(ہماری امی جان)
معراج نسیم ادبی حوالے سے اپنی نوعیت کی انوکھی کتاب ہے۔ بظاہر یہ چند بچوں کا اور دوسرے افراد خاندان کا اپنی مرحومہ والدہ کے لئے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے، اس لحاظ سے یہ کوئی ادبی کتاب نہیں ہے لیکن جس خاتون کے بارے میں یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے۔حمایت علی شاعر کی اہلیہ اور ابھرتے ہوئے افسانہ نگار بلند اقبال کی والدہ ہیں، اوج کمال کی والدہ ہیں۔ یوں خاندانی نوعیت کی اس کتاب کی ادبی حیثیت بھی بنتی ہے۔
پروفیسر جاوداں میر حمایت علی شاعر کی صاحبزادی ہیں، یوں اپنی والدہ کے بارے میں کتاب مرتب کرنے کا اعزاز نہیں نصیب ہوا ہے۔ کتاب کو ۶حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے حصہ میں ابتدائیہ ،معراج نسیم کی وفات کی خبروں کے تراشے ، احباب کے تعزیت نامے اور یادگار تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ دوسرے حصہ میں قریبی عزیزوں کے تاثرات شامل کئے گئے ہیں۔ان میں بیٹے، بیٹیاں، بہنوئیں، داماد، دیوروغیرہ شامل ہیں۔یوں تو سب نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور کسی کے جذبات کو دوسرے سے کم یا زیادہ کہنا مناسب نہیں کہ ماں تو سب بچوں کے لئے یکساں ہوتی ہے تاہم جب ادبی حوالے سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر بلند اقبال کا مضمون ”یابی بی سیدہ“باقی سب پر چھایا ہو اہے۔ اس کے بعد پروفیسر فروزاں علی میر اور پروفیسر جاوداں میرکے مضامین متاثر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فروزاں علی کے بارے میں تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اپنے اندر کی ایک بہت عمدہ نثر نگار کے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی ادبی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ اوج کمال سے اس حصہ میں سب سے زیادہ توقع کی جاس سکتی تھی لیکن ان کی تاثراتی تحریر انتہائی کمزور ثابت ہوئی۔
تیسرے حصہ میں دوست احباب اور ملنے جلنے ولوں کے تاثرات شامل کئے گئے ہیں۔ چوتھے حصہ میں پوتوں ، نواسوں زعنی اگلی پیڑھی کے بچوں کے تاثرات درج کئے گئے ہیں۔ پانچویں حصہ میں حمایت علی شاعر کی نظمیں ہیں۔ان میں وہ نظمیں ہیں جو معراج نسیم کی وفات پر لکھی گئی۔ان نظموں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حمایت علی شاعر اپنی اہلیہ سے کس حد تک محبت کرتے تھے۔ اسی حصہ میں حمایت علی شاعر کے وہ خطوط بھی شامل کئے گئے ہیں جو مختلف ادبی رسائل میں چھپ چکے ہیں اور جن میں انہوںنے اپنی اہلیہ کی وفات کا ذکر کیا ہ۔
کتاب کے آخری حصہ میں یہ خوشگوار انکشاف ہوتا ہے کہ معراج نسیم ایک زمانہ میں ادب سے وابستہ رہی تھیں۔مہاراشٹر سے چھپنے والے اردو افسانے کے ایک ادبی تذکرہ میں ان کا تعارف اور منتخب افسانہ ملتا ہے۔ معراج نسیم کچھ عرصہ کے لیے حیدر آباد دکن کے رسالہ ماہنامہ پرواز کی مدیرہ بھی رہیں۔ اس آخری حصہ میں ان کے دو افسانے ”خالی میز“ اور ”ٹوٹتے جالے “بھی شامل کر دیئے گئے ہیں۔ یوں ظاہرہو اکہ معراج نسیم کے اندر اردو کی ایک اچھی ادیبہ موجود تھی لیکن اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انہوںنے اس ادیبہ کی قربانی دے دی لیکن اس قربانی کے صلہ میں انہوںنے اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کو زندگی کا وہی قرینہ سکھا دیا جو ترقی پسند ادب یا صحت مند ادب والے ابھی تک دنیا کو نہیں سکھا پائے۔
موجودہ دور جس میں مادیت پرستی نفسا نفسی کی اس سطح تک آگئی ہے جہاں معتبر اور مقدس رشتے بھی بے معنی ہوتے جا رہے ہیں ایسے ماحول میں حمایت علی شاعر اور معراج نسیم کی اولاد نے اپنے معتبر ترین رشتہ ماں کے رشتہ کی اس عظمت کا احساس دلایا ہے جسے نئی نسل عموی طور پر فراموش کرتی جا ر ہی ہے۔یہ کتاب بہت سی نیک فطرت لیکن بھولے ہوئے بچوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلا سکتی ہے۔
……..٭٭٭……..
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ:جنوری تا جون ۲۰۰۵ء)