(خود نوشت)
اکبر حمیدی ہمہ جہت شاعر اور ادیب ہیں۔شاعری،انشائیہ نگاری،خاکہ نگاری،کالم نگاری،کے مختلف مقامات سے کامیابی سے گزرنے کے بعد انہوں نے حال ہی میں اپنی خودنوشت سوانح ”جست بھرزندگی“ شائع کی ہے۔اس کتاب کے گیارہ ابواب ہیں۔اکبر حمیدی نے گوجرانوالہ کے ایک گاؤں سے شروع ہونے والے اپنی زندگی کے مہ و سال کا ایک گوشوارہ سا اس کتاب میں پیش کر دیا ہے۔اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اکبر حمیدی نے کس ماحول میں آنکھ کھولی،کس طرح پلے بڑھے، تعلیم سے لے کر ملازمتوں تک کے احوال،عزےز و اقارب اور دوستوں ،دشمنوں کے حالات۔ادبی زندگی آغاز سے اب تک کس طرح گزری۔غرض اس میں ہمارے ایک عہد کی کئی اہم جھلکیاں اس طرح دکھائی دیتی ہیں کہ ان کے ذریعے سے پورے عہد کے بارے میں واضح تاثر قائم کرنا آسان ہوجاتا ہے۔اکبر حمیدی چونکہ بنیادی طور پر شاعر اور ادیب ہیں اس لئے ان کی زندگی کا یہی رُخ اس کتاب کا سب سے اہم پہلو ہے۔اس زاویے سے اس کتاب کے توسط سے پتہ چلتا ہے کہ اکبر حمیدی کو بعض غزلیں مکمل طور پر نہ صرف خواب میں ہوئیں بلکہ جاگنے کے بعد وہ غزلیں انہیں پوری یاد بھی رہیں۔ اسے یقینی طور پر ان کی وجدانی قوت کا کرشمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔بعض غزلیں بروقت نوٹ نہ کرنے کے باعث بھول بھی گئیں۔
وجدان کے حوالے سے اکبر حمیدی کی زندگی میں ایک درویش کی درویشی کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔اسے اکبر حمیدی کے الفاظ میں دیکھتے ہیں:”ایک اور درویش ہمارے گاؤں میں آیا۔راتوں کو گلیوں میں پھرتا۔علامہ اقبال کے اشعار بلند آواز میں گاتا پھرتا ،اپنے آپ کو وقت کا قلندر کہتا۔گاؤں سے شمال کے قریبی قبرستان میں رہتاتھا۔بہت خوبصورت آدمی تھا۔پینتیس چالیس سال کا گورا چِٹا بھر پور جوان ۔ کلین شیو ،بہت چمکتا دمکتا۔ہم محلے کے نوجوان اس کے گرویدہ ہو گئے۔ ایک روز اس نے سعید اختر کو جنوب کا اور مجھے شمال کا گورنر مقرر کیا۔اتفاق دیکھئے کہ سعید اختر سندھ میں جا بسا اور میں شمال میں اسلام آباد۔اس قلندر کے ساتھ ہم محلے کے لڑکے اکثرسردائی پیتے تھے۔“
اکبر حمیدی نے اپنی زندگی کی روداد لکھتے وقت جہاں زندگی کے بہت سے واقعات اور نشیب و فراز کو بیان کیا ہے وہیں اپنے تاثرات کو بھی خاصی تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔کسی واقعہ کی نسبت سے کوئی تاثر ایک حد تک مناسب رہتا ہے بعض اوقات اس تاثر یا تشریح کی کسی حد تک ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن جب وہ تاثر تقرےر یا خطبہ بننے لگے تو اس سے اسکی ادبی قدر و قیمت پر بہر حال فرق پڑتا ہے۔”جست بھر زندگی “میں یہ مسئلہ بار بار سامنے آتا ہے کہ وہ کسی تاثر یا تصور پر خاصی تفصیلی اور تشریحی گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ممکن ہے اس کا کوئی مثبت رُخ ہو جو سر دست مےرے علم میں نہیں آپایا۔اس خامی کے باوجود اس میں شک نہیں کہ بعض مقامات پر اکبر حمیدی کے تاثرات نے ”اقوالِ زرّیں“کا مقام حاصل کر لیا ہے۔اس کی چند مثالیں کتاب سے پیش کرتا ہوں:
٭٭زیادہ فرمانبرداری اور صورتحال سے مرعوبیت انسان کی شخصیت کو کمزور کر دیتی ہے۔انسان فرماں برداری وہاں کرتاہے جہاں اس کا چارہ نہیں چلتا۔۔۔فرمانبرداری اور چےزہے ،شکرگزاری اور بات۔ فرمانبرداری میں اپنی ذات کی نفی ہے اور شکر گزاری میں اپنی ذات اور حیثیت کا اثبات“(ص ۶۱)
٭٭مےرا خیال ہے خواب ہماری نیندوں کے خیال ہیں اور خیال ہماری بیداری کے خواب۔ ( ص ۵۴)
٭٭اعتقاد کی پختگی اکثر عقل کی خامی بن جاتی ہے۔(ص۳۲۸)
مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنے والے ادیبوں کو عموماََ دوستوں اور کرمفرماؤں سے اس قسم کی باتیں سننا پڑتی ہیں کہ اگر خود کو ایک دو اصناف تک محدود رکھتے تو زیادہ بہتر تھا۔اس سلسلے میں مےرا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ اچھا ادیب اپنی میلانِ طبع کے باعث جن اصناف میں بھی کچھ تخلیق کرتا ہے اس کا ایک کم از کم معیار ضرور دکھائی دے گا۔اور وہ اپنے اس کم از کم معیار سے نیچے جاتا دکھائی نہیں دے گا۔اس کے بر عکس برا ادیب ایک ہی صنف میں جان مارتا رہے اس میں بھی وہ برا ہی لکھتا رہے گا۔چونکہ اکبرحمیدی بھی کئی میدانوں میں طبع آزمائی کر چکے ہیں اس لئے انہیں بھی اس اعتراض کا سامنا رہا لیکن انہوں نے اس کا بالواسطہ طور پر بہت عمدہ جواب دیا ہے۔
”ایک تخلیق کار زمین کی مانند ہے۔بنجر زمین تھور اگلتی رہتی ہیں۔بعض زمینیں کسی ایک فصل کے لئے مخصوص ہو جاتی ہیں ان میں کچھ اور نہیں اگتا۔بعض زمینیں بہت سی فصلوں کے لئے موزوں ہوتی ہیں۔اب کسان کی ہمت ہے کہ وہ کیا کیا کاشت کرتا ہے اور کون کون سی فصلیں اٹھاتا ہے۔مجھے یاد ہے ہماری تحصیل گوجرانوالہ کی زمین چاول،گندم،گنا،کپاس،مکئی،باجرہ،برسیم غرض کئی فصلوں کے لئے موزوں ہے۔۔کچھ ایسا ہی حال زرخےز ذہن تخلیق کار کا ہے” (ص۲۴۱)
اکبر حمیدی جیسے فعال اور زرخےزتخلیق کارکی یہ خود نوشت سوانح حیات ان کی زندگی کی روداد بھی ہے اور ان کے نظریۂ زندگی اور فن کے عقبی دیاروں کو سمجھنے کے لئے ایک معاون کتاب بھی ہے۔زندگی سے بھری ہوئی یہ کتاب موت کے بارے میں کچھ نہیں کہتی صرف زندگی کی بات کرتی ہے۔ مثبت طور پر جینے کی بات کرتی ہے۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ جنوری تا جون ۲۰۰۴ء)