ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی کتاب”کہانی بول پڑتی ہے“کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں انہوں نے انگریزی پوپ کہانی کوامریکی اور برطانوی ادب کے حوالے سے سمجھنے کی سنجیدہ کاوش بھی کی۔امریکہ میں” پوپ کہانی“لکھنے والے کارل کنگ وینکلس سے انہوں نے رابطہ کیا۔ ان کے موقف کو جان کراپنے طور پر دستیاب مواد سے مدد لی،چنانچہ اپنی محنت و تحقیق کے بعد انہوں نے تحریر کیا:
”امریکن لٹریچر میں پوپ کہانی ایک نہایت پختہ نثری صنف کے طور پر پہلے سے ہی موجود ہے اور بہت عرصے سے لکھی اور پڑھی جا رہی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پوپ میوزک سے پہلے ہی امریکن لٹریچر میں ”پوپ اسٹوری“ بے حد مقبول ہو چکی تھی تو کچھ غلط نہ ہوگا بلکہ امریکہ میں ایک وقت ایسا تھا کہ پوپ میوزک کی بجائے پوپ اسٹوری زیادہ مقبول تھی اور اس کے رائٹرز راک اسٹارز کی طرح سیلبرٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ جن میں ارنسٹ ہمنگوے(Ernest Hemengway) ایڈگرایلن پو(Edgar Alan Poe) ایف سکاٹ فٹزجیرالڈ(F. Scott Fitgerald) دیومس(Dumas) ار آیل سٹیونسن(R.L Stevenson) جیک لندن(Jack London) او ہنری(O,Henry) اور جارج سمنن(George Simenon) نے ناولوں کے ساتھ ساتھ بہت اچھی پوپ کہانیاں لکھ کر بے حد داد وصول کی۔ دی موسٹ ڈینجرس گیم(The most Dangerous game) اور لیڈی اور دی ٹائیگر (The Lady or The Tiger) اعلیٰ درجے کی خالصتاً پوپ کہانیاں ہیں جو اپنے وقت میں بے حد مقبول ہوئیں۔“
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے مضمون پوپ میوزک سے پوپ کہانی تک“سے اقتباس
بحوالہ کتاب”کہانی بول پڑتی ہے“
ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کے اس اقتباس کو بنیاد بنا کر اردو میں ایک صاحب نے خود کوئی تحقیق کیے بغیر انگریزی ادبیات میں ”پوپ کہانی“کی جڑیں دور تک پہنچا دیں۔اور پھر اس اقتباس کو اس کے پورے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کی بجائے اردو میں پوپ کہانی کا جواز دینے کے لیے اسے بطور سند پیش کر دیا ۔اسے میرے جیسے انگریزی سے نابلد لوگوں کی مجبوری اور انگریزی سے واقف لوگوں کی تساہل پسندی قرار دیا جا سکتا ہے۔چنانچہ میں نے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل سے درخواست کی کہ وہ مذکورہ بالا اقتباس میں درج سارے مقبول انگریزی رائٹرز کے بارے میں معلوم کریں کہ واقعی وہ لوگ اپنے دور میں ”پوپ کہانی“لکھا کرتے تھے؟،ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے بڑی آسانی سے اس بھید کی حقیقت ظاہر کر دی۔انہوں نے کارل کنگ وینکلس سے رابطہ کیا اور ان سے استفسار کیا کہ کیا یہ بڑے انگریزی رائٹرز خود”پوپ کہانی“لکھنے کا دعویٰ کرتے تھے؟،جواب ملا کہ نہیں انہوں نے ایسا نہیں لکھا تاہم ان کی کہانیاں بہت مقبول ہوتی تھیں،اس لیے وہ اصلاََ ’ ’پوپ کہانی کار“تھے۔انہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ۰۹۹۱ءکی دَہائی کے آخر میں ”پوپ کہانی“کا لیبل اختیار کیا گیا۔امریکہ سے آنے والی اس وضاحت سے پہلے میں اپنے طور پر جو کچھ دیکھ رہا تھا اور اسے جس طرح سمجھ رہا تھا،اس کا اظہار میں نے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی کتاب”کہانی بول پڑتی ہے“میں شامل اپنے مضمون میں مناسب طور پر کر دیا تھا۔اس مضمون کے تین اقتباس یہاں پیش کررہا ہوں جو موضوع زیرِ بحث سے متعلق میرے خیالات ہیں۔
۱) ” اگر یہ لفظ محض پاپولر کہلانے کی خواہش کا اظہار ہے تو بات بنتی دکھائی نہیں دیتی۔کیونکہ پریم چند سے لے کر منٹو تک ہمارے ابتدائی اور اہم لکھنے والوں کی کہانیاں تواردو میں مقبولیت کے سات آسمان چھو چکی ہیں۔اور آج بھی کہانی پڑھنے والوں میں مقبول ہیں۔ان سے زیادہ پاپولر کہانیاں کس نے لکھی ہیں!“
۲) ”پوپ کہانی کیا ہے؟“ کے تحت مغربی دنیا کے پوپ کہانی والے اسے جن اوصاف کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ سب عمومی اوصاف ہیں،جنہیں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ادب کی جملہ اصناف میں دیکھا جا سکتا ہے۔مجھے ایسے لگتا ہے کہ ادب کو درپیش نئے چیلنجزکے سامنے بعض لکھنے والے سراسیمگی کی کیفیت میں ہیں۔ایک پاپ اسٹار کی مقبولیت کے سامنے اپنی انتہائی عدم مقبولیت سے دل برداشتہ ہو کر بعض ادیبوں نے جیسے پوپ کہانی کی راہ اپنا لی ہے۔صرف کہانی کیوں؟آپ ادب کی ساری اصناف کو بھی پوپ کے سابقہ کے ساتھ جوڑ لیجیے۔لیکن اس سے مقبولیت تو ملنے سے رہی۔ادب کے دیار میں قبولیت اور مقبولیت دونوں کی اپنی اپنی جگہ ہے۔کسی ادیب کو اچھا لکھنے کی توفیق مل جانا،قبولیت کے زمرہ میں آتا ہے اور ایک اچھے ادیب کے لیے توفیق مل جانا ہی بڑی بات ہے۔مقبولیت ایک دوسرا موضوع ہے۔سر، دست اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ قناعت پسند ادیب قبولیت پر ہی خوش رہتے ہیں۔آگے جو ملے ،نہ ملے،توفیق دینے والے کی مرضی۔ “
۳) ” ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے امریکہ کے پوپ کہانی لکھنے والے ایک مصنف کنگ وینکلس سے رابطہ کیا اور ان کی دومنتخب پوپ کہانیوں کو اپنے مجموعہ میں شامل کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ ”مشین“ اور”سرخ دروازہ“کے نام سے ترجمہ کی گئی ان دونوں کہانیوں کا ترجمہ اسماعیل اعظم نے بہت عمدگی سے کیا ہے۔ان دونوں کہانیوں کو پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ یہ دونوںکہانیاں نیم علامتی پیرائے میں لکھی ہوئی ہیں۔اور وہ جو پوپ کہانی کا مطالبہ تھا کہ کہانی عام فہم لفظوں میں ہو،وہ یہاں پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔کہانی ”مشین“سے مجھے ایسالگا کہ کنگ وینکلس نئے لکھنے والے ہیں۔ان میں صلاحیت ہے لیکن ابھی تک ادب کی بڑی سطح پر ان کا اعتراف نہیں کیا گیا، یا مناسب پذیرائی نہیں کی گئی۔چنانچہ وہ بڑے لکھنے والوں اوراہم نقادوں کوکہانی میں تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔”سُرخ دروازہ“ مختلف رنگوں کی علامات کے سہارے کہانی کو دلچسپ اختتام تک پہنچاتا ہے۔دونوں کہانیوں سے ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ امریکہ میں آزادیٔ اظہار کے باوجود بہت کچھ کہنے میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔چنانچہ کنگ وینکلس نے علامات کا سہارا لے کر اپنے مخصوص نیم علامتی پیرائے میں اپنے دل کی بات کہہ دینے کی کوشش کی ہے۔”مشین “میں تو نیم علامتی پیرایہ نیم سے کچھ زیادہ کھلتا دکھائی دیا تو انہیں آخر میں یہ اضافی نوٹ دینا پڑ گیا:” اس کہانی میں جس سوسائٹی کی منظرکشی کی گئی ہے۔ امریکی معاشرے سے اس کی کوئی مماثلت نہیں ہے“۔
ابھی تک ”پوپ کہانی“کے تعلق سے مجھے جو سوجھ رہا تھااور میں نے جو کچھ لکھا ہے،مجھے اس کی توثیق ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔یہاں ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی ای میل اور اس کے جواب میں کارل کنگ وینکلس کی دو ای میلز پیش کر رہا ہوں۔امید ہے اس کے بعد معتبرانگریزی رائٹرز پر کسی اصطلاحی پوپ کہانی کی تہمت نہیں لگائی جائے گی۔
On Tue, Jun 4, 2013 at 6:47 PM, Razia Khalida wrote:
Hello Mr Wenclas
I hope you are fine.
I spoke to you about your “Ten Pop Stories” last year and i also did my own small scale research on the internet about the pop story.
I need your assistance to further clarify the situation about he pop story as at present there is a debate going on among the urdu fiction writers about the validity of pop story that how it differs from any other form of short story as the traits given for a pop story apply to any short story.
During my internet research i found out that Ernest Hemingway, Edgar Alen Poe, F.Scott Fitzgerald, Dumas, R.L.Stevenson, Jack London, O’Henry and George Simenon, apart from writing novels wrote very good pop stories. “The most dangerous game” and “The lady or the Tiger” were very good pop stories of their times.
I wonder if these stories were known as pop stories at that time and the writers actually did use the term pop for them or someone else later on labelled these as pop stories???
It will be very helpful for me to have your views on this.
Additionally,I have spoken to a few English short story writers in the UK and they do not seem to be familiar with this term.
One person mentioned “flash story” which is a very brief form of story writing and as we know this year’s Man Booker Prize in the UK has been awarded to the flash/brief story writing.
I will be much obliged to have your response at your earliest convenience.
Kind Regards
Dr R. Ismail
Birmingham.UK
رضیہ اسماعیل کی اس ای میل کے جواب میں کنگ وینکلس نے لکھا:
Date: Tue, 4 Jun 2013 22:43:50 -0400
Subject: Re: Pop Stories by King Wenclas
Dear Dr, Ismail,
To my understanding, the short stories done by writers of the past (Stevenson, O. Henry, et.al.) are pop stories by default. At the time they were published, short stories were popular by definition. In the U.S. they were extremely popular, published in large circulation newspapers and in large circulation magazines like the Saturday Evening Post. F. Scott Fitzgerald made more money, and was more widely known, through his short stories than his novels.
Today, most stories published in the U.S. are “literary” stories, following the standard university workshop model. Their intent isn’t to entertain, but to impress literary critics and writing teachers. It’s not an accident that the short story has lost its readership. The focus of literary stories is craft, not entertainment. They’re a distinctly different kind of short story from those which were once widely read. Today, at least in the U.S., O. Henry and Jack London are scorned by the academy. Robert Louis Stevenson isn’t taken seriously. (Then again, at one time rock n roll music wasn’t taken seriously. I see the short story fitting a similar pattern as the pop song– both should be short, punchy, with hooks to interest the listener/reader.)
Those old time writers likely didn’t call their art pop stories, but they were considered popular stories. Scott Fitzgerald was criticized by some for spending too much energy writing popular stories. The word “pop” was popularized in the 50’s and 60’s with pop music, pop art (Roy Lichtenstein; Andy Warhol), and such. The connection with the short story seems obvious. At least to me.
I’ve used the term “pop” in regard to the short story since the late 90’s, when I was a leading zine writer. Other zine writers– Frank Marcopolos to name one– were publishing pop stories, and referring to them as pop, at least informally. If literary people in Britain don’t use the term, they’re behind the times. But then, the short story traditionally was always a more American preoccupation, and least in the short story’s heyday. Edgar Allen Poe; Mark Twain; Bret Harte; Frank Stockton; Ambrose Bierce; Stephen Crane; Jack London– their stories wildly popular, and in style very readable. I’d love to see the short story become that popular again. Writers need to present stories the public will actually enjoy reading.
(Flash fiction, to my mind, is something different. Related, maybe, but inferior.)
I hope these impressions off the top of my head are helpful. I don’t know who else writes about these things but myself– I don’t mind being a trailblazer.
Best,
Karl “King” Wenclas
پہلی ای میل بھیجنے کے چند منٹوں بعد کنگ وینکس نے ایک اور ای میل بھیجی اور اس میں اپنے موقف کو کچھ اور واضح کرنا چاہا۔وہ ای میل بھی دیکھ لیں۔
Date: Tue, 4 Jun 2013 23:00:52 -0400
Subject: Re: Pop Stories by King Wenclas
p.s. I should add that the word “pop” has a dual meaning. It refers to popular– which the great short story writers undoubtedly were. But “pop” also points to the word populist, which is something a bit different.
At one time, in America, literature was a populist art form, in a way it never was in England. Virtually all the great American writers were populists, through Steinbeck, and maybe the Beats. American literary criticism became noticeably more elitist beginning in the 1950’s. Populism refers to the novel. Populist authors took a much broader view of American society than writers do today. Their style, not coincidentally, was geared toward a mass audience, toward a broad public. Simpler and more accessible. Writing technique was a secondary consideration with these authors. (Theodore Dreiser, notably.) One can read the essays of Frank Norris to get a sense of the different viewpoints. Populists like Norris believed that literature belonged to everybody– not just to a small clique of the well-bred. One of the problems with American literature today is that it’s dominated by New York and by those who attended elite Ivy League universities. Tastes are different in other parts of the nation. It’s a debate I was involved in when a member of the Underground Literary Alliance last decade.
Well, it’s an enormous subject.
–K.W.
امریکی لٹریچر اور برطانوی لٹریچرکے فرق کے معاملہ سے قطع نظر کنگ وینکلس نے خود اعتراف کیا ہے کہ ارنسٹ ہمنگوے(Ernest Hemengway) ایڈگرایلن پو (Edgar Alan Poe) ایف سکاٹ فٹزجیرالڈ(F. Scott Fitgerald) دیومس(Dumas) ار آیل سٹیونسن(R.L Stevenson) جیک لندن(Jack London) او ہنری(O,Henry) اور جارج سمنن(George Simenon) جیسے رائٹرز نے اپنی کہانیوں کو کسی مخصوص معنی میں”پوپ کہانی“نہیں لکھا لیکن چونکہ ان کی کہانیاں بہت پاپولر تھیں اس لیے وہ پوپ کہانی کار تھے۔ امریکی پوپ کہانی کے حق میں یہ کوئی معقول موقف نہیں ہے۔اس طرح تواردو میں پھر پریم چند ،راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،سعادت حسن منٹو،غلام عباس جیسے معتبر اور مقبول کہانی کار بھی پھرپوپ کہانی کار تھے۔حالانکہ ان میں سے کسی نے سُرخاب کا ایسا کوئی پر اپنے سر لگانے کی ”جرات“نہیں کی۔وہ اچھی کہانیاں لکھتے رہے اور وہ مقبول بھی ہوتی رہیں۔اب انگریزی کے لوگ ہوں یا اردو کے،اگر کسی کی کہانیاں مقبول نہیں ہوتیں توبھلے نہ ہوں،پر وہ لکھ سکتے ہیں توانہیں اچھی کہانیاں لکھتے رہنا چاہئے۔لیکن اگر کوئی نہ تو اچھی کہانی لکھے اور نہ ہی مقبول ہو،پھر بھی وہ خود کو مقبول سمجھنے کے لیے،یامقبول باور کرانے کے لیے پوپ کہانیاں لکھ رہا ہے توادبی طور پر یہ ایک مضحکہ خیز صورتِ حال ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔