منشایاد جدید اردو افسانے کا معتبر نام ہیں۔ان کی افسانہ نگاری کا آغاز(۱۹۵۵ءمیں) اس دور میں ہوا جب بیانیہ اسلوب کاافسانہ اپنے عروج پر تھا۔یہ کرشن چندر،بیدی ،قاسمی،منٹواورغلام عباس کادورتھا ۔اپنے دوسرے ہم عصروں کی طرح منشایادکے ابتدائی افسانے بھی اسی روایت میںلکھے گئے لیکن ان کے ہاں آہستہ آہستہ ایک فطری ارتقا ہوا اوراسلوب اور موضوعات میںتبدیلی آتی چلی گئی ۔۱۹۶۰ءکی دہائی میںجب جدید افسانہ تجرید کی بھول بھلیاں میں گم ہو کرکہانی پن اور قاری سے دور ہوتاجارہاتھا،منشا یاد نے جدت اورنئے پن کے باوجود افسانے میںکہانی پن کی روایت کومضبوطی سے قائم رکھااور اب یہ عالم ہے کہ افسانے میںکہانی پن واپس آچکاہے اورعلامت اورجدت کاوہی متوازن اورمعتدل اسلوب پسندیدہ اورمقبول قرار پایاہے جس میںابلاغ کاکوئی مسئلہ نہ ہو۔پنجابی کے ایک مجموعہ سمیت منشایاد کے افسانوں کے آٹھ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ان کاپہلامجموعہ جس میںان کے ۱۹۵۵ءسے لے کر ۱۹۷۵ءتک کے افسانوں کاانتخاب شامل تھا، ۱۹۷۵ءمیںشائع ہوا۔ اوراق،طلوعِ افکار، لہراں اور چہارسو میںان پرخصوصی گوشے شائع ہوچکے ہیں ۔ انہیں بعض افسانوں پر ایوارڈبھی مل چکے ہیں۔ان کے اردواور انگریزی تراجم پر مشتمل چندکتابیں انڈیاسے بھی شائع ہوچکی ہیںن کاایک پنجابی ناول” ٹاواںٹاواں تارا “ بھی بے حد مقبول ہوا اوراکادمی ادبیاتِ پاکستان کی طرف سے اس پر وارث شاہ ادبی ایوارڈ دیاگیا۔اس ناول پر جواردوڈراماسیریل ”راہیں“ بنایاگیااس پر بھی منشایاد کو سال کے بہترین سکرپٹ کاایوارڈ حاصل ہوا۔اب وہ نہ صرف اپنا تشخص مستحکم کر چکے ہیں بلکہ تجریدیت میں کھوئے ہوئے افسانہ نگار بھی ان کے انداز سے راہِ راست پر آنے لگے ہیں۔منشا یاد نے جدیدیت کے تجریدی ماحول میں افسانہ نگاری شروع کرکے خود کو اس میں گم نہیں ہونے دیا بلکہ اس انداز سے کہانی لکھی کہ افسانے سے گمشدہ کہانی اپنے جسم میں واپس آگئی۔ اس لحاظ سے منشا یاد کا شمار گنتی کے ان چند افسانہ نگاروں میں کیا جانا چاہئے جو افسانے میں کہانی پن واپس لانے والے جدید افسانے کے پیشرو کہلا سکتے ہیں۔
زےرِ نظر کتاب شہرِ فسانہ ان کے پچاس افسانوں پر مشتمل انتخاب ہے۔یہ انتخاب انہوں نے خود کیا ہے۔اس لحاظ سے شہرِ فسانہ کو ان کے اپنے پسندیدہ افسانوں کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔۔ان افسانوں میں مجھے چند ایسی خوبیاں ملیں جنہیں اردو افسانہ میں منشایاد کی خوبیاں کہا جا سکتا ہے۔مثلاََ حسبِ ضرورت پنجابی الفاظ کا تخلیقی استعمال، گرے پڑے لوگوں اور غریب تر گھرانوں کے معاملات،دیہاتی معاشرت کی بھرپور عکاسی، دیہاتی اور شہری زندگی کے درمیان سانس لیتے لوگوں کی ذہنی اور نفسی کیفیات کی ترجمانی،بھینسوں اوربھےڑ بکریوں سے لے کرکتوں بلیوں حتیٰ کہ درختوں تک کی بے زبانی کو زبان دینا،روحانی کیفیات اور سائنسی انکشافات کے درمیان سے گزرنے کا عالم، داستانوی تحےر،فرقہ وارانہ فساد کرانے والوں کے انسانی ا لمیہ سے لے کر لطیف جنسی نفسیات کے اظہار پر یکساں تخلیقی گرفت۔ اور ان سب کے ساتھ جدید اردو افسانے کو محبت کی کہانیوں سے مالا مال کرنا۔ان پچاس کہانیوں میں سے ہر کہانی تفصیلی مطالعہ کا تقاضا کرتی ہے،لیکن تجزیے کا اختصار اتنی طوالت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہر حال اپنی طرف سے ہر کہانی کے بارے میں ایک دو سطری تعارفی اشارے کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
تےرھواں کھمبا:ناکام محبت کا خوبصورت اور یاد گار افسانہ جسے اچھوتے اسلوب نے شاہکار بنا دیا ۔ایک حالیہ انٹرویو میںمنشایادنے اس خواہش کاظہار کیا کہ کاش میں اس جیسا افسانہ اب بھی لکھ سکتا ۔پتہ نہیں چلتاہیروکون ہے اورولن کون ۔ افسانے کا”وہ“یا اسکی سابقہ محبوبہ کا شوہر؟ البتہ پڑھنے والے کاجی بھی مخالف سمت سے آنے والے انجن سے ٹکرا کرپاش پاش ہوجانے کوچاہنے لگتاہے ۔
بند مٹھی میں جگنو:ایک ایسی لڑکی کی جنسی نفسیات کی گرہوں کی کہانی جسے پامال راستو ں پر چلنے ، دہرائی ہوئی باتوں کو دہرانے اور روایات کے لیر لیر ہو چکے فرسودہ لباس کو بار بار پہننے سے ابکائیاں آتی تھیں۔ وہ روایت پرست معاشرے میں تازگی اور نئے پن کی تلاش میں نکلی مگر اس پر فرسودگی کے پر نالے گرنے لگے ۔
راستے بند ہیں: پوچھا گیا جب تمہاری جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی توتم میلہ دیکھنے کیوں آئے ہو ۔کہنے لگامیں میلے میں نہیں آیا میلہ خود میرے چاروں طرف لگ گیا ہے اور میں اس میں گھر گیا ہوں اور اب نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔اسے سکھایا گیاکہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے یا کھایا پیاجارہا ہے وہ انسان کی مشترکہ لذت ہے اس لئے جب وہ کسی کو قلاقند کھاتا دیکھے تویہ سمجھے کہ وہ خودقلاقند کھا رہا ہے ۔اس نے اس خودفریبی پر عمل کیا اور ؟ ۔۔۔۔۔منشایاد کے پہلے پانچ بہترین افسانوں میں سے ایک ۔
کچی پکی قبریں:کوڈو کی خاموش محبت اور بولتے ہوئے احتجاج کی کہانی۔قبرستان میں بھی وہی گاؤں کا ماحول تھا امیر لوگوں کی قبریںاچھی اوربلند جگہوں پر اور پختہ اور کمی کاریوںکی نشیب میں ۔پکی قبروں پر دئیے جلتے اور قرآن خوانی ہوتی مگر کچی قبریں بارش سے ہموار ہو جاتیں ۔اس طبقاتی بُعداور اپنی محبت چھن جانے کے بعد گورکن کو ڈو فقیر نے نہ صرف انوکھا احتجاج کیا بلکہ حویلی والوں سے انتقام بھی لیا۔
پانی میں گھرا ہوا پانی:ایک مفلس اور بھولے بھالے کمہار کی کہانی ،جس نے گھوڑے بندر اور بیل بناتے بناتے ایک روز آدمی بنایااوراسے دھوپ میںسوکھنے کے لئے رکھ دیامگروہ غائب ہوگیا۔ اس کا خیال تھا زیناں اتنی حسین ہے کہ محض شیشہ دیکھ کربھی وقت گزار سکتی ہے کیونکہ وہ خود پانی میں گھرا ہو ا پانی تھا ۔وہ آوی میں برتن اور کھلونے پکاتا تھا مگر اس نے خود پک کر کبھی نہ دیکھا تھا اور نہیں جانتا تھا کہ آگ میں گھری ہوئی آگ کیاہوتی ہے ۔یہ صرف زیناںجانتی تھی جوایک بھینس اور گدھی کے عوض خریدی گئی تھی۔
اپنا گھر: زندگی کی یکسانیت، تصنع اور روٹین سے اکتائے ہوئے شحض کی کہانی جو سادگی کی تلاش میں دیہات کا رخ کرتا ہے مگر شہری زندگی کے سارے لوازمات اور تکلفات ہمراہ لے کر۔مگر جو سچ مچ کے مخلص اورسادہ لوگ ہوتے ہیں ۔ان کے رویوں میں سادگی اور بے ساختگی ہوتی ہے ۔باپ اور بیٹے کے رویوں کاکیا پیراڈاکس بنایا ہے ۔
باگھ بگھیلی رات:محبت اورسچائی کی ایک درد انگےز اور متاثر کن کہانی۔حکم ہوا سجاول موچی کو حاضر کیاجائے ۔سجاول کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔ان کمی کمینوں کے پاؤں کے نیچے زمین ہی کتنی ہوتی ہے؟ وہ کہنے لگی ابا اگر تم نے جھوٹی گواہی دی تو تم خدا کو اور میں اپنی سہیلیوں کوکیامنہ دکھاؤں گی ۔خونخوار بھیڑیوں میں گھری ہوئی ایک بھیڑ ایسی معصوم لڑکی کی کہانی جو اپنے محبوب سے دل کا حال بھی خودنہ کہہ سکی ۔ مگر گلباسی کے پھولوں،مسجد کے کنویں کی چرکھی اورگاؤں کی چڑیوں کو تاکید کرگئی وہ اس کے جانے کے بعد اس کااحوال ضرورکہیں۔ہائے میںایسے مارمکائیاں دیسوں دورکرائیاں۔
ماس اور مٹی:پترجب رب اسے بنانے لگاتو مٹی کم پڑ گئی ۔رب کواور بہت سے کام ہوتے ہیں اس نے اور بہت کچھ بناناہوتاہے۔صدیوں کی محرومی آنے والی نسلوں میںکیاکیاشکلیں اختیار کرتی ہے۔ اس کی ایک دلچسپ اور زمین سے جڑی ہوئی کہانی جس کامرکزی کردارناتوسانسی ایک مزاحمتی اوریادگار کردارہے ۔
اوور ٹائم:نماز جنازہ پڑھتے ،میت کوکندھادیتے اور قبر میںاتارتے ہوئے وہ برابراس کوشش میںرہا کہ بڑے صاحب کی اس پر نظرپڑ جائے اورجب وہ اپنی اپیل کے سلسلے میں حاضر ہو توانہیںیادآجائے کہ اس نے ان کی والدہ کے جنازے میںشرکت کی تھی مگربلند قامت لوگوں کواتنے کوتاہ قد آدمی کہاں دکھائی دیتے ہیں۔طبقاتی بعد کی ایک اور دلچسپ کہانی۔
خواہشیں سراب ہیں:”دی ٹائم از اوور“۔۔۔نہیں پلیز۔۔آپ کو یقیناً مغالطہ ہواہے ابھی تو میں نے زندگی کے پرچے کی ابتداہی کی ہے اورجوچندسطریںلکھی ہیں ان میں بھی بہت سی غلطیاں رہ گئی ہیں۔آئی ایم ویری سوری سر۔میںاب تک رف کرتارہاہوں۔ اگر مجھے ایک بار اور نئی کاپی دے دی جائے تو میںاپنے تجربے کی بنیاد پرپرچے کوبہترطریقے سے حل کرسکوں گا۔ایک اور موقع ۔۔صرف ایک چانس اور۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔”دی ٹائم از اوور۔۔ٹائم از اوور“
رُکی ہوئی آوازیں: الہامی کتابوں کے اسلوب میں لکھا ہوا اس شخص کاافسانہ جس کے دو منزلہ گھر کی چھت اور ملبہ اکھاڑلیاگیااور وہ آدھارہ گیا۔ مگر وہ بے بس اورنحیف تھا اوراحتجاج تک نہ کرسکتاتھا مگر پھر جمع ہونے لگیں اس کے اندرآوازیں،اوربرسوں کی رکی ہوئی باتیںاورمچلنے لگے غصے اورجوش کے جذبات۔اورپھٹنے لگااس کاسینہ رکی ہوئی باتوںاورآوازوں کے شور سے۔اورسنادیاہم نے تمہیں ایک دلچسپ قصہ۔اس شخص کاجوایک روز بادل کی طرح گرجے گااورلرز جائیںگے وہ سب اس کی آواز سن کر،جس میںبرسوں کی رکی ہوئی چنگھاڑ ہوگی۔
۱۹۷۸ء کا آخری افسانہ : پناہ: ا ۱۹۷۸ء کی سیاست کی خونخواری اورسفاکی سے پناہ مانگتاافسانہ ۔ جب دکھوں نے گھروںپر بسترلگالئے،سروں پر سخردوپہر تن گئی اور مرغیا ںپتھریلے انڈے سیتے سیتے ہلکان ہوگئیں۔بارات اور جنازے میںاورسہرے باندھ کرگھوڑی پرسوارہونے اور پھانسی چڑھنے میں فرق نہ رہا ۔اور اتنی سخت پابندی تھی کہ اندر ہی اندر جلوس نکلتے ہمیں کھانسنے دو ہمیںکھجلانے دوہمیں چھینکنے دو
بوکا: اس نے ٹھیک ہی توکہاتھاکہ کنویں میں گراہوابوکانکالنے کاکچھ فائدہ نہیں جب تک یہ پتہ نہ چلایاجائے یہ باربارپھینک کون دیتاہے مگراس کی بات پرتوجہ نہ دی گئی ۔آمریت کے کنویں اورجمہوریت کے بوکے کی ایک دلچسپ تمثیل۔دورآمریت اورسیاسی جبر کی ایک یادگارکہانی۔
تماشا:منشایادکا تمثیلی اورعلامتی اندازمیںلکھاہوا وہ شہکارافسانہ جس کے بارے میں ڈاکٹرگوپی چند نارنگ نے کہا” بہت کم ایساہوتا ہے کہ ہم کوئی کہانی پڑھ کر دم بخود ہوکررہ جائیںیاذہن کاساراخون ایک نقطے پرسمٹ آئے“ اور مظفر علی سید نے لکھا کہ تماشا پریم چند کے کفن،منٹوکے بابوگوپی ناتھ ،ہتک اوربو اوربیدی کے گرہن اورالہٰ آ بادکے حجام کے شانہ بشانہ نہیںتو ان کے فوراًبعد ضرورشمارکیاجاسکتاہے یعنی ایسے افسانوں کی ذیل میں جن کی نت نئی تفسیریںہوسکتی ہیں اورکوئی حتمی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
کاشی: ہمارابچپن خود رو اورنرم و نازک پودوںکی طرح ہوتاہے لیکن جیسے جیسے ہم عمر میںبڑے ہوتے جاتے اوربچپن کی سادگی اورمعصومیت سے دورہوتے جاتے ہیں ہمارے اندر جذبوں کی کونپلوں کی جگہ تناوردرخت اگ آتے ہیںاور ایک روزہمارا سارااندرکاٹھ کاہوجاتاہے۔اس خیال کو افسانہ نگار نے ذاتی تجربوں اورمشاہدات کی روشنی میںکہانی کاخوبصورت روپ دیا۔
راتب:راتب کی غلامی اپنوںکے بارے میں شکوک پیداکرتی اورسارااعتمادچھین لیتی ہے اورآدمی ہو یاقومیں اپنی جڑوں کوبھول کرراتب ڈالنے والوں کے سامنے دم ہلانے لگتے ہیں۔
آدم بُو: تنزل کے شکار معاشروں میں دین میں بھی حرص اورطمع شامل ہو جاتاہے اور درویشوں اور فقیروں کے کئی کئی منزلہ پلازے اورہوٹل کھڑے ہوجاتے ہیںاورحجرہ نشین امام مسجد اللہ رکھاتعویذ،گنڈے اور ختم درود کے نام پر روپیہ جمع کرکے لوگوں کوٹیوب ویل لگوانے اورٹریکٹرخریدنے کے لئے سود پر دینے لگتے اورمسجدوں پر اجارہ داری قائم کرلیتے ہیں تو حق سچ کی بات کرنا کہاں ممکن رہ جاتاہے ۔
مائی فٹ:پکی سڑک ترقی اورنئی ٹکنالوجی کی علامت ہے۔اس پرموٹراورمشین چلتی ہے جس کے کوئی جذبات نہیں ہوتے ۔یہ قدامت پسندی اورفیوڈلزم کے خاتمے کااعلان ہے۔ جہاں سے پکی سڑک شروع ہوئی نور محمد کی چودھراہٹ کااثر ختم اورایک نئی دنیاکاآغازہوا۔یہاں سب برابرہیں۔ مالک اورمزارعہ کافرق مٹ گیاوہ سب سواریاں اور گاہک بن گئے ۔ اسی لئے اب چودھری کودستارسنبھالنامشکل ہوگیا۔
جیکو پچھے:کم سنی میں اپنی جنسی شناخت اور کسی غیر جنس کے ساتھ موہوم سی وابستگی کے احساس کا نیا پن اپنے اندر خوف‘ تجسس اور پراسراریت لئے ہوتا ہے۔اس کہانی کے بارے میں منشایاد کی ایک ہم عصر افسانہ نگار خالدہ حسین نے لکھاہے کہ ایک اور معرکے کی کہانی ،جو اپنے موضوع اور اسلوب کی ایک حیران کن مثال ہے، ”جیکو پچھے“ ہے۔ میرا بس چلتا تو صرف اسی کہانی کے بارے میں لکھتی۔ احساس کی بے ساختگی، بھولپن اور جذبے کی انکشافی کیفیت نے اس کو ایک غیر معمولی کہانی بنا دیا ہے سب سے بڑھ کر اس کا وہ اسلوب جو الفاظ کو کردار بنا دیتا ہے۔ اس کہانی میں منشا نے ایک ماہر مصور کی طرح برش کے ایک دو طاقت ور اسٹروکس سے پورا کینوس پینٹ کر دیا ہے۔ تفصیلات جو بڑی لا پروائی اور شانِ بے نیازی سے اِدھر اُدھر پھینک دی گئی ہیں مگر گرتے ہی اپنے اپنے مقام پر موتی کی طرح جڑی گئی ہیں۔
شب چراغ:ڈاکٹر انواراحمد کاکہناہے کہ” منشا یاد کا یہ افسانہ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔ اس نے یہ افسانہ ملتان کی ایک شامِ افسانہ میں پڑھ کر بے پناہ داد سمیٹی تھی اور تب مجھے اس امر کا یقین ہوا تھا کہ کڑواہٹ ،تشنج اور لکنت سے رہائی پا کر ہی بڑی کہانی تخلیق ہوتی ہے۔ میں اس افسانے کی تشریح کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا ۔اس طرح میری کڑواہٹ اور جارحیت عود کر آئے گی۔ لیکن ایک ریاکار ماحول میںسچ اور خوبصورتی کے لئے جنگ لڑ نے والے سرفروشوں میں منشا یاد بھی شامل ہے۔
بیک مرر: بیک مرر پیچھے رہ جانے والے راستے کودیکھ کر سمت متعین کرنے کے کام آتاہے لیکن اگر ڈرائیور اسی میں کھو یارہے توحادثہ یقینی ہے۔ ماضی کی روایات ہمارے لئے مستقبل کی راہیں متعین کرنے میں مدد دیتی ہیں مگرہم رجعت پسندی پرناز کرنے لگیںتوحادثے کوکیسے روکاجاسکتاہے۔دہری معنویت کی ایک تجسس سے پُر علامتی اور تمثیلی کہانی۔
اپنا اپنا کاگ:زمین اوردیہی معاشرت سے جڑی ہوئی ثقافت میںسادگی اور خلوص تھااوررشتوں میں سچائی اورپاکیزگی۔نئی تہذیب نے زندگی کو آسانیاں اورآسائشیں تومہیاکردیں مگراس میں مفاد پرستی شامل ہوگئی جس نے آدمی کو محبت کے سچے ذائقوں سے محروم کردیا( اب کاگ بھی منڈیر پرنہیں ٹی وی انٹینے پربیٹھتاہے) اور اس کے منڈیروںپربولنے اور اپنے پیاروںکے سندیسوںکاانتظارکون کرتا ہے۔
ڈنگر بولی(دام شنیدن):ہم جانوروں اورپرندوں کومارکرکھاجاتے ہیںاگرہم ان کی زبان جانتے اوران کے خیالات اورفریاد سن سکتے توکیاہم پھربھی ایساہی کرتے؟۔منشایاد نے بھیڑ بکریوں کی زبان سیکھ لی اور ان کو ذبح ہوتے دیکھااوران کی باتیں نہ صرف سنیں بلکہ پڑھنے والوں کوبھی سنائیں۔آپ بھی وہ باتیںسنناچاہیںگے؟ لیکن کہیں گوشت خوری ترک نہ کردیجئے گا۔فتوی ٰ لگ جائیگا۔
دنیا کا آخری بھوکا آدمی:ہاںکبھی کبھی ایساہوتاہے کہ کسی غریب اورحاجت مند نے آپ سے اپنی ضرورت اورتکلیف بیان کی ۔معمولی سی مدد چاہی مگرآپ نے توجہ نہیںدی جوبعد میں آپ کے لئے دائمی خلش اور پشیمانی کاسبب بن گئی۔لیکن خود فریبی کاکیاعلاج کہ فرض کرلیاگیادنیاکاآخری بھوکاآدمی دنیاسے اٹھ گیا اوراب کوئی بھوکانہیںسوئے گا۔
غروب ہوتی صبح:ایک نوجوان کی کہانی جس کے والدین اوربہن بھائی وقت کو سودوزیاں کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔انہیںاپنے اپنے کام ،سرگرمیاںاورمفادات عزیزہیں مگر گھرکے نوعمرلڑکے کے جذبات اور احساسات جاننے کی فرصت نہیں ۔ وہ ایک رو ز بغاوت کردیتاہے مگر صرف اتنی کہ ایک پورادن اپنی مرضی سے ضائع کر دیتاہے ۔آہ وہ کس قیامت کادن تھا ۔پڑوس میں اس کی محبوبہ کی شادی ہورہی تھی ۔عین گھرکے سامنے شامیانے لگ رہے تھے۔بارات کے لئے پلاؤ اورزردے کی دیگیں چڑھی ہوئی تھیں ۔ اگر وہ دن بھرسڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کے نمبر پڑھتا اور ان کوآپس میں جمع کرتا رہا تو کیا ہوا آپ ہی بتائیے ایساقیامت کادن اورکس طرح بسر کیاجاسکتاتھا۔ایک محسوساتی کہانی۔
وقت سمندر: ہرنی کی طرح کلانچیں بھرنے والی نہایت حسین لڑکی کو اولڈ ایج میں اپاہج ہوکروہیل چیئر کاحصہ بنے دیکھ کرمحبوب کے دل پرجوبیت سکتی ہے یہ وقت کی ستم ظریفی اس کرب کابیان ہے جو بڑھاپے، بیماری اور موت کے ہاتھوں انسان کامقدرہے۔آدمی کے سامنے کائنات کی وسعتیں،سمتیں،اور وقت سب کچھ بے معنی ہوجاتا ہے۔ بے معنویت کے اسی احساس سے یہ بامعنی کہانی بنی گئی ہے۔
رہائی:قریب الموت شخص کی ذہنی کیفیات۔زندگی اورزمین سب سے بڑی حقیقتیںہیںاورخلامیںکچھ نہیں ۔ وہاںتوسبزہ تک نہیںاگتاوہ انسان کوکیاپناہ دے گا۔مکالمے کی تکنیک میںلکھی ہوئی ایسی علامتی کہانی جس میں ایک بہت خوبصورت ڈراماچھپاہواہے بلکہ یہ جوں کی توں ڈرامے کی صورت میںپیش بھی ہوچکی ہے۔
لوہے کا آدمی:بیچی ہوئی سکوٹرکودیکھ کر بچھڑی ہوئی محبت اورگزرے ہوئے واقعات یاد آجاتے ہیں۔لیکن سکوٹر بول سکتاہے نہ ہنہناہی سکتاہے۔کیونکہ اس میںخون نہیںپٹرول جلتا ہے کیا آپ کے دل کوبھی فروخت کرڈالی ،چھن گئی اور گم ہوجانے والی اپنی کسی جان دار یابے جان چیز کودیکھ کر کبھی کچھ ہواہے؟
سارنگی:اسے سارنگی بہت اچھی لگتی تھی کیوںکہ وہ روسکتی تھی اپنادکھ کہہ سکتی تھی۔اس نے مرنے سے پہلے سارنگی سننے کی فرمائش کی مگر بجانے والا بدقسمت دولو کہیں دور دریاپار گیاہواتھا۔اوپرسے بیوقوفی ہوگئی واپس آکر سیدھا دروازے پرپہنچا اورسارنگی بجانے لگا ۔اندر سے آواز آئی کہیںاورجاکربجاؤ بابایہ ماتم والاگھر ہے۔
گیارھواں میل: ہم تناسخ میں یقین نہیںرکھتے اس کے باوجود زندگی میںکبھی کبھی ایسے اتفاقات سے دوچارہوجاتے ہیں جن کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں۔اس نے ایک نوجوان لڑکی کی تصویر اپنے کمرے میںلگارکھی تھی جو اس کے باپ کے بقول اس کی مرحومہ والدہ سے ہوبہو ملتی تھی۔بس یہی بات اس کے اوربیوی کے درمیان تنازعے کاسبب بن گئی۔ آپ ہی فیصلہ کریںکس کاموقف درست تھا؟
بچے اور بارود:اسلحہ،بارود اوردہشتگردی کے خلاف سخت احتجاج کی کہانی۔اس بدنصیب نے جو بول سکتی تھی مگرسن نہیںسکتی تھی کہ دھماکوںسے اس کے کانوںکے پردے پھٹ چکے تھے حوا کی بیٹیوں کے نام پیغام چھوڑا کہ جب تک پہلے جنے ہوئے خونریزیوںسے بازنہ آجائیں بچے پیداکرنابندکردیں۔
شجرِ بے سایہ:”شجر بے سایہ“ میں قبائلی ذہنیت کے حامل جاگیر دارانہ سماج کی غیر انسانی جکڑ بندیوں سے پھوٹنے والے ایک قاتل تصور‘ غیرت کو انسانی رشتوں کے تقابل میں رکھ کر دیکھا گیا ہے۔ افسانہ نگار نے موضوع کی دہشت ناکی کی نسبت سے جذبے کی آنچ اس قدر تیز رکھی ہے کہ اس کہانی کو خشک آنکھوں اور سفاکانہ لاتعلقی کے ساتھ پڑھنا ممکن ہی نہیں۔ غفوراں محبت کے امتناع کا مقدس قانون توڑنے کا ارتکاب کرتی ہے۔ پکڑی جاتی ہے تو پنچائیت اسے اس کے بھائیوں اور ماں کے حوالے کر دیتی ہے۔ رواج کے مطابق کسی دہشت ناک رات بھائیوں کے ٹوکے حرکت میں آتے ہیں اور رات کی خاموشی میں اس کے مجرم وجود کے ٹکڑے زیر زمین اتار دئیے جاتے ہیں۔ ایک عرصے بعد اس کے ایک بھائی کی بیٹی بھی اس جرم کا ارتکاب کرتی ہے لیکن اس بار گامو کی آنکھوں پر باپ پنے کی پٹی بندھ جاتی ہے‘ اسے اپنے سامنے پڑا ٹوکہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔ رشتوں سے مشروط غیرت کی اس سفاکانہ دھاندلی پر فراموش کردہ غفوراں غضب ناک ہو کر قبر پھاڑ کر باہر نکلتی ہے اور اپنی ماں کے گلے کی چیخ بن کر سارے گاؤں میں پھیل جاتی ہے۔(عاطف علیم)
پولی تھین:۔کالو اس انسان کی علامت ہے جوذلت‘ دھتکار اور محرومی کے صدیوں لمبے عمل کے بعد انسان سے غیر انسان میں منقلب ہو چکا ہے مگر اس نے شکست قبول نہیں کی۔ اس کے لئے سارے راستے بند ہیں پھر بھی وہ شرف انسانیت کے لئے لڑ رہا ہے۔ پولی تھین جدید مگر مقبوض تہذیب سے زیادہ شرف انسانیت کی علامت ہے۔ اس افسانے میں بجلی کا کھمبا اس ہلاکت آفرینی کی علامت ہے جو ڈائنو ساروں نے کالو اور شرف انسانی کے درمیان حائل کر رکھی ہے۔
نظر کا دھوکہ: یوںتو پیٹ پالنے کے لئے آدمی کو کئی طرح کے پاپڑبیلناپڑتے ہیں مگرآدمی کے اندر بے غیرتی کیسے آہستہ آہستہ نفوذ کرتی ہے اس کادلچسپ نظارہ کرنے کے لئے اس میلے میںچلئے جہاں لومڑی کے دھڑکے ساتھ ایک جوان لڑکی کاخوبصورت چہرہ لگایاگیاتھا مگر گرمی بہت تھی ، ململ کاباریک کرتاپسینے میں ترہوکر چپک گیااورپردہ سرک گیاتھا ۔اسے فیکے کی بدمعاشی پر بہت غصہ آیامگر کھڑکی کے سامنے پہلی بار ٹکٹ لینے والوں کی قطار لگ گئی تھی وہ دھڑادھڑ ٹکٹ بیچنے لگ گیا۔
پنج کلیان: اس کامرکزی کرداردوسرابڑا فی میل مزاحمتی کردار ہے جواپنے حق کے لئے جان کی بازی لگاسکتی اور بڑے سے بڑاخطرہ مول لے سکتی ہے۔ مارنے والی پنج کلیان بھینس اسی کی علامت ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغاکہتے ہیں ”پنج کلیان“میں شہری تہذیب (جس کی نمائندہ صبیحہ ہے) دیہی تہذیب (جس کی نمائندہ بیگی ہے) کا سامنا کرتی ہے۔ پنج کلیان ایک بھینس ہی نہیں جو انسانوں سے خوفزدہ ہونے کے باعث ”مارنے والی بھینس“ مشہور ہے بلکہ بیگی اور بیگی کی ماںحتیٰ کہ سارا گاؤں ہی پنج کلیان ہے کہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہونے کے باعث ہر اجنبی شے یا شخص سے متصادم ہونا چاہتا ہے۔ یہ مظاہرہ اتنا شدید ہے اور اس میں اپنی ملکیت (افسانے کا ہیرو اس گاؤں کی ملکیت ہے) کو غاصب اور لیٹرے سے بچانے کا عزم اتنا بے پایاں ہے کہ اس کے سامنے صبیحہ اور اس کی شہری تہذیب قطعاً بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔ مگر افسانے کی خاص خوبی یہ بھی ہے کہ یہ محض دیہاتی پنج کلیان کی فتح پر ختم نہیں ہو جاتا۔
پھلوں سے لدی شاخیں:بظاہر ایک آوارہ بلی کی کہانی ہے۔جو پہلے پالتو رہ چکی ہے اور پھکوائے جا نے کے بعد کئی بار گھر لوٹ چکی ہے۔ گھر میں بڑی اماں، بڑی بہو، چھوٹی بہو، شانو اور کرمو کے ساتھ اس کا مثبت، منفی یا ملا جُلا رشتہ قائم ہو چکا ہے۔ افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ اس نے بلی کے گھر لوٹنے کی کشمکش کو اور گھر والوں کی ہمدردی بیدردی دونوں کو متحرک تصویروں کی طرح دکھایا ہے لیکن معمائی انجام کی روشنی میں دیکھیں تو یہ کہانی اپنی تمام تر تفصیلات کے باوجود محض بلی کے بارے میں نہیں نکلتی اور کہانی پڑھنے کے بعد پھر اس کے عنوان کی طرف لوٹیں تو یہ انسانوں کی حیوانیت یا حیاتیاتی تقاضوں کے بارے میں لکھا ہوا ایک نازک سا نفسیاتی مطالعہ بن جاتی ہے۔ (مظفرعلی سید)
چےزیں اپنے تعلق سے پہچانی جاتی ہیں:زمین اور پنجاب کی وہ تہذیبی اقدار جومٹنے کوہیں اوروہ جذبے جن سے نئے دور کاانسان بیگانہ ہوتاجارہاہے اس کہانی میںان کا احیا کیا گیا ہے ۔
ریپلیکا:اس کہانی کی” وہ “ میرے بھیتر اس طرح اترگئی ہے جیسے دعاپڑھنے کے لئے تاج محل کی نیچے والی قبروں میںاترگئی تھی اورمجھے معلوم ہے کہ وہ اب میرے بطون سے باہرنہیںآئے گی۔(جوگندرپال)
سلاٹر ہاؤس : منشایاد کاکہناہے کہ یہ دنیاایک سلاٹرہاؤس ہے ۔ایک بڑابوچڑ خانہ جہاں ہرلمحے ایک طاقتورایک کمزورکوکھاجاتاہے۔بربریت،ظلم اور دہشت گردی کے خلاف عمدہ افسانہ ہے۔
درخت آدمی: ۔ درخت آدمی بھی ایک خوب صور ت کہانی ہے جو ایک ایسے شخص کے بارے میںہے جو درخت سے جدانہیں ہوسکتاتھا۔دراصل خودمنشا یادبھی درخت آدمی ہے جس کی جڑیں اپنی دھرتی میں گڑی ہوئی ہیں ۔ اوراس کی کہانیوں کی ہری بھری ڈالیوں پرعصری صداقتوں کے پرند چہچہاتے ہیں ۔(نجم الحسن رضوی)
ایک تھی فاختہ:جہاں کوے زیادہ ہو جائیں وہاں سے فاختائیں ہجرت کر جاتی ہیں۔اور ہمارے معاشرے ہی میںنہیںدنیاکے اکثرباغوں اور نخلستانوں میں کووں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے ۔ایسے میںامن کیسے قائم ہوگا ؟
دور کی آواز: دور کی آوازوں اور دل کی آوازوں کو سننے کی صلاحیت رکھنے والے انسان کی کہانی جو شہرکے شور شرابے میں اپنی یہ صلاحیت گم کر بیٹھا تھا۔لیکن اندرسے ابھی زندہ تھا۔دلچسپ کہانی۔
لفظوں سے بچھڑا ہوا آدمی: اگر آدمی بچپن میں قوت سماعت کھو بیٹھے مگربول سکتاہو تو اس کے پاس الفاظ کا بہت محدود ذخیرہ ہوگا۔اس سے کیادلچسپ صورت حال پیداہوگی؟ اس کااحوال نہایت خوبصورت اور دلچسپ طریقے سے پیش کیاگیاہے ۔
کٹم کاٹا:بچپن کے کھیل کٹم کاٹاکے حوالے سے بازگوئی کی گئی ہے اورلڑکپن کی یادوں سے بنی ہوئی خوبصورت کہانی جورشتوں اور جذبوں کوان کے اصلی اور بدلتے ہوئے ہردوتناظرمیںدیکھتی اورپیش کرتی ہے۔اس میں ایک خاص دورکی تہذیب ایک بڑے برگدکی صورت ہرجگہ موجود ہے اورگاؤں میںجہاں بھی کھدائی کی جاتی ہے اس کی جڑیں برآمد ہوتی ہیں۔
سزا اور بڑھا دی: محبت اور نفرت کی جنگ ۔میاں بیوی میں غلط فہمی پیداہوگئی اورازدواجی تعلقات ختم ہوگئے مگرانہوںنے پندرہ برس تک بچوں کواس کاعلم نہ ہونے دیا۔میاں جب بیمارہوکربے بس ہوگیاتوبیوی نے اس سے نفرتوںکاحساب خوب چکایالیکن وہ یہ جان کرحیرت زدہ ہوگئی کہ وہ مرنے کے بعدبھی خوفناک انتقام لینے میںکامیاب ہوگیا۔وہ بھی محبت کی دودھاری تلوار کے ذریعے۔
بحران:زر پرست اور جاہ پسندمعاشرے میں جہاں دولت کی خاطرچوہاریس لگی ہواورمطلب کے بغیر کوئی کسی کے سلام کاجواب دینابھی گوارا نہ کرتاہوبے غرض ، دردمنداورغم گسار لوگوں کی آرزو اورخواب؟
ساجھے کا کھیت: کوڈوفقیراورناتوسانسی کی طرح اس افسانے کاکردارتانی بھی منشایادکامخصوص مزاحمتی کردار ہے جوبقول عاطف علیم کے ایک چنگھاڑ کے ساتھ خاک سے ماتھااٹھاتاہے اور بڑھ کر پیش منظرکواپنی مٹھی میںبھینچ لیتاہے۔وہ بھی گوبرسے انسان کی جون میں لوٹتی ہے اورچودھریوں‘ ذیلداروں اور ان کی اولادوں کا اپنے گرد بنا ہوا شیطانی جالا ہاتھ کی ایک غضب ناک جنبش سے توڑ دیتی ہے۔ وہ زور آوروں کے ساتھ جنگ میں انہی کے زور کو ان کے خلاف استعمال کر کے انہیں کھایا ہوا بھوسابنا دیتی ہے۔
دیدۂ یعقوب:پردیس میں مقیم بیٹے کے انتظار کی کہانی۔ انتظار کے سنگین لمحوں میں ذاتی واقعات خاکہ نگاری اور یادنگاری کی ساری حدیں ایک دوسرے سے ملنے لگتی ہیں اور اس سب کے باوجود افسانے کا تشخص برقرار رہتا ہے ۔ بہت سے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ترقی یافتہ سامراج کاترقی پذیر ممالک کے لئے قرضوں کاچکر،مادی آسائشوں کی طلب پیداکرنااور دولت کے بل بوتے پر تیسری دنیاکی ذہانت خریدنا۔ماں باپ سے بیٹے اوربہنوں سے بھائی چھن جاتے ہیں۔ایک تاثر انگےز کہانی۔
پھند ا:شہادت اورجنت کی نوید دے کر نوجوانوں کو ورغلانااورخظابت اورلفاظی کے ذریعے استحصال ۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ فساد کرانے والی تنظیموں کے ایک کم تعلیم یافتہ کارکن کی موت کے پھندے تک پہنچنے کی نفسی کیفیات کی زبردست اور عبرت انگےز کہانی۔
کہانی کی رات:سیاسی پس منظرلئے ہوئے گیتوں ،داستانوں اور کہانیوں کے حوالے سے بیان کی جانے والی ہم عصرسیاست سے متعلق ایک پراثرکہانی۔جس میں جادوگر،شہزادے اور بولنے والے توتے کی علامتیں واضح ہیں اور اقتدار کی جنگ کی دلچسپ کہانی سناتی ہیں جب بولنے والے توتے کی اچانک گردن مروڑ دی گئی تھی اور شہزادے کودیس بدر کردیاگیااورجادوسر چڑھ کربولنے لگا۔
یہ اس مجموعہ میں شامل کی گئی پچاس کہانیوں کے بارے میں صرف اشارے ہیں۔اصلاََ یہ کہانیاں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔تاہم ان ساری کہانیوں کی بنیاد جس کہانی پر ہے وہ منشایاد کے بچپن کی اپنی کہانی ہے۔ان کے بقول: ”سکول تین چار میل دور تھا۔وقت گزاری کے لئے باری باری سب کہانیاں سناتے۔آخر کار سب کی کہانیاں ختم ہو گئیں،مگر مےری کبھی ختم نہ ہوئیں،کیونکہ میں ضرورت کے مطابق کہانی کو طویل اور تبدیل کرلیتا تھا۔اپنی طرف سے فوری طور پر نئی کہانی گھڑ لیتا اور اسے ایسے ایسے پیچیدہ راستوں پر لے نکلتا کہ سننے والوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا۔ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ میں نے شہزادے کو اس بری طرح پھنسادیا کہ اب اسے وہاں سے نکالنے کا کوئی آبرومندانہ طریقہ خود مجھے بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔اس لئے کہانی کو کل پر ڈال دیا،مگر ساتھیوں کی جان پر بنی تھی۔انہوں نے اصرار کیا کہ ابھی بتاؤ پھر کیاہوا؟ مگر میں ضد پر قائم رہا۔ جس َکا نتیجہ یہ نکلاکہ لڑائی ہو گئی۔وہ تعداد میں زیادہ تھے انہوں نے مجھے تختیوں سے پیٹا۔مگر وہ اس طرح زبردستی مےرے اندر سے کہانی تو نہ نکال سکتے تھے۔“
آخر میں منشایاد کے افسانوں سے تبرک کے طور پر چند اقتباس پیش کرکے اپنا یہ تعارفی تبصرہ ختم کرتا ہوں۔ ایسے ڈھےر سارے حوالوں کے ہوتے ہوئے اتنے کم اقتباسات دینا تبرک والی بات ہی ہے:
٭٭جب ہمیں وقت ٹھہرا ہوا لگتا ہے اس وقت در اصل ہم خود ٹھہرے ہوئے ہوتے ہیں۔
٭٭زندگی کے سمندر میں اترتے ہی تم نے لائف بیلٹ پر قبضہ کرنے کے لئے قتل عام کیوں کیا تھا؟
٭٭مےری دنیا کی تمام بہنوں سے اپیل ہے کہ جب تک پہلے جنے جوئے خونرےزیوں سے باز نہ آجائیں،بچے پیدا کرنا چھوڑ دیں۔
٭٭منجھلا بیٹا شہر میں سرکاری افسر تھا۔باغ اور اس کے ارد گرد کی زمین اس کے حصے میں آئی،اس نے کچھ ہی عرصہ میں باغ کٹوا کر وہاں گندم کاشت کرادی۔۔۔کرمو۔۔۔باغبان سے ایک معمولی کھیت مزدور بن گیا۔ ۔ ۔ ۔ کرمو کو ایسے لگتا جیسے اسے ایک بار پھر باغ بہشت سے نکال کر زمین پر پھینک دیا گیا ہو۔اس بار بھی اس کے جنت سے نکلنے کا باعث دانہئِ گندم ہی تھا۔
٭٭جہاں پر ہےرو کا انجام ولن کا سا ہو وہاں لوگ ہےرو بنتے ہی کیوں ہیں؟
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر۴،جنوری تا جون ۲۰۰۵ء)