کرایا۔تب معلوم ہوا کہ کنگ وینکلس صاحب تو معمول کی کہانیوں کو ہی پوپ کہانی کے لیبل کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ان میں پہلے سے موجود کہانیوں سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں ہے،سوائے پوپ کہانی کے نام کے۔
ڈاکٹررضیہ اسماعیل نے کنگ وینکلس سے ہونے والی اپنی برقی خط و کتابت کا کچھ حصہ ”کہانی بول پڑتی ہے“میں شائع کیا۔اس میں موصوف نے انگریزی فکشن کے کتنے ہی بڑے نام یہ کہہ کر گنوا دئیے کہ یہ سب بھی پوپ کہانی لکھتے تھے۔ پہلے تو ہمارا فرض بنتا تھا کہ ہم کنگ وینکلس کی پوپ کہانیوں اورادبی دنیا کی معمول کی کہانیوں میں فرق تلاش کرتے۔لیکن یہ کام تو ہم نے اردو میں پوپ کہانی کے نام سے پیش کی جانے والی تحریروں اور افسانچوں کے درمیان فرق کو سمجھنے اور سمجھانے کی حدتک بھی ضروری نہیں سمجھا پھر انگریزی میں پوپ کہانی کے نام پر پیش کی جانے والی تحریروں پر توجہ کون کرتا۔ہاں کنگ وینکلس کے بیان کو لے کر بعض احباب متعدد معروف و مقبول انگریزی رائٹرز کے نام گنوانے لگ گئے کہ ان سب نے بھی پوپ کہانی لکھی تھی۔تب ڈاکٹررضیہ اسماعیل نے ایک اور اہم کام کیا۔امریکی پوپ کہانی کارکنگ وینکلس سے مزید برقی خط و کتابت کی اور ان سے پوچھا کہ آپ نے جن بڑے بڑے ناموں کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ بھی پوپ کہانی لکھ چکے ہیں تو کیا ان لوگوں نے پوپ کہانی کے لیبل کے ساتھ اپنی کہانیاں پیش کی تھی۔موصوف کا جواب آیا نہیں،انہوں نے ایسا نہیں لکھا،لیکن چونکہ ان کی کہانیاں بے حد پاپولر تھیں،اس لیے وہ پوپ کہانی کار تھے۔لیجئے صاحب قصہ ہی تمام ہوا۔ہمارے ہاں پریم چند،راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،سعادت حسن منٹو،غلام عباس جیسے کتنے ہی بڑے افسانہ نگار ہیں جو مقبولیت کے سات آسمان چھو چکے ہیں،تو پھر وہ سب بھی پوپ کہانی کار ہوئے۔لیکن ان میں سے کسی نے پوپ کہانی کا موجد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔یہ دعویٰ شیخ سعدی،خلیل جبران اور منٹو نے اپنی مختصر ترین کہانیوں کی بنیاد پر بھی نہیں کیا۔
کنگ وینکلس صاحب نے اپنی نئی خط و کتابت میں بتایا کہ انہوں نے ۱۹۹۲ءمیں سب سے پہلی پوپ کہانی لکھی تھی۔اور انگریزی میں وہ اس کے بانی ہو گئے۔بات صرف اتنی تھی کہ کنگ وینکلس صاحب اپنے ہاں کے نقادوں سے شاکی تھے،انہیں ان کی توقع کے مطابق پذیرائی نہیں مل سکی تھی،چنانچہ انہوں نے مقبول ہو جانے والی کہانیاں لکھنے کی بجائے اپنی کہانیوں کو پوپ کہانی کا عنوان دے کرخود ہی ان کی مقبولیت کا اقرار کر لیا۔جبکہ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں ویسا ان سے پہلے بھی لکھا جا رہا تھا،ان سے زیادہ اچھا بھی لکھا جا رہا تھا اور اس سب پر کسی نے پوپ کہانی کالیبل نہیں لگایا تھا۔کنگ وینکلس صاحب اپنی کہانی پر اعتماد کرنے کی بجائے پاپولریٹی کے چکر میں پڑ گئے۔اس کے باوجودادبی اہمیت کے حوالے سے انگریزی ادب میں ان کا کوئی نام ہی نہیں ہے۔نہ تین میں نہ تیرہ میں!
کنگ وینکلس کی جس نئی خط و کتابت کا میں نے ذکر کیا ہے ،ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے وہ مجھے فراہم کر دی تھی ۔ اس کی بنیاد پر میں ایک نیا مضمون’ ’امریکہ میں پوپ کہانی کی حقیقت“ لکھ چکا ہوں۔یہ مضمون میری آنے والی کتاب”ہمارا ادبی منظر نامہ“میں شامل ہے۔پوپ کہانی کے نام پر انگریزی میں جو کچھ ہوا اس کی حقیقت آپ کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔اردو کے حوالے سے پہلے بہت کچھ لکھ چکا ہوں،مزید کیا کہوں؟ادب سے سنجیدہ دلچسپی رکھنے والے احباب خود ہی اس سارے معاملہ پر غور کریں۔
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایسے سلیقے کے ساتھ پوپ کہانی کا معاملہ اردو میں پیش کیاکہ اردو میں ہی نہیں انگریزی میں بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔اس لحاظ سے ”کہانی بول پڑتی ہے“کی اشاعت ایک اہم ادبی واقعہ ہے۔اس کی اشاعت کے نتیجہ میں مزید تحقیق کے در وا ہوئے اور افسانچے کی کہانی ماضی بعید سے لے کر حال تک زیادہ نکھر کر سامنے آئی۔”کہانی بول پڑتی ہے“کے پورے پس منظر میںیہ ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں!
ابھی تک میں نے ان ادبی ،تحقیقی امورپر بات کی ہے جو” کہانی بول پڑتی ہے“کی اشاعت کے نتیجہ میں موضوعِ بحث بنے اور اس سے اصل حقائق کھل کر سامنے آتے گئے۔اب آخر میں” کہانی بول پڑتی ہے “پر لکھے ہوئے اپنے پہلے مضمون کا آخری حصہ یہاں دہرا دینا چاہتا ہوں۔اس سے رضیہ اسماعیل کی کہانیوں کے بارے میں میری رائے بھی واضح ہو جائے گی۔ کنگ وینکلس کی دو کہانیوں کے اردو ترجمہ پر بات کرنے کے بعد میں نے لکھا تھا:
”کنگ وینکلس کی دو کہانیوں کے بعد ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے اپنی بارہ کہانیاں شامل کی ہیں۔ان کی پہلی کہانی”تھرڈ ورلڈگرل“کے اختتام تک پہنچا تو ایسا لگا کہ سچ مچ کوئی گونگی کہانی بول پڑی ہے۔ ”ائر فریشنر“ صرف برطانیہ ہی کی نہیں اب تو یورپ بھر کے پاکستانیوں کی مجموعی فضا کی ترجمانی کر رہا ہے۔اور” آنرکلنگ“پڑھتے ہوئے ایسے لگا کہ کہانی صرف بول نہیں پڑتی بلکہ بعض اوقات چلّاتی بھی ہے ۔قبل از اسلام کے مکہ میںزندہ گاڑ دی جانے والی بیٹیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں بھی جیسے اکیسویں صدی کی انوکھی آنر کلنگ میں شامل ہو گئی ہیں۔تب اس ظلم کو غیرت کے جاہلانہ تصور پر تحفظ حاصل تھا اور اب اسے خود مذہب کے نام پر تحفظ حاصل ہے۔”تھرڈ ڈائمنشن“برطانیہ میں اسائلم لینے کی سہولتوں سے سچ جھوٹ بولنے کی کسی حد تک چلے جانے والوں کی دلچسپ کہانی ہے۔باقی ساری کہانیاں بھی اپنی اپنی جگہ دلچسپ ہیں۔”ریڈیو کی موت“کہانی کو میں نے یہ سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تھا کہ سیٹلائٹ اور ٹیلی ویژن چینلز کی نت نئی کرشمہ سازیوں کے سامنے ریڈیوکے دَم توڑنے کی کہانی ہو گی۔لیکن یہ تو ایک بھلی مانس سی کہانی نکلی۔لیکن اپنی بھل منسئی کے باوجود کہانی اچھی ہے۔”کہانی بول پڑتی ہے“میں شامل ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی بارہ کہانیاں ان کے اندر کی افسانہ نگار کا پتہ دیتی ہیں۔یہ کہانیاں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی مختلف النوع کہانیاں ہیں۔خامیاں اور خوبیاں،دوسروں کی ہوں یا اپنوں کی،ان سب کو ایک توازن کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے۔کہیں کہیں تبلیغی رنگ غالب ہونے لگتا ہے لیکن صرف ایک دو کہانیوں میں ایسا ہوتا ہے۔ بیشتر کہانیوں کا اختتام جیسے ہلکا سا ادھورا چھوڑ دیا جاتا ہے،لیکن یہ عمل کسی نوعیت کا ابہام پیدا نہیں کرتا،بلکہ قاری خود کہانی میں شریک ہو کراسے مکمل کر لیتا ہے،کیونکہ اختتامی ادھوراپن ایک واضح اشارا چھوڑ جاتا ہے۔اس سے کہانی کا سادہ بیانیہ ایک رنگ میں علامتی سابن جاتا ہے۔
مجموعی طور پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی یہ کہانیاں اردو افسانے کے سفرکا تسلسل ہیں۔افسانہ غیر مقبول ہے یا سارا ادب ہی غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے؟وہ مقبولیت کے کسی پھیر میں نہیں پڑیں۔ان کے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ انہیں یہ کہانیاں تخلیق کرنے کی توفیق مل گئی۔قبولیت نصیب ہو گئی۔ توفیق ملنے کی اس قبولیت پر میری طرف سے دلی مبارک باد!“
(۸مارچ ۴۱۰۲ءکو”آگہی“برمنگھم کے زیر اہتمام”کہانی بول پڑتی ہے“کی تقریب میں پڑھا گیا)
انٹرنیٹ میگزین ادبی منظر اسلام آباد۔ شمارہ :مارچ ۴۱۰۲ئ
http://issuu.com/adabi-manzar/docs/adabi_manzar_shumara_1