(فیض حیات اور تخلیقات)
ڈاکٹر لدمیلا ماسکو میں اردو کی معروف خدمتگار ہیں اور پوری اردو دنیا میں ان کا نام جانا پہچانا ہے۔یوں تو اردو زبان کے حوالے سے ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کی ایک اہم شناخت ”فیض شناسی“ کی ہے۔ سابق سوویت یونین میں فیض احمد فیض کوجو عزت و توقیر حاصل تھی وہ اظہر من الشمس ہے۔فیض کی زندگی اور ان کی ادبی خدمات کے سلسلہ میں ان کی زیر نظر تصنیف بنیادی طور پرروسی زبان میں لکھی گئی اور اسی میں شائع ہوئی۔اس کے بعد اس کتاب کے چند ابواب کا اردو ترجمہ اُسامہ فاروقی نے کیا۔اسی دوران ان کی وفات ہو گئی تو بقیہ ابواب کا ترجمہ ڈاکٹر لدمیلا نے خود کیا(خدا انہیں سلامت رکھے) اور یوں یہ کتاب اہلِ اردو کے لئے بھی دستیاب ہو گئی۔
اس کتاب میں نہایت محنت اور عرق ریزی کے ساتھ فیض کی زندگی کے حالات جمع کیے گئے ہیں۔ان کی زندگی کے نشیب و فراز کو بڑی حد تک اس میں یکجا کر دیا گیا ہے۔فیض کی شخصیت میں جو نرمی،محبت،صلح جوئی،امن پسندی تھی اور اس نوعیت کی دیگر تمام خوبیوں کے ساتھ وہ ایک انقلابی شاعر بھی تھے۔ان کی انقلابی شاعری میں بھی ان کے شخصی اوصاف نے ایک دھیما پن پیدا کر دیا۔وہ دھیما پن جس نے فیض کو باقی سارے ترقی پسند شاعروں سے منفرد و ممتاز کر دیا۔ فیض کی شاعری کا جائزہ لینے میں ڈاکٹر لدمیلا نے نہایت علمی و ادبی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔جو ہندو پاک میں فیض کے ان مداحوں کے لیے ایک چیلنج ہے،جو فیض کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کے باوجود ابھی تک ڈاکٹر لدمیلا جیسی بصیرت تک نہیں پہنچ سکے ۔ڈاکٹر لدمیلا کی تنقیدی بصیرت کا کمال ہے کہ انہوں نے فیض سے اپنی عقیدت کو مجروح بھی نہیں ہونے دیا اور ان کی ادبی خوبیو ں کے ساتھ ان کی ادبی کمزوریوں کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔فیض کی شاعری کا ارتقائی سفر جاننے کے لیے ڈاکٹر لدمیلا کے تجزیے سند کا درجہ اختیار کر گئے ہیں۔
فیض کی زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ہمیں یوں تو متعدد شخصیات سے تعارف ھاصل ہوتا ہے۔لیکن دو شخصیات کا تعارف بے حد اہم ہے۔ایک ایلس فیض جنہوں نے ایک برطانوی خاتون ہوتے ہوئے کسی بھی مشرقی خاتون سے بڑھ کرفیض سے وفا کی اور سکھ دکھ میں ہمیشہ ساتھ دیا۔دوسری شخصیت فیض احمد فیض کے والد صاحب کی ہے۔سلطان محمد خاں کی زندگی ایسے حیرت انگیز نشیب و فراز کی حامل ہے کہ قاری ہر قدم پر چونکتا ہے ۔جیسے یہ سچ مچ کی نہیں ،کسی طلسماتی کہانی میں بیان کی گئی زندگی ہو۔سچی بات یہ ہے کہ بے شک فیض کی اپنی زندگی جدو جہد، محنت، قربانی اور محبت سے بھری ہوئی ہے، لیکن ان کی طلسماتی شخصیت کی داستان بھی اپنے والد سلطان احمد خاں کی حیرتوں سے بھری زندگی کی داستان کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔
اس کتاب میں یوں تو سارے واقعات گہری تحقیق کے بعد بیان کیے گئے ہیں۔ تاہم کلکتہ یونیورسٹی میں فیض کی ملازمت کے حوالے سے مجھے مزید تحقیق کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ڈاکٹر لدمیلا کے بیان کے مطابقجب فیض صاحب پاکستان سے نکل کر دلی گئے تو وہاں انہیں کئی یونیورسٹیز میں پروفیسر کی جگہ پیش کی گئی،وہ کلکتہ یونیورسٹی کو جائن کرنا چاہ رہے تھے کہ اسی دوران حکومت پاکستان نے حکومت ہند کو اشارا دیا کہ ایک پاکستانی شہری کے لیے اس طرح کا اقدام مناسب نہ ہو گا۔
ہندوستان میں مغربی بنگال ہمیشہ سے کیمونسٹ پارٹی کا گڑھ رہا ہے۔میری معلومات کے مطابق فیض کی جیوتی باسو سے ملاقات ہوئی تھی۔ان کے لیے کلکتہ یونیورسٹی میں ملازمت کی فراہمی کی غرض سے اقبال چیئر کی منظوری ہو رہی تھی۔منظوری کا باضابطہ طریق کار کسی حد تک طویل تھا۔سو انہیں پاکستانی حکومت کے کسی دباؤ کے باعث انکار نہیں کیا گیا تھا۔لیکن اقبال چیئر کی منظوری کے دفتری عمل کی طوالت کے دوران فیض کو لوٹس میں ادارت کی جاب مل گئی اور وہ دلی سے ماسکو ہوتے ہوئے لبنان چلے گئے۔میرا خیال ہے اس حوالے سے مزید تھوڑی سی تحقیق کی ضرورت ہے۔ممکن ہے ڈاکٹر لدمیلا کی بات ہی درست نکلے لیکن احتیاطاََ مزید تحقیق کی تھوڑی سی گنجائش موجود ہے۔باقی یہ حقیقت ہے کہ فیض پر یہ کتاب ایک دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب ہے۔
کاش فیض کے پاکستانی اور انڈین مداح بھی فیض پر اسی پائے کی کوئی کتاب لکھ سکیں۔
( مطبوعہ جدید ادب جرمنی، شمارہ جنوری ۲۰۰۸ء)