اردو شاعری میں اکبر حمیدی کا تازہ اور ساتواں شعری مجموعہ”شورِ بادباں“ پیشِ نظر ہے۔یہ مجموعہ اکبر حمیدی کی غزل گوئی کے سفر کی اب تک کی کہانی سناتا ہے۔پہلے والی روانی کے ساتھ انہوں نے اس بار کچھ ایسے اوزان میں بھی غزلیں کہی ہیں جن میں انہوں نے پہلے غزل نہیں کہی۔اس سے قادرالکلامی تو ظاہر ہوتی ہے لیکن اکبر حمیدی کی غزل کا جو ایک مخصوص بہاؤ تھا وہ غائب ہو جاتا ہے۔تاہم ایسی غزلیں کم تعداد میں ہیں۔عمومی طور پر اکبر حمیدی اپنے مخصوص انداز میں اپنی غزل کا سفر طے کر رہے ہیں۔اس سفر میں ان کے مزاج کی خوش خیالی اور خیالات کی پرواز دونوں کا ارتقا دیکھا جا سکتا ہے۔چند اشعار سے میری بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
کس روز یہ اصرار ہمارا نہیں ہوتا کچھ اور بھی،اتنے میں گزارا نہیں ہوتا
غزل گلی سے کئی آسماں گزرتے ہیں زباں سنبھال کے اہلِ زباں گزرتے ہیں
کچھ اتنی تیز ہے رفتارِ عالم زمانے بے نشاں ہونے پہ آئے
کہاں تک ذکر قیس و کوہکن کا بہت ہم نے بھی ٹکریں ماریاں ہیں
جان پیاری ہے تو بس چلتے چلے جاؤ میاں کیوں کھڑے ہو یہ درِ یار نہیں ہے بھائی
زور و زر کا ہی سلسلہ ہے میاں لفظ کو کون پوچھتا ہے میاں
یہاں تلک بھی ہمیں پائمال ہونا تھا ہمیں مثال،انہیں بے مثال ہونا تھا
عجیب زاویے اس کی جیومیٹری میں ہیں کہیں خطوط ، کہیں دائرے نکلتے ہیں
عقل بھی،جذبہ بھی،دونوں مِرے ساتھی ہیں مگر
بعض اوقات میں دونوں کو اٹھا دیتا ہوں
سابقہ شعری مجموعوں کے حوالے سے ابھی تک اکبر حمیدی کے ہاں پیش آمدہ صورتحال پر صبر و تحمل،دعا، اور ایمان کی مضبوطی کا تاثر ملتا تھا لیکن اس مجموعہ میں وہ اپنے ان رویوں سے کچھ آگے بڑھے ہیں اور برملا کہنے لگے ہیں:
کب تلک وقت ٹالنا ہوگا راستہ تو نکالنا ہوگا
عقل بھی عشق کرنا جانتی ہے خود کو بس اعتدالنا ہوگا
اگلی نسلوں کو کفر سازی کے چکروں سے نکالنا ہوگا
”شورِ بادباں“ میں اکبر حمیدی نے کسی بڑے شاعر،ادیب یا نقاد سے کوئی پیش لفظ یا دیباچہ نہیں لکھوایااور اس سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دیباچے کتاب کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں کیونکہ پھرقارئین دیباچے کے افکار کی روشنی میں ہی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔اکبر حمیدی کا موقف وزن رکھتا ہے۔انہوں نے اپنی وضاحت میں جس نکتے کو ابھارا ہے یقیناََ غور طلب ہے۔یوں بھی ایک طویل عرصہ تک شاعری کرنے کے بعد اکبر حمیدی اب اپنی شعری عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں ان کا نام ہی ان کی شاعری کا دیباچہ،پیش لفظ ،معتبر حوالہ اور سب کچھ ہے۔ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے اتنا حوالہ ہی بڑا حوالہ ہے کہ وہ اکبر حمیدی کی شاعری کو پڑھ رہا ہے۔
”شورِ بادباں“سے مزید چند اشعار پیش کر کے کتاب کا یہ تعارف مکمل کرتا ہوں۔
ملنا نہیں، رستہ بھی بدلنا ہو ا مشکل اس شہر میں اب گھر سے نکلنا ہوا مشکل
جن وقتوں میں انجان تھا، آساں تھا بہلنا اب جان لیا ہے تو بہلنا ہوا مشکل
جل اُٹھتے تھے ہم آتشیں نظروں سے بھی اکبر اب آگ دکھاؤ بھی تو جلنا ہوا مشکل
ضد نہ کر آج پہ اتنی اکبر ورنہ وہ کل سے مکر جائے گا
کچھ سال تو آئین بنانے میں لگے ہیں باقی کے ترامیم کرانے میں لگے ہیں
ان حربوں سے وہ اونچا اڑا سکتا تھا خود کو جو حربے اسے مجھ کو گرانے میں لگے ہیں
”شورِ بادباں“ اکبر حمیدی کی مجموعی شعری شخصیت کے تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے!
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی جنوری تا جون ۲۰۰۶ء)