افضل چوہان کے ماہیوں کا مجموعہ”خاموش نہ ہو ماہیا“تھوڑا عرصہ قبل شائع ہو کر ماہیا کی دنیا میں مقبول ہوا تھا۔اب ان کی غزلوں کا مجموعہ شائع ہونے جا رہا ہے۔ ہرچند اس مجموعہ میں اکا دکا نظمیں،گیت اور ہائیکو بھی شامل کیے گئے ہیں،تاہم اس میں غزلیں اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ اسے غزلوں کا مجموعہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ان غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اردو غزل کی موجودہ اور عمومی صورت کا منظر واضح ہوتا ہے۔تاہم اس عموم میں افضل چوہان کی اپنی پہچان کسی نہ کسی انداز میں سر اٹھا اٹھا کر اپنی چھب دکھلاتی ہے۔ایک ہی غزل کے یہ اشعار دیکھیں جو غزل کے عمومی ماحول میں اپنی پہچان بناتے دکھائی دیتے ہیں۔
اتنا رویا جاسکتا ہے
دامن دھویا جاسکتا ہے
لمحوں کی ترتیب بنا کر
وقت پرویا جا سکتا ہے
دھرتی ٹھنڈی پڑ جائے تو
سورج بویا جا سکتا ہے
عشق کی شدت بڑھ جانے پر
آگ پہ سویا جا سکتا ہے
چند اور غزلوں کے اشعار سے بھی اس پہچان کو ابھرتے ہوئے دیکھا جا سکتا۔
مرے اندر چھپی ہیں خانقاہیں
مرے اندر قلندر ناچتے ہیں
دھڑا دھڑ آنسوﺅں کی لہر افضل
کہ خشکی پر سمندر ناچتے ہیں
پھر کھلونوں میں دل نہیں لگتا
چاند جب کھیلنے کو مل جائے
تعاقب میں کسی کی بد دعا ہے
مرے آنگن میں پتھر ناچتے ہیں
کاجل سُرما اور سیندور
اور لشکارے درپن کے
میٹھی گوند لَسُوڑے کی
داغ نہ اُترے جامن کے
افضل چوہان نے میرا جی کی غزلوں کی زمین میں چند غزلیں کہی ہیں اور بڑی فراخدلی کے ساتھ انہیں میرا جی کی نذر کیا ہے۔اس عہدِ کم سواد میں ایسے لوگ بھی میرا جی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے پر تل جاتے ہیں جن کی اصل شعری شناخت کا ڈی این اے سیدھامیرا جی کے چند اشعار سے جا ملتا ہے ۔اور جو باقی بچتا ہے وہ محض مزاحیہ شاعری کہلاتا ہے اور مزاحیہ مشاعروں میں شرکت کا جواز فراہم کرتا ہے۔کم ظرفی کی انتہا ہے کہ شعری ڈی این اے کی رپورٹ کا جیتا جاگتاثبوت سامنے موجود ہوتا ہے اور اسے یکسر نظر انداز کرکے میرا جی کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔افضل چوہان نے براہِ راست میرا جی کے کسی رنگ سے فیض نہیں اُٹھایا۔لیکن جب ان کی غزلوں کی زمین میں غزلیں کہیں تو برملا اس کا اعتراف کیا۔یہ رویہ اردو شاعروں میں مفقود ہوتا جا رہا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ افضل چوہان اس معاملہ میں ایماندار نکلے۔
میرا جی کی زمین میں کہی گئی غزلوں سے قطع نظر افضل چوہان کی غزل میںمحبت کے قرینے، خوابوں کی دنیا ،دنیا داری کے دکھ،ایسے وسیع تر موضوعات اپنے مختلف رنگ ڈھنگ اور انداز کے ساتھ ملتے ہیں۔چند اشعار سے ان کی نوعیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
وہ جو ٹوٹا تو مےں بھی ٹوٹ گیا
میری مرضی تھی اس کی مرضی مےں
کاش ہم بھی اپیل کر لیتے
زندگی تھی بس ایک عرضی مےں
کیسے کیسے جوان ٹوٹتے ہےں
سر پہ جب آسمان ٹوٹتے ہےں
خواب کو خواب تک ہی رہنے دے
اپنے سر پر اسے سوار نہ کر
یہ بھرم ہے تو پھر بھرم رکھ لے
خشک دریا ہے اس کو پار نہ کر
زمانہ جو بھی ہے اپنی بلا سے
جو ڈرنا تھا ہمےں وہ ڈر چکے ہم
کاش منظور ہوگئے ہوتے
ابنِ منصور ہو گئے ہوتے
مجھ کو میرے ہی در پہ رہنے دے
میری پگ میرے سر پہ رہنے دے
کیا ضروری ہے آنکھ مےں رکھنا
اب یہ دریا بہا دیا جائے
دئیے اور طوفان کارشتہ اردو شاعری میں ایک عرصہ سے قائم ہے۔اچھے اچھے شاعروں نے اس ایک مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کا سماں دکھایا ہے۔افضل چوہان نے بھی اپنے عصر کے کرب کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے اسی بات کو اس انداز میں بیان کیا ہے۔
یہ زمانہ تو آندھیوں کا ہے
اب دیوں کو بجھا دیا جائے
جس تناظر میں افضل چوہان کا شعر سامنے آیا ہے اس کی وجہ سے یہ شعر اس مضمون کی عمومیت سے اوپر اُٹھ گیا ہے۔تاہم مجھے اس حوالے سے اکبر حمیدی کا ایک شعر ہمیشہ زیادہ معاملہ فہم اورحقیقت افروزلگتا رہا ہے۔
ہماری جنگ اندھیروں سے ہے ،ہوا سے نہیں
دیا جلا کے نہ یوں سامنے ہوا کے رکھ
افضل چوہان کی غزل میں کہیں کہیں ایسی شوخ سی بات بھی مل جاتی ہے،جو محض مزاحیہ شعر نہیں ہوتی لیکن قاری کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ضرور آجاتی ہے۔
آج بھی سیدھے ہو نہ پائے
اپنا تھا کچھ بچپن ٹیڑھا
اسی طرح ان کی غزل میں سیدھے سادے انداز میں بھی معنی آفرینی کے جلوے دیکھے جا سکتے ہیں۔
کچھ گزری دہقانی میں
حرف کی گلہ بانی میں
بجھ کر آخر ڈوب گیا
شام کا سورج پانی میں
یہ زمانہ عظیم الشان سائنسی ترقیات کا زمانہ ہے۔وہ سب کچھ جو ہمارے بچپن میں صرف قصے کہانیوں میں سنایا جاتا تھا،اب ایک حقیقت اور زیادہ شاندار حقیقت بن کر سامنے آتا جا رہا ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے کرۂ ارض بہت چھوٹا سا گاؤں بن کر رہ گیا ہے اور انسان تمنا کا دوسرا قدم رکھنے کے لیے سپیس ایج میں بہت آگے تک جانے والا ہے۔لیکن تمام تر ترقیات کے باوجود یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا اس وقت ایٹمی بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے۔خودکار نظام کی کوئی معمولی سی غلطی بھی اس ساری دنیا کو بھک سے اڑا سکتی ہے۔افضل چوہان نے اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے ایٹم کی خطرناکی کی طرف متوجہ کیا ہے۔
ذرہ ہے پر ذرہ بھی تو
ایک قیامت ڈھا سکتا ہے
افضل چوہان خوابوں اور حقیقتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے اپنی زندگی کے تجربات،مشاہدات ،اپنی داخلی واردات،ان سب کو آمیز کرتے ہوئے اپنی غزل کہہ رہے ہیں۔میں ان کی شعری کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کا تخلیقی سفر زندگی بھر جاری رہے گا۔”شام کا سورج“ان کا تخلیقی پڑاؤ ہے۔اس کی اشاعت پر انہیں مبارکباد دیتے ہوئے میں ان کے اگلے سفر کی طرف پیش قدمی کا منتظر ہوں اور اگلے سفر میں ان کا کھلے بازوؤں سے استقبال کرتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔