انور خواجہ(امریکہ)۔۔حیدر قریشی (جرمنی)
نوٹ:میرا ایک مضمون ”رابندر ناتھ ٹیگور:ایک تاثر“کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے جرنل ”دستاویز“(ایڈیٹر پروفیسر شہناز نبی)کے ٹیگور نمبر میں شائع ہوا تھا۔یہی مضمون روزنامہ ”آج“ پشاور کے ادبی ایڈیشن مورخہ ۲۸فروری ۲۰۱۳ءمیں شائع ہوا۔امریکہ میں مقیم اردو کے افسانہ نگار انور خواجہ صاحب نے اس مضمون کو پڑھ کر ادبی ایڈیشن کے مدیر ناصر علی سید کو ای میل بھیجی اور اپنے تاثرات سے آگاہ کیا۔ناصر علی سید نے وہ ای میل مجھے فارورڈ کر دی۔یوں براہِ راست میرے اور انور خواجہ صاحب کے درمیان مکالمہ کی صورت بن گئی۔ٹیگور کے حوالے سے ہونے والے اس مکالمہ کوانور خواجہ صاحب کی اجازت سے یک جا کرکے اشاعت کے لیے پیش کر رہا ہوں۔اس سے اردو دنیا میں ٹیگورفہمی کی صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور اسی کے پیش نظر ٹیگور کے اردو تراجم اور ان تک رسائی کے نئے امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dear Nasir thank you for the column Adib Saray. The article of Hader Qureshi is very informative and send me his email address. He did not touch the part of his poetry which a kind of propaganda of Hinduism. I have not read his poetry deeply but I read his stories and novel. As for as I know that he was deeply influence by the poetry Hafiz but he did not acknowledged. Most of his literature is connected with orthodox Hunduism this is my personal opinion.
Sincerely,
Anwar Khawaja
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی انور خواجہ صاحب
سلام مسنون
ابھی برادرم ناصر علی سید صاحب نے آپ کا برقی گرامی نامہ مجھے بھیجا توآج کے روزنامہ”آج“ پشاور کے ادب سرائے میں شائع ہونے والے ٹیگور کے بارے میں میرے مختصر سے مضمون پرآپ کے تاثرات جان کر خوشی ہوئی۔ٹیگور کی شاعری کے بارے میں اتنا ہی لکھ پایا ہوں جتنا ان کی شاعری کا ترجمہ شدہ حصہ میری دسترس میں آسکا تھا۔یہ تراجم کلکتہ سے ڈاکٹر شہناز نبی صاحبہ نے خود اردو میں کیے اور مجھے عنایت کیے۔ٹیگور کے مزید تراجم پڑھنے کو ملے تو پھر مزید کچھ عرض کر سکوں گا۔تاہم ٹیگور کے بارے میں جو عمومی تاثر قائم ہوا ہے ،اس سے مجھے ایسا نہیں لگتا کہ وہ ہندو ازم کو پروپیگنڈہ کے طور پر بیان کرتے ہوں گے۔ جس طرح دوسرے کسی بھی مذہب کے شاعر اور ادیب کو اپنے مذہبی نظریات کی بنیاد پر (یا مارکسی نظریے کی بنیاد پر)قائم رہتے ہوئے مثبت فکر والی شاعری کرنے کا حق ہے ویسا ہی ٹیگور سمیت کسی بھی ہندو کو بھی اس حق سے محروم کرنا مناسب نہ ہوگا۔ہاں یہ ضرور دیکھناچاہیے کہ اپنے نظریے کے مثبت اثرات وہ انسانیت کی فلاح کے لیے پیش کر رہے ہےں یا محض اپنے مذہب و مسلک اور نظریے کی تبلیغ کے لیے۔حافظ اور رومی سے ٹیگور کی فکری قربت ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔اس سلسلہ میں پروفیسر سوگاتابوس کے ایک لیکچر کا اقتباس میری نظر میں ہے۔اس کے چند حصے دیکھ لیں۔
”ٹیگور کی بچپن سے حافظ سے شناسائی تھی،کیونکہ انہوں نے اپنے والد کے وہ تراجم پڑھے تھے جو انہوں نے فارسی زبان سے کیے تھے۔۔۔۔۔ٹیگور نے خود کو ماضی کے صوفی شعراءکا ورثہ دار ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ ان کی فکر وہی ہے جو ان عظیم صوفی شعراءکی تھی ،صرف زبان جدید عہد کی ہے۔“
اب اگر صوفی ازم کی کھوج شروع کی جائے توحافظ و رومی سے پہلے ابن عربی سے ہوتے ہوئے ہمیں گھوم پھر کرپھر ہندوستان آنا پڑتا ہے۔سو افکار و خیالات کا سفر تو مسلسل ایک طرف سے دوسری طرف اور دوسری طرف سے مزید دوسری اطراف میں جاری و ساری رہتا ہے اور رہنا چاہیے۔ٹیگور ایک بڑے شاعر اور مذہبی رواداری اور انسانیت کی بھلائی کے خواہشمند شاعر تھے۔وہ فرقہ پرست نہیں تھے۔ان کی ادبی شخصیت کے اس پہلو کی عالمی سطح پر پذیرائی کی گئی ہے،ان کا تعلق برصغیر سے تھا،سو اس لحاظ سے یہ ہمارے لیے دوہری خوشی کا سبب ہونا چاہیے۔
آپ نے انہیں انگریزی میں پڑھا ہے اور یقیناََمجھ سے زیادہ پڑھا ہے،آپ کی رائے زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آئے تو مطالعۂ ٹیگور کے حوالے سے میرے علم میں اضافہ کا موجب ہو گی۔آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔والسلام
آپ کا مخلص
حیدر قریشی
۲۸فروری ۲۰۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dear Qureshi sahib, thank you for your letter. I do remember to read the translation of Tagor “Getan Jali” which was translated by Akhtar Hussain Raipuri. You shoud read the English translation of his poem which he has don himself. My impression is that he tried to base his philosphy on orthodox Hunduism which
include the whole system of cast. I agree with you that Sufism has track in Buddism which a shoot of Hundu mystic order. It is quite complicated problem. I am not student of Philosphy but I will go through it and let you inform but you are in better position and go into this problem. My thought may have been affected by his Tarana ” Banda Matarim” which has been adopted by Bharat changing from Iqbal Poem. I will discuss it with you some time later on. I am also irritaed with one of his story Kabali Wala. it is base on fact but the writer point of view may have made me against Tagor. I will go through this story and read his poem again and let you know my opinion.
I am thankful to Nasir Ali Syed that he forwarded my email to you.
I am also happy to read your poems in this article and want to read more and also that you qouted Wazir Agha, who was a new kind of poet. Why not write an articleon on Agha.
Thank you again
Sincerely,
Anwar Khawaja
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی انور خواجہ صاحب
سلام مسنون
آپ کی ای میل میں چند ہلکے اشاروں سے میں کچھ اندازہ تو کر پا رہا ہوں لیکن میرے لیے آپ کی طرف سے مزید یا مکرر مطالعہ کے بعد جو کچھ لکھا جائے گا،وہ زیادہ اہم ہو گا سو میں اس کا انتظار کروں گا۔
آپ نے ٹیگور کے ساتھ علامہ اقبال کا ذکر بھی کیا ہے تو مجھے پہلے سے یاد ایک بات یہاں لکھنے کا موقعہ مل گیا۔کہا جاتا ہے کہ ٹیگور کو نوبل انعام ملنے کی تاریخ کی لکیر کھینچ دی جائے تو اس سے پہلے کے زمانہ میں علامہ اقبال ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“کہہ رہے تھے اور اس سے بعد کے زمانے میں ”مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“کہنے لگے تھے۔کیا ایسا محض اتفاقاََہوا تھا یا واقعتاََ ان کا فکری ارتقاءاسی وقت انہیں اس موڑ پر لے آیا تھا۔اس کی تحقیق کسی پر اعتراض کے لیے نہیں بلکہ حقائق جاننے کی غرض سے کی جا سکے تو غلطی یا غلط فہمی دور کی جا سکتی ہے۔
آغا جی کے بارے میں چند ٹوٹے پھوٹے مضامین میں نے لکھے تھے اور ان کا مجموعہ کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔وہ کتاب اب مزید اضافوں کے ساتھ انٹر نیٹ پر دستیاب ہے۔میری ای لائبریری میں یہ کتاب بھی موجود ہے۔آپ کی سہولت کے لیے لائبریری کا لنک بھیج رہا ہوں۔
امید ہے آپ صحت و عافیت سے ہوں گے۔والسلام
آپ کا مخلص
حیدر قریشی
۲مارچ ۲۰۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dear Qureshi sahib, I will down your ebook if I can and read article about Agha and read your poems.
I do not know when Iqbal wrote the poem Hindustan Hamara. But I know due to policy of Congress he realized that the Hundu will crush Muslim with there majority. He pursued Jinnah to take over the Leadership of Muslim.
I have to read about Tagore more but this I know that his early poem were in old classical Bangali or new Sanskirt. He wrote those poem anonymously and they were stories of Krishna and Rahda illicit love affairs. Later on he improved those poems and they became official chants of Hindu Beraggi or Fakir. He established in his village
School or University, Shanti Nakatin, which became the revival of Hundu culture and centre of Congress. His poetry have lyrical quality and became base of new Bengali music. In my opinion, he got the Noble prize being Hundu and his poem were translated in English. Iqbal could not get the Noble Prize because he was Muslim and his book ” Payam-e- Mushriq was also translated in English. I am not a narrow minded Muslim but I know that English imperialism has spread this notion that Muslim are not superior mentally although the whole Western civilization could not produce poet and mystic Like Hafiz and Roomi.
IT is difficult subject and you are more suited to write about it. I do not have any books of Tagore.
I will try to down load your books. My books are also available on internet. I write mostly short stories. I will send you a link.
Thank you.
Sincerely,
Anwar Khawaja
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی انور خواجہ صاحب
سلام مسنون
آپ کی ای میل ملی،مجھے پہلی بار دل چسپی کے ساتھ تشویش ہونے لگی ہے۔جب ہم دنیا کے کسی بڑے سے بڑے رائٹر کو بھی پڑھنے سے پہلے ایک واضح اور تقریباََ فیصلہ کن مخالفانہ رائے قائم کر لیں تو پھر اس کی ہر خوبی بھی ہمیں عیب دکھائی دینے لگے گی۔اس کے بر عکس کسی چھوٹے سے چھوٹے ادیب کو بھی اگر دوستانہ انداز سے پڑھنا شروع کیا جائے تو اس کے کئی معائب کے باوجود ہمیں اس میں بہت سی خوبیاں بھی دکھائی دینے لگ جائیں گی۔اگر کسی دوستی یا دشمنی کے جذبہ کے بغیر کسی کو پڑھا جا سکے تو تب بھی اس کے محاسن ضرور ظاہر ہوں گے۔سو ادب کے مطالعہ میں میرا یہی طریق کار رہا ہے۔تحقیقی معاملات میں بھی غیر جانبداری کے ساتھ کام کیا جاتا ہے۔بے شک ہمارا دل کسی ایک آئیڈیالوجی کی طرف ہو لیکن حقائق کی پرکھ کرتے وقت ہمارے لیے دستیاب شواہد
ہمیشہ معتبر ہونے چاہئیں اور انہیں کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔طے شدہ نتائج حاصل کرنے والی تحقیق کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیق میں حقائق کم اور مفروضے اور جذبات زیادہ شامل ہو جاتے ہیں۔اس رویے سے قوموں کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت وطنِ عزیز پاکستان کا ہو چکا ہے۔چونکہ آپ نے گزشتہ ایک میل میں ڈاکٹر وزیر آغا کا ذکر اپنائیت کے ساتھ کیا تھا تو یہاں اس سارے معاملہ کو ڈاکٹر وزیر آغاکے ایک اصولی نوعیت کے موقف کے حوالے سے بھی دیکھ لینا مناسب لگ رہا ہے۔
ادب کی پرکھ کا سوال
”ادب کی پرکھ کا سوال ایک نجی محفل کی گفتگو سے اٹھا تو ان (وزیرآغا)کے داخلی اضطراب نے ایک نئے سوال کو جنم دیا۔”پچھلے دنوں ایک نجّی محفل مےں اردو کے ایک بزرگ نقّاد نے کسی تازہ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے لیے اس کتاب کو پسند کرنا نا ممکن ہے۔اس لیے کہ یہ تو میرے عقائد ہی کے خلاف ہے ۔اور مےں سوچنے لگا کہ ادب کی پرکھ کے سلسلے مےں اگر عقیدے کو کسوٹی مقررکیا جائے تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟“( ’ڈاکٹر وزیر آغا کی تیکنیک‘ مضمون بحوالہ کتاب شام کا سورج از ڈاکٹرانور سدید۔ص۰۶۶)
وزیر آغا کے اصولی موقف کو مدِ نظر رکھ کر ٹیگور سمیت کسی بھی ادیب کو آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے اور جو اچھا لگے اس کا اعتراف بھی کیا جا سکتا ہے۔
ٹیگور کو نوبل پرائز ۳۱۹۱ءمیں ملا تھا۔اور علامہ اقبال نے بہت بعد میں جا کر مسلمانوں کے لیے آزادی کا مطالبہ کیا تھا اور وہ بھی سراسر صوبائی آزادی کی بات تھی،ہندوستانی وفاق کے اندر رہتے ہوئے آزادی کا مطالبہ تھا۔یہ اب بالکل الگ موضوع نکل آیا ہے۔اس پر بہت کچھ وضاحت کے ساتھ لکھا جا چکا ہے،میرا اس سلسلہ میں مزید کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔میں ٹیگور اور اقبال دونوں کی ادبی شخصیات کا معترف ہوں،دونوں میں جو مشترک اور مختلف ادبی و فکری اقدار ہیں،انہیں بھی تھوڑا بہت سمجھ سکتا ہوں۔آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرے مضمون کو پڑھ کر اپنے خیالات سے آگاہ کیا اور مجھے آپ کے خیالات کو مدِ نظر رکھ مزید غور و فکر کرنے موقعہ ملا۔
آپ ٹیگور کے حوالے سے ان کی تخلیقات کے تناظر میں کوئی دوستانہ یا غیر جانب دارانہ مطالعہ کرنے کے بعدمجھے اپنے نئے خیالات سے با خبر کرسکے تو آپ کا ممنون ہوں گا۔
والسلام
آپ کا مخلص
حیدر قریشی
۳مارچ ۲۰۱۳ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thank you for your email. I agree with you. In study of literature one should keep his believe apart. Iqbal wanted provincial autonomy but later on he came to know that Congress is not caring to give rights to Muslim so he asked Jinah to lead the Muslim. Orthodox Muslim movements Devband and Jamat Islami were deadly against Pakistan but when Pakistan came into being they came to Pakistan and started old Madrisha system and provided Zia force of young Mujahiddin. and begin killing their own people.
It is interesting discussion and you are more qualified to write and can get material and books but I cannot get any books in Los Angeles.
Dr Wazir Agha was a great scholar and poet. This is my own opinion, Anwar Sadeed friendship damage his name.
In which city you are in Germany.?
I will down load your books and if I have any difficulty I will email you.
Sincerely,
Anwar Khawaja
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برادرم انور خواجہ صاحب
سلام مسنون
آپ کی ای میل ملی،خوشی ہوئی۔تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے علماءکے گروہوں کی آپ نے بالکل بجا نشان دہی کی ہے۔اور پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ وہی مخالف لوگ پاکستان کے نظریہ کے بلکہ پورے پاکستان کے مالک و محافظ بن بیٹھے ہیں۔یہی لوگ پاکستان کے موجودہ مصائب کے ذمہ دار ہیں۔اللہ پاکستان کے حال پر رحم فرمائے۔آمین۔
آغا جی کے بارے میں آپ کی رائے جان کر خوشی ہوئی۔آپ سے جتنا مکالمہ ہوا ہے،اس لحاظ سے خوشی کا باعث ہے کہ مجھے ایک صاحبِ علم دوست کے ساتھ بات کرنے کا موقعہ ملا ہے۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔والسلام
آپ کا مخلص
حیدر قریشی ۳مارچ ۳۱۰۲ئ
میں فرینکفرٹ کے قریب ہیٹرس ہائم شہر میں رہتا ہوں۔لکھنا بھول گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہنامہ سبق اردو بھدوہی،انڈیا۔شمارہ:۵۳۔جولائی ۲۰۱۳ء