اردوسفر نامہ نگاری اب نہ صرف باقاعدہ الگ صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے بلکہ روز بروز اس کے لکھنے والوں میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ جمیل زبیری ایک ایسے سفر نامہ نگار ہیں جنہوںنے تین سال کے عرصے میںدو سفر نامے پیش کر کے بڑی خاموشی سے اس صنف ادب میں اپنے خلوص کا اظہار کیا ہے۔
”دھوپ کنارا“ان کے امریکہ اور کینیڈا کے سفر کی روداد ہے جب کہ ”موسموں کا عکس“بھارت کے سفر کی کہانی ہے۔بظاہریہ دوانتہاﺅں کے سفر ہیں۔ ایک مغرب کی طرف ایک مشرق کی طرف لیکن ان میں انسانیت کا دکھ قدرِ مشترک ہے۔ جمیل زبیری نے انسان کو کسی جغرافیائی ، نسلی یا مذہبی امتیاز کے متعصبانہ زاویے سے دیکھنے کی بجائے صرف انسانی قدروں کی سچی بنیاد پر دیکھا ہے۔ پھر وہ کسی کا دکھ تھایا ان کا اپنا دکھ تھا انہوںنے اس دکھ کو اپنے دل میں سجا لیا۔
کینیڈا میں ملنے والا لیٹاویا کا باشندہ مٹنسن جو کبھی جرمنی میں کام کرتا تھا، جرمنی کی تقسیم کے نتیجہ میں اس کی بیوی اور بیٹی مشرتی جرمنی میں قید ہو گئیں۔ جدائی کے تیس سال بیت جاتے ہیں اس دوران صرف ایک بار سلاخوں کے پیچھے ان کی مختصر سی ملاقات ہو پاتی ہے۔ مٹنسن کی باتیں سُن کر جمیل زبیری کے دل پر کیا بیتی؟
”اس سے مل کر تاریخ کا ایک پورا دور ہماری نگاہوں میں پھر گیا۔کس طرح پچھلی عالمگیر جنگ کے بعد فاتح قوموں نے جرمنی کے حصے کر دئیے پھر کس طرح روس نے ملک کے بیچوں بیچ وہ دیوار تعمیر کرا دی جس نے سینکڑوں خاندانوں کو منقسم کردیا۔ انسان پر انسان کے ظلم و ستم کی کتنی داستانیں مرتب ہوئیں کتنے خاندان بٹ گئے۔ تباہ ہو گئے….ہمیں وہ وقت بھی یاد آگیا جب پاکستان بن جانے کے بعد اسی طرح خاندان بٹ گئے اور تباہ ہو گئے تھے پھر یہی تاریخ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت دہرائی گئی۔ پوری انسانی تاریخ ایسی المناکیوں سے بھری پڑی ہے۔ اتنی ترقی کے باوجود انسان آج بھی اسی طرح درندہ ہے جیسا کہ وہ تہذیب کا لبادہ اوڑھنے سے پہلے تھا۔“
(”دھوپ کنارہ“)
”موسموں کا عکس“میں یہی دکھ زیادہ پھیل کر سامنے آتا ہے ،بھوپال ، آگرہ اور مارہرہ کے سفر کی روداد، انہیں دکھوں سے عبارت ہے ۔جمیل زبیری کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان دکھوں کو ماتمی صورت میں نہیں ڈھلنے دیتے بلکہ یہ دکھ ایک کسک بن کر ان کے رگ وپے میں سرایت کر جاتے ہیں ، ان کے ہی نہیں، قاری کے رگ وپے میں بھی۔
جمیل زبیری ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ بھارت میں جو گندرپال سے لے کر پرتیما شرما تک پاکستانیوں سے بے پناہ محبت کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ بعض جگہوں پر ہندو، مسلمانوں سے اچھوتوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ انسان سے انسان کی مذہبی بنیاد پر نفرت۔یہ بھی ایک المیہ ہے جوگندرپال کا ، جمیل زبیری کا ، حیدرقریشی کا ۔جب ہم اس نفرت کو پہچانتے ہیںتو اس کے خاتمے کے لیے جدوجہد بھی کرسکتے ہیں۔علم کی روشنی جتنی پھیلائی جائے گی نفرت کا جاہل اندھیرادور ہوتا جائے گا۔
جمیل زبیری نے ”دھوپ کنارا“ میں امریکہ اور کینیڈا کی معاشرتی زندگی کے کئی گوشے دکھائے ہیں۔اسی طرح بھارتی معاشرت کے کئی پہلو”موسموں کا عکس“ میں سامنے آتے ہیں۔”دھوپ کنارا“ میں ٹیلیویژن پر امریکی صدر کا رٹر کی تقریر کا آنکھوں دیکھا حال بڑا دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی!
”صدر کا رٹر کی تقریر سنی نہ قومی ترانہ بجا، نہ تقریر کے آگے پیچھے قومی نغمے، نہ تقریر کے دوبارہ نشر ہونے کاوقت بتایا گیا۔ادھر تقریر ختم ہوئی ادھر فوراً ہی تین مبصروں نے اسی ٹی وی سکرین پر ہمارے سامنے صدر کی تقریر کے چیتھڑے کر دئیے ۔عجیب و غریب لوگ ہیں۔ نہ کسی سے ڈرتے ہیں نہ کسی کا ادب کرتے ہیں، نہ ملک و قوم کی محبت میں صبح و شام قومی نغمے الاپتے ہیں۔ خیر یہ ان کا معاملہ ہے ہمیں کیا!“
”موسموں کا عکس“میں ان کا میل ملاپ زیادہ تر ادیبوں سے ہی رہتاہے۔اس لئے ادیبوں کا احوال بھی زیادہ ہے۔ادبی تنازعات، مباحث اور جھگڑوں کی چند دلچسپ جھلکیاں بھی اس احوال میں آجاتی ہیں۔ ادیبوں کے احوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ادیبوں کے بیشتر مسائل اور بیشتر جھگڑے ایک جیسے ہیں۔ سوائے اس کے کہ وہاں اردو کے ساتھ سرکاری سطح پر ناروا سلوک کی شکایتیں یہاں سے زیادہ ہیں۔
جمیل زبیری کی خوبی ہے کہ انہوںنے کسی سفر نامہ نگارکے شوخ اسلوب کی نقالی نہیں کی ۔ بلکہ اپنے سادہ اور معصومانہ اسلوب میں سفر نامہ لکھا ہے۔ متعدد ادباءنے اپنے اپنے انداز میں جمیل زبیری کی اس خصوصیت کا ذکرہ کیاہے۔
۱۔جمیل زبیری نے اپنے سفر نامے کی روداد لکھ کر صرف مجھی کونہیںبلکہ ہر قاری کو دل میں جھانکنے ، قریب آنے اور بہتر مفاہمت کا موقعہ فراہم کیا ہے۔بڑا سادہ اور معصوم ہے یہ بوڑھا بچہ۔
(ڈاکٹر اسلم فرخی)
۲۔وہ اپنی یادوں کے بیان میں ذرابقراطی نہیںکرتے۔
(جمیل الدین عالی)
۳۔مصنف نے سیدھے سادھے لفظوں میں ان مقامات اور ان خواتین وحضرات کی تصویر کھینچ دی ہے جنہیں اس نے دیکھا اور جن سے وہ ملا۔
(مختار زمن)
۴۔زبیری کے سفر نامے میں معصومیت ہے، حیرت ہے، سادگی ہے ، تازگی ہے، اس لئے تاثیر ہے ۔ (ممتاز مفتی)
سادگی اور معصومیت سے مراد سیدھی سادی خشک سٹیٹ منٹ بھی نہ سمجھ لیجئے شگفتگی کی ایک زیریں لہر بیشتر سفر میں ساتھ ساتھ چلتی ہے اور بعض جگہوں پر یہ لہر نہ صرف اوپر آجاتی ہے بلکہ اس زور سے اچھلتی ہے کہ قاری کو مسکراہٹ سے شرابور کر دیتی ہے۔ ایسی صرف دو مثالیں دیکھیں اوران سے جمیل زبیری کے مزاج کی شگفتگی کا اندازہ خود کیجئے۔
”پیرس تک کا سفر ہم دونوں (جمیل زبیری اور ان کی اہلیہ )نے بیٹھ کر طے کیا مگر پیرس پر ہماری برابر والی سیٹ خالی ہو گئی تھی اب ہمارے پاس جڑی ہوئی تین سیٹیں تھیں لہٰذا ہم دونوں ان سیٹوں پر ڈبے میں جوتے کے جوڑے کی طرح لیٹ گئے۔“
(دھوپ کنارا)
”ایک جانب پتھر کے فرش کے بیچ میں لوہے کا ایک ستون نصب ہے ۔ بہت سے لوگ غلطی سے اسے اشوک کی لاٹ سمجھتے ہیں دراصل ایسا نہیں ہے ۔ یہ ستون کسی راجہ نے بعد میںیاد گارکے طور پر بنوایا تھا۔اس کے بارے میں بھی عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں۔ لوگ ستون سے پیٹھ جوڑ کر دونوں ہاتھ پیچھے کی جانب لے جا کر ایک ہاتھ سے دوسرے کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کہاوت مشہور ہے کہ جس کے ہاتھ مل جائیں اس میں قوت مردمی زیادہ ہوجاتی ہے۔ میں نے دیکھا بہت سے لوگ اس طرح اپنے آپ کو آزمارہے تھے جس میں کچھ یورپی ممالک سے آئے ہوئے سیاح بھی شامل تھے سامنے عورتیں کھڑی مردوں کا تماشہ دیکھ رہی تھیں اور قہقہے لگارہی تھیں۔“
(موسموں کا عکس)
مجھے امید ہے کہ جمیل زبیری کے دونوں سفر نامے اہلِ ادب میں دلچسپی کے ساتھ پڑھے جائیں گے۔
(مطبوعہ ماہنامہ محفل لاہور۔شمارہ مئی ۱۹۸۵ء)