اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی سے میرا تعلق گہری محبت کا تعلق ہے۔ ان کے شعری مجموعہ ”شہابِ ثاقب“ کا مطالعہ کرتے وقت بھی ان کی محبت مجھ پر حاوی رہی۔”شہاب ثاقب“ میں اردو غزلیں، نظمیں، گیت ، ماہیے، قطعات اور لخت لخت اشعار کے ساتھ ہمت رائے شرما جی کا فارسی کلام بھی شامل ہے۔ اس مجموعہ کی اشاعت میں ”فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی اترپردیش “ کا مالی تعاون بھی شامل تھا۔ کتاب کے پہلے صفحہ پریہ الفاظ تحریر ہیں ۔”اردو میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب جس میں صاحب کتاب نے اپنی کچھ تخلیقات کے تصریحی اسکیچز بھی خود ہی بنائے ہیں“ کتاب کے اندر مختلف صفحات پر گیارہ خوبصورت اسکیچز ہیں جو بعض تخلیقات کی تصریح کے ساتھ خود ہمت رائے شرما کے مصورانہ کمال کا اظہار بھی ہیں۔ سرورق بھی شرما جی کا اپنا بنایا ہوا ہے۔کتاب میں 8 صفحات پر سترہ تصویریں بھی شامل ہیں۔ان میں شرما جی مختلف سیاسی اور ادبی شخصیات کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ سیاسی شخصیات میں پنڈت جواہر لال نہرو، راجگو پال آچاریہ، مرارجی ڈیسائی، مسز اندرا گاندھی، وجے لکشمی پنڈت اور ادبی شخصیات میں راجندر سنگھ بیدی، صادقین ، ڈاکٹر خلیق انجم، ڈاکٹر عالیہ امام، خواجہ احمد عباس، رام لال ، گوپال مثل اور بعض دیگر شخصیات شامل ہیں۔
”حرف آغاز“ میں ہمت رائے شرما جی نے بتایا ہے کہ وہ 1984ءمیںاشاعت پذیر ہونے والے اس شعری مجموعہ کو بیس سال پہلے چھپوالینا چاہتے تھے لیکن بوجوہ تاخیر ہوتی گئی۔ہمت رائے شرما جی نے ایک جگہ لکھا ہے۔”اس میں کچھ گیت اور نظمیںطالب علمی کے زمانے کی ہیں ۔کچھ گیت ایسے بھی ہیں جو مختلف فلموں میںآچکے ہیں۔“ ہمت رائے شرما جی نے ادب کے ایک ”خاص طبقہ“ کو بطور خاص زد پر رکھا ہے اور بجا طور پر ان کے غیر تخلیقی رویے کی نشاندہی کی ہے۔ شرما جی لکھتے ہیں:
”میری مراد اس طبقے سے ہے جسے ہر بات کا ٹھوس اور بین ثبوت چاہیے جسے ہر کام ناپ تول کر کرنے کی عادت ہے جس کے لئے محبت کا ایک خاص معیار ہے جو چکوری کو چاند تک پہنچنے کے لیے میلوں، کلومیٹروں اور گھنٹوں کا حساب کرتا ہے جو پروانے کے جلنے کے لئے شمع کا درجہ حرارت ناپتا ہے جو آنسوﺅں کے لیے مقیاس المطرڈھونڈتا ہے۔میں سمجھتا ہوں شاعری فقیروں کا حصہ ہے، حساب دانوں اور سائنس دانوں کانہیں۔“
”شہابِ ثاقب“ کا ”مقدمہ“ فراق گورکھپوری کا تحریر کر دہ ہے۔ یہ 12 دسمبر 1964 ءکی تحریر ہے۔ مجموعہ کی اشاعت سے 20 سال پہلے کی تحریر جس سے شرما جی کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ یہ مجموعہ بیس سال پہلے شائع کرانا چاہتے تھے۔مقدمہ کے بعد غزلیں شائع کی گئی ہیں۔ان کی غزل کے ایک شعر نے مجھے روک لیا:
آج قسمت میں اگر صحرانوردی ہے تو کیا
منزلیں ڈھونڈیں گی اک دن میرے قدموں کے نشاں
آج اردو ماہیے کی تحریک کی منزل نے خود ان کے قدموں کے نشاں ڈھونڈ نکالے ہیں۔ اردو ماہیے کی دنیا میں ہمت رائے شرما جی کا وہی مقام اور مرتبہ ہے جو اردو غزل کی دنیا میں حضرت امیر خسرو کا ہے۔ ہمت رائے شرما جی کی غزلوں کے تعارف کے طور پر چند اشعار یہاں پیش کیے دیتا ہوں کہ یہ اشعار ان کی غزلوں کا خود عمدہ تعارف کرادیں گے۔
شرط باندھی ہے پھر قیامت سے
سامنے آئیے خدا کے لیے
میں خدائی سے خود سمجھ لوں گا
میرے ہو جائیے خدا کے لیے
۔۔۔۔۔
اپنی فریب خوردہ نگاہیں جدھر اُٹھیں
نظریں چُرا چُرا کے نظارے نکل گئے
۔۔۔۔۔
بھیڑ جلوﺅں کی کیسی ہے کہ رخساروں پر
جگہ دیجئے مری نظروں کو بھی تِل دھرنے کی
ان ڈھلکتے ہوئے اشکوں میں یہ کیا عادت ہے
چند ٹوٹے ہوئے سیاروں کو سر کرنے کی
۔۔۔۔۔۔
ابھی نصیب میں لکھی ہیں ٹھوکریں شاید
ابھی تو باقی ہیں احسان اس زمانے پر
۔۔۔۔۔
بزم ہستی کو پلٹ کر رکھ دیا
زندگی کے خواب کی تعبیر نے
۔۔۔۔۔
دیکھتے دیکھتے نظارے بدل جائیں گے
انقلابات کے آثار نظر آتے ہیں
۔۔۔۔۔
میں تب بھی ناخدا ہوتا ہوں خود اپنے سفینے کا
کہ جب دریائے دل کی موج خود طوفان ہوتی ہے
۔۔۔۔۔
مرے سوا تری دنیا میں کون ہے یارب
جو تیرے بخشے ہوئے غم سے اتنا پیار کرے
۔۔۔۔۔
جو مرد مومنِ غازی علی کا بندہ ہے
کہو اجل سے ذرا اس سے آنکھیں چار کرے
۔۔۔۔۔
رہے وہ جان جہاں، یہ جہاں رہے نہ رہے
مکیں کی خیر ہو یارب مکاں رہے نہ رہے
۔۔۔۔۔
مانا کہ آپ دل کے جنازے کے ساتھ تھے
لیکن حضور! آپ بہت دور دور تھے
۔۔۔۔۔
ایسے اشعار سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ ہمت رائے شرما جی کے غزلیہ لہجے میں روایت کی آن بان بھی ہے اور نئے زمانے کے تقاضوں کا احساس بھی ہے۔ نظموں کے حصہ میںشرما جی کی تین نظمیں ”گلبانگ“ ، ”آنسو“ اور ”وقت“ مجھے مسلسل غزل جیسی لگیں ۔
کوئی روتا ہے شب کو اوس بن کر
سناتے ہیں جب اپنی داستاں گل
(گلبانگ)
ہجوم یاس کو آنکھوں میں پا کر
نکل آتے ہیں جھٹ گھبرا کے آنسو
(آنسو)
شرما جی کی ساری نظمیں پابند نظمیں ہیں۔عمومی طور پر یہ نظمیں بلند آہنگ ہیں۔ جہاں کہیں خطابیہ انداز آجاتا ہے وہاں جوش جیسا طنطنہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ قدیم روایت اور ترقی پسند روایت کے نقطۂ اتصال پر یہ نظمیں تخلیق ہوئی ہیں۔ان نظموں سے چند اشعار کی مثالیں پیش کرنے سے نظموں کا بہتر تعارف ہو سکے گا۔
ایک دھندلا سا نشاں ہے جسے منزل کہہ لو
نامرادی کا ہے مسکن جسے اب دل کہہ لو
(جدائی)
کبھی وہ دن تھے کہ اپنا بھی آشیانہ تھا
نہ جانے ایک حقیقت تھی یا فسانہ تھا
۔۔۔۔
شب ستم تھی اچانک برس پڑے تھے نجوم
اکیلی جان پہ ٹوٹا تھا بدلیوں کا ہجوم
(گردش دوراں)
۔۔۔۔۔
آپ ہی آپ سلگ اٹھتے ہیں تاروں کے حباب
آپ ہی آپ چھلک جاتی ہے چشم پُر آب
کوہساروں سے لپٹ جاتے ہیں وارفتہ سحاب
آ کے سو جاتے ہیں آنکھوں میں تھکے ماندے سراب
(آمد)
اگر میسر نہیں ہیں تنکے، ہوا ہے دشمن اگر زمانہ
بجائے تنکوں کے بجلیوں سے بنا کے چھوڑوں گا آشیانہ
(ارادے)
ایک نظم ”جذبۂ پاک“ کے زیرِ عنوان شامل ہے ۔یہ نظم برصغیر کے اس دور کی یاد دلاتی ہے جب مذہبی رواداری تکلف کے طور پر نہیں بلکہ دلوں کے اندر سے اگتی تھی۔ اس نظم کے چند اشعار دیکھیں:
حمد باری کے بعد اے خامہ
مئے وحدت کا بھر کے لا اک جام
دل میں رکھتا ہوں ایک جذبۂ پاک
ہے مجھے احترام پاک کلام
میرے مولا ، مرے خداوندا
تیرے محبوب کاہوں میں بھی غلام
اہلِ اسلام کو ”مبارک ہو!“
عید میلاد بانی اسلام
ہمت رائے شرما کے گیتوں کو ہندی گیت کی قدیم روایت کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے اوران کی فلمی گیت کاری کے حوالے سے فلمی پس منظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے گیت دونوں حوالوں سے کھرے اترتے ہیں۔ادبی لحاظ سے ایسی عمدہ مثالیں ان کے گیتوں میں موجود ہیں:
۱۔
اے مدھ ماتی شام گھٹاﺅ
جاﺅ دیش پیا کے جاﺅ
عرض ہماری سنو سجنوا سپنوں میں نہیں آﺅ
ہمری ہنسی اڑاتے ہیں ہنس ہنس کر من کے گھاﺅ
اے مدھ ماتی شام گھٹاﺅ۔۔۔۔
۲۔
ساجن!
کون بندھا وے دھیر
دکھ وہ جانیں جو سہتے ہیں
ان نینوں میں دو رہتے ہیں
اک ساجن اک نیر
ساجن کون بندھاوے دھیر
اور اس گیت کی امیجری دیکھیں جس نے ہندی گیت کے سارے زمانوں کو جیسے ایک زمانے میں یک جا کر دیا ہے:
ذرا تھم جا تُو اے ساون! مرے ساجن کو آنے دے
مرے روٹھے پیا کو پھر مری بگڑی بنانے دے
میں تیری بجلیوں کی گوٹ آنچل پر لگاﺅں گی
تری کالی گھٹائیں پیس کے کاجل بناﺅں گی
تری ہلکی پھواریں گوندھ کے مالا بناﺅں گی
سلونے کے رجھانے کو مجھے سپنے سجانے دے
ذرا تھم جا تُو اے ساون! مرے ساجن کو آنے دے
گیتوں کے حصہ میں ہمت رائے شرما جی کے دس ماہیے شامل ہیں ۔ یہ سارے ماہیے فلم ”خاموشی“ کے لیے 1936 ءمیںلکھے گئے تھے ۔ یہ ماہیے دو ماہی ”گلبن“ احمد آباد کے ماہیا نمبر(شمارہ جنوری تا اپریل 1998 ء)میں دوبارہ چھپ چکے ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی کے تحقیقی مضمون ” اردو ماہیا کی روایت سے متعلق ہمت رائے شرما کی وضاحت ”مطبوعہ سہ ماہی ”کوہسار“ اگست 1997ءکے ذریعے یہ ماہیے پہلے ہی سامنے آچکے تھے۔یہاں ایک ماہیا تبرکاََدرج کر رہا ہوں:
اک بارتو مل ساجن
آکر دیکھ ذرا
ٹوٹا ہوادل ساجن
قطعات اور اشعار کے آخری حصہ سے چند اشعار بھی یہاں پیش کئے دیتا ہوں:
پاﺅں سے لپٹی ہوئی ہے کوچۂ جاناں کی خاک
جانے کب سے زیرِ پا منزل لیے پھرتا ہوں میں
۔۔۔۔
کیا کرے تدبیر کوئی اور سمجھائے بھی کیا
خود مصور نے بگاڑا ہو اگر تصویر کو
۔۔۔۔
لٹ کے رہ جائیں ستاروں کے نصیب
چاندنی راتوں میں یہ اندھیر کیا
تابشِ نور جمال یار سے
دیدۂ نم کو پسینہ آگیا
۔۔۔۔
فسانۂ شب غم یوں تو کوئی خاص نہیں
ذرا سی برق نوازی تھی آشیانے کی
۔۔۔۔
خود نہیں واقف ہم اپنے نام سے
کیا شکایت گردشِ ایام سے
جانِ مضمون بتا کیسے سمٹ کر آئی تیرے رخساروں پہ سرخی مرے افسانے
۔۔۔۔
رہو دل میں، نہ جھانکو چشم تر سے بھری برسات میں نکلو نہ گھر سے
۔۔۔ ۔
خیر گزری کہ جبیں سائی پہ ماتھا ٹھنکا
ورنہ اس بت کے لیے مفت میں کافر بنتے
ہمت رائے شرما جی کا یہ بیان سوفی صد درست ہے کہ شاعری فقیروں کاحصہ ہے۔ ہمت رائے شرما نے خوبصورت شاعری کی ۔جب فلمی دنیا میں مقتدر ہستی تھے تب اپنے اس فقیری اثاثے کو چھپائے رکھا۔ جب فلمی دنیا سے الگ ہو گئے تو اپنا فقیری سرمایہ لے آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ 1964ءکی بجائے 1984ءمیں اپنا مجموعہ چھپوانے کی اصل وجہ یہی فقیر انہ جذبہ تھا۔اس کے باوجود شرما جی کے فن کو مقتدر ادبی شخصیات نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔، مالک رام، ظ۔انصاری، مظہر امام، شان الحق حقی، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار دلوی ، ڈاکٹر یونس اگاسکر، خواجہ عبدالغفور ، شیخ محمد عبداللہ ، شیو شنکر، مجتبیٰ حسین، آمنہ ابوالحسن، صادق علی، خواجہ احمد عباس، مخمور سعیدی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، یوسف ناظم، ڈاکٹر اخلاق اثر ، علی عباس امید ، انوار انصاری، خالد عبادی، عارف مرزا۔ یہ ان ادیبوں کے ناموں کی ایک نامکمل فہرست ہے جو کسی نہ کسی زاویے سے ہمت رائے شرما جی کے فن کی توصیف کر چکے ہیں۔
ہمت رائے شرما جی کے تئیں میرا رویہ سراسر محبت کا ہے۔ مجھے تو ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے محبت ہے۔ سو میرے لیے تو ان کی شاعری بھی خوبصورت ہے لیکن ایسے لوگ جوشرما جی کے سلسلے میں کسی ترجیحی رویے کے بغیر انہیں غیر جانبداری سے پڑھیں گے وہ بھی یہ اعتراف کریں گے کہ شرما جی تیس اور چالیس کی دہائیوں میں نمایاں والے کئی شاعروں سے کہیں زیادہ معتبر اور اہم شاعر ہیں اور ان کی شاعری آج کے زمانے کے لیے بھی جانی پہچانی ہے۔
اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما کی شاعری کے جملہ پہلوﺅں کا تعارف کراتے ہوئے مجھے ذہنی اور قلبی خوشی ہوئی ہے۔ میں اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں کہ مجھے ان کی شاعری کا تعارف کرانے کی توفیق ملی ہے۔
(مطبوعہ ماہنامہ پروازِ ادب پٹیالہ ،شمارہ: جولائی اگست ۱۹۹۹ء)