اکتوبر ۱۹۷۸ء میں جدید ادب خان پور کا پہلا شمارہ شائع ہوا تھا۔پھر جنوری ۱۹۷۹ءمیں اس کا دوسرا شمارہ منظرِ عام پر آیا۔اور سال ۱۹۷۹ء میں اس کے چھ شمارے شائع ہوئے۔ پھر یہ ادبی کتابی سلسلہ اپنے معمول کے مطابق شائع ہوتا رہا۔جدید ادب کے اجرا کے وقت میں نے بہت سارے مقامی ادبی دوستوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہا تھا۔چنانچہ ابتدائی شماروں کی ادارتی ٹیم میں اُن دوستوں کے نام دیکھے جا سکتے ہیں۔میں جن دوستوں کو محض دوستی کی خاطر ساتھ لے کر چل رہا تھا،ان میں سے بیشتر”فی سبیل اللہ شریک مدیر“ دوستوں نے ”جدید ادب “میں اپنی شرکت کو مجھ پر احسان شمار کیا۔چنانچہ جب ایسے دوستوں سے علیحدگی ہوئی تو انہوں نے، سارے”شریکا گروپ“نے مل جل کر ایک رسالہ نکال کر اپنی اہمیت جتاناچاہی۔لیکن دو شماروں کے ساتھ ہی وہ دوست اپنے رسالے سمیت اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
مجھ میں ایک خرابی ہے کہ بار بار کے تلخ تجربات کے باوجودمیں دوستوں کے وقتی طورپر ساتھ ہونے پربھی انہیں مستقل دوست سمجھ لیتا ہوں۔اس کا نقصان اپنی جگہ لیکن اپنے اس کسی حد تک مثبت اندازِ نظر کے باعث مجھے بعض اچھے دوست بھی نصیب ہوئے۔”جدید ادب“کے اجرا کے تجربات کے دوران دو دوستوں کے ذریعے نئے ادبی کتابی سلسلوں کو شروع کرایا۔ایک اسلوب بھاولپور۔اس کے مدیر اظہر ادیب تھے اور معاون افتخار قیصر۔دوسرا کتابی سلسلہ ”عکاس“ تھا جسے ارشد خالد نے رحیم یار خان کے ایک قصبہ کوٹ سمابہ سے شروع کیا۔رسالہ پر خانپور کا نام دیا گیا لیکن کوٹ سمابہ کا حوالہ بھی شامل رہا۔اسلوب بھاول پور کے مدیراظہر ادیب معقول شاعر ہونے کے باوجود ایک مستقل نوعیت کے مدیر نہ بن سکے اور افتخار قیصراپنی ابتدا میں ہی ادبی سے زیادہ صحافیانہ مزاج اور میدان کے آدمی تھے۔پھراظہر ادیب اور افتخار قیصر میں نبھ بھی نہ سکی۔سو یہ دونوں دوست اسلوب کو نہ سنبھال سکے ،نہ جاری رکھ سکے۔ ان دونوں کے برعکس ارشد خالدنے ”عکاس“کو جاری کیا تواپنی شخصی سادگی کی طرح پوری سادہ مزاجی کے ساتھ اسے جاری کیے رکھا۔کوٹ سمابہ سے وہاڑی اور وہاڑی سے اسلام آباد تک مقامات کی تبدیلی کے باوجود ارشد خالد نے ”عکاس“سے اپنی محبت کو نبھائے رکھا۔
اسلام آباد آنے کے بعد ادبی کتابی سلسلہ ہونے کے باعث ایک مشکل پیدا ہو گئی۔اسلام آباد سے کوئی اور صاحب بھی ”عکاس“کے نام سے ادبی کتابی سلسلہ شائع کر رہے تھے۔اس مشکل سے نمٹنے کے لیے ارشد خالد نے ”عکاس“ کو”عکاس انٹرنیشنل“کر دیا۔میری طرح ارشد خالد بھی اردو کی کسی بین الاقوامیت کاپرچار کرنے سے زیادہ اردو ادب کی مقامیت کو اہمیت دیتے ہیں اس کے باوجود ”عکاس“میں ”انٹرنیشنل“کا اضافہ ہونے تک وہ ایک لحاظ سے انٹرنیشنل اردو رسالہ بن چکا ہے۔ابھی تک اس کے مختلف شماروں میں پاکستان اور انڈیا کے ادیبوں کی نگارشات کے علاوہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، آسٹریلیا،سعودی عرب،عرب امارات، اور ملائیشیامیں قیام پذیر اردو شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات شائع ہو چکی ہیں۔شائع ہوتی رہتی ہیں۔انٹرنیٹ کی سہولت اور سوشل میڈیامیں شرکت کے باعث ارشد خالد کے لیے دور دراز کے احباب سے رابطہ کرنا پاکستانی احباب کے ساتھ رابطہ کرنے جیسا ہو گیا ہے۔جیسے گھر بیٹھے ادبی تحریریں مہیا کر لیجئے اور پھر اطمینان سے ان میں سے اپنی پسند کی منتخب کر لیجئے۔
ارشد خالد اور ان کے”عکاس“کا مزید ذکر کرنے سے پہلے مجھے ایک دکھ اور ایک خوشی کا ایک ساتھ ذکر کرنا ہے۔میں جن دوستوں کو ان کی حیثیت سے بڑھ کر”جدید ادب“میں اہمیت دیتا تھا اور اس کے باوجود ان کاجھگڑا اس بات پر رہتا تھا کہ مجلس ادارت میںمیرانام فلاں نام کے بعد کیوں آیا ہے؟جب ان دوستوں نے اپنا رسالہ شروع کیا تو اس میں میری ایک غزل چھاپنا بھی گوارا نہ کیا۔مجھے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن ایک دکھ ضروررہا کہ میں نے جن لوگوں کو اتنی اہمیت دی وہ اتنی دنیاداری دکھانے کی توفیق بھی نہ پا سکے کہ خانپور کے شاعر کے طور پر مجھے بھی اپنے رسالے میں شامل رکھتے ۔اس کی تلافی ارشد خالد نے کی اور مسلسل کیئے رکھی۔”عکاس“کے پہلے شمارے سے لے کر اب تک ہر شمارے میں مجھے میری حیثیت سے زیادہ اہمیت دی گئی۔
عکاس کے پہلے شمارہ کاکچھ تفصیل سے یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔یہ شمارہ دسمبر۱۸۹۱ءمیں منظرِ عام پر آیا۔کتابی سائز کے کل ۰۸صفحات تھے۔مدیران میں ارشد خالد کے ساتھ کے ایچ درانی کا نام شامل ہے۔مضامین کے تحت ”تلامذہ مصحفی “(شمیم احمد)،”انشائیہ کیا ہے“(ڈاکٹر انور سدید)،”ماجدالباقری کی غزلےں“( رشید امجد)،” آنندی“ کا تنقیدی جائزہ(شائستہ جمال)،”نسیم سحر کی شاعری“(محمد اکرم باجوہ)شامل کیے گئے ہیں۔غزلوں کے پہلے حصہ میںشیر افضل جعفری۔راسخ عرفانی، رفعت سلطان،مظفر رزمی،قیس فریدی،کرم چوہدری، پروین عزیز،اکرم باجوہ ، فیاض قادری،صائم صفی، اکرام الحق سرشار، انعام بھٹنڈوی،کی تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔افسانوں کے حصہ میں”مےں انتظار کرتا ہوں“( حیدر قریشی)،”ہنستا دکھ“( شائستہ جمال)شامل ہیں۔نظموں میں”کال کوٹھا“(شیر افضل جعفری)،”رومیو اور جیولٹ کا شکوہ“( سحر انصاری)،”مرے بارے مےں مورخ کی چند سطرےں“( سحر انصاری)اور”سنگِ میل“( ارشد خالد)شامل ہیں۔غزلوں کے دوسرے حصے میںایوب خاور، اکبر حمیدی،زہیر کنجاہی، شہباز نقوی،غزالہ طلعت،رفعت زہرہ زیدی، حکیم شیر محمد خیال، شفیق آرزو، اسلم پرویز،ناصر حسین ناصر،خالد ندیم، مقبول شارب،حیدر قریشی اور سیما احمد کو شامل کیا گیا ہے۔دسمبر۱۹۸۱ء میں چھپنے والے ’عکاس‘ کے پہلے شمارے کے ان اردو مندرجات سے اس کی اُٹھان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اسی شمارے میں”سرائیکی نامہ“کے تحت”فلسفہ وجودیت تے ادب“( محمد اسماعیل احمدانی)،”بحث و نظر“( خورشید حسین درانی )،”سرائیکی ادبی صورتحال“ (مظہر مسعود)،”ہک ضروری وضاحت“(فرحت نواز)،”سرائیکی ادبی صورتحال“( ارشد خالد)مضامین شائع کیے گئے ۔سرائیکی شعری حصہ میں صادق جنید ہوت کی نظم ”مندریل چندر“ جبکہ نقوی احمد پوری، قیس فریدی،فرحت نواز،ممتاز عاصم،ثاقب قریشی،کی سرائیکی غزلیں شائع کی گئیں۔
۱۹۸۱ءمیں چھپنے والے عکاس کے پہلے شمارے کے مندرجات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ارشد خالد کس انداز اور مزاج کا پرچہ نکالنا چاہ رہے ہیں،شاعروں،ادیبوں کی عمومی شرکت کے ساتھ ان کے پرچہ کے مزاج کا حصہ بننے والے احباب پہلے شمارے سے ہی ان کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ان احباب میں سے شیر افضل جعفری،راسخ عرفانی،اکبر حمیدی،نقوی احمد پوری،مظہر مسعود جب تک زندہ رہے ”عکاس “میں شامل ہوتے رہے۔۔ ایوب خاور،رشید امجد،انور سدید،فرحت نواز،آج بھی ”عکاس “میں شامل رہتے ہیں۔بعد میں شمولیت کرنے والے ادیبوں میں ڈاکٹر وزیر آغا،صبا اکبر آبادی،منشایاد،امین خیال،ڈاکٹر شہناز نبی،ناصر عباس نیر،ترنم ریاض،احمد ہمیش،عبداللہ جاوید،شہناز خانم عابدی،سہیل احمد صدیقی،ڈاکٹر شبیہ الحسن، محمد شفیع بلوچ،خورشید اقبال،سلیم آغا قزلباش،صادق باجوہ،حمید سہروردی،عبدالرب استاد ،مظفر حنفی،تاجدار عادل،ندا فاضلی،حامد سراج،احمد حسین مجاہد،عامر سہیل،جان عالم،انور زاہدی،خالد فتح محمد،ہدایت کاشف،امین بابر،انجلا ہمیش،یاسمین طاہرسردار،جیسے ملے جلے اہم ادباءاور نئے ادبا بھی ”عکاس “میں حلقۂ احباب کی طرح شریک ہونے لگے اور یوں” عکاس“ کے وقار میں اضافہ کا موجب بنے۔گاہے بگاہے” عکاس“ میں چھپنے والوں میں بیرون برصغیر سے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل،حمیدہ معین رضوی،ناصر نظامی،طاہر عدیم،خالد ملک ساحل،سید افتخار حیدر،پرویز مظفر،بلند اقبال،ڈاکٹر ریاض اکبر،پروین شیر،،نوشی گیلانی،نیر جہاں،نصر ملک،راجہ محمد یوسف،ستیہ پال آنند،مبشر سعید،عاطر عثمانی،اور متعدد دیگر شامل ہیں۔اردو اور پنجابی کے معروف شاعر اور ادیب امین خیال مسلسل” عکاس انٹرنیشنل“کے شریک مدیر ہیں،ارشد خالد کے ساتھ ان کا تعاون رسالہ کو مزید بہتر بنانے میں مفید ہوتا رہتا ہے۔اکرام الحق سرشار بھی وقتاََ فوقتاََ ادارتی تعاون کر لیتے ہیں۔یوں ان دوستوں نے مل جل کرعکاس انٹرنیشنل کو خوب سے خوب تر بنانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ ارشد خالد نے اول روز سے اچھا لکھنے والے نئے شاعروں ،ادیبوں کو اہمیت دینے کے ساتھ،معروف و ممتاز اچھے شاعروںاور ادیبوںکا قلمی تعاون حاصل کرنے کے لیے جو طریق، کار اختیار کیا تھا،اسے مسلسل مستحکم کیا ہے۔
ارشد خالد نے ابھی تک عکاس کے تین خاص نمبرشائع کیے ہیں۔ڈاکٹر گوپی چند نمبر،حیدر قریشی نمبر اور محرم الحرام نمبر۔عکاس نے گوشے شائع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیااور اس میں کاروباری گوشوں کے برعکس طرزِ عمل اختیار کیا۔شمارہ نمبر۵(سال ۲۰۰۷)میں محرم الحرام کے حوالے سے گوشہ دیا گیا۔شمارہ نمبر۷میں طاہر عدیم کا گوشہ دیا گیا۔شمارہ نمبر۱۰میں ایوب خاور کا گوشہ شائع کیا گیا۔شمارہ نمبر ۱۱میں محمد شفیع بلوچ کا گوشہ دینے کے ساتھ رفیق خاورجسکانی کوبھی خصوصی طور پر یاد کیا گیا۔شمارہ نمبر ۱۲میں محمد شفیع مرحوم کا ایک اور گوشہ شائع کیا گیااور بعد از وفات ان کی ادبی خدمات کی طرف متوجہ کیا گیا۔شمارہ نمبر ۱۲میں ہی ڈاکٹر بلند اقبال کے لیے ایک گوشہ مختص کیا گیا اور فرحت نواز کا خصوصی مطالعہ پیش کیا گیا۔شمارہ نمبر ۱۳میں یومِ عاشور کی مناسبت سے ایک گوشہ ترتیب دیا گیا۔اس کے دوش بدوش ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ایوب خاور کے خصوصی مطالعات پیش کیے گئے۔”عکاس“ کے شمارہ نمبر ۱۴میں وفیات کے زیر عنوان ڈاکٹر ظہور احمد اعوان،ڈاکٹر صابر آفاقی، ڈاکٹر رؤف امیر اور ڈاکٹر افتخار نسیم کا خصوصی ذکرِ خیر شائع کیا گیا۔اسی شمارہ میں میرا جی کا مطالعۂ خاص پیش کیا گیا۔شمارہ نمبر۱۵میں منشا یاد،اکبر حمیدی اور ڈاکٹر شبیہہ الحسن کی وفات پر ان تینوں کے تعزیتی گوشے پیش کیے گئے۔ شمارہ نمبر ۱۷میں ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کا بھرپور قسم کا گوشہ شائع کیا گیا۔شمارہ نمبر ۱۸میں ”افسانچے کا سفر“کے عنوان سے ایک گوشہ ترتیب دیا گیا۔اس میں پوپ کہانی کے نام سے اردو میں ایجاد کا دعویٰ کرنے والوں کا علمی اورادبی سطح پر مدلل رد کرتے ہوئے شیخ سعدی اور خلیل جبران کی منی کہانیوں سے لے کرمنٹو اورجوگندر پال کے افسانچوں تک اردو افسانچے کے سفر کو واضح کیا گیا ہے۔اور اردو میںپوپ کہانی کی ایجاد کے مضحکہ خیز دعویٰ کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔
عکاس نے گوشوں کے علاوہ بعض شاعروں کی کافی ساری غزلیں،نظمیں ایک ساتھ شائع کرنے کا اہتمام بھی کیا ہے۔۱۹۸۱ءکے شمارہ میں میری ۶غزلیں اور سیما احمد کی چار غزلیں شائع کی گئیں۔بعد ازاں گوشوں میں شامل ڈھیر ساری شاعری کے علاوہ ان شاعروں کی کافی ساری غزلیںنظمیں ایک ساتھ شائع کی گئیں۔میرا جی،وزیر آغا،ایوب خاور،عبداللہ جاوید،حیدر قریشی،احمد حسین مجاہد،شہناز نبی،ترنم ریاض،صادق باجوہ،افضال نوید،حفیظ طاہر،کبیر اطہر،اظہر ادیب،منصور آفاق،فرحت نواز،راجہ یوسف خان،شبانہ یوسف،احمد اصغر راجہ،اکرام الحق سرشار، ذوالفقار علی اسد،جاوید احمد،آصف پرویز،بقا بلوچ، نجمہ شاہین،ارشد خالد۔
عکاس کے سب سے پہلے شمارہ میں ارشد خالد نے سرورق کی بیک سائڈ پرمیری ایک تصویر شائع کی تھی۔اب انہوں نے ادیبوں کی تصویروں کو سرورق پر سجانا شروع کر دیا ہے۔بعض خاص تقریبات کی تصاویر کو بھی سرورق پر دیا ہے تو متعدد ادیبوں کی تصاویر بھی کسی موضوع کی مناسبت سے سرورق پر دی ہیں۔کتاب کے بیک ٹائٹل پر زیادہ تر کسی خاص حوالے سے بعض ادبی کتابوں کے ٹائٹلزدے دئیے جاتے ہیں۔یوں ادیب اور ادب دونوں کو ایک جیسی اہمیت دی جاتی ہے۔ اور”عکاس انٹرنیشنل“بھی کسی حد تک خوش رنگ دکھائی دیتا ہے۔
ارشد خالد کی اس خوبی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ انہوں نے ایک طرف متنازعہ مباحث کی اشاعت سے گریز نہیں کیا،دوسری طرف جب کسی تصحیح کی نوبت آئی تو نہ صرف تصحیح کی بلکہ اصلاحِ احوال کے لیے مناسب طور پر کاوش بھی کی۔کسی مدیر کایہ طرزِ عمل ادب میں اختلافی زاویے کو ابھارنے کے ساتھ تصویر کے دوسرے رُخ کوبھی سامنے لانے کاصحت مند رویہ ہے۔اردو ماہیا کے فروغ میں بھی عکاس نے بہت مناسب کردار ادا کیا ہے۔ان کے طرزِ عمل سے اردو ماہیاکو تقویت ملی ہے۔اب ان کا ارادہ ہے کہ ماہیا کا ایک بھر پور گوشہ یا پھر ماہیا نمبر شائع کیا جائے۔ میری دعا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں،اس میں کامیاب ہوں۔ آمین۔۱۹۸۱ءسے عکاس انٹرنیشنل کے ذریعے ادب کی خدمت کرنے کے باوجود ارشد خالد نے نہ کسی طرف سے رسالے پر کسی خاص تبصرے کا انتظار کیا ہے،نہ کسی سے تبصرے کے لیے اصرار کیا ہے۔نہ کبھی ادب کی خدمت کرنے کا دعویٰ کیا ہے،نہ کبھی مُڑ کر دیکھا ہے کہ کوئی داد دے رہا ہے یا نہیں۔بس” عکاس “کو ترتیب دئیے جا رہے ہیں اور اسی لگن میں مگن ہیں۔ آج کی نسل کے رسائل کے مدیران میں سے کتنے ہیں جو ایسے درویشانہ مزاج کے ساتھ ادبی رسالہ نکالتے ہوں!۔
۱۹۸۱ءسے شروع کیے گئے ادبی کتابی سلسلہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے درویش صفت مدیراور اپنے عزیزدوست ارشد خالدکو بتیس سال کے ادبی سفرکے اس موڑ پر سلام پیش کرتا ہوں!
اورآخر میں ادبی دنیا کو یہ خبر دینا چاہتا ہوں کہ عکاس انٹرنیشنل کتابی صورت میں چھپنے کے ساتھ انٹرنیٹ پر بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ان دو لنکس پر عکاس کے شمارے دیکھے جا سکتے ہیں۔
http://akkas-international.blogspot.de/
http://issuu.com/akkas
عکاس انٹرنیشنل کی انٹرنیٹ پر پیش کش کے ساتھ ارشد خالد نے اب ایک انٹرنیٹ میگزین”ادبی منظر“کا اجراءبھی کر دیا ہے۔رنگین تصاویر سے مزین اس ادبی رسالہ نے اپنے پہلے دو شماروں سے ہی ادبی دنیا میں دھوم مچا دی ہے۔اس پر زیادہ رائے نہیں دے رہا صرف اس کا لنک پیش کر رہا ہوں۔
http://issuu.com/adabi-manzar
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ ویب سائٹ ہم عصر اردو۔ڈنمارک
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=1258
روزنامہ پیغام دہلی۔۲۵اپریل ۲۰۱۴ء