دیویندر اسر کے ساتھ میرا براہِ راست رابطہ دہلی میں قیام کے دوران ہوا۔شاہد ماہلی کے توسط سے ڈاکٹر صادق اور دیویندر اسر سے ملاقات ہوئی تھی۔تعارف ہو جانے کے بعدستمبر ۱۹۹۲ء سے دسمبر ۱۹۹۳ءتک دہلی میں قیام کے دوران میری سب سے زیادہ ملاقاتیں دیویندر اسر کے ساتھ رہیں۔ان کا گھر میری رہائش گاہ سے اتنے فاصلے پر تھا کہ بندہ آرام سے سیر کرتے ہوئے اور ٹہلتے ہوئے ان کے گھر تک پہنچ جاتا تھا۔سو یہ جغرافیائی قرب ہمارے لیے ذہنی قربت کا باعث بننے لگا۔ان کے مقابلہ میں شاہد ماہلی اور ڈاکٹر صادق سے کہیں ہفتہ عشرہ کے بعد ہی ملاقات ممکن ہوتی تھی۔دیویندراسر کے توسط سے نند کشور وکرم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ان دونوں دوستوں کی گہری دوستی کو ایک لحاظ سے مثالی دوستی قرار دیا جا سکتا ہے۔دونوں کی اپنی اپنی ادبی ترجیحات تھیں،جو کہیں ایک دوسرے سے قریب تھیں تو کہیں ایک دوسرے کو کاٹتی تھیں۔اس کے باوجود دونوں میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کے موقف کا احترام کرتے تھے۔نند کشور وکرم نے تو ایک بار عالمی اردو ادب کا دیویندر اسر نمبر بھی شائع کیا ہے۔
ادبی تحریکات کے حوالے سے دیکھا جائے تو ترقی پسند تحریک سے متاثر ہونے،اس کا سرگرم ادیب رہنے،نظریاتی کارکن کی حیثیت سے قید و بند کی قربانیاں دینے تک اور خفیہ والوں کی زد میں آئے رہنے تک ان کی خدمات کا ایک سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔یہ سب کچھ عمر کے اس حصہ میں رونما ہوا جب وہ نوجوان تھے۔جوانی کی پختگی تک انہوں نے نئے رجحانات کا مطالعہ بھی شروع کر دیا تھا۔کسی مغربی دانشور نے کچھ اس قسم کی بات کہی تھی کہ جو شخص نوجوانی میں سوشلسٹ خیالات سے متاثر ہو کر کمزور طبقوں کے لیے ہمدردی محسوس نہیں کرتا، یہ سمجھیں کہ اس کے اندر دل نہیں ہے۔ اور جو شخص جوانی کے بعد اپنے سوشلسٹ افکارپر نظر ثانی نہیں کرتا،اس کا دماغ نہیں ہے۔
صاحبِ دل نوجوان دیویندر اسر جب عمر کی پختگی کو پہنچے تو جدید ادبی نظریات کے مطالعہ نے انہیں صاحبِ دماغ بھی بنا دیا۔دیویندر اسر کثیرالمطالہ ادیب تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک کے مثبت اثرات کا کبھی بھی انکار نہیں کرتے تھے لیکن وہ اشتراکی مبلغ بھی نہیں رہنا چاہتے تھے۔اس سلسلہ میں نند کشور وکرم نے اپنے ایک مضمون میں ان کے ایک انٹرویو کا بہت عمدہ حوالہ درج کیا ہے:
”انہوں نے ایک انٹرویو مےں کہا تھا کہ وہ اشتراکیت سے نہےں بلکہ سیاست سے ہی بیزار ہوگئے ہےں۔اور وہ ہر قسم کے بند نظریات اور اقتدار کی سیاست کی مخالفت کرتے ہےں کیونکہ یہ فرد کومانی پولیٹ اور مینیج کرتے ہےں۔ اور وہ انسان کی مینی پولیشن خواہ وہ سیاسی ہو یامعاشی،مذہبی ہو یا ذات برادری کی،اُس کی تائید نہےں کر سکتے۔“
(مضمون ”دیویندر اسر کچھ یادیں“از نند کشور وکرم)
دیویندر اسر نے ادب کے جدید سے مابعد جدید رجحانات تک گہرا مطالعہ کر رکھا تھا۔تاہم انہوں نے اپنے لیے کوئی سیدھی لکیر نہیں کھینچی۔جہاں بہت زیادہ مطالعہ نے انہیں ذہنی کشادگی عطا کی وہیں ان کے بعض مضامین میں ایسا بھی ہوا کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے،وہ واضح طور پر بیان نہیں ہو پایا۔کثرتِ مطالعہ سے کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے ذہن میں ایک واضح نکتہ مدِ نظر رکھے ہوتے ہیں لیکن لکھتے وقت عام قارئین کے لیے اس کی وضاحت پوری طرح سے نہیں ہو پاتی۔ایسے مقامات پر پھر قاری کو اپنی ذہانت یا اپنے مطالعہ سے کام لے کر نفسِ مضمون کو سمجھنا پڑتا ہے۔دیویندر اسر کے بعض مضامین کے مطالعہ کے دوران ایسے مقامات سے واسطہ پڑتا ہے۔
تخلیق کار کے طور پر دیویندر اسر کے ہاں ترقی پسند تحریک سے جدیدیت تک کے بیشتر اثرات یکجا ہو جاتے ہیں۔خصوصاً ان کے افسانوں کے مجموعہ ”پرندے اب کیوں نہیں اُڑتے“ اور ان کے ناولٹ”خوشبو بن کے لوٹیں گے“میں ترقی پسندی اور جدیدیت کا امتزاج واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔”خوشبو بن کے لوٹیں گے“کو میں ان کی سب سے شاندار تخلیق سمجھتا ہوں۔اس ناولٹ میں ان کی زندگی کی داستان کا دریاگویاکوزے میں سمٹ آیا ہے۔
ضلع کیمبل پور میں پیدا ہونے والے اور وہاں سے راولپنڈی تک کے علاقہ میں پروان چڑھنے والے دیویندر اسرساری زندگی ہجرت کے کرب سہتے رہے۔تقسیم بر صغیر کے نتیجہ میں ہندو پاک کے دونوں طرف دو طرح کے طبقے سامنے آئے۔ایک طبقہ تو وہ تھا جس نے کلیموں کی گیم کو بھر پور طریقے سے کھیلا۔ اس طبقہ کے سبھی لوگوں نے کسی نہ کسی رنگ میں” دادا جی کے پودینے کے باغوں“ کے حوالے دئیے جہاں وہ جھولا ڈال کر جھولا کرتے تھے،اور اس فراڈ کے بل پر ماضی کے فقیر فُقرے بھی لکھ پتی بن کر نئے ملک سے فیض یاب ہوئے۔جبکہ دوسرا طبقہ دیویندر اسر جیسے لوگوں کا تھا جو زندگی کو کسی مثالی دنیا میں بسر کرنا چاہتے تھے۔اپنی ذہانت کو عام آدمی کے فائدہ کے لیے کام میں لانا چاہتے تھے۔لیکن اپنے ماضی کی یادوں کی قیمت کے طور پر وہ مشکوک ٹھہرادئیے گئے۔
جب ایک دنیا جھوٹ پر جھوٹ بول کر نت نئے کلیم داخل کرکے اپنی جائدادوں میں اضافہ کر رہی تھی،دیویندر اسر جیسے لوگوں پر کیا بیت رہی تھی،دیویندر اسر کی کہانی ان کے ناولٹ ”خوشبو بن کے لوٹیں گے“کے ان اقتباسات میں دیکھیں:
”تم جہاں پیدا ہوئے ہو ، اس دھرتی سے، اس نگر سے، اس گاﺅں سے، اس جنگل سے ہجرت کر سکتے ہو لیکن اپنے اندر سے اس دھرتی کو ، اس نگر کو ، اس گاﺅں کو، اس جنگل کو باہرنہیں کر سکتے____ لیکن میری تہذیب، میرا سماج، میری حکومت ، میرا مذہب ، میری تعلیم، میری معیشت، روزگار، رشتہ دار ، بیوی ، بچے مجھے ایک گھیرے میں بندکر کے اس بھوت کو نکالنے کے لیے مجھے ہر روز اذیت دیتے رہتے ہیں لیکن یہ بھوت یا پرچھائیں میرے اندر سے نہیں نکلتی۔“
”تمہیں داخلہ نہیں مل سکتا____ کیا ثبوت ہے کہ تم وہی ہو جو تم بتا رہے ہوکہ تم نے بی اے پاس کیا ہے۔ کیا ثبوت ہے ۔ کوئی کاغذ ، کوئی پرچہ، کوئی گواہ، کچھ بھی نہیں تو تمہارے پاس ____ہاں کچھ بھی تو نہیں تھا میرے پاس____ نہ کاغذ ، نہ پرچہ، نہ کوئی ثبوت، نہ کوئی گواہ، نہ نام، نہ گھر، نہ دیش____ میرا گھر، میرا نام، میرا چہرہ سب کچھ ریکھا کے اس پار رہ گیا تھا جو کاغذ پر کھینچی، زمین پر اتری اور دلوں کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔تقسیم کا فیصلہ ان لوگوں نے کیا تھا ،پنجاب جن کا وطن نہیں تھا۔ ان کا نام تھا، گھر تھا، دیش تھا،پہچان تھی۔پہچان کیوں نہ ہوتی۔انہوںنے وائس ریگل لاج میں لارڈ اور لیڈی ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ لنچ کیا تھا۔ ان کے ساتھ تصویر کھنچوائی تھی۔ ان کے پاس اخباروں کے پلندے تھے، شناخت کے سب اوزار تھے اور میرے پاس کاغذ کا ایک پرزہ بھی نہ تھا۔پہچان کیسے ہوتی؟“
حسن ابدال،کیمبل پور،راولپنڈی،کان پور،دہلی تک کے اسفار دیویندر اسر کی پے در پے ہجرتوں کی داستان ہیں۔دہلی میں آکر وہ ٹک گئے تھے۔لیکن یہاں پھر انہیں داخلی ہجرت کے کرب سے گزرنا پڑگیا۔پاکستان میں بچپن میں ماں کی جدائی سہہ لی تھی،دہلی میں بیوی کے مستقل ہجر کا صدمہ درپیش ہوا۔میاں بیوی میں علیحدگی ہو گئی،یہ مستقل ہجر ایک اور داخلی ہجرت تھی۔اولاد بھی کسی کام نہ آئی۔گویا اندر ہی اندر ہجرت در ہجرت کرب کی لہریں امڈتی رہتی تھیں۔
ما بعد جدیدیت کے نام پر بہت سے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔میں پاکستان سے ہی اس نئے ڈسپلن کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔اس کوشش میں ماہنامہ ”صریر“کے ایڈیٹر کو ناراض کر بیٹھا۔ایسے لوگوں کی کچی پکی کتابیں بھی پڑھیں جنہیں خود معلوم نہ تھا کہ مابعد جدیدیت کیا ہے۔ان کاا بھی تک وہی حال ہے۔پھرڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں سے بھی اس ڈسپلن کو سمجھنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر نارنگ کا بیان اتنا مشکل اور” عالمانہ“ تھا کہ بہت زور لگا کر بھی کچھ خاص پلے نہ پڑا،اور جو پلے پڑا وہ دل کو نہیںلگا۔فاروقی صاحب کے ہاں شروع میں مابعد جدیدیت کی تفہیم سے زیادہ جدیدیت کا دفاع دکھائی دیتا تھا،سراسیمگی کی ایک کیفیت جھلکتی تھی۔ڈاکٹر وزیر آغا سے زبانی گفتگو کے ذریعے اس ڈسپلن کوتھوڑا بہت سمجھنے کی کوشش کی۔وزیر آغا کا یہ موقف دل کو لگا کہ مصنف کی موت مناسب نہیں ہے اور مصنف،تصنیف اور قاری تینوں کے ذریعے ہی ادب کی تفہیم ہونا بہتر ہے، لیکن پھر بھی بات نہیں بنی۔یہ سب ۲۹۹۱ءکے درمیان تک کے زمانے کی باتیں ہیں۔اسی سال کے آخر تک میں دیویندر اسر سے ملاقاتیں کر رہا تھا اور دوسری بے شمار ادبی و غیر ادبی گفتگو کے ساتھ اس ڈسپلن کو بھی آسان پیرائے میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔مجھے یہ اعتراف کرنے میں خوشی ہو رہی ہے کہ مابعد جدیدیت کو میں ڈھنگ اور بے ڈھنگے پن سے جتنا سمجھ پایا ہوں،وہ دیویندر اسر سے گفتگو کے ذریعے سمجھ پایا ہوں۔میں نے تب جو کچھ سمجھا تھا ،آج تک اسی تفہیم پر قائم ہوں لیکن بعد میں ان کے ایک دو مضامین کے ذریعے اندازہ ہوا کہ دیویندر اسراپنے پہلے موقف سے رجوع کر گئے ہیں۔میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا
میرے ساتھ دیویندر اسر کی گپ شپ بے تکلفی کی حد تک آگئی تھی۔میرے کسی شوخ جملہ کا وہ مزہ لیتے اور اس پر مسکراتے ہوئے رائے بھی دیتے لیکن ان کی مسکراہٹ مجھے عموماََ کرب آمیز محسوس ہوا کرتی تھی۔وہ کئی بار مسکرائے لیکن میں نے انہیں کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔
دیویندر اسر نے مجھے میرے افسانوں کے ہندی ترجمہ کا خواب دکھایا اور پھر اس کی تعبیر بھی خود ہی مہیا کر دی۔نند کشور وکرم کے توسط سے ہندی کے ایک پبلشرسے ملوایا۔پھر افسانوں کے ہندی ترجمہ کا انتظام بھی کرایا۔اردو کے ایک ناول نگار کی اہلیہ محترمہ نے یہ کام کیا تھا۔میرے جرمنی پہنچنے کے بعد افسانوں کا ہندی ایڈیشن شائع ہوا۔میرے افسانوں پر دیویندر اسر نے ایک شاندار مضمون لکھا جو اس کتاب میں پیش لفظ کے طور پر شامل رہا۔یہ سب کچھ دیویندر اسر کی محبت کا نتیجہ تھا۔ویسے بعد میں جب ہندی جاننے والے احباب نے اس مجموعہ کے بعض افسانے پڑھ کر سنائے تو احساس ہوا کہ ترجمہ نگار نے بہت کچھ چھوڑ دیا ہے۔میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اردو سے ہندی اور ہندی سے اردو میں ترجمہ کرنے کی بجائے صرف اسکرپٹ تبدیل کرنا چاہیے۔اگر کہیں فارسی یا سنسکرت کے گاڑھے الفاظ آرہے ہوں تو حاشیہ میں ان کا مفہوم واضح کیا جا سکتا ہے۔بہر حال میرے لیے یہی اعزاز کیا کم ہے کہ دیویندر اسر کی محبت اور توجہ کے نتیجہ میں میرے افسانوں کا ہندی ترجمہ شائع ہو سکا۔
مارچ ۲۰۱۲ءکی آخری تاریخوں میں دہلی میںاپنے دو روزہ قیام کے دوران مجھے جوگندر پال جی اور دیویندر اسر سے بھی ملنا تھا۔جوگندر پال جی سے تو خود جا کر مل آیا تھا لیکن دیوندر اسر سے ملنا ممکن نہ ہو سکا۔ڈاکٹر صادق نے ان کی بیماری کی نوعیت سے آگاہ کیا اور مشورہ دیا کہ ملاقات کرنے کی بجائے ان کے لیے دعا کریں۔میں ایک احساسِ ندامت کے باوجود وہاں جانے سے رک گیا۔ ڈاکٹر صادق بتا رہے تھے کہ ان کے بیٹے ان کی دیکھ ریکھ کے لیے آتے رہتے ہیں۔ڈاکٹر صادق بھی رابطہ میں رہتے ہیں۔لیکن دیویندر اسر کی اپنی پوزیشن یہ ہے کہ خود سے فون بھی نہیں اُٹھا سکتے۔ جوگندر پال جی کے ساتھ مل کر اداس ہوا تو دیویندر اسر سے نہ مل کر دکھی ہوا۔لیکن یہ خبر جان کر اپنا دکھ کئی گنا بڑھ گیا کہ دیویندر اسر کی وفات کے پندرہ دن کے بعد دنیا والوں کو ان کی وفات کا علم ہو سکا۔جوگندر پال جی نے سچ لکھا ہے کہ اتنی زیادہ وسیع و عریض ہو کربھی سالی دلّی کا دل نہیں ہے۔پندرہ دن تک نہ ان کے کسی بیٹے نے کسی رنگ میں رابطہ کیا نہ کسی دوست نے پتہ کیا کہ کس حال میں ہیں؟
ہجرت در ہجرت کا کرب سہتے سہتے زندگی گزارنے والے دیویندر اسر اپنی زندگی کی آخری ہجرت کسی کو بتائے بغیر اتنی خاموشی سے کر جائیں گے؟کس نے ایسا سوچا تھا۔
مجھے یہاں پھر ان کے ناولٹ ”خوشبو بن کے لوٹیں گے“کا اقتباس یاد آرہا ہے۔
”کتنا سمے بیت گیا، میں نہ اپنی ماں سے الگ ہو سکا اور نہ ہی اپنے اندر کے بچے ہی کو پیچھے چھوڑ سکا۔ اپنی ماں کی نا بھی ڈور سے بندھا اور اپنے اندر کے بچے کو گود میں اٹھائے کوئی کتنا لمبا سفر طے کر سکتاہے۔“
مجھے لگتا ہے کہ موت کی صورت میں اپنی زندگی کی آخری ہجرت کرنے کے بعد دیویندر اسر اب اپنی ماں کے قدموں کے سورگ میں بیٹھے ،زندگی بھر کی تھکن اتار رہے ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ادب نامہ“روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔۱۳دسمبر ۲۰۱۲ء
http://www.urduhamasr.dk/dannews/index.php?mod=article&cat=Literature&article=928
سہ ماہی غنیمت گجراتکراچی۔شمارہ :جولائی تا ستمبر۲۰۱۴ء