غلام مرتضیٰ راہی انڈیا میں اردو کے معروف و ممتاز شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔اب تک ان کے تین شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔لامکاں، لاریب اور لاکلام۔۔۔(پہلے دو مجموعے بعد میں ایک جلد میں حرفِ مکرر کے نام سے بھی شائع کیے گئے)۔اور اب غلام مرتضیٰ راہی کا چوتھا شعری مجموعہ لاشعور منظرِ عام پر آچکا ہے۔
چاروں مجموعوں کا لا سے شروع ہوناایک خاص معنویت کا حامل ہے۔یہ اُس اثباتِ حق کا حوالہ بھی ہے جو نفی سے شروع ہو کر اثبات تک پہنچتا ہے۔اور ن۔م۔ راشد کے ’لا= انسان‘سے ملتی جلتی کوئی کہانی بھی بنتی ہے۔راہی کی غزل اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہے اور ان کے ایسے اشعار میں اس پہچان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
دریا کی خوشامد نہ کروں پیاس کے ہوتے ہونٹوں پہ زباں پھیر کے نم کرتا چلا جاؤں
نکالا کانٹے سے کانٹا کبھی کبھی ہم نے چبھے تو دونوں،مگر ایک مہرباں ٹھہرا
ہم ہو چکے تھے ریڈیو سن سن کے ہوشیار وہ ٹی ۔وی دیکھ دیکھ کے چالاک ہو گئے
سب اپنے اپنے عدم اعتماد سے مجبور سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہوئے
آدمی چاہتا ہے اب جو خلا میں رہنا دیکھیں بنیاد عمارت کی کہاں رکھتا ہے
یوں ہم نے زندگی کا پورا کیا ہے چکر آغاز سامنے تھا جب اختتام آیا
جب اس کا وعظ توجہ طلب نہیں ہوتا ہم اُس کے منبر و محراب دیکھ لیتے ہیں
مجھ کو اب اپنی اک نئی پہچان چاہیے ٹوٹا میں جس طرح ،مجھے ویسے نہ جوڑئیے
امید ہے ادبی دنیا میں غلام مرتضیٰ راہی کے پہلے شعری مجموعوں کی طرح لاشعور کی بھی پذیرائی ہو گی۔
(جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔