سیّد ظفر ہاشمی کا ادبی رسالہ گلبن اپنی زندگی کے ۲۵سال پورے کر رہا ہے ۔ اس کی سلور جوبلی منانا اس کے تمام قلم کاروں کا فرض بنتا ہے۔ میرا اور گلبن کا تعلّق بہت پرانا ہے ۔ اس کے اجراءکے لگ بھگ چار پانچ سال کے بعد میرا اس سے رابطہ ہوا ۔ در اصل اس زمانے میں ایک تو انڈیا اور پاکستان کے درمیان ڈاک کا نظام کچھ مشکوک سا تھا ۔ دوسرے میں اپنی زندگی کے ایسے بحران سے گزر رہا تھا جس میں انڈیا کا ڈاک کا لفافہ تو کیا اپنی تخلیقات لکھنے کے لئے کاغذ خریدتے وقت بھی سوچنا پڑتا تھا ۔ یہ ۱۹۸۱ءکے لگ بھگ کی بات ہے ۔ تب میں خانپور سے جدید ادب کا اجراءکر چکا تھا جو میری بیوی کے زیور کے بل پر نکل رہا تھا ۔ایک دوست کو شریک مدیر بنایا ۔ ان کے ذمّہ ایک کام یہ بھی تھا کہ انھوں نے ایک اسٹیشنری والے سے کہہ رکھا تھا کہ حیدر قریشی کو جتنی اسٹیشنری درکار ہو دے دیا کریں اور رقم میرے حساب میں لکھ لیا کریں ۔ بعد میں ایک وجہ سے ( بے حدحقیر سی وجہ سے) وہ دوست کہیں مجھ سے ناراض ہو ئے تو بجائے مجھ سے قطع تعلّق کیلئے کہنے کے اس اسٹیشنری والے سے کہہ گئے کہ وہ جب آئے تو اسے کاغذ مت دینا ۔ میرے وہم و گمان میں بھی دوست کی خفگی ہوتی تو میں خود احتیاط کرتا لیکن مجھے اسٹیشنری شاپ والے نے کاغذوں کا دستہ دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کی وجہ بھی بتا دی تو مجھے اس لئے اور زیادہ شرمندگی ہوئی کہ تب میری جیب میں ایک دستہ کاغذ خریدنے جتنے پیسے بھی نہیں تھے ۔سو ایسے حالات میں جب کاغذ خریدنا بھی مسئلہ بنا ہوا ہو، انڈیا کے ڈاک کے مہنگے مصارف برداشت کرنا میرے لئے خاصہ مشکل تھا ۔ اس کے باوجود میں نے گلبن سے رابطہ رکھا ۔ اگرچہ تب میری اک آدھ غزل اس میں چھپ جاتی تھی اور سچّی بات ہے یہ بھی بہت بڑی بات تھی ۔ اس رابطہ میں پہلی بار استحکام اس وقت آیا جب سیّد ظفر ہاشمی نے سعید شباب کا ایک مضمون ”ادبی عدالت میں“ شائع کیا ۔ میری ایک کہانی اور ایک ممتاز اردو افسانہ اور ناول نگار خاتون کی کہانی کا مرکزی خیال آپس میں مل گیاتھا ۔ تب سعید شباب نے اس کا نوٹس لیا ۔ مگر ان کا مضمون پاکستان میں کسی رسالہ نے شائع نہیں کیا ۔ ہماری ادبی دنیا کی مصلحت پسندی (یا منافقت ) بعض اوقات کیسے کیسے تلخ حقائق کو نظر انداز کر جاتی ہے یہ تو پھر بہت ہی عام سی بات تھی ۔ سیّد ظفر ہاشمی نے اس مضمون کو اہتمام کے ساتھ شائع کیا ۔ یوں گلبن سے میرا رابطہ مستحکم ہوا ۔ جب ا نڈیا میں اردو ماہیا کے درست وزن کا مسئلہ باقاعدہ طور پر پیش کیا گیا تب گلبن ہی پہلا ادبی رسالہ تھا جس نے اسے نہ صرف پیش کیا بلکہ اردو ماہیا کو اردو میں مقبول بنانے میں نہایت اہم کردار اداکیا ۔ سو یوں گلبن کے ساتھ میرا ایسا گہرا دوستانہ تعلّق بنتا گیا جس کی بنیاد کسی مادی لالچ یاطمع پر نہیں بلکہ خالصتاََ ادبی اخلاص محبّت اور اردوکے فروغ کے جذبہ پر تھی ۔ اس کے بعد گلبن نے مجھے ایسے اہتمام سے شائع کیا جیسے بعض ادبی رسالے اپنے فنانسر کو شائع کرتے ہیں ۔ حالانکہ گلبن کے لئے میں نے سالانہ چندے سے زیادہ کچھ نہیں کیا ۔ اور پھر گلبن کا سالانہ چندہ بھی کیا ہے ۔ ڈرافٹ بنوانے جائیں تو سالانہ چندہ سے زیادہ ڈرافٹ فیس پڑ جائے ۔ ادبی رسائل کے فنانسر والی بات کی تو مجھ میں ہمّت بھی نہیں تھی ۔ لیکن جو گلبن کا سالانہ چندہ ہے اس کی ادائیگی کرتے ہوئے حقیقتاً شرمندگی ہوتی ہے ۔ جب گلبن کا اردو ماہیا نمبر شائع ہوا تو پھر اس تعلّق کی جو نوعیت ہو گئی اس کے اظہار کے لئے میرے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں ۔ گلبن کے غزل نمبر کے لئے مجھے بہت سا کام کرنے کا موقع ملا اور ایسے لگا جیسے میں اپنے ادبی پرچے کا کام کر رہا ہوں ۔
میری ایک اچھّی یا بُری عادت بن گئی ہے کوئی ادبی رسالہ محبّت کے ساتھ تحریریں مانگتا ہے تو وہ بظاہر کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو میں اسے اپنی تحریریں بھیجنا اپنی عزّت سمجھتا ہوں اور کوئی ضخامت کا بڑا ادبی جریدہ اگر اپنی بڑائی کے زعم میں مبتلا دکھائی دے تو میں اسکی طرف دیکھتا بھی نہیں ہوں ۔ میرے لیے گلبن ہو یا تسطیر، گلکدہ ہو یا استعارہ ۔۔توازن ہو یا تشکیل اور قرطاس ہو یا اسباق ،ہر ادبی رسالہ اپنی اپنی ادبی اہمیت کا حامل ہے ۔ لیکن میں صرف ان رسائل کو ہی اپنی تخلیقات بھیجتا ہوں جو مجھ سے محبّت کے ساتھ تخلیقات طلب کرتے ہیں ۔ تھوڑا عرصہ پہلے مجھے ایک بہت اچھّے دوست نے کہا کہ آپ فلاں فلاں رسالوں میں چھپتے ہیں اور اپنی تخلیقات کی اہمیت کم کر دیتے ہیں ۔ ان فلاں فلاں میں گلبن کا نام بھی شامل تھا ۔ مجھے اس دوست کے انداز نظر پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ بیشک بڑے پرچوں کا اپنا ایک تاثر ہوتا ہے لیکن میں نے تب ہی اس دوست کو بتایا کہ میری تحریر میں سچّائی ہو گی تو کسی محدود حلقے میں تو اس کی پذیرائی ہو گی لیکن اگر کسی نام نہاد بڑے ادبی پرچے میں کسی کمزور لکھاری کو یا کسی کلوننگ کردہ کو اہمیت دی جائے تو نہ تو وہ کمزور چور اور جعلی لوگ اہم بن پائیں گے اور نہ ہی ایسے بڑے ادبی پرچے کی ساکھ زیادہ دیر تک قائم رہے گی ۔ اس پر میرے دوست نے اصرار کیا کہ ایسے پرچوں کی ساکھ قائم رہتی ہے ۔ تب میں نے کہا اگر ہم واقعی چوروں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں کے دور میں آگئے ہیں تو پھر مجھے ویسے بھی اس نوعیت کے بڑے رسائل کا بڑا ادیب نہیں بننا ۔ میں چھوٹے رسالوں کا چھوٹا ادیب ہی ٹھیک ہوں میں اوراق اور گلبن میں چھپتا ہوں میرے لئے اتنا ہی بہت ہے۔
گلبن اور سیّد ظفر ہاشمی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی دوران جب میرے اور گلبن کے تعلّق میں رومانس جیسی کیفیت پیدا ہو گئی تھی ایک واقعہ ایسا ہوا کہ اس سے تعلّق میں انقباض جیسی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ غلط فہمی کی بنیادی وجہ جو بھی تھی اس سے سے یہ ضرور واضح ہو گیا کہ دونوں طرف اردو محبّت کا جذبہ ہی کارفرما تھا ۔ فرق صرف انداز نظر کا تھا ۔ پھر شومیٔ قسمت ایک دو واقعات دونوں طرف سے ایسے ہوتے گئے اورایسی غلط فہمیاں ہوتی گئیں کہ دونوں ہی دکھی ہو کر رہ گئے ۔ اس دکھ میں بھی محبّت جیسی کیفیت تھی ۔ وگرنہ فی زمانہ لوگ مطلب کی حد تک ہی مطلب رکھتے ہیں اور مطلب نکل جائے تو اندھی مخالفت سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ گلبن صرف ادبی رسالہ ہی نہیں اردو کے فروغ کے لئے ایک مشن کا نام ہے ۔دوکاندار قسم کے ادبی رسالوں سے واسطہ پڑتا تو غلط فہمی کے بعد دوستی ہونے میں کچھ اور ہوتا ۔ لیکن یہاں تو اردو کا ایک مشن ہاﺅس تھا ۔ سو اپنے اپنے موقف کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کے ساتھ ہی نہ صرف ساری گرہیں کھل گئیں بلکہ ُ’گرہوں میں پھونکیں مارنے والے “بھی چُپ ہو گئے۔
میری دلی خواہش تھی کہ گلبن کی سلور جوبلی تقریب ہو اور میں اس میں شرکت کرنے کے لئے آﺅں ۔ مجھے علم نہیں ہے کہ وہاں کے دوستوں نے کیا پروگرام بنایا ہے اگر ایسا پروگرام بنے اور مجھے بر وقت اطلاع کر دی گئی اور ویزا ملنے میں کوئی روک پیدا نہ ہوئی تو میں گلبن کی سلور جوبلی میں شرکت کے لئے انشا اللہ ضرور حاضر ہوں گا ۔ اس تقریب میں شرکت کرنا میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہو گی ۔
مطبوعہ دو ماہی گلبن احمدآباد۔ سلور جوبلی نمبر ۔جنوری۔اپریل ۲۰۰۲