خورشیداقبال کی شخصیت کے تین حوالے میرے لئے بہت اہم ہیں۔ پہلا حوالہ اردو دوست ڈاٹ کام کے کرتا دھرتا ہونے کا ہے۔ میں ان کی ویب میکنگ کی صلاحیتوں سے واقف ہی نہیں ان سے فیضیاب بھی ہوتا رہتا ہوں۔سائنس کے طالب علم(اور استاد)ہونے کے ناطے سائنس سے ان کی نصابی حد سے آگے کی دلچسپی زندگی اور کائنات کو سائنسی حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کا رویہ ہے جو عام طور پر ہمارے سائنس کے کئی پروفیسروں کو بھی اس حد تک نصیب نہیں ہو سکا۔خورشید اقبال کی شخصیت کا تیسرا اہم حوالہ ان کی شاعری ہے۔ اس وقت ان کی یہی حیثیت میرے مد نظر ہے ۔ان کی شاعری میں غزل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔انہوں نے جو نظمیں لکھی ہیں وہ زیادہ تر نظم کی پرانی اور ترقی پسند روایت کے مطابق لکھی ہیں۔ایسی نظمیں تسلسلِ خیال کے ساتھ کسی حد تک غزل کے زیر اثر رہتی ہیں۔
خورشید اقبال کی غزل میں ویسے تو موضوعات کی رنگا رنگی ہے لیکن حالیہ برسوں میں’ سیکولر ہندوستان‘ میں مسلمان جتنا غیر محفوظ اور بے توقیر ہوا ہے اس کے شدید اثرات ان کی غزل کی نمایاں پہچان بنتے جا رہے ہیں۔اور ایسے اشعار صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی ہی نہیں کرتے بلکہ خورشید اقبال کی غزل کی پہچان بھی بنتے جا رہے ہیں۔
سر اپنے اعتبار کا خم کر کے رکھ دیا جھوٹے قلم نے سچ کو قلم کر کے رکھ دیا
خورشید ہم نے آج غزل کی زبان میں دل کا تمام کرب رقم کر کے رکھ دیا
کیا پڑھیں خو ر شید اب خبروں کو ہم تفصیل سے خون کے آنسو رلانے کو بہت ہیں سر خیاں
قدموں میں پتھروں کے نہ سر کو جھکائیے اب وقت آ گیا ہے کہ تیشہ اٹھائیے
کیسے لگی؟ کہاں سے لگی؟ سرغنہ ہے کون؟ تحقیق ہوگی، آگ تو پہلے بجھائیے
دیوارِ احتیاط گری ، آگ لگ گئی چنگاری اک ذرا سی اڑی ، آگ لگ گئی
اک زندگی اور اتنے مسائل مرے خدا سیلاب آ گیا ،تو کبھی آگ لگ گئی
موت کے خوف سے ہر آنکھ ہے پتھرائی ہوئی منصفِ شہر کی قاتل سے شناسائی ہوئی
موت رقصاں رہی سڑکوں پہ گلی کوچوں میں زندگی بھاگتی پھرتی رہی گھبرائی ہوئی
ایک راون سے لڑے تھے رام اور دی تھی شکست آج تو ہم ہیں ہزاروں راونوں کے درمیاں
وقت سلجھاتا رہے گا مسئلوں پر مسئلے زندگی کٹتی رہے گی الجھنوں کے درمیاں
ان اشعار کو اور ان میں بیان کی گئی علامتوں اور استعاروں پر غور کیا جائے تو ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت سے لے کرانسانی نفسیاتی کیفیات تک ،سارامنظر پوری طرح سامنے آجاتاہے۔
جب اس قسم کے حالات کا سامنا ہو اور اس اندازکی شاعری ہو تو اس پر ترقی پسند تحریک کے اثرات بھی آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔خورشید اقبال کے ہاں غربت کے پیدا کردہ مسائل سے لے کر آج کے امریکہ کے پیدا کردہ مسائل تک ترقی پسند لہجے کی چھاپ یوں بولتی ہے۔
گراں ہو اس کے لئے کیوں نہ اپنی جان کا بوجھ وہ ہے اٹھائے ہوئے ایک خاندان کا بوجھ
سبھی بناتے رہے گاﺅں کا قلم سے نصیب کوئی نہ بانٹنے آیا کسی کسان کا بوجھ
آگ برسا کر فضا سے جیت لو گے تم زمیں پر حکومت کے لئے توآدمی بھی چاہئے
یہی اثرات ان کی نظموں میں در آئے ہیں۔ ”زندگی“۔”اک نیا تاج محل“ اور مایوس لمحات کامشورہ“جیسی نظمیں تو براہ راست ترقی پسند افکار کی گونج محسوس ہوتی ہیں۔تاہم اسی پس منظر میں ان کے ہاں ”مثلث“جیسی عمدہ نظم بھی ملتی ہے جو ان کا ایک سادہ مگر پرتاثیر شعری تجربہ بن جاتی ہے۔
شہر کی بھیڑ میںبیچ بازار میںاک دھماکہ ہوا۔۔۔اور واں سے بہت دور اک گاﺅں میںایک گوری کے ہاتھوں میں چھن چھن چھنکتی ہوئی چوڑیاںریزہ ریزہ ہوئیں۔۔۔اور واں سے بہت دور اک دوسرے شہر کیایک کمرے میںکچھ جام ٹکرائے تھیقہقہے چند ہونٹوں پہ لہرائے تھے۔۔۔اور یوںتین بے ربط سےزاوئیے مل گئیاک مثلث بناکرب کا !
ان کی ایک اور سادہ سی نظم”تم بِن“ موضوع کے لحاظ سے بالکل مختلف ہو کر اپنے اندر سادگی اور جذبات کی سچائی کا معصومانہ انداز لئے سامنے آتی ہے۔نظم دیکھئے:
سات دن ہو گئے تھے تم کو گئے
سات دن سے عجیب عالم تھا
بکھرے بکھرے سے اپنے کمرے میں
سگرٹوں کے دھوئیں میں خاموشی
یوں گھلی تھی کہ دم گھٹے جس میں
فوم کے نرم نرم بستر میں
فصل جیسے اگی تھی کانٹوں کی
کتنی بوجھل فضا تھی مت پوچھو
دفعتاًفون کی بجی گھنٹی
”آپ کیسے ہیں؟“تم نے پوچھا تھا
اور مجھ کو لگا تھا اک پل میں
سارا عالم بدل گیا جیسے
کرب خوشیوں میں ڈھل گیا جیسے !
یہاں آکر اندازہ ہوتا ہے کہ خورشیداقبال کے ہاں موضوعاتی وسعت کے امکانات موجود ہیں۔یہ امکانات ان کی غزل کے ایسے اشعار میں بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں۔
دلربائی کے لئے تو دلکشی بھی چاہئے حسنِ سرکش میں مگر کچھ سادگی بھی چاہئے
زیست کیا ہے؟ گرمیِٔ حالات کے درجا ت، بس
صبح ٹھنڈی، گرم دن اور پھر اُمس کی رات، بس
وسعتیں مجھ کو خلاﺅں کی بھلا روکیں گی کیا
حوصلے بے انتہا اور آسماں ہیں سات، بس
بپھرتی خوہشیں دل میں سنبھال کر رکھنا
بڑا کٹھن ہے درندوں کو پال کر رکھنا
اپنے اردگرد کے شعراءمیں خورشید اقبال کو اپنی ادبی حیثیت کا اندازہ ہے لیکن وہ خود کو ادب کی کسی مقامی تقسیم کی بجائے ادب کے پورے منظر نامے میں دیکھنا پسند کرتے ہیں اسی لئے وہ مقامی مشاعرہ بازی کی واہ واہ سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے آپ کو تاکید کرنے لگتے ہیں۔
جو نہ پگھلا سکے لفظوں سے جگر پتھر کا
شاعری وہ کہاں بس قافیہ پیمائی ہوئی
تو ابھی خود کو سخنور نہ سمجھ لے خورشید
مانا دنیا ترے اشعار کی شیدائی ہوئی
جب انسان کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے عرفان اور گیان کی اس سطح تک آجاتا ہے تو اس کے لئے تخلیقی طور پر زیادہ فعال ہونا ممکن ہوجاتا ہے۔مجھے امید ہے کہ خورشید اقبال تخلیقی طور پر مزید فعال ہوں گے اور اسی گیان کی روشنی میں قدم آگے سے آگے بڑھاتے چلے جائیں گے۔میں ان کے لئے دعا گو ہوں ۔
اﷲ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے!
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۴ء)