حیدرقریشی کی ایک کتاب جوان کے دس انشائیوں پر مشتمل ہے۔ ”فاصلے قربتیں“ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ اس میں انہوں نے جن عنوانات کے تحت انشائیہ لکھے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں، خاموشی، نقاب، وگ، فاصلے قربتیں، بڑھاپے کی حمایت میں ، اطاعت گزاری، یہ خیروشر کے سلسلے، چشم تصور، اپنا اپنا سچ، اور تجربہ کاری ہیں۔ ان تمام دس انشائیوں میں انہوں نے مختلف کیفیات، زمانے کے نشیب و فراز، سیاسی حالات اور سماجی نیرنگیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان انشائیوںمیں تحریر چست اور برجستہ ہے اور ساتھ ہی فقروں کی چستگی نے ایک شگفتگی کو عیاں کردیا ہے۔ عموما انشائیوں میں اقوال زرین کی تلاش ہوتی ہے۔ تاہم میری نظر میں انہیں اقوال زرین کی بجائے فقرہ ہائے بذلہ سنجی سے تعبیر کرنا چاہئے۔ جو انگریزی کے Wit & Wisdomکی طرز پر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی کے بعض فقرے یا چست اقوال جنھیں میں نے اقوال زرین کی بجائے فقرہ ہائے بذلہ سنجی سے تعبیر کروں گا، جو نہ صرف بڑے چست ہیں بلکہ معنی کا ایک سمندر سمیٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض حیدرقریشی کے انشائیہ جہاں ہمارے ذہن کو تازگی، فرحت اور شگفتگی عطا کرتے ہیں وہیں دعوت غوروفکر بھی دیتے ہیں اور ہمارے ذوق و وجدان کو مہمیز بھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرب استاد(گلبرگہ)
حیدر قریشی کا فکری اور فنی سفر تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے۔انہوں نے اس عرصہ میں خود کو انتہائی فعال رکھا ہے۔اردو ادب کی بہت سی لہروں کے ساتھ سفر کیا ہے اور بدلتے ہوئے رویوں اور دھاروں کا ساتھ دیا ہے مگر اپنے تشخص کو مجروح نہیں ہونے دیا۔یہی انداز ان کے انشائیوں میں بھی پایا جاتا ہے۔اپنی ادبی اور عملی زندگی کے لمحوں کو، چاہے وہ کتنے ہی کربناک کیوں نہ رہے ہوں، انہوں نے ایک خوشگوار اسلوب میں پرو کر پڑھنے والوں کے لیے سامانِ تفریح بھی مہیا کیا ہے اور لمحہءفکریہ بھی۔اپنے لاشعور میں پرورش پاتے ہوئے کبھی مبہم اور کبھی واضح کرداروں سے انہوں نے طرح طرح کے دلچسپ پہلو نکالے ہیں اور سادہ و پرکار جذبات نگاری کے ساتھ ساتھ کردار نگاری کے انشائی پہلوﺅں کوبھی خوب خوب اجاگر کیا ہے۔اپنی کیفیات کے ہمراہ قاری کی کیفیات کا بھی لحاظ رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والا بھی ان کے تاثرات کو قبول کرتا چلا جاتا ہے اور اسی کشتی میں بہنے لگتا ہے جس میں خود مصنف سوار ہے۔اس طرح ان کے انشائیوں کا مطالعہ ایک رسمی مطالعہ نہیں رہا بلکہ حیدر قریشی کے ذہنی اور ادبی ارتقاءپر اثر انداز ہونے والے عوامل کا مطالعہ بھی بن گیا ہے۔
حیدر قریشی کے انشائیوں میں ان کی ذاتی زندگی کی جھلکیاں ان کی فتوحات اور شکستوں کے ساتھ موجود ہیں جو ان کے انشائیوں میں کہیں خاکہ نگاری کا رنگ بکھیر دیتی ہیں اور کہیں یاد نگاری کا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ان ساری کیفیات کے پردے سے ایک انشائیہ ابھار لینے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ان کے انشائیوں میں انکساری اور عاجزی بھی نظر آتی ہے لیکن ان دو خوردبینوں کے ذریعے انہوں نے اپنے ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے اور معمولی واقعات کو Magnifyکر کے دکھایا ہے، اس طرح سے کہ ان کے سامنے خود ان کی انکساری اور عاجزی بڑی دکھائی دینے لگتی ہے۔
حیدر قریشی ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور جو یہ بھی جانتے ہوتے ہیں کہ انہیں کس شعبہءادب کا انتخاب کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔انشائیہ کے حوالے سے انہوں نے جو کام کیا ہے وہ اس صنف میں چند قابلِ قدر انشائیوں کے اضافے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
حیدر قریشی کی انشائیہ نگاری کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دوسرے انشائیہ نگاروں سے ہٹ کر موضوعات کا انتخاب کیا ہے اور پھر موضوع کے
اعتبار سے ان پہلوﺅں کو اجاگر کیا ہے جو عام قاری کی نظر میں نہیں آ سکتے۔ ایک اچھے انشائیہ نگار کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ان اشیاء، مظاہر اور ان کے چھپے ہوئے گوشوں کو سامنے لائے جو بآسانی دکھائی نہ دے سکتے ہوں۔حیدر قریشی کی انفرادیت کا ثبوت ان کے زاویہءنگاہ میں مضمر ہے جو یہ واضح کرتا ہے کہ بیشتر نظر آنے والی چیزیں ویسی نہیں ہوتیں جیسی دکھائی دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات متضاد اور انتہائی مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔حیدر قریشی بعض پیچیدگیوں کو اس فنکارانہ مہارت سے پیش کرتے ہیں کہ فلسفہ اور نفسیات کی گتھیاں کھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
حیدر قریشی کے انشائیوں میں حیرت آمیز تجسس کی فضاءہمیشہ موجود رہتی ہے اور پڑھنے والا ایک چوٹی یا عروج سے گزر کر نئی چوٹی کے نظارے میں گم ہو جاتا ہے۔اگرچہ ایک خاص موڑ پر انشائیہ کا اختتام پذیر ہو جانا کوئی نئی بات نہیں رہی لیکن حیدر قریشی اب بھی اپنے انشائیوں کو ایک خوبصورت موڑ دے کر ختم کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جیسے ستارہ ٹوٹتے ہوئے خوب روشنی دیتا ہے۔حیدر قریشی کے بیشتر انشائیوں کے اختتام پر دور تک جاتی ہوئی فکر کی ایک لہر مجھے اسی روشنی کے مترادف دکھائی دیتی ہے جس کے ہمراہ آپ ان سمتوں میں نکل سکتے ہیں جس طرف مصنف کاوجدان آپ کی رہنمائی کرتا ہے۔ خاور اعجاز(اسلام آباد)
ان چند انشائیوں کے تعارف سے جہاں حیدر قریشی کے ذہنی میلان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی انشائیہ نگاری غزل کی ریزہ خیالی کے اثرسے چمک کر ان کی تخلیقی نثر میں ان کی پہچان بن گئی ہے۔ ان کے گنتی کے دس انشائیے اپنی ادبی اہمیت کے لحاظ سے اتنے اہم ہیں کہ اگر کوئی نقاد بہت زیادہ بد دیانتی کا مرتکب نہ ہو توانہیں نظر انداز نہیں کر سکے گا۔
ڈاکٹر نذر خلیق(اسلام آباد)
حیدر قریشی اردو ادب کا سرمایہ ہیں،جنہوں نے بیشتر اصناف میں اپنی قلمی برتری کا لوہا منوالیاہے۔انہوں نے بحیثیت انشائیہ نگار ایسے انشائیے تخلیق کیے ہیں جن میں اختصار،شگفتگی،اسلوب اورانکشاف ذات کے داخلی ،خارجی ہئیتی عوامل شامل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
انشائیہ نگار اپنے جذبات و احساسات کا اظہار انشائیے کے مزاج کے مطابق بڑے تجربے سے کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں ذاتی مشاہدات اور تاثرات نمایاں ہیں اور ان کے اسلوب میں شعریت کا عنصر غالب ہے جس کی لطافت اور تہذیب الفاظ کا معیار فنی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ آپ شعور اور تحت الشعورکی ایسی سرحدپرتہذیب و ثقافت کی زبان استعمال کرتے ہیں جو تمام بنی نوع انسان کا مشترکہ ورثہ ہے۔حیدر قریشی کے بکھرے ہوئے مطبوعہ انشائیوں کا ورثہ اب کتابی صورت میں ”فاصلے،قربتیں“کے نام سے منظرِ عام پر ہے ۔ جنہیں انشائیہ نگاری کے سلسلے میں بہ نظرِ استحسان دیکھا جائے گا۔انشاءاللہ۔
ڈاکٹرمحمد وسیم انجم (راولپنڈی)
حیدر قریشی صاحب کی نثر کے کئی پہلو ہیں مجھے ذاتی طور پر ان کے کالم بہت پسند ہیں کیونکہ حالاتِ حاضرہ معاشرے اور خود اپنی شکست و ریخت اور اس پر پوری توانائی سے گفتگو اور سوچ بچار ان کی طرح میرا بھی موضوع ہے جبکہ وہ قدروں کے پیغمبر بھی ہیں اور عامل بھی۔ ان کے انشائیے محض لایعنی اشیا کو ادب میں خوبصورتی سے جگہ دینے اور یوں اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کو منوانے پر ختم نہیں ہوتے بلکہ ان سے متعلق معاشرے کے اصل مسائل اور موضوعات انشائیوں میں حلول کیے ہوتے ہیں جن پر مضمون یا مزاح لکھنا آسان ہوتا ہے مگر انشائیہ لکھنا اور اس ”غیر ہضم شدہ“ صنف میں اپنا پیغام پہنچا دینا آسان نہیں ہوتا۔ ان کے انشائیوں کی یہ خوبی قابلِ ستائش ہے اور ان میں چھپا خفیف تبسم انشائیے کا تحفہٌ خاص۔
فیصل عظیم(امریکہ)