صلاح الدین پرویز کا تازہ ترین ناول”ایک دن بیت گیا“ اس وقت میرے سامنے ہے۔ بنیادی طور پر یہ ناول مٹتی ہوئی انسانی قدروں اور گمشدہ کلچر کا نوحہ ہے جسے آج کے مشینی او رسائنسی ماحول نے ہڑپ کر لیا ہے۔ ناول کے اہم کرداروں کو ان کی اہمیت کے لحاظ سے میں نے چار حصوں میںتقسیم کر کے دیکھا ہے۔
۱۔ ساگِر،ودیا اور چندر مکھی ۲۔گاڑی بان، سوگندھی
۳۔ راجہ ، گروجی ۴۔ بجلی اور ملکہ
ساگر سمندر کی علامت ہے ۔ سمندر جو بے پناہ وسعتوں اور زندگی کا مظہر ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو ساری زندگی ہی ساگر سے پھوٹتی ہے۔ یوں ساگر کی ساری جستجو کو اس کی اپنی تلاش کا سفر کہا جا سکتا ہے ۔ودیا علم کی علامت ہے ۔ علم جو سمندر کی طرح گہرا اور بے پایاں ہے ۔ چندر مکھی حسن کی علامت ہے۔ساگر، ودیا کے کہنے پر سفر پر نکلتا ہے۔ سفر کی ساری صعوبتیں، گیان کے سارے عذاب جھیلتا ہے۔ حسن کے روبرو وہ بھٹکتے بھٹکتے باربار بچتا ہے۔ گاڑی بان جو ودیا کا باپ ہے اور جس کی بیوی سوگندھی گم ہو چکی ہے۔ماضی کی ایک خوبصورت اور تخلیقی سچائی کے استعارے ہیں۔پہیے کی ایجاد اگرچہ ایک ضرورت ہی تھی لیکن بنیادی طور پر یہ ایک تخلیقی عمل تھا۔ ایسا تخلیقی عمل جو زمین ، سورج، چاند اور ستاروں سے مشابہ تھا بلکہ پہیے کی گولائی کسی مثلث کے برعکس خود خالقِ کائنات کی وحدت کی گواہی تھی، ایسی گواہی جس کے جواز میںتب کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی تھی لیکن جسے پہیہ بنانے والے تخلیق کار روحانی سطح پر محسوس رہے تھے ، گاڑی بان کی بیوی سوگندھی کی گمشدگی دراصل اس تخلیقی سانچے کی گمشدگی کا اظہار ہے جس کے بغیر تخلیقی جوہر صور ت پذیرنہیں ہو سکتا۔ سوگندھی کی گمشدگی اس المیے کی طرف واضح اشارہ ہے کہ پہیہ بیل گاڑی سے چل کر جنگی طیاروں تک پہنچ کر اپنی تخلیقی سچائی کھو کر اس سائنسی اور مشینی عہد کی نام نہاد ترقی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ودیا جو علم کی ابتداءاور انتہا ہے اس کا اس سائنس سے کوئی تعلق نہیں جو تخلیقیت سے عاری سراسر میکانزم اور کمپیوٹر ازم ہے۔
میںنے شروع میں لکھاہے کہ ساگر کی ساری جستجو اس کی اپنی ذات کا سفر ہے ۔ ساگر خود اپنی ایک کویتا میں کہتا ہے ۔
”ودّیا اور گاڑی بان
میرے ہی دو نام ہیں
اورمیں ۔۔۔۔ اپنے ناموں کو لکھنا سیکھ رہا ہوںجو میںبھول گیا تھا۔“
اپنی ذات کے سفر میںساگر کا ایک مکالمہ سنئیے:۔
”تم سادھو نہیں ہو تو اس جنگل میں اس ڈاڑھی اور ان جٹاﺅں کے ساتھ کیوں بھٹک رہے ہو؟“
”میں اس جنگل میں بھٹک نہیںرہا ہوں بلکہ دکھ اور سکھ کا گیان کر رہا ہوں۔“
”کیول دکھ کہو۔۔۔ یہ سار اسنسار ایک دکھ ہے، کیول ایک دکھ میری بیمارماں کی طرح۔“
”لیکن بیماری بھی انیوار یہ ہے۔ یہ ہمارے شریر اور آتما کا ایک بہت چھوٹا سا بھاگ ہے اور اس کا نہ ہونا دکھ ہے۔۔۔۔ اور ہونا نہ ہونا تو دکھ او رسکھ کا ایک تسلسل ہے اور تسلسل سنسار کا دوسرا نام ہے۔“
راجہ جبریت کی علامت ہے اور گوروجی اس جبر کی کھوکھلی روحانیت کے حوالے سے تحفظ کی علامت ، اس جبریت نے جہاں انسانوں کو غلام بنایا ہے وہاں فن کا روں کو بھی قید کر رکھا ہے۔ شاعر، سنگتراش ، موسیقار اور مورخ سیاح فنکارانہ دانش کی علامتیں ہیں جنہیں راجہ نے قید کر رکھا ہے۔
بجلی اور ملکہ آج کی ماڈرن سوسائٹی کی عور ت کا بھیانک چہرہ ہیں، راجہ کی جبریت آج کے دور میں نئے لبادے اپنا رہی ہے لیکن صلاح الدین پرویزان سارے لبادوں کو تار تار کر دیتاہے۔آئیے چند اقتباسات سے آج کے بعض ملکوں کے نظا م ہائے حکومت کی جھلکیاں دیکھیں اور ان کی اصلیت بھی۔
۱۔”لیکن مخالف سمت سے یہ کس کی آوازیں آر ہی ہیں؟“
”گنگوا کی“
”یہ چلا کیوں رہا ہے؟“
”یہ بادشاہ بننا چاہتاہے۔“
”کیوں؟“
”ہم بھی تو بادشاہ بننا چاہتے ہیں۔۔۔ سارا دیش ہی بادشاہ بننا چاہتا ہے۔“
”اگر سب بادشاہ بن گئے تو حکومت کس پر ہوگی؟“
۲۔”لیکن کرشن اور ارجن اب کہاں ہیں؟“دھرت راشٹر نے پوچھا۔
”وہ دونوں کھیلنے گئے ہیں۔“سنجے نے جواب دیا۔
۳۔”اس کے بدن پر سجے ہوئے ہتھیاروں اور بوٹوں کی کھٹ کھٹ سے میرا قلم دُکھنے لگا ہے۔“
۴۔”موت تمہارے بالکل پیچھے کھڑی تالیاں بجاتی رہتی ہے لیکن تم ان تالیوں کونہیںسنتے کیونکہ تم شبدوں میں مست ہو جاتے ہو۔۔۔اور تب تم شبد بھی نہیں رہتے، بس ایک کھڑکھڑاتا ہوا ووٹ بن جاتے ہو۔“
اور صلاح الدین پرویز کے ایک گیت کے یہ آخری بول اس کے نڈھال دل کی آواز بن جاتے ہیں۔
”میں کیسے زخمی سفر میں مبتلا ہوں
کہ اچھا ہونے کی دعا بھی بھول گیاہوں۔“
یروشلم ، افغانستان اورعرب ممالک پر ہونے والے مظالم کو صلاح الدین پرویز ا پنی روح میں محسوس کرتا ہے اور تڑپ اٹھتا ہے ۔مذہب کے نام پر فسادات ہوں یا گورے کالے کے فسادات ۔ انسانیت کی تذلیل نے صلاح الدین پرویز کی روح کو گھائل کر دیا ہے اور وہ ان صداقتوں کو کھوجنا چاہتا ہے جہاں سب کے لیے محبتیں ہیں اور نفرتیں کسی کے لیے بھی نہیں۔وہ صداقتیں جو جنگل اور دیہات کے کلچر میں ہمیشہ جگمگاتی رہتی تھیں اور جنہیں آج کے سائنس کے سویلائزیشن نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
گمشدہ کلچر سے صلاح الدین پرویز کی وابستگی بلکہ پیوستگی کو اس زاویے سے بھی دیکھیں کہ وقت کی ماہیت کے بارے میں فلسفیانہ خیالات سے لے کر اس دنیا میں اپنی سہولت کے لیے ہم نے جو سال مہینے اور دن بنا رکھے ہیں صلاح الدین ان میں بھی جنگل او ردیہات کے مناظر اور مظاہر کی منقبت کرتا ہے ۔ ساگر کا گیت ”ہے مہاراج تمہاری گاڑی چلتی رہتی ہے“بارہ مہینوں کی کلچرل تقسیم ہے۔ ودیا نے چار قیدی فن کاروں کا جو تعارف کرایا ہے اس میں سنگتراش کے تعارف میں وہ سات دنوں کی تخلیق کا قصہ بیان کرتی ہے۔اس میں بھی صبح ، شام ،دوپہر ، دھوپ ، چاند، ٹھنڈک، رات ، خوف اور عبادت کا تذکرہ کیا ہے جو کلچر کا ایک اہم حصہ ہیں، ناول میں مختلف جگہوں پر مبنی جذبوں اور تجربوں کی تمثالیں اور علامتیں مناظر و مظاہر فطرت سے لی گئی ہیں۔ سارے ناول میں دھرتی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
دھرتی ماں ہے لیکن ساگر جو سمندر ہے ۔وہ اسی کا ایک بڑا حصہ ہے ودیا کے پرشنوں کے اترتلاش کرنے کے لیے بیک وقت سیاحی اور غواصی کے عمل میں مبتلا ہے۔ اس عمل میں جب وہ کافکا کے انداز میں ماضی کو حال میں سموتا ہے تو اعلیٰ معیار کی مثال قائم کر دیتاہے ۔البیرونی ابن بطوط، سدھارتھ، چانکیہ، میگسیتھنز، اگسٹائن، ابن رشد، مہاویر، الفارابی، کنفیوشس ، فلابیئر ، شوجی،آئن سٹائن یہ سارے کردار آج کے عہد میں منقلب ہوتے ہیں تو اس عہد کی کریہہ صورت ان کے چہروں پر چمکنے لگتی ہے۔جب کنفیوشس کے پاس ایسی لڑکی ہو جو بڑے بڑوں کو کنفیوز کرنے لگے ۔ جب یورپ میں مسیحیت کی تعلیم پہنچانے والا اگسٹائن اب مسیحیت کو کمائی کا ذریعہ بنالے اور جب جنس کی علامت دیوتا شوجی آئن شٹائن سے رازداری میں Electric Dildoکی فرمائش کرنے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنس نے تمام اخلاقی اور روحانی قدریں پامال کر دی ہیں۔
”تم زندگی کے کسی کمزور لمحے میں اپنی انا کی گھگھی سے بندھ گئے ہو اور کریہہ آوازوں سے ساری مٹی کو لہولہان کر رہے ہو ۔ تم اس وقت سینکڑوں خداﺅں کی اس دنیا میں، خود ایک زبردست خدا بن گئے ہو۔“
”ابھی ابھی ریڈیوسے ایک اسپیشل بلیٹن نشر ہوا ہے کہ اقصیٰ میں رکوع و سجود میں گھری کچھ عبادتوں کا خون کر دیا گیا ہے۔۔۔۔گنبد میں ہزاروں چھید ہو گئے ۔(سات سمندر پار سے ہنسی کی آوازیں بدستور آر ہی ہیں) لیکن اس کمینے قاتل کا کیا ہوا، سنا ہے وہ گولڈ میڈل لینے امریکہ جا رہاہے۔“
”اے اوپر سے بھیجنے والے مہارج!
اوپر سے نیچے اتر اور دیکھ تیری کُن جنی پر
کتنے کُن جڑ دئیے گیے ہیں۔۔۔ تو کتنی بڑی
بھیڑ بنتا جا رہا ہے، اس دھرتی پر
جب کہ اوپر تو صرف اکیلا ہے۔“
”ہم جو سائنس کی بہت سی برکات سے مستفیض ہو رہے ہیں ابھی تک سائنس کے آخری وار سے بے خبر ہیں ۔ سائنس کی عظیم ترقیات کی عظمتیں اپنی جگہ بے شک دنیا میںراکٹ بن رہے ہیں۔تیل ابل رہا ہے ،ہم ایٹم کی ایج سے آگے جا رہے ہیں۔نیپام کے آگے نیوٹران ہے، اور نیوٹران کے آگے۔۔۔“
سائنسی ترقیات میں ڈوبا ہوا ہمارا معاشرہ اس چکا چوند سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ہمار ا معاشرہ تو ساگر کی اس فریاد پر کان دھرنے کو تیا رنہیں!
” میرے سارے درخت ، میرے سارے برگزیدہ پیڑ کس نے کاٹ ڈالے؟
ادھر ادھر ، یہاں وہاں کہیں کوئی جنگل بھی نہیں ہے۔
بھے اور ابھے کے پھول کس نے توڑلیے؟“
امن کے کبوتر زخمی ہو ہو کر مرتے جا رہے ہیں لیکن کوئی اس طرف دھیان نہیں دے رہا۔
”کون ہے جو سور جوں میںوشنو ہے او ر ستاروں میںچندر؟
”کوئی نہیں!“۔۔۔ ساگر کے من نے جواب دیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اس طرح ایک دن بیت گیا۔“
ان لفظوں کے ساتھ ناول ختم ہو جاتاہے لیکن اگلے صفحہ پر صلاح الدین پرویز نے سوال کیا ہے۔”کیاایک دن بیت گیا؟“
مجھے لگتا ہے یہ سوال مجھی سے پوچھا گیا ہے۔ ابھی دن نہیں بیتا۔ ابھی چند لمحے باقی ہیں۔ ساگر پھوٹ پھوٹ کر روتے روتے تھک گیا ہے۔مگر اس کی سسکیاں ابھی آر ہی ہیں گاڑی بان کی سوگندھی کی طرح ودیا بھی کھو گئی ہے۔ عقل و دانش سائنس کی قید میں آگئی ہے۔ ابھی چند لمحوں کے بعد جب ساگر کی سسکیاں بھی آتی بند ہوجائیں گی تب یہ دن بیت جائے گا۔اور سائنس کے ایٹم نیپام اور نیوٹران کا اندھیرا ساری دنیا پر چھا جائے گا لیکن اس اندھیرے کے بعد نئی صبح بھی طلوع ہوگی جس میں کئی نئے آدم اور کئی نئی حوّائیں ہوں گی۔ یہ دھرتی ہو گی ، ودیا ہوگی، ساگر ہوگا، فطرت اور اس کے مناظر ہوں گے اور نئی دنیا آباد ہو گی۔ محبت اور سچ کی دنیا ۔اپنے افسانہ”حوّا کی تلاش“ میں مَیں نے اسی آنے والے کل کی خبر دی تھی۔
”ایک دن بیت گیا“ اپنے موضوع کے لحاظ سے بھی اور اسلوب کے لحاظ سے بھی جدید اردو فکشن میں ایک بڑا اہم ناول ہے۔ اس ناول سے جدید اردو افسانے اور ناول دونوں کی آبرو بڑھی ہے۔
(مطبوعہ ماہنامہ اوراق لاہو ر شمارہ: نومبر دسمبر 1983ء)