” سفر جاری ہے ” کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے دو چیزیں شدت سے یاد آئیں ۔ بچپن میں ہم ایک نظم پڑھا کرتے تھے ، ” ثریا کی گڑیا ” ایک چیز تو یہی نظم تھی اور دوسری چیز پی ٹی وی کا خبر نامہ ، ثریا شہاب کے چہرے سمیت۔
نظم ثریا کی گڑیا میں گڑیا کے پاس ایک ننھی منی پیاری سی اور نازک سی پری آتی ہے ، لیکن گڑیا اس پری سے ڈر کر چیخنا چلانا شروع کردیتی ہے ۔ گڑیا کی چیخ و پکار سن کر ثریا اسے اٹھانے آتی ہے اور پری جہاں سے آئی تھی ادھر لوٹ جاتی ہے ۔ ثریا شہاب کے اس ناول میں بھی ایک گڑیا ہے ، جس کا نام صائمہ ہے ، لیکن اس گڑیا کا ایک المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی پری نہیں آتی بلکہ مختلف قسم کے جن بھوت آتے ہیں ۔ جاگیرداری کا جن ، سرمایہ داری کا جن ، بڑی بیگمات کی سماجی بہبود کی نام نہاد سرگرمیوں کا جن ، مارشل لاءکا جن ، ظلم و ستم کا جن ، نفرتوں کا جن، سازشوں کا جن، متوسط طبقے کی منافقتوں کا جن ……….. اس قسم کے بے شمار جن اس گڑیا کو گھےرے میں لئے نظر آتے ہیں ۔گڑیا کی چیخ و پکار بھی صاف سنائی دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود ثریا اپنی گڑیا کو سنبھالنے نہیں آ رہی ۔ اس کی دو وجوہات مےرے ذہن میں آتی ہیں ۔ یا تو ثریا میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ان جنوں کے نرغے سے اپنی گڑیا کو نکال کر لے جائے یا پھر ثریا آپ ہی وہ گڑیا ہے جو اتنے سارے جنوں میں گھری ہوئی چیخ رہی ہے ۔
پی ٹی وی پر ثریا شہاب کا خبرنامہ پڑھنا اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے ۔ ایک پہلو یہ ہے کہ نیوز ریڈر کا تعلق اس خبر نامہ سے اتنا ہی ہوتا ہے کہ جو خبر دی جائے پڑھ کر سنا دے ۔ سو صائمہ کے مرکزی کردار کے ساتھ ناول کی جو کہانی بنتی گئی ہے اس میں ناول نگار نے خبروں سے خاصا استفادہ کیا ہے ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس طرح نیوز ریڈر تھوڑی سی خبر اپنے چہرے کے ساتھ سناتاہے اور پھر خبرسے متعلقہ مناظر کی فلم دکھائی دینے لگتی ہے ، بالکل یہی انداز ا س ناول میں برتا گیا ہے ۔ خبر نامہ کے تعلق سے اس ناول کی چند خبریں سنئے ۔
”خان پور میں آپس کی دشمنی کا شاخسانہ تفصیلات کے مطابق دشمنی کی بنا پر ایک مزارعے کے گھر پر حملہ کر کے جب مرد گھر پر نہیں تھے ، عورتوں کو گھسیٹ کر باہر لے گئے اور انہیں رات بھر گلیوں میں برہنہ پھرنے اور ناچنے پر مجبور کیا ، ان کی بے عزتی کی ۔
لاہور سے آنے والی کار ٹرک سے ٹکرا گئی ، مسافر بس نے سکوٹر والے کو کچل دیا ، بسوں کا تصادم ، بس گہرے کھڈ میں جا گری ۔
زمیندار کے غنڈوں نے مزارعوں پر ہلہ بول دیا ، ان کے گھر جلا دیئے ، لوگوں نے جانیں بچانے کے لئے مسجد میں پناہ لی ، ہاتھ قرآن اٹھا کر واسطے دیئے ، اس پر بھی انہیں نہ چھوڑا دو افراد مارے گئے ۔
کارخانے میں کام بند کر دیا ………. حکومت نے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا تھا ۔ پٹرول کے نرخ بھی بڑھ گئے…….. پھانسی دے دی گئی …..
ہوائی جہاز کے اغوا کے سرغنہ کے رشتہ دار وں کی جیل میں آخری ملاقات ۔“
اس ناول میں ایسی خبروں کے ساتھ ان کے اذیت ناک مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
”سفر جاری ہے “ کی کہانی کا مختصر ترین خلاصہ یوں ہے کہ صائمہ نام کی ایک لڑکی ہے ، اس کے والد ترقی پسند نظریات کے حامی تھے اور اسی نظریاتی جدوجہد میں ہی فوت ہو گئے ۔ اس کی والدہ نے بعد میں چوہدری نسیم سے شادی کر لی جسے صائمہ نے پہلے دن سے لے کر آخر تک ذہنی طور پر قبول نہ کیا ۔ اعلیٰ سوسائٹی کی بیگمات کی سماجی بہبود کی سرگرمیوں کے دوران صائمہ کی ایک صحافی سلمان سے دوستی ہوتی ہے (جو بہرحال عام معاشرتی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے ) ۔ تب صائمہ کی امی اسے بہانے سے اسلام آباد لے جاتی ہے اور پیچھے چودھری صاحب کے کارندے سلمان پر تشدد کر کے اسے بھگا دیتے ہیں ۔ اسلام آباد سے واپسی پر صائمہ سلمان کو تلاش کرتی ہے مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا ۔ ادھر سوتیلے باپ سے اس نفرت بڑھتی جاتی ہے ، آخر وہ ماں کی اجازت سے اپنے تایا ابو کے پاس کراچی چلی جاتی ہے ۔ کراچی میں تایا ابو اور دیگر نظریاتی لوگوں کے ساتھ مل کر مارشل لا کے خلاف اور مروجہ سماجی نظام کے خلاف حصہ لیتی ہے ۔ یہیں اس کی ملاقات ہمایوں سے ہوتی ہے جو سلمان کا نعم البدل بن جاتا ہے ۔ مارشل لاءحکام کی سختیاں ، بعض نظریاتی لوگوں کی بزدلی ،بعض کی دھوکہ دہی سے ساری جدوجہد بے اثر ہو جاتی ہے ۔ صائمہ کے تایا ابو کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی دے دی جاتی ہے، ہمایوں دباؤ میں آ کر بےرونِ ملک چلا جاتا ہے ………..
اور صائمہ کا سفر ابھی جاری ہے ۔
ظلم اور جبر کے خلاف جدوجہد کا عمل مسلسل جاری رہنے والا ہے ، کیونکہ ہر مظلوم طاقت ملنے کے بعد خود ظالم بن جاتا ہے اور تب ظلم اور جبر کے نئے نظام کے خلاف ایک نئی جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ ایک خوبصورت گراسی پلاٹ پر گھاس کاٹنے کی مشین کو وقفے وقفے سے چلاتے رہنا پڑتا ہے ۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو خوبصورت گھاس کا میدان ، گھاس کے کھیت بلکہ گھاس کے جنگل میں تبدیل ہو جائے ۔ سو ظلم و جبر کے خلاف ہمیشہ جاری رہنے والی جدوجہد میں ہر ذی شعور صائمہ کے ساتھ ہے ، ثریا شہاب کے ساتھ ہے ۔
اب ناول کی بعض کمزوریوں پر بھی ایک نظر ڈالتے چلیں ۔
چودھری نسیم سے صائمہ کی نفرت نفسیاتی نوعیت کی ہے جس نے ان کی جاگیرداری کے باعث صائمہ کو انقلابی لڑکی بنا دیا ، لیکن یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنا بڑا جاگیردار اور کسی غےر عورت سے جب بھی اٹھکیلیاں کرتا ہے ، درختوں کے نیچے بیٹھا کرتا ہے ، کیا اسے محفوظ ٹھکانا میسر نہیں تھا ؟……….چودھری نسیم ملتان ، بہاولپور کے جاگیردار ہیں ، انہیں سجادہ نشین اور پیر بھی ظاہر کیا گیا ہے جو مےرے لئے ناقابل فہم ہے ۔ ملتان اور بہاولپور کے علاقوں میں صرف قریشیوں اور سیدوں کی پیری اور سجادہ نشینی چلتی ہے ۔ بالائی پنجاب میں بے شک بلے شاہ کے ارائیں مرشد بھی مل جاتے ہیں ، لیکن ملتان سے لے کر سندھ تک آج بھی کوئی چودھری پیر نہیں ملے گا ۔
سلمان اور صائمہ کو جب کار میں شدید بارش کے باعث رکنا پڑتا ہے ، تب دونوں اچھے بھلے اگلی سیٹوں پر محفوظ بیٹھے تھے ۔ ثریا شہاب نے محض کسی فلمی سین کی طرح ہےرو ہےروئن کے کپڑے گیلے کرنے کے لئے انہیں اگلی سیٹوں سے اتار کر پچھلی سیٹوں پر پہنچا دیا ۔ بھیگے کپڑوں کا جسم سے چپک جانا اور پھر دونوں کا قریب ترین ہو جانا …………. سوال یہ ہے کہ صائمہ اپنے سوتیلے باپ کے جس فعل کو گندہ سمجھتی ہے خود بھی اسی راہ پر کیوں جانا چاہتی ہے ؟………
ایک طرف تو صائمہ غریبوں کی ہمدرد اور ان سے محبت کرنے والی لڑکی ہے دوسری طرف جب اسے اخبار میں سلمان کی جگہ کوئی اور بیٹھا نظر آتا ہے تو اس کے کسی عیب یا برائی کو بتائے بغےر اس کی غربت کو نشانہ بنایا گیا ہے ……سلمان کی سیٹ پر ایک ٹٹ پونجیا سا ……… میلی شلوار قمیض پہنے کوئی شخص بیٹھا تھا حالانکہ اس غریب کا سلمان کو بھگانے میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ناول کے صفحہ 102 سے پتہ چلتا ہے کہ ہمایوں شاعر بھی ہے لیکن صفحہ 110 پر یہی شاعر اپنے شاعر ہونے سے انکار کر رہا ہے ……….. ” دیکھ لو میری آنکھیں کیا کہتی ہیں ، میں شاعر نہیں مجھے خوبصورت الفاظ یاد نہیں ۔“
یہ چند مثالیں ہیں ، اس طرح کے اور جھول بھی ناول میںموجود ہیں ۔ ناول کی ایک اہم خوبی جسے شاید بعض ناقدین کمزوری قرار دیں لیکن میں اسے خوبی سمجھتا ہوں کہ صائمہ محبت کے معاملے میں اول سے آخر تک Teen Agerرہتی ہے ۔ اس کا محبت کرنے کا کچی عمروں والا انداز ہے جو اس کے اندر کی سچائی کا محجوب اظہار ہے ۔ محبت میں انسان Teen agerنہ ہو تو محبت محبت نہیں رہتی ، شاید بزنس جیسی کوئی چیز بن جاتی ہے ۔
آئیے اب اس ناول سے چند اقتباسات دیکھیں اور اندازہ کریں کہ ثریا شہاب کے قلم میں کتنا زور ہے ! ……………
” آپ چائے کی پیالیوں اور سگریٹوں کے دھوؤں میں انقلاب لا رہے ہیں ، تبدیلیاں ڈھونڈ رہے ہیں ، کیا ہم آرام طلب ، کاہل اور موقع پرست نہیں بن چکے ؟ ہم میںکون کتنی قربانی دینے کو آمادہ ہے ؟ چھوڑیئے یہ نظریاتی باتیں ، انسانی حقوق ، انسانی زندگیوں کے بارے میں آپ کا نظریہ اور فلسفہ کیا کہتا ہے ؟ بقول آپکے لوگ جیلوں میں مر جائیں اور آپ یہاں آرام سے بیٹھے رہیں؟“
” اقتدار کے لیے خطرہ ہتھیار نہیں بلکہ لوگوں کے ذہن اور ان کی سوچ ہوتی ہے ۔ ذہن جب بغاوت پر اتر آئیں تو دنیا کی کوئی طاقت اوربڑی سے بڑی قوت بھی انہیں کچل نہیں سکتی “
” اس نے اپنی خشک آنکھوں کو رگڑا جہاں ساون بھادوں کے سارے موسم بیت چکے تھے اور اب گرم ریت بھرے صحراؤں کی آندھیاں چل رہی تھیں ۔“
” اس نے گائے کو دیکھا جو سر جھکائے بارش میں کھڑی بھیگی ہی چلی جا رہی تھی ۔ اپنی قوم کا بھی یہی حال ہے ، ایک کتا دم دبا کر دوڑا چلا جا رہا تھا “
”جب کہنے کو بہت کچھ ہوتو کچھ بھی نہیں کہا جاتا ۔“
” ادھر ادھر چاروں طرف دیکھو ، تو کہانیاں ہی کہانیا ں بکھری پڑی ہیں ، سچی کہانیاں ، انسانوں کی کہانیاں اور جنوں جیسے انسانوں کی کہانیاں جو لوگوں کو دکھ دیتے اور خوش ہوتے ہیں ۔ جں کے پاس اتنی قوت اور طاقت ہوتی ہے کہ پلک جھپکتے ہی غریبوں کی دنیا اجاڑ سکتے ہیں ، اپنے اپنے طلسماتی محل بنا سکتے ہیں ، جادو کی چھڑی سے نہیں طاقت کی لاٹھی سے ……….. معصوم شہزادیوں کو اپنے محل میں اڑا کر لا سکتے ہیں ۔“
” تم اپنے آپ کو سمجھتے کیاہو ، ٹھیکہ لے رکھا ہے مذہب کا ، بس تم کو ہی زندہ رہنے کا حق ہے اور بات کرنے کی آزادی ہے ۔“
ایسے تیور اور لب و لہجے سے ثریا شہاب کے خوش آئند ممکنات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے سرمائے اور طاقت کے بل پر ، مذہب کے نام پر اور مارشل کی چھتری تلے عوام کا استحصال کرنے والوں کے کردار کو اجاگر کیا ہے ۔ یہ وہی کردار ہیں جن سے ہم سب اخبارات کی خبروں کے ذریعے بخوبی آگاہ ہیں ۔ لیکن ثریا شہاب نے ان کرداروں کو خبر کی سطح سے اٹھا کر ناول کی سطح پر پیش کیا ہے ۔ مارشل لاءکی وجہ سے جو لسانی اور مذہبی گروہ متحرک ہوئے ان کے بارے میں ہلکا سا اشارہ موجود ہے ۔ لیکن مارشل لاءکا پیدا کردہ کلاشنکوف کلچر اور ہےروین کلچر ناول میں دکھائی نہیںدیتا ۔ مےرا خیال ہے مارشل لاءکے سائے تلے ابھرنے والے کلاشنکوف اور ہےروین کلچر نے ہی وطن عزیز میں مختلف لسانی ، فرقہ ورانہ اوردوسری گروہی اختلافات کی آگ بھڑکائی ہے ۔ شاید ثریاشہاب کے اگلے ناول میں ان استحصالی رویوں کو بھی اجاگر کیا جائے ۔
نیم سیاسی ، نیم سماجی مسائل پر تحریر کیا گیا ثریا شہاب کا ناول ” سفر جاری ہے ” اپنے پسِ منظر سے ابھرنے والا ایک تلخ مگر دلچسپ ناول ہے ، جس میں زندگی کا روگ اور محبت کی اذیت دونوں گلے مل رہے ہیں ۔ یہ بیک وقت ناول بھی ہے اور صائمہ کی ذات کا سفر بھی۔
اردو ادب میں جہاں بے شمار ٹریش چھپ رہا ہے ، اگر کوئی اچھی کتاب چھپ کر آتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے بے ادب مادہ پرستی کے اس تاریک دور میں ایک اور چراغ جل اٹھا ہے ۔ ” سفر جاری ہے ” کو بھی میں ایسا چراغ سمجھتا ہوں۔ ۔جھٹپٹے کے وقت اس چراغ کو روشن کرنے والی ثریاشہاب کو اس پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
(مطبوعہ ماہنامہ شاہین ڈنمارک شمارہ : فروری ۱۹۹۷ء) )