جمیل زبےری اردو کے معروف سفرنامہ نگار اور افسانہ نگار ہیں۔آپ طویل عرصہ تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ریڈیو پاکستان بجائے خود ایک ایسا ادارہ ہے جہاں زندگی کے ہر شعبہ سے وابستہ افراد سے رابطہ رہتا ہے۔جمیل زبےری کی زندگی ادب اور ریڈیو کے دائروں میں پھیلی ہوئی تھی۔ ریڈیو نے ان کے لئے مشاہدہ اورافراد کے مطالعہ کے اسبا ب فراہم کئے۔علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز سے لے کرشاعروں،ادیبوں،فنکاروں،صحافیوں،سازندوں،کھلاڑیوں،افسروں،سائنسدانوں، سیاستدانوں ، فوجیوں،دانشوروںتک ہزارہا قسم کے لوگوں سے ان کا واسطہ رہا۔کسی سے براہ راست پروگرام کرنے کی وجہ سے کسی کا انٹرویو کرنے کی وجہ سے کسی سے ریڈیو اسٹیشن پر آمد کی وجہ سے ۔بہت سوں سے ان کا وقتی میل ہوا۔بہت ساروں کے ساتھ طویل ساتھ رہا۔ اپنی زندگی کی ان ساری یادوں کو انہوں نے ”یاد خزانہ ‘ ‘ کے نام سے کتابی صورت میں یکجا کیا ہے۔ان یادوں کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ :
”میں نے جو کچھ لکھا ہے ایمان داری سے لکھا ہے۔ نہ مبالغے سے کام لیا ہے،نہ جھوٹ سے اور نہ مےرا مقصد کسی کی دلآزاری ہے۔مجھے افسوس ہے کہ ملازمت کے دوران مجھے اس کتاب کے لکھنے کا خیال ہی نہ آیا ورنہ میں ایک ڈائری بنا لیتا اور چونکہ پوری کتاب صرف یادداشت پر لکھی ہے اس لئے کچھ واقعات اور کچھ لوگوں کے نام یقیناََ رہ گئے ہوں گے جو ایک مجبوری ہے“
”یاد خزانہ“ میں بہت سا معلوماتی مواد بھی ملتا ہے۔مثلاََ پاکستان کا سب سے پہلا ریڈیو اسٹیشن جو ”سندھ گورنمنٹ براڈکاسٹنگ اسٹیشن“کے نام سے شروع ہوا،اسے چند محب وطن پاکستانیوں نے محض اپنے جذبے اور لگن کے باعث شروع کیا۔۵اگست ۱۹۴۷ء کو شروع ہونے والے اس ریڈیو اسٹیشن نے ۱۰اگست کو باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا۔۱۴اگست کو پاکستان کے قیام اور قائد اعظم کے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف اٹھانے کی کاروائی کا آنکھوں دیکھا حال نشر کیا۔۰۲اگست کو وائر لیس ایکٹ کے تحت اسے بند کر دیا گیا۔پھر ریڈیو پاکستان کے مختلف شعبوں کے بارے میں بھی اچھی خاصی معلومات فراہم کی گئی ہے۔تاہم اس کتاب کا بیشتر حصہ ریڈیو اور عام زندگی سے وبستہ دوستوں اور دیگر احباب کی یادوں پر ہی مشتمل ہے۔اس میں اوائل ہی سے پاکستان کے ”طبقۂ اشرافیہ“ کی عوام سے بے تعلقی ظاہر ہوتی ہے۔ایسے لوگوں کا ذکر بھی ہے جو بہت ترقی کرکے بھی سراپا انکسار رہے اور ایسے افراد کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو پوش علاقے میں چلے جانے کے بعد اپنے پرانے گھر کے کورنگی جیسے علاقے کو نہ صرف بھول گئے بلکہ اس سے بھی انکار کر گئے کہ وہ کبھی وہاں رہتے تھے۔ جمیل زبےری کی ریڈیو اسٹیشن کی ملازمت کے مختلف تجربے زندگی کے کئی پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں جمیل زبےری کا بیان کردہ ایک شگفتہ سا واقعہ پیش ہے : ریڈیو پاکستان کراچی سے ایک فنکار غالب کی غزل گا رہا تھا۔اس میں غالب کا مصرعہ ہے
قید حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
فنکار اسے یوں گارہا تھا قیدو حیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں۔۔۔زیڈ اے بخاری ڈائریکٹر جنرل ریڈیو سن رہے تھے۔انہوں نے فوراََ ڈیوٹی آفیسر کو فون کیا۔قیدو حیات و بندو غم،دو کیسے؟ یہ تو چار ہوئے۔ڈیوٹی افسر نیا تھا اس نے کہا حضور ابھی ٹھیک کراتا ہوں۔ذرا ہی دےر میں فنکار اس مصرعہ کو یوں گا رہا تھا۔
قیدو حیات و بندو غم اصل میں چاروں ایک ہیں
یاد خزانہ میں جہاں زندگی کی بہت سی تلخ سچائیاں اور بے رحم حقائق ملتے ہیں وہیں ایسی ہلکی پھلکی شگفتہ باتیں بھی ساتھ ساتھ ملتی ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی میں ملنے والے بہت سے لوگوں کو بڑی محبت کے ساتھ یاد کیا ہے۔انہوں نے برملا اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں چار فراد سے مل کر بے حد متاثر ہوئے تھے۔تین امریکی خلا باز نیل آرمسٹرانگ،ایڈون الڈرن اور مائیکل کولنز۔۔۔اور چوتھے پاکستانی سائنسدان پروفیسر عبدالسلام۔وہ پروفیسر عبدالسلام کو نوبل انعام ملنے سے بہت پہلے ملے تھے،اس کے باوجود وہ ان کی شخصیت سے بیحد متاثر اور مرعوب ہوئے۔انہوں نے اس کا اعتراف فخریہ طورپر کیا ہے۔
”یاد خزانہ“ کا انداز بیان سادہ ہے۔جمیل زبےری کی سادہ نثر اپنی سادگی میں لفظوں کا جادو تو نہیں جگاتی لیکن ان کے بیان کردہ واقعات میں ایک مٹتے ہوئے عہد کی یادوں کا انوکھا جادو ضرور ہے۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ:جنوری ۲۰۰۴ء)