منزّہ یاسمین(بھاول پور)
اُردو کی دوسری نثری اصناف یعنی ناول، افسانے اور ڈرامے کی طرح انشائیہ بھی مغرب سے آیا۔ اُردو میں انشائیہ ایک نوخیز صنفِ ادب ہے جس پر طعن و تشنیع کی بہت گرد اڑائی گئی مگر اس کے نقوش پھر بھی دھندلے نہ ہوسکے اورانشائیہ اپنی پوری قوت کے ساتھ شہرت اورمقبولیت کی راہ پر گامزن رہا۔خاطر غزنوی انشائیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”انشائیہ، انگریزی نثر کی ایک صنف ESSAYکی اُردو صورت ہے۔ لفظ ESSAYفرانسیسی لفظ ESSAIسے انگریزی زبان نے لیا۔ ظہیرالدین مدنی اپنے مقالے میں ESSAYکی اصل عربی لفظ السعّی کوبتاتے ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ صدیوں تک اندلس اور جنوبی فرانس پر عربوں کا سکّہ چلتا رہا۔ اسی وجہ سے فرانسیسی زبان میں لاطینی سے بھی زیادہ عربی الفاظ رائج ہیں۔ ممکن ہے ESSAIبھی ان میں سے ہو۔ کیونکہ دونوں الفاظ کے معنی اور مفہوم کوشش کے ہیں۔ آج کل اُردو زبان میں اسی صنف کو انشائیہ کے نام سے یاد کیاجاتاہے ۔“ (۱)
محمد وسیم انجم اپنے مضمون” حیدر قریشی کے انشائیے“ میں انشائیہ کے بارے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں:
”انشائیہ دراصل مضمون ہی کی ایک قسم ہے ، یہ ایسی نثری تحریر ہے جس میں انشائیہ نگارغیر رسمی اور شگفتہ انداز میں اپنا مافی الضمیر قاری تک پہنچاتاہے۔ انشائیے کے لیے ایسے موضوع کو منتخب کیاجاتاہے جس میں کوئی نیا پہلو قاری کے سامنے آئے اور وہ اپنے ذہن میں ایک دریچہ سا کھلتا ہوا محسوس کرے۔ اس موضوع کے تمام پہلوﺅں کو پیش کرنے کی بجائے صرف ان انوکھے گوشوں کو منتخب کیاجاتاہے جوقاری کو چند لمحوں کی مسرت بہم پہنچاسکیں۔ علاوہ ازیں اسلوب بیان کی یہ خصوصیت ہونی چاہیے کہ تفصیل و توضیح کی بجائے کم سے کم الفاظ میں مطلب ادا ہوجائے “۔ (۲)
اُردو ادب میں انشائیہ نگاری کا باقاعدہ آغاز ڈاکٹروزیرآغا کے پہلے انشائیوں پرمبنی مجموعہ”خیال پارے“ سے ہوا جو کہ ۱۹۶۱ءمیں شائع ہوا اور اُردو ادب میں یہ پہلا انشائیوں کامجموعہ بھی کہلاتاہے۔ اسی لیے ڈاکٹرانور سدید ڈاکٹر وزیرآغا کو صنفِ انشائیہ کابانی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”میں ڈاکٹروزیرآغا کو اُردو انشائیہ کابانی قرار دیتاہوں تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اس صنف کی بنیادی بوطیقا وضع کی ہے۔ اور اس بوطیقا کے مطابق انشائیے تخلیق کیے ہیں ، دوسری طرف بات یہ کہ انہوں نے ”پرسنل ایسّے“ کے جس اسلوب کی ترویج و اشاعت کی اس اسلوب میں انشائیہ لکھنے والوں کی ایک جماعت بھی پیدا کی “۔ (۳)
انشائیہ کی تحریک کاآغازہوا تو پہلے وزیرآغا اس اسلوب کے تنہا انشائیہ نگار تھے۔ پھر انہی کے انداز پر پروفیسرمشتاق قمر اور پروفیسر جمیل آذر نے بھی انشائیے لکھنے شروع کردئیے۔ بعد میں ڈاکٹر وزیرآغا کے مخصوص انداز میں انشائیہ لکھنے والوں کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ان انشائیہ نگاروں کی ایک فہرست پروفیسر جمیل آزر نے اپنے مقالے”اُردو انشائیہ نگاری کے پچاس سال“ مطبوعہ ”اوراق“ جولائی اگست ۱۹۹۷ءمیں شامل کی ہے ۔ جن میں حیدر قریشی کا نام بھی شامل ہے ۔ (۴) اسی طرح ڈاکٹروزیرآغا نے اپنے مضمون ” اُردو انشائیہ کی کہانی“ میں بھی چند انشائیہ نگاروں کی فہرست پیش کی ہے ، جس میں حیدر قریشی کا نام بھی شامل ہے۔
حیدرقریشی اپنے مضمون ”عہد ساز شخصیت “میں وزیرآغا سے اپنے تلمذ کا اِن لفظوں میں اعتراف کرتے ہیں:
”وزیرآغا نے مجھے انشائیہ کے بارے میں زبانی گفتگو میں بھی سمجھایا، مضامین کے مطالعہ کی طرف بھی لگایا اور پھر انشائیے لکھنے کاشوق پیدا کیا۔“ (۵)
حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں منفرد اور متنوع موضوعات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے انشائیے تخلیق کیے ہیں جن میں اختصار، غیر رسمی طریق کار، شگفتگی ، اسلوب اور انکشاف ذات کے منفرد عوامل شامل ہیں۔ ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں بھی اپنے شاعرانہ انداز کومتعارف کرواتے ہوئے ہر انشائیے کے آغاز میں موضوع کے مطابق ایک ایک شعر تحریر کیاہے جو کہ انشائیے کے تاثر کومزید اُجاگر کرنے میں مدد دیتاہے۔
حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں زندگی کی حقیقتوں کو اُن کی مکمل معنویت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انشائیہ ”خاموشی“ میں حیدر قریشی اپنے منفرد اور فکرانگیز انداز میں لکھتے ہیں:
” بعض لوگ خاموشی کوشکست کی آواز سمجھتے ہیں ۔ ایسے لوگ تاریخ اورمستقبل سے بے خبر”حال مست“ ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ خاموشی تو فتح کی پیش خبری ہوتی ہے۔ جب سمندر خاموش ہو یا فضا میں ہوا خاموش ہو تب خاموشی طوفان اور آندھی کی صورت اپنا جلالی روپ دکھاتی ہے۔ سقراط نے زہرپی کر، حسینؑ نے شہید ہوکر اور ابن منصور نے سولی قبول کرکے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے ، بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابروں کے سامنے شکست ہی تھی۔ لیکن درحقیقت ان مظلوموں اور سچوں کی خاموشی ان کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ مظلوموں کی خاموشی کی یہ سچائی ہمیشہ سے قائم ہے۔“ (۶)
انشائیہ ”فاصلے، قربتیں “ میں بھی حیدرقریشی زندگی کی اٹل حقیقتوں کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قربت کاایک رنگ مرد اور عورت کے تعلق سے عبارت ہے۔ اس قربت کے مختلف مراحل ہیں۔ آخری مرحلے کے اختتام پر فاصلہ وجود میں آجاتاہے۔۔۔۔ گویا قربت کی انتہا سے فاصلہ پیدا ہوتاہے۔ اسی طرح فاصلے کی انتہا قربت کو جنم دیتی ہے ۔“ (۷)
حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں موضوعات کے تنوع اورعمومیت کا ہرطرح خیال رکھاہے۔ انہوں نے خاموشی، نقاب ، وگ، بڑھاپے کی حمایت، اطاعت گزاری، اپنا اپنا سچ جیسے عام موضوعات کو انتہائی مہارت سے پیش کیاہے یہ تمام انشائیے اپنے اندر گہری معنویت سمیٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
موضوعات کے اس تنوع سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حیدر قریشی محض زندگی کے اہم پہلوﺅں کو ہی مد نظر نہیں رکھتے بلکہ غیر اہم پہلوﺅں کو بھی اپنے گہرے مشاہدات کے ذریعے شاہکار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ حیدر قریشی کے انشائیے ”خاموشی“ کو مدنظررکھتے ہوئے محمد وسیم انجم یوں تبصرہ کرتے ہیں:
”حیدر قریشی نے خاموشی جیسے موضوع پرایسا دھماکہ خیز انشائیہ لکھ کر خاموشی کے ایسے تارکش جوڑے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان معاشرے میں پھیلنے والی خلفشار سے بچ سکتاہے۔ یہاں انہوں نے عقل و خرد کے ارتقائ، ایک گھر، ملک اور عالمی سطح پر معاشرتی اور تہذیبی ہنگاموں کی نقاب کشائی بڑی دانش مندی سے کی ہے۔“ (۸)
ایک اچھے اور کامیاب انشائیہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے انشائیوں میں اپنی ذات کو شامل کرے۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی اپنے مضمون ”انشائیہ کا مطالعہ“ میں لکھتے ہیں:
” ایک کامیاب انشائیہ نگار اپنے ذاتی تجربات سے قارئین کو آگاہ کرتاہے، اس لیے وہ کھل کر اپنے تجربات ان سے بیان کرتاہے ، یہی نہیں بلکہ وہ ان کو اپنے تجربات میں شریک کرلیتا ہے اس لیے انشائیہ کاموضوع ذاتی تجربات کا اظہار ہوتاہے۔“ (۹)
اس نقطہ نظر سے جب ہم حیدر قریشی کے انشائیوں کامطالعہ کرتے ہیں تو پتاچلتاہے کہ حیدرقریشی انشائیہ لکھتے ہوئے اپنی ذات کو درمیان میں موجود رکھتے ہوئے اپنے قاری کو اپنے ذاتی تاثرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ انشائیہ ”چشمِ تصور“میں حیدرقریشی اپنی شخصیت کے مختلف گوشوں اور اپنے تاثرات کو پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”میں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ فلمیںدیکھے بغیربسر کیاہے تاہم اس زمانے میں، میں نے بے شمار گیت سنے تھے۔ پھر جب میں نے فلمیں دیکھنا شروع کیں تو اپنے پسندیدہ گیتوں میں سے کسی بھی گیت کی پکچرائزیشن مجھے اچھی نہیں لگی۔ دراصل گیت سنتے ہوئے ہمارے تصور کی آنکھ وا ہوتی ہے اور وہ اس گیت پر اپنی مرضی کا سین فلم بند کرتی ہے۔ ایسے سین میں جو بے پناہ معنویت ہوتی ہے ہماری چشم تصور کاکمال ہوتی ہے“۔ (۱۰)
حیدر قریشی اپنے اکثر انشائیے اُن موضوعات پر لکھتے ہیں جو اُن کے ذہنی ، فکری اور جذباتی رد عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر انشائیہ ان کے شخصی تجربے اورمشاہدے کا حامل نظر آتاہے ۔ وہ اپنے دلچسپ اور انوکھے تجربے میں قاری کو شریک ہی نہیں کرتے بلکہ ہم نوا اور ہم خیال بھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انشائیہ ”خاموشی“ میں اپنے ذاتی تجربات اور احساسات کو یوں بیان کرتے ہیں:
”آواز کی دلکشی بھی خاموشی کے پس منظر کی محتاج ہے۔ ہوٹلوں اور بازاروں میں پوری آواز کے ساتھ نشر کیے جانے والے گیت سر میں درد پیدا کردیتے ہیںجبکہ وہی گیت آپ رات کو مکمل خاموشی کے پس منظر میں مدھم آواز سے سنیں تو آپ خود بھی ان گیتوں کے سروں کے ساتھ جیسے بہتے چلے جائیں گے۔ سرگوشی اوردھیمی گفتگو آواز کے خاموشی کی طرف جھکاﺅ کے مظہر ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ آوازوں میں جو لطف سرگوشی اور دھیمی گفتگو میں ہے وہ بلند لہجے کی آواز میں نہیں ہے۔“ (۱۱)
انشائیہ ”اطاعت گزاری“ میں بھی حیدر قریشی اپنے ذاتی تجربات اور تاثرات کا اظہار ان لفظوں میں کرتے ہیں:
” تجریدی تصویر کی اطاعت گزاری بھی تہ در تہ نتائج (معانی) کی حامل ہے۔ آپ نے بڑے افسر کی اطاعت کی تواس کے منظورِنظر بن گئے۔ بڑے افسر کے منظورِ نظر بنتے ہی ماتحت عملہ کے اطاعت گزاروں کی ایک فوج آپ کے زیر نگیں آگئی۔ گویا افسروں کی اطاعت کرنے والوں کو بھی ایک افسری نصیب ہوجاتی ہے۔ آمروں کی اطاعت کرنے والوں کو اسی طرح ایک قسم کی آمریت مل جاتی ہے۔یہ سلسلہ اوپرسے نیچے اور نیچے تک مسلسل جاری و ساری رہتاہے۔“ (۱۲)
ایک انشائیہ میں ”میں “ یعنی واحد متکلم کی موجودگی اس کی انفرادیت کاباعث ہوتی ہے کیونکہ یہاں ”میں “ سے مراد خود انشائیہ نگار کی شخصیت ہوتی ہے۔ بعض ناقدین اس ”میں“ کوخود کلامی سمجھتے ہیں لیکن اگر غور کیاجائے تو اس ”میں“ کے ذریعے انشائیہ نگار اپنے قاری کے سامنے ایک کردار بن کرجلوہ نما ہوتاہے اور اس کامخاطب قاری ہوتاہے۔ اس ”میں“ کے ذریعے انشائیہ نگار اپنے قاری کو اس طرح کہانی سناتانظرآتاہے جیسے وہ اس کا بہترین اور بے تکلف دوست ہو۔ حیدر قریشی بھی اپنے انشائیوں میں اپنی ”میں“ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے قاری سے گفتگو کرتے ہیں۔ حیدر قریشی کا یہ انداز اپنے قاری کو شریک گفتگو کرتے ہوئے اپنی کہانی بیان کرنے جیسا معلوم ہوتاہے جیسے انشائیہ ”وگ“ میں حیدر قریشی اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں:
”جب سے میں نے ہوش سنبھالا تب سے ہی دیکھا کہ اباجی کے سرپر بال نہیں تھے ۔ بچپن سے ہی میری شدید خواہش رہی کہ اباجی کے سرپربال سجے ہوئے دیکھوں۔ اس کی دو ممکنہ صورتیں تھیں یا تو کوئی ایسی دوامل جائے جس سے بال دوبارہ اُگ آئیں یا پھر وِگ سجا لی جائے۔ تب وِگ خریدنے کے وسائل میسر نہیں تھے ، پھر بھی میں نے ایک بار اباجی سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تووہ مسکرا کر رہ گئے ۔“ (۱۳)
اسی طرح انشائیہ ”تجربہ کاری“ میں بھی حیدر قریشی کا انداز بالکل ایسا ہے جیسے وہ اپنے ماضی کی داستان بیان کررہے ہوں :
”میں ابتدا میں کسی معصوم بچے کی طرح سادہ تھا۔ جس سے محبت اورخلوص کا اظہار کرتا اس سے سچ مچ محبت اورخلوص کارشتہ محسوس ہوتا۔ رفتہ رفتہ دوسروں کے رویوں سے مجھے احساس ہونے لگا کہ میں کسی ”پینڈو“ کی طرح کسی بہت بڑی آبادی والے شہر کی پرہجوم ٹریفک میں گھر گیا ہوں۔۔۔۔“ (۱۴)
حیدرقریشی نے اپنے انشائیوں کے ذریعے معاشرے کے ناہموار اورکمزور پہلوﺅں کو بھی اپنا موضوع بنایاہے۔ وہ کسی ناصح یامصلح کی طرح پرزور تقریریں یامدلل انداز میں اپنے قاری کو نصیحت نہیں کرتے بلکہ اپنے غیر رسمی اور بے تکلف انداز بیاں سے معاشرے کے تلخ حقائق کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کو کسی طنز کا بھی احساس نہیںہوتا اور وہ ایک نئی سوچ کے پیش نظر اصل حقیقت تک بھی رسائی حاصل کرلیتاہے۔ انشائیہ ”نقاب“ میں حیدر قریشی لکھتے ہیں:
” ڈپلومیسی کانقاب آج کل بہت عام ہے۔ عام زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر شعبہ حیات میں اس نقاب کو بے حد پسند کیاجارہاہے۔ اس کے رواج سے پرتکلف اخلاقیات کا فروغ ہورہاہے ۔ بعض سرپھرے اسے منافقت قرار دیتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ نقصان سرپھروں کا ہی ہوتاہے “ ۔ (۱۵)
انشائیہ ”اپنا اپنا سچ“ میں بھی حیدر قریشی معاشرے کے تلخ حقائق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”دنیا میں ہر گروہ اور ہرشخص اپنی اپنی جگہ خود کو سچا سمجھتاہے۔ ایسا سمجھنے میں کوئی حرج نہیں۔ خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب اپنی سچائی کا اعلان کرنے والا ساتھ ہی دوسروں کوجھوٹا بھی قرار دے دیتاہے۔ ہر شعبہ حیات میں ہر گروہ اپنے حق بجانب ہونے کے دلائل بھی رکھتاہے اور دوسروں کوجھوٹا بھی پیش کرتاہے “۔ (۱۶)
حیدر قریشی کے انشائیے زندگی کے تلخ حقائق کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے بھی محسوس ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی اپنے موضوعات کو دنیاوی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے اس کے محاسن و محائب پر بھی نظرڈالتے ہیں۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی، انشائیہ میں موجود فلسفہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”انشائیہ میں صرف فلسفہ ہی داخل نہیں ہواہے بلکہ اس میں اخلاقی قدریں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ مختلف انشائیہ نگاروں نے اپنے انشائیہ کے ذریعے انسان کے اخلاق کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے، اس طرح انشائیہ میں افادی اورمقصدی رنگ شامل کردیا گیا۔“ (۱۷)
حیدرقریشی نے بھی اپنے انشائیوں میں اس فلسفیانہ انداز کو برتاہے۔ مثلاً انشائیہ ”نقاب“ میں رقم طراز ہیں :
”انسانی جسم بھی ایک نقاب ہے جسے روح نے اوڑھ رکھا ہے۔ روح جسم سے نکل کر فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کا نقاب اوڑھ کر اس کی زندگی بن کے دھڑکنے لگتی ہے۔ زمانے کی ماہیت پر سنجیدگی سے غور کریں تو ماضی سے مستقبل تک زمانہ نقاب اوڑھے نظرآتاہے۔ مستقبل کے پورے مگر باریک نقاب میں سے ہرلحظہ جھانکتا ہوا ”حال“ پلک جھپکتے ہی ماضی کے آدھے نقاب کی اوٹ میں چلاجاتاہے اور ہم اس لمحے کو چھونے کی پوری طرح دیکھنے کی خواہش دل میں ہی لیے رہ جاتے ہیں ۔“ (۱۸)
انشائیہ ”بڑھاپے کی حمایت میں “ حیدر قریشی کا یہ انداز یوں جلوہ دکھاتاہے:
”انسان بچپن میں ضدی ہوتاہے اور جوانی میں باغی، لیکن بڑھاپے میں ضد اور بغاوت دونوں سے دامن چھڑا کر خود سپردگی اور راضی بہ رضاکے صوفیانہ مقام پر فائز ہو جاتاہے۔ اولاد جتنی گستاخ، بے ادب اور بے پرواہ ہوگی۔ انسان اس صوفیانہ مقام میں اتنا ہی ترقی کرتا جائے گا اور آخر کار اس مقام لاہوت تک جاپہنچے گا جہاں سے واپسی ناممکن ہوتی ہے۔“ (۱۹)
حیدر قریشی کے انشائیوں میں شاعرانہ تخیل کے بھی کچھ اثرات ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حیدر قریشی بنیادی طورپر شاعر ہیں۔ اس لیے اگرشاعرانہ حسن بیاں حیدر قریشی کے انشائیوں میں نظرآتاہے تو وہ فطری بات ہے۔ انشائیہ ”وگ“ میں حیدر قریشی کا شاعرانہ انداز بیان کچھ یوں نظرآتاہے:
”سیاہ رات اس دنیائے موجود کے سر پر زُلف دراز والی وگ ہے۔ آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے اس زلف پر گرے ہوئے شبنمی موتی ہیں، کہکشاں اس کی مانگ میں بھری ہوئی افشاں ہے اور چاند ایک خوبصورت سنہری کلپ۔ یہ دنیائے موجود رات بھر کسی محبوبہ دلنواز کی طرح اپنی زلفوں کی مہک بکھیرتی ہے۔۔۔“ (۲۰)
محمدوسیم انجم حیدرقریشی کے انشائیوں میں موجود شاعرانہ رنگ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” حیدر قریشی کے انشائیوں میں ذاتی مشاہدات اور تاثرات نمایاں ہیں اور ان کے اسلوب میں شعریت کا عنصرغالب ہے جس کی لطافت اور تہذیب الفاظ کا معیار فنی تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔“ (۲۱)
حیدرقریشی کے انشائیوں میں اُن کی فکروفن سے بھرپور انفرادیت اپنی تمام تر جدت وندرت لیے موجود ہے۔ وہ اپنے انشائیوں میں زندگی کے نئے پہلوﺅں کو بڑی کامیابی سے سامنے لاتے ہیں۔ اسی لیے محمد وسیم انجم حیدر قریشی کے انشائیوں کی تعریف کرتے ہوئے اظہار رائے کرتے ہیں :
” حیدر قریشی کے انشائیے انفرادی اسلوبی خوبیوں سے مالا مال ہیں جن میں بے ساختہ شتگفگی اور سادگی قاری کو اپنا ہم سفر بنا کر ساتھ لیے رواں دواں رکھتی ہے اور قاری انشائیہ نگار کی فکری صلاحیتوں کامعترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔“ (۲۲)
مختصر یہ کہ حید رقریشی کے انشائیوں میں مستقبل کے ایک کامیاب انشائیہ نگار کی جھلک صاف نظرآتی ہے۔کاش ایسا ہو کہ حیدرقریشی ادب کے بہت سارے شعبوں میں جانکاہی کرنے کی بجائے صنفِ انشائیہ پر پُرخلوص توجہ اور ریاضت کا جوہر آزمائیں توانشائیے کے میدان میں ایک مقامِ فضیلت اُن کا مقدر بن سکتاہے۔
……………………………………………………..
حوالہ جات
۱۔ خاطر غزنوی”جدید اردو ادب “ ص نمبر ۴۳،سنگِ میل پبلی کیشنز ۔ لاہور ۔۱۹۸۵ء
۲۔ محمد وسیم انجم ”حیدر قریشی ، فکر و فن “ ص نمبر ۵۸، انجم پبلی کیشنز ، راولپنڈی ۔۱۹۹۹ء
۳۔ مرتّبین ڈاکٹر شفیق احمد ۔ ڈاکٹر روشن آراءراؤ ”انتخاب انشائیہ نمبر“
ص نمبر ۴۹۔کاروانِ ادب ، ملتان ۔
۴۔ محمد وسیم انجم ”حیدر قریشی ، فکر و فن “ ص نمبر ۷۶
۵۔ حیدرقریشی ”عہد ساز شخصیت “ ص نمبر ۲۱، نایاب پبلی کیشنز ، خان پور ۔۱۹۹۵ء
۶۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۷۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۸۔ محمد وسیم انجم ”حیدر قریشی ، فکر و فن “ ص نمبر ۸۷
۹۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی ” ادب کا تنقیدی مطالعہ “ ص نمبر ۲۱۱،
مکتبہ میری لائبریری لاہور ۔ ۶۱۹۸ء
۱۰۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۱۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۲۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۳۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۴۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۵۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۶۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۷۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی ”ادب کا تنقیدی مطالعہ “ ص نمبر ۶۱۳
۱۸۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۱۹۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۲۰۔ حیدر قریشی ”فاصلے ، قربتیں ،، (زیر اشاعت)
۲۱۔ محمد وسیم انجم ”حیدر قریشی ، فکر و فن “ ص نمبر ۹۳
۲۲۔ محمد وسیم انجم ”حیدر قریشی ، فکر و فن “ ص نمبر ۹۳