لاہور سے فیروز پور روڈ پکڑلیں تو کاہنہ سے قصور کی طرف آدھا راستہ اِدھر آدھا اُدھر مصطفیٰ آباد کا بس سٹاپ آتا ہے۔ 65 کی پاک بھارت جنگ کے دنوں میں جب اس قصبے کا نام ابھی للیانی تھا،
اس نے بی آر بی کے پشُتے کی پرلی طرف بیدیاں اور کھیم کرن کی دشاوٗں میں جنگ اپنے جوبن پر دیکھی تھی۔ مصطفیٰ آباد کا مرکزی قبرستان میں بس سٹاپ کے ساتھ ہی فیروز پور سے تھوڑا اتر کے ہے۔ یہاں ایک طرف کو چھوٹے باغیچے میں ایک مسجد اور ساتھ ایک یادگاری منارہ “شامی مینار” کے نام سے کھڑا ہے،
یہ بریگیڈیئر احسن رشید شامی شہید، ہلالِ جرات کی یادگار ہے اور ہمارے بریگیڈیئر صاحب کا ذکر آگے چل کر دوبارہ آئے گا۔
مینار والے باغیچے کی مشرقی حد کے ساتھ ہی قبرستان کی ناختم ہونے والی تربتوں کاسلسلہ شروع ہوتا ہے اور وہیں ایک چھوٹے قطعہٗ زمین کی حدبندی دیواروں کے ساتھ کی ہوئی ہے۔
یہ مصطفیٰ آباد کا گنجِ شہداء ہے جس کی دیواروں کے پار قطار اندر قطار ایک ہی طرح کی سنگِ مرمر کی سلوں سے آراستہ قبروں میں پنیسٹھ کی جنگ کے شہید آرام کرتے ہیں۔ اس گنجِ شہیداں کا مین گیٹ ہمیں خبر دیتا ہے کہ یہ قبریں 5 فرنیٹئیر فورس کے سپاہیوں کی ہیں جو فاتحِ کھیم کرن ہے۔
یہاں دفن شہداء کی بڑی تعداد کا تعلق 5 ایف ایف سے ہی ہے۔ کچھ اکا دُکا قبریں رسالے کے یونٹوں 24 کیولری، 12 کیولری اور 6 لانسرز کے مجاہدوں کی بھی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 5 ایف ایف کے علاوہ دو یونٹیں اور ہیں جو کھیم کرن کی فتح پر اپنا حق جتاتی ہیں۔
8 ستمبر کی صبح کو روہی نالے سے ایک دلیرانہ جست میں ولٹوہا کو لپکتی لیفٹیننٹ کرنل صاحبزاد گُل شہید، ستارہٗ جرات کی 6 لانسرز اور انکے پیچھے پیچھے بچی کھچی ہندوستانی مزاحمت کا قلعہ قمع کرتی فرسٹ ایف ایف رجمنٹ۔
یونٹوں کےدعوں سے پرے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بابا بلھے شاہ کے قصور سے تھوڑا اُدھر، ہندوستان کی سرحد بالکل اندر ایک نیم غنودہ قصبے کھیم کرن ، جسکا ذکر ہماری طرف کے جنگی روزنامچوں میں ایک جیتی ہوئی وار ٹرافی کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، ہندوستانی سپاہ نے وہاں دفاع ہی نہیں لیا ہوا تھا۔
بی آر بی کے پشتوں پر 6 ستمبر کو بولے گئے ہندوستانی دھاوے کی ناکامی کی ہڑبونگ سے ہندوستان کے 4 ماوٗنٹین ڈویژن کی پلٹنیں جو پسپا ہوئی ہیں تو اصل اتر اور چیما کی حدود میں پہنچ کر دم لیا۔ اور پھر کھیم کرن سے شمال مشرق کےاسی علاقے میں ہندوستانی ڈویژن نےاپنی بکھری پلٹنوں کو اکٹھا کرکے ایک موثر دفاعی حصار میں آراستہ کیا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں جنگ کے اگلے دنوں میں پاکستانی آرمرڈ بریگیڈ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی پار نہیں نکل پائیں گے اور اسی علاقے میں پاکستانی 4 کیولری کو ہزیمت آمیز شکست اٹھانا پڑے گی۔
مگر ابھی آٹھ ستمبر ہے اور بابا بلھے شاہ کے قصور سے تھوڑا اِدھر مشرق میں بہتے روہی نالے کے اوپر بنائے برج ہیڈ (آبی رکاوٹ کے پار حملے کی جمع گاہ ، اگر ہمارے پڑھنے والوں کی سمجھ میں یہ ترکیب نہ آئے تو آپ بلاجھجھک برج ہیڈ پڑھ کر آگے نکل جائیں) سے ہمارے رسالے کی پلٹنیں ہندوستانی دفاع میں نقب لگانے کو پر تول رہی ہیں۔ سرحد پار حملے کی تیاری میں دیری، سینیئر کمانڈروں کی طرف سے رسالے کا غلط استعمال اور انفنٹری کے سپاہیوں کو ٹینکوں سے الگ کرکے لڑانا وہ عوامل تھے جن کا تاوان آنے والے دنوں میں پاکستانی 4 اور 5 آرمرڈ بریگیڈز کی یونٹوں اور ان کے سپاہیوں نے اپنی جان اور ہتھیاروں کی قربانیاں دے کر ادا کیا۔
جنوب میں کرنل صاحبزاد گُل کی دلیرانہ قیادت میں پلٹن کھیم کرن کی تاخیری پوزیشنوں کو روندتی ہوئی سیدھی ولٹوہا کے ریلوے سٹیشن پر جا پہنچی مگر 1 ایف ایف کے سپاہیوں کے آگے نہ پہنچنے کے سبب واپس کھیم کرن کو پلٹ آئے۔
کرنل صاحب تو ایک دن بعد 9 ستمبر کی شام کو جب اصل اتر ۔ ولٹوہا روڈ پر پچھلے دن کے حملے کے اعادے کو جاتے تھے تو جس سمے اپنے براوو سکواڈرن کو مچھیکے نالے سے پار دھکیل کر خود آگے آئے تو اسوقت کہ جب ٹینک کے کھُلے کپولے سے دھڑ باہر نکال کر سامنے کی زمینوں کا جائزہ لیتے تھے ، 18 راجپوتانہ رائفلز کے کسی سپاہی کی براہِ راست گولی کا نشانہ بن گئے۔ موقع پر شہید ہوجانے والے لیفٹیننٹ کرنل صاحبزاد گُل کو بعد ازاں ستارہٗ جرات عطا کیا گیا۔
اب اس کا کیاکیا جائے کہ اگلے تین سے چار دن ہمارے رسالے کے دور مار دستہ جسے جنرل محمود نے اپنی کتاب میں Mailed Fist لکھا ہے کھیم کرن ریسٹ ہاوٗس کی کمین گاہ میں محصور ایک ایسا چھاپہ مار دستہ بن جائے گا جو صرف دن کی روشنی میں وار کرتا ہے۔
رسالے کی یونٹیں ایک گھمسان کے رن میں کھیم کرن ۔ اصل اتر اور شمال میں بھورا کریم پور ۔ سنکھترہ کی دشاوٗں میں نکلیں گی اور ہندوستانی دفاعی پلٹنوں سے مچیٹے کے بعد قابض علاقے کو چھوڑ کر محض اس لیے کہ پیدل فوج کے دستے وہاں تک دن کی روشنی میں نہیں پہنچ پائے واپس کھیم کرن لوٹ آئیں گی، اگلے دن انہیں زمینوں کو دوبارہ تاراج کرنے کے لیے جنہیں ایک دن پہلے وہ قدموں تلے روند کر گزری تھیں۔ 10 ستمبر کا دن طلوع ہوا تو پاکستانی 24 کیولری نے 5 فرنٹیئر فورس کی دو کمپنیوں کے ساتھ اصل اتر اور چیما پر حملے کا منصوبہ بنایا۔
یہ دونوں علاقے ہندوستانی 4 ماونٹین ڈویژن کے دفاع کا سب سے مضبوط حصہ تھے۔ اصل اتر پر حملے میں 5 ایف ایف کی الفا کمپنی کے کمانڈر میجر شیخ ظہورالدین شہید ہوگئے اور کمپنی اپنے ہدف سے بے مراد رہی۔ براوو کمپنی کا چیمہ پر حملہ بھی ناکام رہا جسمیں کمپنی کمانڈر میجر قاضی زخمی ہوگئے تھے۔
اسی دن جبکہ نئے سرے سے حملے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی کمانڈر آرٹلری بریگیڈیئر احسن رشید شامی، 5 آرمرڈ بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر بشیر کے ساتھ مل کر اگلی زمینوں کی دیدبانی کو نکلے کہ توپخانے کے موثر فائر کے لیے دشمن کے دفاعی مورچوں کا جائزہ لیا جاسکے۔ دن کے قریباً ڈھائی بجے کا وقت تھا جب اصل اتر کوجاتے روڈ پر بھورا کہناکے برابرسے گزرتی انکی جیپ پر دفاعی مورچوں سےموثر فائرآیا۔ بریگیڈیئر شامی جو ڈرائیو کررہے تھے سر میں گولی لگنے سے شہید ہوگئے اور گاڑی روڈ سے اتر کر قلابازیاں کھاتی دور جاگری۔ ساتھ بیٹھے بریگیڈیئر بشیر معجزانہ طور پر معمولی زخموں کے ساتھ محفوظ رہے
ہندوستانی 9دکن ہارس کی وار ڈائری 10ستمبر کی بابت ہمیں بتاتی ہےکہ شام کےلگ بھگ 6بجے 4گرینیڈیئرزکےجوانوں نےکچھ پاکستانی سپاہیوں کی اونچی آوازیں سنیں ’جنرل صاحب ہم آپکو لینے آئے ہیں۔ آپ ٹھیک ہیں؟‘ 4 گرینیڈیئرز کی تمام کی تمام پلٹن اور9 ہارس کےٹینکوں نےآوازوں کی دشامیں فائر کھول دیا۔
آنے والے پاکستانی جنرل آفیسر کمانڈنگ 1 آرمرڈ ڈویژن کو بحفاظت ساتھ لے کر بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ ہندوستانیوں نے جو آوازیں سنُی تھیں وہ 24 کیولری کا ٹروپ کمانڈر نائب رسالدار خلیل الرحمٰن تھا جو اپنے ٹینک لے کر ہندوستانی حملے کی زد میں آئے کمانڈر صاحب کی خبر لینے کو بھیجا گیا تھا۔
خلیل الرحمٰن 5 آرمرڈ بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیئر بشیر کو بحفاظت واپس لے آیا تھا۔ فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کمانڈر وہاں نہیں تھے، ہندوستانیوں کو غالباً بریگیڈیئر شامی کی گاڑی کی سٹار پلیٹ سے مغالطہ ہوا تھا۔
اب یہاں ہندوستانی 4 گرینیڈیئرز کا روزنامچہ یہ کہتا ہے کہ کھیم کرن ۔ اصل اتر روڈ پر لیفٹیننٹ جانو اور سیکنڈ لیفٹیننٹ وید نے روڈ بلاک لگایا تھا جب 10 ستمبر کی دوپہر انہوں نے کھیم کرن کی طرف سے دو جیپوں اور انکے پیچھے ٹینکوں کو آتے دیکھا۔ روڈ بلاک کے نزدیک پہنچ کر اگلی جیپ رک گئی اور اسکا ڈرایئور جو کہ بشرے سے سینیئر کمانڈر لگتا تھا جیپ میں کھڑے ہوکر نزدیکی مشین گن مورچے میں بیٹھے سپاہیوں پر دھاڑا ’اپنے ہتھیار پھینک دو۔ تم ہمارے گھیرے میں ہو!‘۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ وید کا کہنا ہے کہ مورچے میں بیٹھے سپاہی یہ سُن کر سناٹے میں آگئے اور ان کا جمود اپنے کمانڈر کی فائر کھول دو، فائر! کی پکار سنُ کر ٹوٹا۔ برین مشین گن کا پورا برسٹ اس جنرل افسر کے سر پر لگا جس سے وہ موقعے پر ہلاک ہوگئے۔ موقع پر ملنے والی فوجی ٹوپی، سٹار پلیٹ اور جیپ پر لگے جھنڈے سے ہندوستانیوں کو مغالطہ ہوا کہ انہوں نے پاکستانی جرنیل کو ہلاک کرد یا ہے۔
کھیم کرن ۔ اصل اتر روڈ پر بھورا کہُنا کے پاس سنگِ میل 37 پر اس جگہ جہاں بریگیڈیئر شامی شہید ہوئے تھے، ہندوستانی 4 گرینیڈیئرز کی یادگار کھڑی ہے جو بتاتی ہے کہ گنر محمد شفیع اور گنر نوشاد برین مشین گن کے فائرر تھے جس کے برسٹ سے بریگیڈیئر صاحب شہید ہوئے۔
یادگار ابھی تک اسی مغالطے کو دہراتی ہے کہ ڈویژن کمانڈر میجر جنرل نصیر بھی یہاں شہید ہوئے تھے اور بریگیڈیئر صاحب کے نام میں میم کی اضافت کے ساتھ ان کا نام بریگیڈیئر شمیم بتاتی ہے جو کہ غلط ہے۔
ہندوستانی بریگیڈیئر شامی کا جسدِ خاکی ساتھ لے گئے تھے اور ان کی بہادری کے اعتراف میں فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین کی تھی۔ بریگیڈیئر شامی کی جیپ کا اعزازی جھنڈا اب 9 دکن ہارس کے پاس ہے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں بہادری کے دوسرے بڑے اعزاز ہلالِ جرات سے نوازا۔
جنگ بندی کے اگلے سال 22 مارچ 1966 کو بریگیڈیئر شامی کا جسدِ خاکی کھیم کرن سے لاہور لایا گیا۔ اہالیانِ لاہور نے پولو گراوٗنڈ میں جنگِ ستمبر کے شہید کا جنازہ پڑھا اور انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ بیدیاں روڈ پر واقع لاہور کے گنجِ شہیداں میں سپردِ خاک کردیا گیا۔
اپنے شریکِ حیات کے تابوت پر مٹھی بھر مٹی کا نذرانہ ڈالتی بیگم تاجور شامی نے زندگی کے کٹھن پچاس برس ایک شہید کی بیوہ بن کر سماجی و فلاحی کاموں میں خود کو مصروف رکھ کر گزارے۔ آپ اب اسی گنجِ شہیداں میں بریگیڈیئر شامی کے پہلو میں آرام کررہی ہیں۔
اصل اتر کے محاذ پر 10 ستمبر کے صبح 8 بجے 24 کیولری کے پیٹن ٹینک جب چیما پر حملے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے تو ہندوستانی 4 گرینیڈئیرز کے مورچوں میں کمپنی کوارٹر ماسٹر حوالدار عبدالحمید انہیں دیکھتا تھا۔ عبدالحمید اینٹی ٹینک گن ڈیچیٹمنٹ کا کمانڈر تھا۔ اس صبح کے حملے میں عبدالحمید نے اپنی جیپ بردار ٹینک شکن گن سے یکے بعد دیگرے 24 کیولری کے دو ٹینک اڑا ڈالے۔ تیسرے ٹینک کا نشانہ باندھنے سے پہلے اسے پاکستانی ٹینک کے ایک گولے نے آلیا۔ کمپنی کوارٹر ماسٹر حوالدار عبدالحمید کو ہندوستان نے بہادری کا سب سے بڑا اعزاز پدم ویر چکر عطا کیا۔
عبدالحمید کو اسی جگہ دفنایا گیا جہاں وہ تیسرے ٹینک کا نشانہ لیتے اپنی جیپ پر خود شکار ہوگیا تھا۔ کھیم کرن سے جو سڑک بھِکھی ونڈ جاتی ہے، چیما خورد سے تھوڑا پہلے روڈ کے بائیں طرف شہید سینک عبدالحمید ، پرم ویر چکر کا مزار ہے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ زیڈ اے خان اپنی کتاب The Way It Was میں لکھتے ہیں کہ گیار ہ ستمبر کی صبح کھیم کرن روڈ کے سنگِ میل 32 کے پاس ایک جیپ آکر رکی۔ اس میں اترتے ایک سکھ لیفٹیننٹ نے حیرانی کے عالم میں کوئی درجن بھر پاکستانی M47 پیٹن ٹینک دیکھے جن کے عملے کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔
کچھ ہی دیر میں ہندوستانی سپاہ کا ایک لڑاکا دستہ کیل کانٹے سے لیس جائے وقوعہ پر پہنچا۔ ایک ٹینک سے سفید جھنڈا بلند ہوا اور 4 کیولری کے کمانڈنگ افسر لیفٹیننٹ کرنل محمد نذیر نے تقتریباً سکواڈرن بھر نفری کے ساتھ ہتھیار ڈال دیئے۔
4 کیولری کے یہ گیارہ ٹینک پچھلی شام کو بھِکھی ونڈ روڈ پر چیما گاوٗں پر حملے کا حصہ تھے۔ شام 6 بجے ہدف کے اِس پار بے یارو مددگار ان کا مواصلاتی رابطہ بریگیڈ سے کٹ گیا تو اگلی صبح جنگ پر انہوں نے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی۔
کھیم کرن سے آگے کی اس ٹینک خور جنگ میں 4 کیولری نے اٹھائیس ٹینکوں کا نقصان اُٹھایا۔ 6 لانسرز فاتحِ کھیم کرن کے کُل انیس ٹینک تباہ یا ناکارہ ہوئے اور 24 کیولری نے پندرہ ٹینکوں کا نقصان برداشت کیا۔ جنگ بندی کے بعد ہندوستانی اپنے شرمن اور سینچورین کے مقابلے میں برتر پاکستانی پیٹن ٹینکوں کی شکست کا چرچا کریں گے۔ اصل اتر کے ارد گرد کی زمینوں میں پھنسے، تباہ شدہ اور ناکارہ پیٹن ٹینکوں کو اکٹھا کرکے میڈیا کے دکھانے کو پیٹن نگر بنائیں گے۔
مگر اس میں ابھی دیر ہے۔ ابھی تو کھیم کرن پاک فوج کے قبضے میں ہے اور اس کے دفاع میں مورچوں میں بیٹھے 5 اور 2 فرنٹیئر فورس کے سپاہی پے درپے ہندوستانی حملوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں گے۔ کل کے للیانی اور آج کے مصطفیٰ آباد کے گنجِ شہداء کے 5 ایف ایف کے شہداء فاتحِ کھیم کرن بن کر دکھائیں گے۔
کھیم کرن پر واپس قبض کرنے کے لیے پہلا بڑا حملہ بارہ ستمبر کو آنا تھا جو چوبیس گھنٹوں کی تاخیر سے آیا ۔ فاتحِ برکی 4 سکھ لائٹ انفنٹری کو خصوصی طور پر برکی سے اٹھا کر 4 ماوٗنٹین ڈویژن کے حوالے کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ کی خواہش تھی کہ 4 سکھ سارا گڑھی ڈے کی مناسبت سے 12 ستمبر کو کھیم کرن پر حملہ آور ہو مگر یہ 13 ستمبر کی صبح کو ممکن ہوسکا۔ حملے میں 4 سکھ لائٹ انفنٹری کے ساتھ 2 مہر رجمنٹ بھی تھی۔ برکی کی جنگ سے ادھ موئی 4 سِکھ حملے کی صبح کھیم کرن سے باہر پاکستانی ٹینکوں سے آ ٹکرائی اور کمانڈنگ افسر سمیت 126 سپاہی قیدی بنالیے گئے۔
دوسری طرف 2 مہر کا حملہ بھی ناکام رہا۔ اسی صبح 24 کیولری کے میجر خادم حسین راشن اور فیول پہنچانے کھیم کرن آئےتھے۔ ہندوستانی حملے کی گرما گرمی میں ان کی نظر ایک ٹینک شکن توپ پر پڑی جس کا عملہ شہید ہوگیا تھا۔ انہوں نے سامنے سے ہندوستانی 9 دکن ہارس کے ٹینک آتے دیکھے اتنے میں 5 ایف ایف کا نائیک گُل مرجان انکی مدد کو آیا اور انہوں نے اس توپ سے دو ہندوستانی ٹینک شکار کیے۔ ٹینک سے فائر کیا ہوا ایک گولہ پیغامِ اجل بن کر ہمارے بہادر سپاہیوں پر گرا۔ محاذ پر ان کے جسموں کا جو کچھ بچا وہ اب للیانی کے گنجِ شہداء میں آسودہٗ خاک ہے اور ان دونوں کی بہادری کی داستانیں 24 کیولری اور 5 ایف ایف کے سپاہیوں کو آج بھی ایک لوک داستان کی طرح یاد ہیں۔
جنگ بندی سے پہلے ہندوستانی سپاہ کا دو بریگیڈ کی نفری اور کیل کانٹے سے لیس کھیم کرن پر ایک بڑا حملہ 22/21 ستمبر کی رات آیا۔
اس حملے کا زور اپنے سینوں پر سہارتے ہوئے فرنٹیئر فورس کی پلٹنوں 2, 5 اور 10 ایف ایف نے ہندوستای ⅛ گورکھا رائفلز، 15 کماوٗں اور 29 بریگیڈ کی 2 مدراس کا کھیم کرن پر قبضے کا سپنا سپنا ہی رہنے دیا۔ گورکھا رائفلز کے سپاہی حملے کی جمع گاہ میں ہی 10 ایف ایف کے لڑاکا پٹرول کی گھات کا نشانہ بن گئے، 15 کماوٗں کے دو افسر اور دو جےسی اوز کو ملا کر 22 سپاہی حملے میں کام آئے اور ایک افسر سمیت 21 لاپتہ ہوگئے۔ 23 ستمبر 1965 کی صبح 3 بجے جنگ بندی پر عملدرآمد ہوتے ہی کھیم کرن سیکٹر میں لڑائی کا خاتمہ ہوگیا۔
بابا بلھے شاہ کے قصور سے مشرق کی نیت کریں تو روہی نالے کے پار کھیم کرن کا نیم غنودہ قصبہ آتا ہے۔ کھیم کرن سے اصل اتر اور آگے چیما خورد اور اس کی نواحی زمینوں میں لڑی گئی ایک خونزیز جنگ کی باقیات آج بھی نظر آجاتی ہیں۔ اس زمین میں دونوں ملکوں کے دلیر سپاہیوں کا لہو ہے۔
فاتحِ کھیم کرن کا تاج سجائے مصطفیٰ آباد کے گنجِ شہداء کے باسی آج بھی کھیم کرن کے ناقابلِ شکست دفاع کا تاج سجائے اپنی گوروں میں آرام کرتے ہیں۔للیانی کے شہیدوں سے فاتحِ کھیم کرن کا اعزاز کوئی نہیں چھین سکتا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...