اکرام بریلوی کی بنیادی ادبی شناخت صہبا لکھنوی کے رسالہ افکار سے ہوتی ہے جہاں وہ ان کے شریک مدیر تھے۔تاہم ان کی ادبی کار کردگی کئی جہات میں پھیلی ہوئی ہے۔اب حال ہی میں ان کی زندگی کی کہانی ”سرسری ہم جہان سے گزرے“کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ان کی یہ خود نوشت سوانح ان کی ذاتی زندگی کی روداد ہونے کے ساتھ ان کے اندازِ تحریر کی بھی غمازی کرتی ہے۔۴۰۴صفحات کی اس کتاب کوانہوں نے کسی مربوط زمانی ترتیب سے یا ابواب کی کسی درجہ بندی سے پیش نہیں کیا۔بس جیسے جیسے جہاں جو یادآتا گیا،اسے بیان کر دیا۔اس سے ان کی زندگی کے انداز کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اکرام بریلوی کی زندگی کا وہ حصہ زیادہ جاندار ہے جہاں انہوں نے حقائق و واقعات کو بیان کرتے ہوئے کسی وقتی مصلحت کو مدِ نظر نہیں رکھا۔تاہم جب وہ اپنے موجودہ زمانے کے احباب کے ذکر کی طرف آتے ہیں تو وہاں ایک احتیاط،مصلحت پسندی اور پبلک ریلشن شپ کے تقاضوں کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں۔تاہم یہ معمولی انسانی کمزوریاں ہیں جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہم سب میں موجود ہیں۔مجموعی طور پر یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے پڑھ کر قارئین اکرام بریلوی سے ایک عمدہ ملاقات کر سکیں گے۔
(جدید ادب شمارہ نمبر ۱۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔