حیدر قریشی کا تخلیقی سفر اور فکری جہات کا ذکر اُن کی انشائیہ نگاری کے بغیر نامکمل ہے ۔ اس صنف میں اُن کی دلچسپی کا پس منظر خاصا و سیع ہے لیکن یہ طے ہے کہ اُنھوں نے اپنی نثر کی فسوں ساز قوت کی بدولت بہت جلد انشائیہ نگاری میں اپنی انفرادیت منوا لی تھی۔ اُن کے انشائیے کتابی صورت میں طبع ہونے سے پہلے پاک و ہند کے مقتدر معاصر ادبی جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔ بعد ازاںیہ تمام انشایئے” فاصلے، قربتیں“ کے نام سے انٹر نیٹ پر آ گئے اور پھر کچھ عرصے بعدان تمام انشائیوں کو شعری و نثری کلیات عمرِ لا حاصل کا حاصل“ میں یکجا کر کے شائع کر دیا گیا ۔یہ کلیات کتابی صورت میں دستیاب ہونے کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ ۔ گفتگو کومزید آگے بڑھانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انشائیے کی تعریف ، اصطلاح اور حدود پر اجمالاً بات کر لی جائے تاکہ تفہیم میں آسانی رہے۔
انشائیہ کیا ہے؟
ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ہے:
” جدید تنقید میں غالباً انشائیہ وہ واحد صنفِ ادب ہے جس کے بارے میں نزاعی نظریات اور جذباتی مقالات لکھے جاتے ہیں۔ اس کی تعریف اور آغاز دونوں پر لے دے ہو رہی ہے۔“ ۱
یہ رائے حقائق پر مبنی ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی قبل جب ڈاکٹر وزیر آغا اور اُن کے قریبی رفقا نے اپنی تحریروں کو انشائیہ کہنا شروع کیا تو بحث و مناظرے کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور خوابِ جوانی کی مانند ” انشائیہ “ کی بھی نت نئی تعبیریں کی گئیں۔ اس تمام نزاع کی اصل وجہ یہ تھی کی بے شمار ناقدین انشائیہ کی اصطلاح کو مضمون کے ساتھ خلط ملط کر رہے تھے اور دبستانِ سر گودھا کے سنجیدہ تخلیق کار اور ناقدین و محققین اس صنف کو مضمون اور مقالہ نگاری سے الگ صنف ثابت کر نے میں مصروف تھے۔ اگر ان تمام نزاعی امور پر نظر کی جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انشائیہ جیسی نئی صنف پر بات کرتے ہوئے عدل و انصاف اور معروضی حقائق و شواہد کو پسِ پشت ڈال کر محض جذباتی تنقیدیں لکھی جاتی رہی ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ انشائیہ کو اردو ادب میں قدم جمانے میں خاصی تاخیر ہو گئی۔
جدید عہد میں انشائیہ پر نظر ڈالی جائے تو علم ہوتا ہے کہ تمام تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود اس صنف نے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ہے اور ڈاکٹر وزیر آغا کی زیر تربیت انشائیہ نگاری پر تخلیقی اور تنقیدی کام کرنے والوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو چکا ہے۔
انشائیہ کی تعریف
ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول:
” انشائیہ اُس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاءیا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ “ ۲
یہ تعریف منطقی اعتبار سے جامع اور مانع ہے اور انشائیہ کے تمام اوصاف کو محیط ہے۔ انشائیہ کا اسلوب شگفتہ اور غیر رسمی ہوتا ہے، اور طنزو مزاح کے عناصر اگر شامل ہوں تو کوئی حرج نہیں لیکن اس صنف کے لئے طنز و مزاح کی شرط لازمی نہیں ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اس حوالے سے روشنی فراہم کرتے ہوئے رقمطرازہیں:
” در اصل اُسلوب کی شگفتگی یا اس میں طنز و مزاح کی آمیزش کو انشائیہ کے لئے ناگزیر قرار دینا کسی صورت بھی مستحسن نہیں ہے۔ انشائیہ میں طنز کی کاٹ یا مزاح کی پھلجھڑی کا در آنا انشائیہ نگار کے خاص موڈ یا مزاج کا رہین منت ہوتا ہے ۔“ ۳
انشائیے کے موضوع عموماً ہلکے پھلکے ہوتے ہیں۔ اور انشائیہ نگار اپنے زورِ تخیل اور شخصی زاویہءنظر اختیار کرتے ہوئے اپنے موضوع کے ایسے ایسے پوشیدہ گوشے بے نقاب کرتا چلا جاتا ہے جو اَب تک نظروں سے اوجھل تھے ۔ انشائیہ نگار کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے چنیدہ موضوع کو معمولی یا غیر معمولی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ عام مضمون کے بر عکس انشائیہ میں منطقی ترتیب کا فقدان ہوتا ہے اور اصلاح پسندی یا کسی خاص نقطۂ نظر کا پرچار کرنا اس صنف میں مناسب نہیں سمجھا جاتا ۔
انشائیہ نگاری کے ضمن میں جو اختلافی مباحث منظر عام پرآئے اگر ان کا غیر جانب داری سے محاکمہ کیا جائے تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اکثر ناقدین انشائیہ کو مضمون ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل قرار دیتے ہیں اور مضمون نگاری کے جملہ اوصاف کو انشائیہ میں متحرک دیکھنے کے خواہش مند ہیں، بدیں سبب سر سید احمد خان کی اُن تحریروں کو بھی انشائیہ کہا جانے لگا جس میں پند و نصائح اور مقصدیت کے عناصر حاوی تھے۔ اکبر حمیدی اس صنف کے دیگر وصفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
” انشائیہ نگار نئے عہد کی نئی زندگی کے نئے نئے رخ نئے انسان کی اظہاری تقاضوں کا دور تک ساتھ دیتا ہے۔ “ ۴
انشائیہ کے مزید اوصاف ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول کچھ یوں ہیں :
” انشائیہ ایک ایسی غیر افسانوی صنف نثر ہے جو قاری کو بیک وقت لطف اندوزی، جسمانی تسکین اور جمالیاتی حظ مہیا کرنے پر قادر ہے۔ اسی لیے میں اسے امتزاجی صنف کا نام دیتا ہوں جس میں کہانی کا مزہ، شعر کی لطافت اور سفر نامے کا فکری تحرک یکجا ہو گئے ہیں ۔“ ۵
مسرت کا حصول انشائیہ نگاری کا وہ اہم مقصد ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے انشائیہ نگار کے پیش نظر رہتا ہے۔ اور خیالات کی تعمیر و تشکیل میں اپنا جلوہ دکھا جاتا ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو مونتین ( Montaine) کی پیروی کا عمل آج بھی جاری ہے۔
حیدر قریشی کے انشائیوں کا تجزیاتی مطالعہ
حیدر قریشی کے کلیاتِ نظم و نثر ” عمرلاِ حاصل کا حاصل “ میں کل دس انشائیے شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں:
انشائیوں کے عنوانات:
۱۔ خاموشی ۲۔ نقاب ۳۔ وگ ۴۔ فاصلے قربتیں
۵۔ بڑھاپے کی حمایت میں ۶۔ اطاعت گزاری ۷۔ خیر و شر کے سلسلے
۸۔ چشمِ تصور ۹۔ اپنا اپنا سچ ۱۰۔ تجربہ اور تجربہ کاری
انشائیہ نگاری میں عنوان کی اہمیت دوسری اصناف کی نسبت قدرے زیادہ ہے۔ انشائیہ نگاری اور تحلیل نفسی میں یہ نقطہ قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے کہ دونوں میں کسی ایک عنوان کے گرد سوچوں کا پورا ہالہ تیار کرنا ہوتا ہے۔ اور خیالات میں ربط یا بے ربطی کا اپنا اپنا جواز بنتاہے اور ہر ایک کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اردو ، انگریزی اور فرانسیسی انشائیہ نگاروں نے عنوانات کا چناؤ زندگی کے ازحد عمومی پہلوؤں سے کیا ہے۔ مثلاً بٹن، کمرہ، کھڑکی، سڑک، ایک درخت، صدائے باز گشت، اداس آئینے ، کرسی ، روشنی اور دیوار وغیرہ۔عنوان کی عمومیت بذاتِ خودایک خوبی شمار ہوتی ہے کیوں کہ ایک اچھا تخلیق کار اپنے انشائیے میں عام اشیاءسے خاص اشیاءکی جانب اُڑان بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس تمہیدی پس منظر کے بعد حیدر قریشی کے چند نمائندہ انشائیوں کا فرداً فرداً تجزیہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ خاموشی
حیدر قریشی نے اپنے اس انشائیے کا آغاز اِن الفاظ سے کیا ہے:
” ہنگامہ اور شور زندگی کے صحیح عکاس نہیں ۔ اسی طرح سناٹا اور ویرانی بھی زندگی کے ترجمان نہیں ہیں ۔ ان کے برعکس خاموشی زندگی کی حقیقی عکاسی کرتی ہے۔ جو لوگ سناٹے اور خاموشی میں فرق نہیں کر پاتے وہ خاموشی کی اہمیت نہیں جان سکتے۔ سناٹا بے روح اور بے آواز ہوتا ہے جب کہ خاموشی زندگی کی عکاس ہی نہیں ، زندگی کو جنم بھی دیتی ہے۔ “ ۶
خامشی بظاہر ہماری زندگی کا نا گزیز حصہ ہے اور روز مرہ کے معمولات میں خاموشی بھی کسی نہ کسی حوالے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے، لیکن جب زندگی کا یہی عمومی مظہر انشائیہ نگار کا موضوع بنتا ہے تو اس کے نت نئے انوکھے زاویے ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ محولہ بالا اقتباس میں خرد افروزی تو اپنی جھلک دکھا رہی ہے، اس کے جَلو میں خیال افروزی کی کرنیں بھی جگمگ جگمگ کر رہی ہیں ۔یہ ایک تیکھی بات ہے جو پڑھنے والوں کے احساسِ لطافت کو مہمیز لگاتی ہے۔نثری بیانیہ تخیل کو وسعت آشنا کر رہا ہے۔
سناٹے اور خاموشی کا فرق وہی واضح کرے گا جو تخیل کی مینا کاری سے نئی دنیا آباد کرنے کا سلیقہ جانتا ہو۔ حیدر قریشی نے کمال مہارت سے ایک فلسفیانہ نکتے کو عام فہم انداز میں چلتے پھرتے بیان کر دیا ہے۔ یہی وہ تخلیقی ذہانت ہے جو انشاےئے کا اصل جوہر ہے۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش اسی نکتے کو ذرا گہرائی میں جا کر زیر بحث لاتے ہیں ،اُن کا کہنا ہے:
” انشائیہ ایک گھتی ہوئی تحریر ہے جس میں ایک نقطہ خیال سے پھوٹتا ہے اور پھیل کر دوبارہ پہلے نقطے میں سمٹ آتا ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ جب یہ دوبارہ مرکزی نقطے کو چھوتا ہے تو معنی کی ایک نئی پرت ، فکر کا ایک انوکھا زاویہ اور خیال کی ایک تازہ لہر نمو دار ہو جاتی ہے۔“ ۷
اس بیان میں اگر نفسیاتی کیفیت کا اضافہ کر لیں تو کئی دوسرے پہلو نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔
حیدر قریشی اب خاموشی کے مرکزی نقطے کو مضبوطی سے تھامے اپنے موضوع کی دوسری پرتوں کو کھولنا شروع کرتے ہیں :
” کسی ہنگامہ خیز ، پر شور ماحول نے نہ کبھی دو سچے دلو ںکو ملنے دیا ہے اور نہ کبھی کوئی سچا صوفی پیدا کیا ہے۔“ ۸
یہی وہ اختصار ہے جو انشائیے کو معتبر بناتا ہے۔ مصنف نے دنیا کی اتنی بڑی حقیقت کو غیر رسمی طریق کار اور شخصی نقطۂ نظر کی بدولت محض چند الفاظ میں سمیٹ دیا ہے۔ غزل کی طرح انشائیے میں بھی کوئی بات خلافِ واقعہ نہیں ہوتی یا اگر کوئی خیال خلافِ واقعہ آ جائے تو اس کی کوئی اپنی منطق یا اپنا کوئی پس منظر لازماً ہو گا۔ تاہم غزل کی ایمائیت اپنی پوری توانائی کے ساتھ انشائیہ میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔
حیدر قریشی نے اپنے انشائیے میں اُس تاریخی سچ کو بھی فنکارانہ حُسن کے ساتھ پیش کیا ہے جس کے بغیر خاموشی کی معنویت کا تذکرہ ادھورا رہ جاتا :
” سقراط نے زہر پی کر، حسینؑ نے شہید ہو کر اور ابنِ منصور نے سولی قبول کر کے خاموشی سے صبر کے جو عظیم نمونے دکھائے، بظاہر وہ اُس عہد کے جھوٹوں اور جابروں کے سامنے شکست تھی، لیکن در حقیقت اُن مظلوموں اور سچوں کی خاموشی اُن کی فتح کی پیش خبری تھی جسے آنے والے وقت نے سچ ثابت کیا۔ “ ۹
اگرچہ یہ کوئی تاریخی انشائیہ نہیں ہے اس کے باوجود تاریخیت کے حُسن سے مملو ہے۔ اکبر حمیدی انشائیے کے نئے افق تلاش کرتے ہوئے یہاں تک رعایت دیتے ہیں :
” جس ماحول کا انشائیہ لکھا جائے اُس کے ماحول کو تبدیل نہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر تاریخی انشائیہ لکھا جائے تو تاریخی مدار سے باہر نہ جایا جائے بلکہ اس کے گوشوں کی سیاحت کروائی جائے اور تاریخی ذائقے کو اوّل تا آخر بحال رکھاجائے۔“ ۱۰
حیدر قریشی کے اس انشائیہ میں تاریخی حوالے بھی آئے سو انھوں نے اکبر حمیدی کی بات پر عمل کیا اور بے ساختہ کچھ ایسے واقعات کا ذکر کیا جن کا تعلق ماضی قریب سے بنتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے ایک مضمون میں انشائیے کی تکنیک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انشائیے کا ایک وصف یہ بتایا تھا :
” عنوانات کا موضوع یا نقطۂ نظر سے ہم آہنگ نہ ہونا ۔ “ ۱۱
لیکن حیدر قریشی کے انشائیوں میں ایسی کیفیت نہیں ملتی، اُن کے اکثر انشائیے مشمول ” خاموشی“ اپنے عنوان سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں ۔ ویسے بھی ڈاکٹر سلیم اختر کی یہ رائے انتہا پسندی پر مبنی ہے۔ اگر سو انشائیوں میں سے ایک آدھ انشائیہ ایسا نکل آئے جس کا عنوان اپنے موضوع سے ہم آہنگ نہ ہو تو اس سے یہ نتیجہ ہرگز برآمد نہیں ہوتا کہ باقی ۹۹انشائیے بھی اپنے موضوع سے انحراف پر مبنی ہوں گے۔
حیدر قریشی کے انشائیوں میں نفسیاتی بصیرت کا اظہار ایک لازمی امر ہے، ” خاموشی“ میں یہ رنگ گہرا ہوتا نظر آتا ہے لیکن انشائیے کی تکنیک اور اسلوب کو بوجھل نہیں بناتا، یہ مثال ملاحظہ ہو:
” خاموشی خیر کی علامت ہے جب کہ شور، شر کا مظہر ہے۔ شور پسند لوگ شورش پسند ہوتے ہیں ۔ انہیں ہمیشہ فتنہ فساد کی سوجھتی ہے جب کہ خاموشی پسند کرنے والے فطرتاً امن پسند ہوتے ہیں ۔ اُس شوہر کی ازدواجی زندگی کبھی ناکام نہیں ہو سکتی جو مزاجاً امن پسند ہو، چاہے اُس کی بیوی کتنی ہی جھگڑالو کیوں نہ ہو۔ کیونکہ خیر کی قوت بالآخر شر کی قوت پر غالب ہی آتی ہے۔ اسی لئے تو غالب نے کہا تھا: ایک خاموشی پر موقوف ہے گھر کی رونق۔ “ ۱۲
یہی نکتہ آفرینی انشائیے کو انشائیہ بناتی ہے۔ ” خاموشی“ زندگی سے پوری طرح منسلک تحریر ہے جو حسن وخیر کے متنوع پہلوؤں کو اُسی مرکزی دھارے میں رکھ کر زیر بحث لاتی ہے جس عنوان کے تحت یہ انشائیہ وجود پذیر ہوتاہے ۔ عنوان بذاتِ خود اکائی کی وہ تجسیم ہے جو موضوع میں بکھری نظر آتی ہے۔ قاری ”خاموشی “ کو پڑھتے ہوئے یہ تاثر بھی اخذ کرتا چلا جاتاہے کہ اس انشایئے کی مجموعی فضا رجائیت پر مبنی ہے۔ اس انشایئے کو پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قاری دورانِ مطالعہ ایک عام انسانی سطح سے اوپر اُٹھ کر انشائیے میں چھپے اُس عارفانہ تجربے کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے جو زندگی کو حسین اور آسان بناتا ہے۔ انشائیے کا یہ نادر پہلو ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے انشائیہ نگار بذاتِ خود اپنی تحریر میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔اگرانشائیہ نگار اس صنف کے اہم فطر ی عناصر کو ساتھ لے کر چلے گا تو اُس کی تحریر میں نامیاتی تاثر آفرینی پیدا ہو جائے گی۔
انشائیہ ایک ایسی ظالم صنف ہے کہ اس میں انشائیہ نگار کی اپنی ذات کسی نہ کسی حوالے سے اپنی جھلک دکھا جاتی ہے۔ انشائیہ نگار کی کشادہ ذہنی، بالغ نظری، وسعتِ قلبی، انسان دوستی اور وسیع المشربی یا اس کے برعکس بخیلی، دشمنی، حسد، کینہ اور بز دلی کا عکس انشائیے میں اپنی موجودگی لازماً ظاہر کرے گا۔ جن نقادوں نے انشائیہ نگاری اور تحلیل نفسی کے مابین مماثلت کا ذکر کیا اُس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ دونوں صورتوں میں انسان کا باطن بہر صورت بے نقاب ہو جاتا ہے۔
آمدم بر سرِ مطلب،اگر یہ کہا جائے کہ حیدر قریشی کا یہ انشائیہ فرد کی وجدانی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور انفرادی سوچ کو تقویت فراہم کرتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ حیدر قریشی کو زندگی سے پیار ہے۔وہ زندگی کی سرد گرم کیفیات کے رمز شناس، انسانی اقدار کے حامی اور ہمدردی کے اوصاف سے مالا مال ہیں اور یہ تمام رویے اُن کے انشائیے ” خاموشی“ میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ جمیل آذر کی یہ رائے دیکھئے جس میں وہ انہی اوصاف کو ذرا عمومی پیرائے میں بیان کر رہے ہیں لیکن ان کا اطلاق حیدر قریشی پر بھی ہوتا ہے:
” انشائیہ نگار وحدتِ انسانی کا علمبردار ہے وہ رنگ، نسل، زبان اور قومیت سے ماورا ہو کر عظمتِ انسانی کا علمبردار ہے۔ اُس کے ہاں انسان سے آفاقی محبت کا تصور بدرجہ اتم ملتا ہے۔ “ ۱۳
اس انشائیے میں فکری اور اشاراتی عناصر موضوع کی تہہ داری اور تنوع میں خوبصورت اضافے کر رہے ہیں۔
(۲) بڑھاپے کی حمایت میں :
بڑھاپابظاہر ایک ایسا نفسیاتی موضوع ہے جس سے ہر شخص بھاگتا ہے اور اور عمر کی اس فطری تبدیلی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتا۔ حیدر قریشی اپنے انشائیے ” بڑھاپے کی حمایت میں “ اس عمومی رویے کے بر عکس بڑھاپے کا خیر مقدم نہایت فراخ دلی سے کر رہے ہیں ۔ لطف کی بات یہ بھی ہے کہ انھوں نے بڑھاپے کو اپنا ہمزاد اور ہم راز بنا کر پیش کیا ہے اور آنے والے دور کے بے پناہ امکانات کو کھلی بانہوں کے ساتھ خو ش آمدید کہہ رہے ہیں ۔ اُن کے نزدیک بڑھاپے کو ٹالنا یا نا اُمیدی کو خود پر مسلط کرنا درست نہیں ۔ وہ زندگی کے تینوں ادوار کو معروضی سطح پر جانچنے کے بعد کہتے ہیں :
” جس طرح ہم اپنے حال میں رہ کر اپنے حال سے بے خبر ہوتے ہیں ، ایسے ہی جوانی میں بھی اپنے آپ سے بے خبری کا عجیب عالم ہوتا ہے۔، لیکن بڑھاپا مستقبل کی طرح یقین اور بے یقینی کی دھند میں لپٹا ہوا عالمِ برزخ ہے۔ یہاں سے آگے انسان کے ماورائے زمان و مکاں ہونے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ “ ۱۴
حیدر قریشی نے محولہ بالا اقتباس میں بہت دھیمے انداز میں یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ” بڑھاپے “ کا مایوسی اور اذیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا بلکہ یہ گذشتہ عمر کی بے چہرگی کو حسن عطا کرتا ہے اور زمان و مکاں سے آزاد کراتا ہے۔ آزادی کا یہ سفر اصل میں نئے جہانوں کی سیر ہے اور انسان میں ایک بار پھر جینے کی امنگ پیدا کرتا ہے۔ درد و کرب اور دکھ تکلیف سے باہر نکل کر حوصلہ مندی اور عزم کی شمع روشن کرتا ہے۔ غالب نے تو یہ کہہ کر ہمت ہار دی تھی:
مضمحل ہوگئے قویٰ، غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں ۱۵
لیکن حیدر قریشی کا وژن کچھ اور کہہ رہا ہے:
”بڑھاپا بزرگی اور متانت عطا کرنے کے ساتھ زندگی کے تجربات کا نچوڑ نکال کر ایک رہنما کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ بڑھاپے میں گرگِ ظالم بھی پر ہیز گار بن جاتا ہے اور یہ پرہیز گاری اُسے قویٰ کے اضمحلال اور زندگی کے تجربات کے نچوڑ کے بعد نصیب ہوتی ہے۔“ ۱۶
انشائیہ نگار کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ روز مرہ مشاہدے میں آنے والے حقائق اور مظاہر کے ایسے زاویوں کو بھی نمایاں کرے جو بالعموم ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں تاکہ نئے ادراکات کی روشنی میں اُس شے کے چھپے اَسرار کو سمجھا جا سکے۔ حیدر قریشی نے یہ فریضہ عمدگی سے ادا کیا ہے۔ اُن کا طرز بیان بڑی سے بڑی بات کوآسان اور موئثر انداز میں پیش کر دیتا ہے۔ اُن کی فکر پندو نصائح کے بجائے بے تکلف اُسلوب میں اظہار پاتی ہے۔
شہزاد منظر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
” انشائیے کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ انشا کا اعلیٰ نمونہ ہو، لہٰذا اچھی انشائیہ نگاری کے لیے تخلیقی زبان ضروری ہے، لیکن تخلیقی زبان سے مراد طنز و مزاح، لطائف یا پند و نصائح نہیں ۔ “ ۱۷
زندگی کی کھری اور حقیقی کیفیت کو اُسلوب اور تخیل کی تازہ کاری سے انشائیہ کا حصہ بنانا آسان بات نہیں ہوتاکیونکہ ایک آنچ کی کسر کسی انشائیے کو مضمون یا مقالے میں تبدیل کرسکتی ہے۔
حیدر قریشی نے انشائیہ نگاری کے جملہ تقاضوں کو نبھاتے ہوئے زندگی کی ایک اٹل حقیقت اور سچی جہت کو اس طرح اُجاگر کیا ہے کہ فکر کا جذبہ بڑھاپے کی محبت میں گھلتا نظر آتا ہے۔ انشائیہ نگاری کا اصل حسن یہی ہے کہ تخلیقی اظہار ازلی و ابدی سچائیوں کو بو جھل نہ بنائے بلکہ لطیف پیرائے میں اپنی بات دوسروں تک منتقل کر دے۔فنی و جمالیاتی اقدار کا پاس لحاظ انشائیے کی اولین ضرورت ہے۔
طنز و مزاح کی شرط انشائیے کے لیے لازمی نہیں ہے البتہ اگر یہ عناصر غیر محسوس طریقے سے اسلوب کا حصہ بن کر انشائیے کے قالب میں گھر کر لیں تو مزائقہ نہیں ہے۔ زیر بحث انشائیہ سے ایک مثال درج کی جاتی ہے:
” انسان بچپن میں ضدی ہوتا ہے اور جوانی میں باغی۔ لیکن بڑھاپے میں ضد اور بغاوت دونوں سے دامن چھڑا کر خود سپردگی اور راضی بہ رضا کے صوفیانہ مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اولاد جتنی گستاخ ، بے ادب اور بے پروا ہو گی، اس صوفیانہ مقام میں انسان اتنا ہی ترقی کرتا جائے گا اور آ خر اس مقامِ لاہوت تک جا پہنچے گا جہاں سے واپسی نا ممکن ہوتی ہے۔“ ۱۸
یہ طنز ملیح ہے جس میں اصلاح کا کوئی پہلو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اور شگفتہ موڈ کی پیداوار ہے۔ انشائیہ نگار کا مقصد کسی کی اصلاح نہیں بلکہ قاری کو مسرت اور لطف کی کیفیت میں شریک کرنا ہے۔ حیدر قریشی نے قاری کو مایوس نہیں کیا اور کسی قسم کی سنجیدگی کو بھی قریب نہیں آنے دیا جس کی وجہ سے اُن کا یہ انشائیہ تخلیقی اضطرار اور تخیلی اظہار کا با وقار حوالہ بن گیا ہے۔
منزہ یاسمین کہتی ہیں :
”حیدر قریشی اپنے اکثر انشائیے اُن موضوعات پر لکھتے ہیں جو اُن کے ذ ہنی، فکری اور جذباتی ردِ عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اُن کا ہر انشائیہ اُن کے شخصی تجربے اور مشاہدے کا حامل نظر آتا ہے، وہ اپنے دل چسپ اور انوکھے تجربے میں قاری کو شریک ہی نہیں کرتے بلکہ ہم نوا اور ہم خیال بھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔“ ۱۹
یہ بات اپنی جگہ درست ہے بس اس میں اتنا اضافہ بھی کر لیا جائے کہ حیدر قریشی اپنے تمام موضوعات میں ذات و کائنات کے نئے اور منفرد روپ شگفتہ اور بے تکلف اسلوب میں پیش کرنے پر قادر ہیں تو بات جامع ہو جاتی ہے۔
(۳) فاصلے، قربتیں :
یہ انشائیہ کلیات میں شامل ہونے کے علاوہ ”اوراق“ ۲۰میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کے آغاز میں یہ شعر درج ہے:
جب سرکار کی جانب سے منظوری ہوتی ہے
فاصلہ کتنا بھی ہو عین حضوری ہوتی ہے ۲۱
حیدر قریشی نے انشائیے کی ابتدائی سطور میں بڑے دوستانہ انداز میں سر سبز و شاداب پہاڑوں کا ذکر کیا ہے جنہیں وہ روزانہ دور سے دیکھتے اور سراہتے ہیں اور پہاڑوں کی بلندی اور عظمت اُن کے دل پر نقش ہو جاتی ہے۔ لیکن جب وہ ایک دن پہاڑ کو نزدیک سے دیکھتے ہیں تو اُن کی رائے میں بڑی تبدیلی آ جاتی ہے:
” میں نے دیکھا کہ دور سے اتنا عظیم دکھائی دینے والا پہاڑ ایسے خوفناک ٹیڑھے میڑھے ،رستوں اور ہولناک کھائیوں سے بھرا ہوا تھا جو سیدھا موت کے منہ میں لے جانے والی تھیں ۔ اِس کا دامن خونخوار جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ “ ۲۲
انشائیے کا یہ حصہ عمومی تجربات و مشاہدات کو رواں اُسلوب میں بیان کرتا ہے اور اُن کی نظر پہاڑ میں چھپے ولن کو بھی بخوبی دیکھ لیتی ہے:
” تب مجھے فاصلوں کا کمال معلوم ہوا۔ جس نے پہاڑ کے اندر کے ولن کو چھپا کر اُسے ہیرو کے روپ میں پیش کر رکھاتھا۔ “ ۲۳
یہ انشائیہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے اس میں تفکر کے عناصر بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ اور انشائیہ نگار بظاہر ایک عمومی مشاہدے سے انسانی نفسیات کے گہرے اور تیکھے اصول دریافت کرنے لگتا ہے:
مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے بڑے عظیم لوگ، پہاڑ جیسے عظیم لوگ، محض اس لئے عظیم لگتے ہیں کیونکہ ہم اُنھیں فاصلے سے دیکھتے ہیں ۔۔۔ جو لوگ انہیں قریب سے دیکھ لیتے ہیں اُن پر ان کی عظمت سے زیادہ ان کی شخصیت کے مخفی جوہر کھل جاتے ہیں ، اس لیے وہ ان کی عظمت کے منکر ہو جاتے ہیں ۔ “ ۲۴
یہ وہ آنکھ ہے جو قطرے میں دجلہ دیکھنے پر قادر ہے۔ جن تجربات کی روشنی میں یہ اُصول اخذ کیا گیا ہے اُن کی آفاقیت تشریح اور وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب والی بات ہے۔ اس نوع کی اصول سازی کوئی بہت حساس، درد مند اور ذہین شخص ہی کر سکتا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے گہرے احساس اور بصارت سے زیادہ بصیرت کی ضرورت ہے۔
حیدر قریشی نے اُوپر جو اُصول وضع کیا تھا اب وہ اس کی مزید گرہیں کھولتے ہیں تاکہ انھوں نے جو استدلال قائم کیا تھا اُس کے نفسیاتی کوائف مع تشریحات و توضیحات مستحکم ہو جائیں :
” طویل فاصلے سے سورج جیسے چمکتے ہوئے لوگ اپنے اندر سورج سے بھی بڑا جہنم آباد کئے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ فاصلے پر بٹھائے ہوئے لوگوں کے لیے جنت کی بشارتیں نشر کرتے رہتے ہیں ۔“ ۲۵
حیدر قریشی کی یہ نکتہ آفرینی مجاز کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے، جو استعارے کے پیر ہن میں اپنا جادو جگا رہی ہے۔ یہ انداز اگرچہ شاعرانہ ہے لیکن نکتہ آفرینی حکیمانہ ہے۔ نذر خلیق اس ضمن میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے کہتے ہیں :
” حیدر قریشی کے انشائیوں میں نکتہ آفرینی کا عنصر فروانی سے ملتا ہے۔ ان کی نکتہ آفرینی ایک دو جملوں سے بہت کم ظاہر ہوتی ہے۔ اگر چہ ایسا ہوتا بھی ہے لیکن عموماً ایک پوری فضا کے بعد اُن کی بات کا بھید کھلتا ہے اور ان کی نکتہ آفرینی سے لطف لینے کے لیے اُس سطح تک جانا ضروری ہو جاتا ہے۔ “ ۲۶
حیدر قریشی کا یہ انشائیہ جہاں اور بہت سے تکنیکی اور فکری اوصاف کا حامل ہے وہاںاس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ وہ اپنے انشائیے کے مرکزی اور ضمنی وقوعوں کے انتخاب و حذف کا بھی سلجھا ہوا شعور رکھتے ہیں ۔ یہ انشائیہ اگرچہ مختصر ہے لیکن کسی واقعاتی یا فکری تشنگی کا احساس نہیں دلاتا بلکہ قدم قدم پر قاری کی قوتِ فکر کو متحرک کرتا چلا جاتا ہے۔ انشائیے میں کئی مقامات پر سماجی اور نفسیاتی رویوں کو سادگی مگر گہرائی میں جا کر دیکھنے کی جو سعی ملتی ہے وہ انشائیے کی معنوی خوبیوں کو منور کرتی ہے۔ یہ انشائیہ بھر پور تاثرکا حامل ہے اس انشائیے کا وہ حصہ بھی کافی تیکھا اور منفرد ہے جہاں وہ فاصلے اور قربتوں کے اَن دیکھے زاویے سامنے لا رہے ہیں :
” قربت آتشِ نمرود یا آتشِ محبت میں بے خطر کود پڑنے کا نام ہے جب کہ فاصلہ ہمیشہ محوِ تماشائے لبِ بام رہتا ہے بلکہ بعض اوقات لبِ بام سے بھی پرے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر فاصلہ بھی اس آتش میں کود پڑے تو پھر فرقِ من و تُو ختم ہوجائے گا، فاصلہ ختم ہو جائے گا بس قربت ہو گی، یکتائی کا عالم ہو گا۔ اسے نیستی یا فنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ “ ۲۷
یہ اقتباس قاری کو روحانی طور پر خاصا آسودہ کرتا ہے کیونکہ اب قرب اور فاصلے کا مفہوم روایتی اور عمومی مدار سے نکل کر روحانی مدار میں داخل ہو گیا ہے۔ انشائیہ نگار کی یہی ادا اور تخلیقی توانائی سوزو گداز کی کیفیات پیدا کرتی ہیں ۔اس قسم کے حقایق کو بیان کرنے کے لیے فنی بصیرت،عمیق مشاہدہ،کثیر الجہات تجربات و تجزیات اور جدت طرازی جیسے اوصاف درکار ہیں اور حیدر قریشی کے ہاں یہ عناصر وافر مقدار میں موجود ہیں۔
(۴) وگ:
یہ انشائیہ کلیات میں شامل ہونے سے پہلے ” اوراق“ ۲۸میں شائع ہو چکا تھا۔ کلیات میں طبع ہونے والے انشائیے کی پیشانی پر یہ شعر چمک رہا ہے:
یہ بال و پر تو چلو آ گئے نئے حیدر
بلا سے پہلے سے وہ خال اور خد نہ رہے ۲۹
انشائیے کا آغاز تو والد کی یاد سے ہوتا ہے۔ اور پھر رفتہ رفتہ اس میں تاریخ اور سماجیات کے بڑے بڑے مسائل کا تذکرہ مخصوص انداز سے اپنی جگہ بناتا چلا جاتا ہے۔ حیدر قریشی جب سماج میں پو شیدہ خود غرضی اور مفاد پرستی پر بات کرتے ہیں تو یہ انشائیہ جوبظاہر وگ جیسی عام شئے پر لکھا ہوا ہے ایک مقام پر آ کر ایک پورے عہد کا المیہ بن جاتا ہے۔
جو لوگ وِگ پہننے والوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ بہروپ بدلتے ہیں ۔ اور بھیس بدل کر زندگی گذارتے ہیں اُن کے اس الزام کو حیدر قریشی نے رد کرتے ہوئے جواباً ایک اور اہم نکتے کی جانب ہماری توجہ دلائی ہے:
بہروپ تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے شیطان کو مہارت کے ساتھ چھپا کر باہر فرشتہ بنا پھرے۔ مایا لگی ہوئی پگڑی کا اکڑا ہوا طرّہ، تکبر کی ماری ہوئی گردن، ریا کاری کی لمبی داڑھی اور نفیس جُبہ۔ یہ جُبہ و دستار بہروپ ہے۔ ایسے بہروپیوں کا یہ ساز و سامان اتار لیا جائے تو نیچے سے ن۔م۔ راشد کا لا= انسان بر آمد ہوتا ہے۔ “ ۳۰
حیدر قریشی کی شکوہ سنجی اپنی جگہ بجا ہے لیکن یہ اقتباس پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جہ جیسے وہ صنفِ انشائیہ کے مجموعی مزاج سے قدرے تجاوز کر رہے ہیں ۔ طنز کا استعمال انشائیے میں ممنوعات کی ذیل میں تو نہیں آتا لیکن اس کی غیر ضروری شدت اور کاٹ مذکورہ صنف کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ صنفِ انشائیہ کے تقریباً تمام بڑے ناقدین مثلاً ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، اکبر حمیدی، ڈاکٹر سلیم اختر، محمد ارشاد ،مشکور حسین یاد، ڈاکٹر رشید امجد، جمیل آذر، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش اور حامد برگی وغیرہ نے طنز کی کاٹ اور مزاح کی شدت کو تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا۔ غصہ یا بر ہمی کا اظہار انشائیے میں جگہ نہیں بنا سکتا بلکہ انشائیے کے مجموعی تاثر کو کمزور کر دیتا ہے۔
حیدر قریشی نے اس انشائیے میں جن مسائل پر بات کی اُن کی اہمیت سے انکار نہیں ، لیکن اگر اِن معاملات کو علامتی اور ڈھکے چھپے الفاظ میں پیش کر دیا جاتا ہے تو مجموعی تاثر پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے۔ حامد برگی کا یہ کہنا درست ہے:
” انشائیہ میں مقالہ کی طرح وضاحتوں کی گنجائش نہیں ۔ ابہام او ایمائیت انشائیہ کا حسن ہے۔ بات جتنی اشاروں، کنایوں میں ہو اتنی ہی خوبصورت اور فنکارانہ ہوتی ہے۔ بشرطیکہ وہ سوچ اور خیال کے دروازے کھولتی جائے۔ انشائیہ نگار کا عندیہ مبہم ہونے کے باوجود قاری کی سمجھ میں آ جائے، اُسے انشائیہ نگار سے وضاحتیں طلب کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔“ ۲۱
انشائیے کا اہم مقام یہی ہے کہ اس میں ایمائیت موجود ہو اور وہ اظہار و ابلاغ کے تمام تقاضے بھی پورے کرے۔ حُسن معنی کا رکھ رکھاؤ اور پیش کش انشائیے کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں اگر ان کا اہتمام نہ کیا جائے تو بات نہیں بنے گی۔
انشائیے کے دو اور مقام ملاحظہ ہوں جہاں حیدر قریشی کا انشائی حوالہ قدرے دھیما ہو گیا ہے:
(ا) ” وہ لیڈر بہروپئے ہیں جو عوام کی فلاح کے دعوے کرتے ہیں اور عملاً عوام کا استحصال کرتے ہیں وہ لوگ بھی بہروپئے ہیں جو مغربی دنیا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے من گھڑت اور جھوٹے بیانات دیتے ہیں کہ گوئبلز کی روح بھی شرما جائے۔“ ۳۲
(ب) ” ادب میں بھی ایسے کئی بہروپئے پائے جاتے ہیں ۔ کسی مالدار ادیب سے دو لاکھ روپئے کھا کر اُسے ۲۵ہزار روپئے کا انعام دلانے والے۔ “ ۳۳
یہ باتیں پڑھ کر دل کو طمانیت اور راحت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اصلاح اور سنجیدگی کا تاثر ابھرتا ہے، شہزاد منظر نے کہا تھا:
” انشائیے کی صنف شگفتہ موڈ کی پیدا وار ہے انشائیہ نگار کا کام ناظر کو مسرت بہم پہنچانا ہے۔ اس کے لیے وہ طنز سے کچھ زیادہ کام نہیں لیتا۔ کیونکہ طنز ایک سنجیدہ مقصد کے لئے کار آمد ہوتی ہے۔ “ ۳۴
انشائیہ کبھی اصلاحی مقاصد کی خاطر نہیں لکھا جاتا کیونکہ اس کے لئے مضمون کی صنف پہلے سے موجود ہے جو اسلوبیاتی اور موضوعاتی اعتبار سے خاصی وسعت کی حامل ہے۔ انشائیے میں اکتاہٹ اور طنز کی موجودگی قاری کو مغالطے میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اگر مضمون اور انشائیے میں اس فرق کے نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بات نہیں بنے گی۔
حیدر قریشی کے انشائیوں پر مجموعی رائے:
گذشتہ صفحات میں حیدر قریشی کے چار اہم انشائیوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کر کے اُن کے مجموعی رنگ کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجودہ سطور میں اُن کے باقی انشائیوں( نقاب، اطاعت گزاری، یہ خیر و شر کے سلسلے، چشم تصور، اپنا اپنا سچ تجربہ اور تجربہ کاری) کو بھی مدِ نظر رکھ کر سلسلہ ءکلام آگے بڑھایا جائے گا تاکہ اُن کے فکرو نظر کے ممکنہ پہلوؤں کا احاطہ کیا جا سکے۔ حیدر قریشی کی انشائیہ نگاری کا مطالعہ کرنے کے بعد اُن میں درج ذیل نکات حاوی دکھائی دیتے ہیں ۔
۱۔ انشائیے کا ابتدائی شعر:
حیدر قریشی نے اپنے ہر افسانے اور انشائیہ کا آغاز ایک شعر سے کیا ہے۔ اس شعر کا منطقی جواز یہی ہے کہ ہر شعر مرکزی موضوع پر مبنی ہے۔اور ہر موضوع میں زیر بحث اَن کہی باتیں شعر کی زبانی بیان ہو جاتی ہیں ۔ یہ تمام اشعار طبع زاد ہیں اور موضوع کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔ مثلاً ” نقاب“ کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
حیدر بھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب
ایک نقاب اگر الٹیں تو آگے اور نقاب ۳۵
یہ انشائیہ بڑھ چکنے کے بعد قاری محسوس کرنے لگتا ہے کہ جیسے حیدر قریشی نے اس مضمون کو پھیلا کر انشائیہ بنا دیا ہے یا ا نشائیے کے موضوع کو سمیٹ کر شعر میں بند کر دیا ہے
” وِگ“ کا ابتدائی شعر دیکھئے:
یہ بال و پر تو چلو آ گئے نئے حیدر
بلا سے پہلے سے وہ خال اور خد نہ رہے ۳۶
انشائیہ ” یہ خیر و شر کے سلسلے “ کا شعر دیکھئے:
خیر و شر کی آمیزش اور آویزش سے نکھریں
بھول اور توبہ کرتے سارے سانس بسر ہو جائیں ۳۷
غرض ہر شعر پیش آمدہ صورتِ حال کا جامع مرقع ہے۔
۲۔ تفکر کے عناصر:
ڈاکٹر ناصر عباس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:
” انشائیہ انسان کی ذہنی اور تہذیبی ترقی کے ایک مرحلے پر نمودار ہوتا ہے۔“ ۳۸
یہی ذہنی اور تہذیبی ترقی انشائیے میں فکریات کے ایسے عناصر پیدا کرتی ہے جن کا مطالعہ حیات و کائنات کی تفہیم میں آسانیاں پیدا کرتاہے۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکری اکائیاں دھیمے سروں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں ۔ اگر کہیں تخلیقی رو میں سروں کی آواز اونچی ہونے لگے تو انشائیہ نگار شعوری کاوش سے انھیں پھر سے دھیما بنا دیتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
انشائیہ ” اطاعت گزاری“ میں کہتے ہیں :
” اطاعت گزاری کا جوہر نہ صرف بغاوت ، سر کشی اور انحراف کے جذبات کو ختم کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کو زیادہ سوچنے کے عمل سے روک کر اُسے بہت سی مشکلات سے بھی نجات بخش دیتا ہے۔ زیادہ سوچنے والے لوگ یعنی آزادانہ طور پر غور و فکر کرنے والے لوگ جب سوچتے ہیں بُرے بھلے میں حدِ فاصل قائم کر کے تعصب اور آویزش کو ہوا دینے لگتے ہیں ۔“ ۳۹
اس طرح کے فکری تصورات اور تجربات کا کوئی اپنا سیاق و سباق بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ اپنے سیاق سے ہٹ کر بھی سماجی المیے کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ اقتباس میں موجود تمام الفاظ سادہ و سہل نظر آتے ہیں لیکن ان میں فکری پیچیدگی موجود ہے۔ جو قاری کی توجہ چاہتی ہے۔ اگرچہ انشائیہ کا مقصد تلخ نوائی نہیں ہوتا اور نہ پڑھنے والوںکو کسی ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرنا ہے بلکہ یہ موضوع کا کمال ہے کہ وہ اپنے اندر چھپے ابعاد اور جہات کبھی سنجیدگی اور کبھی خوشی یا مسرت کے پیرائے میں کھولتا چلا جاتا ہے اور انشائیہ نگار تخلیقی بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے۔
ایک اور انشائیہ ” فاصلے ، قربتیں “ کا یہ جملہ دیکھئے۔
” قربت کی انتہا سے فاصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح فاصلے کی انتہا قربت کو جنم دیتی ہے یہ کوئی فلسفہ نہیں حقیقت ہے۔ “ ۴۰
”تجربہ اور تجربہ کاری“ ایک ایسا انشائیہ ہے جس میں حیدر قریشی نے” تجربہ“ کو ایجابی اور ” تجربہ کاری “ کو سلبی اوصاف کے ساتھ منسوب کیا ہے۔ اور اپنے اس نقطۂ نظر یا موقف کو منطقی استدلال سے مزین کر دیا ہے۔ یہ جملے لائقِ توجہ ہیں :
۱۔” تجربہ کاری کا یہ اصول ہے کہ جو چیز اپنے مطلب اور فائدے کے مطابق ہے وہی سچائی ہے باقی سب جھوٹ ہے۔“ ۴۱
۲۔تجربہ کاری کا ہنر جاننے والوں کا کمال یہ ہوتاہے کہ اپنے واجبی علم کی خامیوں کو چھپا کر بڑی مہارت کے ساتھ اپنے علم کا اظہار کریں گے۔“ ۴۲
۳۔ ” زندگی کے تجربات زندگی کو معصومانہ حیرت سے دیکھنے اور پھر اس کی جستجو کے سفر سے عبارت ہیں یہ حیرت اور جستجو اجتماعی نوعیت کی ہے، کیونکہ اس سے پوری انسانیت فیض یاب ہوتی ہے۔ “ ۴۳
حیدر قریشی کے انشائیوں میں فکریات کا ایک پورا نظام فعال ہے۔ اس نظام کا مرکز و محور اخلاقیات پر استوار ہے جس میں ایک طرف تو نام نہاد پاکبازوں کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور دوسری جانب سماجی رویوں میں چھپے کذب و افترا اور منافقت کا پردہ چاک کیا جاتا ہے لیکن تنقید کا یہ عمل صنفِ انشائیہ کے مزاج کو متاثر نہیں ہونے دیتا۔
۳۔ اصول اخذ کرنے کی صلاحیت:
حیدر قریشی کے انشائیوں میں سچی ، کھری اور جرآت مندانہ باتوں کا سلسلہ در سلسلہ بیان ملتا ہے۔ یہ بیان قاری کے تجربات میں خوشگوار اضافہ کرتا ہے اور اسے کئی مقامات پر چونکاتا بھی ہے۔ ” فاصلے، قربتیں “ میں شامل تمام انشائیوں کا ایک نمایاں وصف یہ سامنے آتا ہے کہ حیدر قریشی نے جن حالات و واقعات کو موضوع بنایا اُن پر بات کرتے ہوئے مخصوص نتائج اور اصول اخذ کرتے ہیں ۔یہ اصول وہ ثمرات ہیں جو قاری کی فکری اور جمالیاتی ترتیب کرتے ہیں ۔ اس ضمن میں کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں :
۱۔ ” اگر ہر شئے بے نقاب ہوتی تو کسی شئے میں کوئی جاذبیت نہ رہتی۔“ ( نقاب) ۴۴
۲۔ ” ہر سچ میں کچھ نہ کچھ جھوٹ اور ہر جھوٹ میں کچھ نہ کچھ سچ ضرور ہوتا ہے۔“ ( یہ خیر و شر کے سلسلے) ۴۵
۳۔ ” ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اور ہر کسی کو اپنے اپنے سچ کی حفاظت کرنی چاہئے۔ نظریاتی سچ کی حفاظت نظریات پرعمل پیرا ہونے سے ہوتی ہے۔“
( اپنا اپنا سچ) ۴۶
۴۔” یہ وہی تجربہ کاری ہے جو اپنی عیاری کو حکمت اور دوسروں کی دفاعی حکمت کو بھی مکاری قرار دیتی ہے۔“ ( تجربہ اور تجربہ کاری) ۴۷
۴۔ تجربات اور مشاہدات اور تجزیات
حیدر قریشی نے اپنے تقریباً تمام انشائیوں میں زندگی سے حاصل ہونے والے تجربات اور مشاہدات کو بہ اندازِ دگر پیش کیا ہے۔ یہ تجربات و مشاہدات اگرچہ انفرادی سطح سے اُٹھتے ہیں لیکن فنی چابکدستی اور انشائی تخلیقی عمل کی بدولت اجتماعی رنگوں سے مالا مال ہیں ۔ کچھ رنگ ملاحظہ ہوں:
” یہ ڈپلو میٹس ( امریکی) دنیا بھر میں جمہوریت کے نفاذ کے علمبردار ہیں ۔ لیکن اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے بعض ممالک میں نہ صرف باشاہت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ جہاں اپنا فائدہ نظر آئے وہاں جمہوریت کا خاتمہ کرکے فوجی آمریت بھی مسلط کر دیتے ہیں ۔ “ ۴۸
” اصولاً کسی کو اپنی خوبصورتی کے ثبوت کے لیے دوسروں کی بد صورتی کو نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔“ ۴۹
” سچے اطاعت گذار کا کمال یہ ہے کہ جو سانحہ اُس کے اپنے گروہ کے ساتھ پیش آئے اُسے تو وہ خدا کی طرف سے آزمائش اور امتحان قرار دیتا ہے لیکن اگر ویسا ہی سانحہ بلکہ اس سے بھی کم تر سانحہ کسی دوسرے گروہ کو پیش آئے تو پورے ایمانی جوش و خروش کے ساتھ اُسے عذابِ الہٰی سے تعبیر کرتا ہے۔ “ ۵۰
غرض ان کے انشائیوں کا عمرانی پہلو اصل سائل کو نشان زد کرتا ہے۔
(۵) سائنسی عناصر:
حیدر قریشی کو سائنسی علوم خصوصاً طبیعیات میں خاص دل چسپی ہے اور اس کی وجہ ڈاکٹر وزیر آغا کی دوستی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ آغا صاحب کے اکثر قریبی دوست اس مشترک شوق کے اسیر ہیں ۔ حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں کئی مقامات پر اپنے اس شوق کا اظہار کیا
ہے۔ مثلاً اُن کا انشائیہ ” چشم تصور“ ایٹم (Atom) کے جدید تصورات پر روشنی ڈالتا نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایٹم کی اندرونی ساخت پربات کرتے ہوئے لکھا ہے:
” پہلے پہل کہا گیا کہ ایٹم مادے کا بلڈنگ بلاک ہے بعد میں اسی ایٹم کے چالیس سے زائد پار ٹیکلردریافت ہو گئے۔ بات Quarksتک پہنچی مگر پھر اس کے بھی مزید چھ کلرز سامنے آ گئے۔ Quarksسے ” ہیڈ رونز“ بنتے ہیں ۔ “ ۵۱
” سائنس ابھی تک چھوٹی کائنات یعنی ایٹم کا کوئی انت تلاش نہیں کر سکی۔ “ ۵۲
حیدر قریشی نے اپنے انشائیے میں ان تمام مسائل سے اُس وقت تعرض کیا جب وہ تخلیق کائنات پر غور و فکر کر رہے تھے اور وہ لا شعوری طور پر تخلیق اور ایٹم کے باہمی تعلق پر سوچنے لگ گئے۔ انھوں نے نظامِ شمسی اور کائنات کے دیگر مظاہر کو بلیک ہولز کے تناظر میں بھی سمجھنے کی سعی کی ہے۔ ان کا چشمِ تصور اگر ایک طرف سائنس جیسے جدید ترین نظریات سے روشنی حاصل کرتا ہے تو دوسری جانب جن، دیو، پریاں، اور اڑن کھٹولے اُن کے تخیلات کو مہمیز کر رہے ہیں ۔
اُن کاایک اور انشائیہ ” فاصلے اور قربتیں “ جب تخلیقی امکانات کو زیر بحث لاتا ہے تو Big Bangپارٹیکل اور اینٹی پاٹیکل کے تصورات کو بھی اپنے موضوع میں سموتا چلا جاتا ہے۔ یہ تمام سائنسی حوالہ جات محض سائنسی معلومات فراہم نہیں کرتے بلکہ کائنات کے اسرار و رموز کو بھی تخیل کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے زمین ہموار کرتے ہیں ۔ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے جو بات انشائی اسلوب کے حوالے سے کہی تھی یہ اس کی عملی صورت ہے، اُنھوں نے کہا تھا:
” انشائیہ نگار اُسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتا ہے، مراد یہ ہے کہ وہ روایتی اور مروجہ اسلوب اظہار کے لیے نئے امکانات کا سراغ لگاتا ہے۔“ ۵۳
سائنسی موضوعات عموماً اپنی خشکی اور معروضی صفات کی بنا پر ادب میں مشکل سے ہی جگہ بنا پاتے ہیں لیکن حیدر قریشی جیسے پختہ کار انشائیہ نگار اپنے جاندار تخیل کی بدولت ان میں تازگی پیدا کر دیتے ہیں ۔
۶۔ ادبی مشاہدات اور تجربات
حیدر قریشی کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی مصروفیات کے تابع ہے۔ لہٰذا ادبی باتوں کا انشائیے یا دوسری نثری اصناف میں در آنا خلافِ توقع نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے انشائیوں میں تلخ ادبی تجربات کا تذکرہ کومل سروں میں کیا ہے، ایک جگہ کہتے ہیں :
” دبیز نقاب جب کسی معقول انسان کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ عاشقِ زار بن کر محلے کے شرفا کے لیے متعدد مسائل پیدا کر دیتا ہے۔ لیکن جب یہی نقاب کسی ادیب کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ بے سرو پا نظمیں یا مضمون نما خط قسم کی چیزیں لکھ کر اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن جاتا ہے ، شاید نفسیاتی مسئلہ! “ ۵۴
انشائیہ” وگ“ میں جب بہروپ بدلنے والوں کا ذکر آتا ہے تو حیدر قریشی کا قلم خود بخود ادب کی جانب مڑ جاتا ہے:
” ادب میں بھی ایسے کئی بہروپئے پائے جاتے ہیں ۔ کسی مالدار ادیب سے دو لاکھ روپے کھا کر اُسے ۲۵ہزار روپے کاانعام دلانے والے، مناسب حق الخدمت کے طور پر کسی لولے لنگڑے افسانے کو دورِ حاضر کا ممتاز ترین افسانہ قرار دینے والے۔ “ ۵۵
ان ادبی مسائل و عوارض کا پس منظر چاہے کچھ بھی ہو حیدر قریشی اِن میں عمومیت کا رنگ بھر کر یاراںِ نکتہ دان کو صلاحِ عام کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں ۔
اِن واقعات اور تجربات کی شمولیت کا ایک حسن یہ ہے کہ اصل موضوع کی مرکزیت کو قائم رکھتے ہوئے اِدھر اُدھر کی بہت سی باتیں ایسی کر جاتے ہیں جو بادی النظر میں اصل موضوع سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں لیکن اصل موضوع کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔ یہ انشائی اسلوب ہی کا وصف ہے کہ موضوع کی وسعت حسبِ ضرورت بڑھائی یا کم کی جا سکتی ہے۔ بقولِ غالب!
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے ۵۶
۷۔ نفسیات، مشاہدۂ باطن اور اخلاقیات:
انسانی نفسیات اور مشاہدۂ باطن سے حیدر قریشی کو جو غیر معمولی دل چسپی ہے اس کا اندازہ اُن کی یا دنگاری، خاکہ نگاری اور افسانہ نگاری،سے بآسانی ہو جاتا ہے، لیکن ا نشائیہ نگاری میں بھی یہ عناصر جگہ جگہ مشا ہدہ کیئے جا سکتے ہیں۔اس حوالے سے چند مثالیں دیکھئے:
”بچپن میں ہم جوانوں کو دیکھ کر جوان ہونے کی تمنا کرتے ہیں لیکن جوان ہوتے ہی بچپن کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس جوانی میں ہم آنے والے بڑھاپے کے تصور سے ہی خوف کھاتے ہیں ۔ لیکن بڑھاپا آتے ہی ہم پر فکر و دانش کے ایسے انوار برستے ہیں کہ نہ صرف بڑھاپے سے سارا خوف دور ہو جاتا ہے۔ بلکہ ہماری زندگی میں ہی بڑھاپا ہمیں بچپن اور جوانی ہمارے بیٹوں اور پوتوں کی صورت میں دکھا دیتا ہے۔ “ ۵۷
نفسیاتی ژرف بینی کی یہ مثال بھی دیکھئے:
” انسانی چہرہ بجائے خود ایک نقاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھانکتا نظر آتا ہے۔ اندر کا فرشتہ تو اکثر چہرے پر ہی ملتا ہے کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعویٰ کر سکے۔“ ۵۸
مشاہدہ باطن کی مثال ملاحظہ ہو:
”اطاعت گزاری، فرمانبرداری اور وفا شعاری ایک ہی حقیقت کے مختلف چہرے ہیں ۔ اطاعت کا مادہ انسانی نفس کوسنگسار کر کے اس کی روح اور ذہن کو ہر طرح سے سبک سار کردیتا ہے۔ گویا اطاعت سے مراحلِ تصوف کا آغاز ہوتا ہے اور کمالِ اطاعت تک وہ کامل صوفی بن جاتا ہے۔“ ۵۹
حیدر قریشی کا تخلیقی وجدان ،سماج، افراد، وقوعات، حوادث اور انسانی مظاہر کے باطن میں چھپے اُس اسرار کو ڈھونڈ نکالتا ہے جو عام نظر سے پو شیدہ ہوتے ہیں ۔ حیدر قریشی کے انشائیوں میں اخلاقیات کا عنصر خاصا نمایاں ہے۔ جس طرح اقبال کے بارے میں عمو ماً یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی غزلوں اور نظموں میں جس کسی موضوع پر بات کریں بالآخر گھوم پھر کر اپنے فلسفۂ خودی یا فلسفۂ عشق کا الاپ شروع کر دیتے ہیں ۔ تقریباً ایسی ملتی جلتی صورت حیدر قریشی کے انشائیوں میں نظر آتی ہے ،وہ موقع ملتے ہی نصیحت کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔ یہ مثال دیکھئے:
” ایک اچھے مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی بیوی پر قناعت کرے۔ دوسروں کی بیویوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اور اپنی بیوی کے مشترکہ تخلیقی عمل میں مگن رہے اور اس طرح زندگی میں اضافہ کر کے زندگی کی جنت کا نظارہ کرتا رہے۔“ ۶۰
گو اُن کے ہاں پندو نصائح والی روایتی کیفیت توپیدا نہیں ہوتی لیکن دبے لفظوں میں وہ کوئی نہ کوئی ایسا اخلاقی نکتہ ضرور بیان کرتے ہیں جو قاری کی فکری تربیت میں معاونت کرتا ہے۔ حیدر قریشی قاری کے بنیادی عقائد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عمومی نکتوں پر بات کرتے ہیں تاکہ ہر شخص حسبِ حال اُن سے مستفید ہو سکے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عقائداور نظریات کا ہر نظام عمرانی شعور کا زائیدہ ہوتا ہے اور اس کی نشو ونما اور ارتقا کا سلسلہ اُس وقت مزید مستحکم ہو جاتا ہے جب حیدر قریشی جیسا قلم کار اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔
حیدر قریشی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:
” میری انشائیہ نگاری میں ڈاکٹر وزیر آغا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ باقی انشائیہ نگاروں میں غلام جیلانی اصغر، انور سدید، مشتاق قمر اور اکبر حمیدی مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ شاید ان کے اثرات بھی میرے انشائیوں میں ملتے ہیں ۔ “ ۶۱
حیدر قریشی کا یہ اعتراف خاص اہمیت رکھتا ہے، اور ان کے اثرات کا کھوج بھی بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے جن شخصیات کا حوالہ دیا ہے ان میں تین پر وہ خاکے بھی لکھ چکے ہیں ۔ جو ” میری محبتیں “ کے حصہ دوم میں بعنوان عہد ساز شخصیت ( ڈاکٹر وزیر آغا)، ایک ادھورا خاکہ ( غلام جیلانی اصغر )، اور بلند قامت ادیب ( اکبر حمیدی) دیکھے جا سکتے ہیں ۔ دبستانِ سرگودھا کے یہ تینوں ادیب انشائیہ نگاری کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں ۔ حیدر قریشی نے وزیر آغا والے خاکے میں ایک بار پھر اس بات کا اعتراف کیا کہ
”وزیر آغا نے مجھے انشائیے لکھنے کا شوق پیدا کیا۔“ ۶۲
اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حیدر قریشی کی زیادہ ملاقاتیں اور مکتوبی رابطے وزیر آغا سے رہے اور آغا صاحب انشائیہ کے بارے میں جو بصیرت افروز نظریات رکھتے تھے وہ مجموعی صورت میں ان کے لیے بھی قابلِ قبول تھے۔ ” فاصلے، قربتیں “ میں موجود انشائیے جہان اِن مقتدر شخصیات کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں وہاں حیدر قریشی کی تخلیقی صلاحیت اور سلیقہ شعاری کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے کہا تھا:
” انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتا ہے، مراد یہ ہے کہ وہ روا یتی اور مروجہ اسلوبِ اظہار کے نئے امکانات کا سراغ لگاتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے جو ترکیب، محاورے، استعارے اپنی چمک دمک کھو چکے ہیں ، انہیں نئے سیاق و سباق میں پیش کرتا ہے اور اس عمل میں وہ ” روایت“ کو نئی سطح تفویض کرنے کی انشائی ٹیکنیک کے تابع رہتاہے، اگر وہ اسلوب کی تازگی کو بروئے کار نہ لا سکے تو اس کا انشائی تخلیقی عمل سے گزرنا مشتبہ قرار پائے۔“ ۶۳
حیدر قریشی نے اپنے انشائیوں میں مذکورہ بالا تمام شرائط کا التزام بطریق احسن کیا ہے۔ اور ویسے بھی اِن کا تعلق انشائیہ نگاروں کے اُس قبیلے کے ساتھ ہے جن کی نشو ونما براہِ راست اُن ادیبوں کے زیر سایہ ہوئی جو فن انشائیہ نگاری کے امام اور بنیاد گزار ہیں ۔ یہ اُنہی کی تربیت اور حیدر قریشی کی ذاتی محنت کا فیض ہے کہ آج اُن کا شمار اردو ادب کے اہم انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالاجات
۱سلیم اختر، ڈاکٹر، اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ،
سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص ۵۲۶
۲ اکبر حمیدی، جدید اردو انشائیہ، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۱۹۹۱ء ، ص ۴۔( ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ حوالہ مذکورہ کتاب کے دیباچے سے اخذ کیا گیا ہے، جو اکبر حمیدی کا تحریر کردہ ہے )
۳جدید اردو انشائیہ، ص ۶
۴جدید اردو انشائیہ، ص ۹ ( دیبا چہ از اکبر حمیدی)
۵وزیر آغا ، ڈاکٹر، اردو انشائیہ کی کہانی، مشمولہ، جدید اردو انشائیہ، مرتبہ، اکبر حمیدی، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آبا، ۱۹۹۱ء، ص ۲۴
۶حیدر قریشی، فاصلے، قربتیں ، مشمولہ عمرِ لا حاصل کا حاصل، ( کلیات نظم و نثر )،
ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۹ء ، ص ۵۰۷
۷سلیم آغا قزلباش، ڈاکٹر، انشائیہ کیا ہے،
مشمولہ ، سہ ماہی اوراق، جولائی، اگست ۱۹۹۹ء ( خاص نمبر ) ص ۱۷۹
۸ خاموشی، مشمولہ، عمرِ لا حاصل کا حاصل، ص ۵۰۷
۹ایضاً، ۵۰۷
۱۰ اکبر حمیدی، اردو انشائیہ اور نئے افق،
مشمولہ، سہ ماہی اوراق، جولائی اگست ۱۹۹۹ء، ( خاص نمبر)، ص ۸۷ا۔ ۱۷۷
۱۱سلیم اختر، ڈاکٹر، انشائیہ، مبادیات ،مشمولہ ، جدید اردو انشائیہ
۱۲خاموشی، کلیات، ص ۵۰۹
۱۳جمیل آذر، انشائیہ نگار کا رویہ،
مشمولہ، اوراق ، اگست، ستمبر ( خاص نمبر) ، شمارہ ۸، ۹ص ۳۷۵
۱۴حیدر قریشی، بڑھاپے کی حمایت میں ،
مشمولہ ، جدید اردو انشائیہ، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، ۱۹۹۱ء، ص ۱۴۸ ۱۵غالب، دیوانِ غالب، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور ، سن اشاعت ندارد، ص ۱۱۹
۱۴بڑھاپے کی حمایت میں ، مشمولہ، جدید اردو انشائیہ، ص ۱۵۰
۱۷ شہزاد منظر، ردِ عمل ( تنقیدی مضامین)، منظر پبلی کیشنز، کراچی، ۱۹۷۵ص ۱۷۹
۱۸بڑھاپے کی حمایت میں ، ص ۱۵۰
۱۹منزہ یاسمین، حیدر قریشی۔ شخصیت اور فن،
میاں محمد بخش پبلیشرز، خانپور، ۲۰۰۳ء، ص ۱۵۶
( یہ اصل میں ایم اے کا تحقیقی مقالہ ہے، جو ڈاکٹر شفیق احمد کی نگرانی میں مکمل ہوا، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاول پور ، شعبہ اردو کی طالبہ نے یہ مقالہ ۲۰۰۰، تا ۲۰۰۲کے سیشن میں لکھا تھا ، مقالہ ہذا باقاعدہ منظوری کے بعد کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا تھا)
۲۰حیدر قریشی، فاصلے، قربتیں ، اوراق ( سالنامہ)، مدیر ڈاکٹر وزیر آ غا، شمارہ نمبر ۲، ۳، فروری، مارچ ۱۹۹۵ء ص ۳۳۲تا ۳۳۳
۲۱یہ شعر ، کلیات، ( عمرِ لا حاصل کا حا صل) کے صفحہ ۵۱۶پر چھپنے والے انشائیے میں تو شامل ہے، لیکن اوراق میں چھپنے والے اس انشائیے میں شعر کو حذف کر دیا گیا ہے۔
۲۲حیدر قریشی، فا صلے، قربتیں ، اوراق، مدیر ڈاکٹر وزیر آغا،
شمارہ نمبر ۲، ۳، فروری، مارچ ۱۹۹۵ء ص ۳۳۲
۲۳فاصلے، قربتیں ، ص ۳۳۲
۲۴ ایضاً
۲۵ایضاً
۲۶نذر خلیق، حیدر قریشی کے انشائیے، مشمولہ، حیدر قریشی کی ادبی خدمات،
( متفرق مضامین )۔میاں محمد بخش پبلشرز، خانپور، ۲۰۰۳ء، ص ۲۴۵
۲۷ فاصلے قربتیں ، ۳۳۲
۲۸حیدر قریشی ، وگ ( انشائیہ) ، مشمولہ اوراق، شمارہ ۱، ۲،
جنوری، فروری، ۱۹۹۶ء ، ص ۵۵تا ۵۶
۲۹ عمرِ لا حاصل کا حاصل ( کلیاتِ نظم و نثر )، ص ۵۱۳
۳۰ ایضاً ، ص ۵۱۴
۳۱حامد برگی، انشائیہ کا فن، مشمولہ، جدید اردو انشائیہ، ص ۸۵
۳۲وگ، ص ۵۱۵
۳۳ایضاً
۳۴شہزاد منظر، ردِ عمل ، ( تنقیدی مضامین) ص ۱۷۸
۳۵ نقاب، مشمولہ عمر لا حاصل کا حا صل ( کلیات نظم و نثر ) ص ۵۱۰
۳۶وگ، مشمولہ ، عمر لا حاصل کا حا صل ( کلیات نظم و نثر ) ص ۵۱۳
۳۷یہ خیر و شر کے سلسلے، مشمولہ، عمرِ لا حاصل کاحا صل ،( کلیات نظم و نثر ) ص ۵۲۵
۳۸ ناصر عباس نیر ، نئے انشائیہ نگاروں کا شعورِ تخلیق، مشمولہ ، ادبیات،
اکادمی ادبیات پاکستان، جلد ۱۳، شمارہ ۳۵، ۲۰۰۰ئ، ص ۱۸۳
۳۹ اطاعت گزاری، مشمولہ، عمرِ لا حاصل کا حاصل، ص ۶۲۴
۴۰فاصلے قربتیں ، مشمولہ عمرِ لا حاصل کا حا صل، ص ۵۱۸
۴۱ تجربہ اور تجربہ کاری، عمرِ لا حاصل کا حا صل، ص ۵۳۵
۴۲ تجربہ اور تجربہ کاری، عمرِ لا حاصل کا حا صل، ص ۵۳۵
۴۳ ایضاً ، ص ۵۳۴
۴۴نقاب، عمرِ لا حاصل کا حا صل، ص ۵۱۱
۴۵ یہ خیر و شر کے سلسلے، مشمولہ، عمرِ لا حاصل کا حا صل ، ص ۵۲۷
۴۶ اپنا اپنا سچ، مشمولہ، عمرِ لا حاصل کا حا صل، ص ۵۳۱
۴۷تجربہ اور تجربہ کاری ، مشمولہ، عمرِ لا حاصل کا حا صل ، ص ۵۳۵
۴۸تجربہ اور تجربہ کاری ، ص ۵۳۵
۴۹اپنا ا پنا سچ، مشمو لہ ، کلیات ، ص ۵۳۱
۵۰اطاعت گزاری، مشمولہ، کلیات ، ص ۵۲۲
۵۱چشمِ تصور، مشمولہ، کلیات ، ص ۵۲۹
۵۲ ایضاً
۵۳ناصر عباس نیر، نئے انشائیہ نگاروں کا شعورِ تخلیق، ص ۱۸۴
۵۴نقاب، کلیات، ص ۵۱۲
۵۵ وگ ، کلیات ، ص ۵۱۵
۵۶ غالب ، دیوانِ غالب ، ص ۱۸۲
۵۷بڑ ھاپے کی حمایت میں ، کلیات ، ص ۵۲۰
۵۸نقاب، کلیات، ص ۵۱۰، ۵۱۱
۵۹ اطاعت گزاری، مشمولہ، کلیات ، ص ۵۲۲
۶۰ اپنا ا پنا سچ، مشمو لہ ، کلیات ، ص ۵۳۲
۶۱حیدر قریشی سے لئے گئے انٹر ویوز، مرتب سعید شباب،
نظامیہ آرٹ اکیڈمی، ایمسٹرڈیم، ہالینڈ
( یہ انٹر ویو محمد وسیم انجم نے کیا تھا، مذکورہ کتاب میں یہ انٹر ویو
” حیدر قریشی سے مکالمہ“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ )
۶۲عہد ساز شخصیت ( ڈاکٹر وزیر آ غا)، کلیات، ص ۳۳۴
۶۳ناصر عباس نیر، نئے انشائیہ نگاروں کا شعورِ تخلیق، ص ۱۸۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔