اسلم بدر اردو کے خوش بیان شاعر ہیں۔مثنوی ”کن فیکون“کی صورت میں ان کی شاعری کی ایک نئی جہت سامنے آئی ہے۔ان کی یہ مثنوی لکھے جانے کے اسباب پر میں نے اپنے طور پر غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ عالمگیریت کے اس دور میں اردو شاعری اپنے ارتقائی عمل میں غیر محسوس طریقے سے اپنے ثقافتی پس منظر اور اپنے ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھنیلگی ہے۔اس کے مختلف مطاہر کہیں پرانی ثقافتی روایات سے منسلک نئے شعری تجربوں کی صورت میں دیکھنے میں آرہے ہیں تو کہیں بعض متروک اصناف کے احیاءمیں بھی یہی پلٹ کر دیکھنے کا عمل کارفرما دکھائی دیتاہے۔اسلم بدر کا مثنوی ”کن فیکون“تخلیق کرنے کی طرف راغب ہونا بھی اسی انوکھے اور دلچسپ رویے کی ترجمانی اور نشاندہی کرتا ہے۔
”کن فیکون“دو ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل مثنوی ہے جو اسلم بدر کی کئی سالہ ریاضت کا ثمر ہے۔اس سے جہاں اسلم بدر کی پُر گوئی اور قادرالکلامی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے،وہیں ان کی اپنی اس مثنوی کے موضوعات سے گہری وابستگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
انسانی ذات ہو یا حیا،کائنات ہو یا خالقِ کائنات ان سب کے اسرار اتنے گہرے ہیں کہ کسی کی بھی انتہا معلوم کرنا نا ممکن ہے۔اسلم بدر نے بہت طویل سفر کیا ہے۔ایسا سفر جس کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اس کے سفر میں شریک ہیں۔”کن فیکون“ نہ صرف مثنوی کی روایت کو زندہ کرنے کی ایک عمدہ کاوش ہے بلکہ عالمگیریت کے نام نہاد عالمی سازشی ماحول میں اپنی جڑوں ،اپنی پرانی روایات اور اپنی قدیم ثقافت سے وابستگی کا اظہار بھی۔
”کن فیکون“اسی حوالے سے ایک اہم ادبی پیش رفت اور تخلیقی کارنامہ ہے۔
(کتاب کی بیک پر درج تاثرات)