اردو میںجدید یت اور ترقی پسندی کی تحریکیں لگ بھگ نصف صدی سے ایک دوسرے کی ضد سمجھی گئی ہیں اور ان کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کے کئی واقعات ادب کی تاریخ میں محفوظ ہیں۔پھر کیا بات ہوئی کہ جدید ادبی رویوں سے منسوب ایک ادبی رسالہ ترقی پسند تحریک کے بانی کا خاص نمبر شائع کرنے جا رہا ہے؟
اس کی کئی وجوہات اور جواز ہیں۔ان میں سے ایک جواز علامہ اقبال کے حوالے سے عمومی طور پر جانا تو جاتا ہے لیکن اسے مناسب طور پر نمایاں نہیں کیا جا سکا اور دو جواز جوکسی حد تک چونکانے والے ہیں۔ایک ڈاکٹر وزیر آغا کے حوالے سے ہے اور ایک صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے لیکن پہلے اپنے حوالے سے ایک عرض۔
میری ذاتی زندگی ایک مزدور کی زندگی ہے اور اس طبقہ کی سب سے موثر نمائندگی ادب میں ترقی پسند ہی کرتے ہیں،سو اس لحاظ سے میں خود ساری زندگی عملی طور پر ایک ترقی پسندکی زندگی جیا ہوں۔بہت سارے ایسے ترقی پسندوں کے بر عکس جو ائیرکنڈیشنڈ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر غریبوں،مزدوروں،کسانوں کے دکھوں کا حل ڈھونڈتے رہے، میں نے ایک مزدور کی زندگی بسر کرکے براہِ راست زندگی کے بھوگ اور تخلیق کے روگ کو سمجھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو ادب کے روایتی،ترقی پسند اور جدید ادوار میں ادب کی مقبولیت کا زمانہ طے کیا جائے تو یقیناََ ترقی پسند تحریک کا دور اس لحاظ سے سب پر فوقیت رکھتا ہے کہ اس دور میں اردو ادب کے جتنے بڑے اور اہم شاعر و ادیب پیدا ہوئے بعد میں اتنی کثرت سے اتنے اہم اور بڑے شاعر و ادیب سامنے نہیں آسکے۔ تب ادب کے عام قارئین کثرت سے موجود تھے۔ادب فہمی صرف ادیبوں کا مسئلہ نہیں تھا۔اس میں قارئین بھرپور طور پر شریک ہوتے تھے۔ادب کا معمولی سا قاری بھی آج کے کئی شاعروں اور ادیبوں سے زیادہ ادبی تربیت کا حامل ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے یقیناََ ادب کا زندگی سے براہِ راست تعلق تھا۔جدید ادب کی بہت سی خوبیاں اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے بہت سارے تخلیق کار داخلیت کے نام پر اپنے اندر اس حد تک چلے گئے کہ باہر کی دنیا سے بالکل ہی لا تعلق ہو گئے۔ان کے اس رویے سے دو بڑے نقصان ہوئے ایک تو یہ کہ ادب کے ساتھ قاری کا رشتہ ترقی پسندوں نے جتنا مضبوط بنا دیا تھا وہ بالکل ہی کمزور ہو کر رہ گیا۔نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔دوسرا یہ کہ ادب میں داخلیت کے نام پر جعلی لکھنے والوں کی یلغار ہو گئی۔کسی بھی اول فول لکھنے والے کی کسی تحریر میںجدید نقاد نے فلسفیانہ معانی کے دریا بہا دیے۔چنانچہ پھر ایسے ناقدین میں سے بعض نے سوچا کہ اگر ہم جسے چاہیں میرا جی کا یا کسی اور بڑے شاعر اور ادیب کا ہم پلّہ بنا سکتے ہیں تو پھر اصل کمال تو ہماری تنقید کا ہوا۔سو اصل فنکار تو ہم ہوئے۔اس سوچ نے مابعد جدیدیت کے ان ناقدین کی دوکان کھول دی جنہوں نے صاف کہہ دیا کہ مصنف کی موت ہو گئی ہے اور اب قاری تخلیق کا جو مطلب سمجھے گا وہی اصل مطلب ہوگا۔”بد قسمت مصنف“ کو اتنی وضاحت کا حق بھی نہیں ہوگا کہ وہ بتا سکے کہ بھائی! آپ جو معانی اخذ کر رہے ہیں بجا سہی۔۔ لیکن میرے پیش نظر اس کا یہ معنی تھا۔مجھے یہ حق ادیب کے طور پر نہ سہی چلو اپنی تخلیق کا سب سے پہلا قاری ہونے کی حیثیت ہی سے عنایت فرما دو۔لیکن مابعد جدید نقاد نے تخلیق کار کا اپنی تخلیق کا پہلا قاری ہونے کا حق بھی سلب کر لیا کہ اس کے بغیر اس کی تنقیدکی دوکان کیسے چل سکتی۔سو ما بعد جدید تنقید نے ساری اہمیت اپنی مرضی کے قاری کو عطا کر دی اور تخلیق کے مطالعہ کے اس کھیل کا یہ قاری کون ہے؟ صرف وہی مابعد جدید نقاد جو پہلے جدیدیت کے نام پر جعلی شاعروں اور ادیبوں کو تمغے بانٹ چکا تھا اور اب ادب کا قاری بن کر شاعر اور ادیب کو ادب سے بے دخل کر کے کلی طور پر سلطنت ادب پر قابض ہوناچاہتا ہے۔سو یوں جدید اور ترقی پسندی کی کشمکش ادب کو اس مضحکہ خیز عملی صورتحال تک لے آئی ۔ آج یہ حال ہے کہ جعلی شاعروں اور ادیبوں کی بھرمار ایک طرف ہے تو دوسری طرف نقاد کو پیسے دے کر انتہائی کمزور یا جعلی لوگوں پرمضامین لکھوانے کی حیران کن خبریں بھی سننے میں آ نے لگی ہیں۔بے شک ادب میں اس قسم کی تھوڑی بہت کرپشن ایک عرصہ سے کسی نہ کسی رنگ میں چل رہی ہے لیکن تخلیق کارکے مقابلہ میں نقاد کو پیسے دے کر لکھوانا ادب میں نقاد کی بالادستی کے مابعد جدید تصورپر مبنی محض ’ ’تماشائے اہلِ قلم “ ہے۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے،اب دوسری طرف دیکھتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک زندگی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے عملاََ اتنی زیادہ خارجیت پسند ہوئی جا رہی تھی کہ انسان کے باطن سے اور روح کے اسرار سے اسے جیسے کوئی غرض نہ رہی تھی۔پھر ایک مخصوص نظریہ کی پیروی پر اصرار سے کئی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے۔تخلیق کارکی آزادی نظریے کی اطاعت گزاری پر مجبور کر دی گئی،نظریے کی پیروی کرنے والے تھرڈ کلاس سے بھی گئے گزرے تخلیق کاروں کو بانس پر چڑھایا جانے لگااور پارٹی لائن کی پابندی سے انکار کرنے والوں لیکن کھرے اور سچے تخلیق کاروں کو نہ صرف نظر انداز کیا جانے لگا بلکہ ان کے ادبی سطح پر سوشل بائیکاٹ کے فیصلے بھی کیے گئے۔ یہ المیے ہمارے ادب کی تاریخ کا افسوسناک حصہ ہیں۔ بہت سارے ایسے لکھنے والے تھے جو ذہنی طور پر،اپنے طبعی میلان کے لحاظ سے اور فکری طور پر ترقی پسند تحریک کے اصل الاصول سے اتفاق رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی وہ تخلیقی لمحہ میں اپنے اندر کی مکمل آزادی کے خواہاں تھے۔ لیکن نظریے اور تنظیم سے مکمل فرمانبرداری کے بے جا مطالبہ نے اپنے دوستوں کو بھی خود سے دور کیا اور یہ رویہ خود تحریک کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوا۔
ڈاکٹر وزیر آغا کو عام طور پر ترقی پسند تحریک کا مخالف شمار کیا جاتا ہے،قطع نظر اس سے کہ ان کے نزدیک وسیع ترزندگی اور اس سے بھی وسیع تر کائنات کے اسرار پر غورو فکر کرنا زیادہ اہم رہا ہے اور ترقی پسند رویہ زندگی کی صرف ایک قاش کو سامنے لاتا ہے۔۔۔ تاہم ترقی پسند اہلِ علم کے لیے ایک حقیقت کو ذرا واضح کرنا چاہتا ہوں۔ ترقی پسندی کی بنیاد جس مارکسزم پر تھی،اس کی بنیاد ہیگل کی جدلیات پر تھی۔کارل مارکس نے ہیگل کی جدلیات کوجس طرح اقتصادی حوالے سے ایک فعال اور متحرک روپ دیا(جس سے کل تک امریکہ لرزاں رہا ہے) ریاض صدیقی کی ایک تحریر کے مطابق ہیگل کی اسی جدلیات کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر وزیر آغانے ثقافتی سطح پر اسے اردو شاعری پر منطبق کیا ہے۔ ان کے اس اہم کام کا ثبوت ان کی تصنیف”اردو شاعری کا مزاج “ہے۔اگر ہمارے پڑھے لکھے ترقی پسند نقادوں نے(ذاتی دشمنی کی سطح سے بلند ہو کر) اس کام کی اہمیت کو جانچا ہوتا تو شاید وزیر آغا کو اس طرح ترقی پسندوں کا دشمن ثابت نہ کیا ہوتا۔ترقی پسندوں کے تنظیمی سطح کے فرقہ پرستانہ رویے نے ہی در اصل اس تحریک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔اگر اب نو ترقی پسندی کی لہر توانا ہونے لگی ہے تو اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا کے تھیسس کو اس کے اصل ماخذکے حوالے سے از سر نو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ ریاض صدیقی اور رشید امجد جیسے معتبر ترقی پسند لوگ تفہیم کے اس کام کو زیادہ بہتر طور پر آگے بڑھا سکتے ہیں۔یہ ترقی پسندوں کا انتہائی قیمتی ادبی اور ثقافتی اثاثہ ہے جسے انہیں خود مزید دریافت کرنا ہوگا۔ڈاکٹر وزیر آغا اپنی بعض تحریروں میں ترقی پسند تحریک کو خود جدیدیت کی تحریک کی ایک ثانوی تحریک قرار دے چکے ہیں،ان کی امتزاجی تنقید بھی مارکسی تنقید،ارضی ثقافتی تحریک کی تنقید اور ترقی پسند روایت سے منسلک دوسرے تنقیدی رویوں سے بھی اتنا ہی استفادہ کر سکتی ہے جتنا دوسرے داخلی رویوں والی تنقیدوں سے۔سو یوں دیکھا جائے تو جنہیں مخالف کہا جا رہا ہے در اصل وہ مخالف نہیں ہیں ،بس ان کے بات کرنے کا،سمجھنے کا اور سمجھانے کا اپنا انداز ہے۔
صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے حالیہ دنوں میں کثرت کے ساتھ روشن خیالی اور ترقی پسندی پر زور دیا ہے۔یقیناََ جنرل پرویزمشرف نے ان الفاظ کو ان کے پورے فکری تناظر میں جانتے ہوئے کہا ہوگا جو خوشکن بات ہے ۔ ہمارے ایک فوجی حکمران میں ادب فہمی کی اتنی سوجھ بوجھ ہے کہ وہ لگ بھگ اٹھارویں صدی کی Enlightenmentکی مغربی تحریک (جو ہمارے ہاں انیسویں صدی میں آئی) کو بھی جانتے ہیں اور اردو ادب میں اور بر صغیر پاک و ہند میں بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے نصف میں نمایاں ہونے والی ترقی پسند تحریک کو بھی جانتے ہیں ۔یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے ابتدائی جمہوری زمانہ میں پاکستان میں ترقی پسندوں پرعرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا ۔ ہمارے کئی شاندار شاعر اور ادیب حکومت کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر انڈیا میں جا بسے اور وہاں ان کے فن کو نہ صرف انڈیا بھر میں تسلیم کیا گیا بلکہ پاکستان میں بھی ان کی ادبی قدرو منزلت ہوئی۔جو لوگ انڈیا نہیں جا سکے ان میں سے کئی ایک نے جیل کی ہوا کھائی۔خفیہ والوں نے ان کا جینا حرام کر دیا۔یہ سب کچھ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ ہماری تاریخ میں یہ عجیب سی بات بھی ہے کہ پاکستان میں وقتاََ فوقتاََ فوج جس طرح اقتدار میں آتی رہی ہے،اس کی ابتدا کا داغ بھی ترقی پسندوں پر لگتا ہے۔۱۵۹۱ءمیں راولپنڈی سازش کیس کے ملزمان میں جنرل اکبر کے ساتھ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر جیسے معتبر ترقی پسند شامل تھے ۔اب یہ ترقی پسند تحریک کی بد قسمتی تھی کہ انقلاب ناکام ہوا اوربغاوت و سازش قرار پایا۔اس کیس میں اپنی قیدبھگتنے کے بعد سجاد ظہیر انڈیا چلے گئے۔حالانکہ بر صغیر میں ترقی پسندوں کا رویہ کبھی بھی اس انداز کا نہ تھا لیکن شاید تب کی پاکستان کی جمہوری حکومتوں کی افسوسناک پابندیوں اور سختیوں سے نالاں ہو کر ہی ہمارے ان معتبر ترقی پسندوں نے جنرل اکبر کا ساتھ دینا گوارا کر لیا۔
اور اب وطنِ عزیز کی تاریخ اس موڑ پر ہے کہ جنرل پرویزمشرف خود ترقی پسندی کی تلقین کر رہے ہیں۔انڈیا میں پنڈت جواہر لال نہرو ترقی پسندوں کے بڑے حامی تھے اور وہی دور انڈیا میں عمومی طور مذہبی رواداری کا دور تھا۔ان کے بعد اب جنرل پرویز مشرف نے ترقی پسندی کی بات کی ہے تو خوشگوار حیرت کا احساس ہوا ہے۔جواہر لال نہرو کے مقابلہ میں جنرل پرویز مشرف کس حد تک ترقی پسند ثابت ہوتے ہیں؟ (ہوتے بھی ہیں یا نہیں؟)یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔تاہم یہ سارے عوامل میرے ذہن میں تھے جب برادرم علی احمد فاطمی نے سجاد ظہیر نمبر کی اشاعت کا مشورہ دیا۔اور اب سجاد ظہیر نمبر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اس نمبر کو مرتب کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے لی تھی۔تاہم میں نے اپنے طور پر بھی چند ادیبوں سے براہِ راست مضامین حاصل کیے۔ فاطمی صاحب کے فراہم کردہ مضامین میں سے کون سے مضامین تازہ ہیں اور کون سے مطبوعہ،اس کی نشاندہی نہیں ہو سکی تاہم اتنی وضاحت ہو گئی ہے کہ مطبوعہ مضامین کراچی میں مقیم ترقی پسند نقاد پروفیسر عتیق احمد صاحب کی کتاب ”سجاد ظہیر ۔تخلیقی اور تنقیدی جہات“سے لیے گئے ہیں ۔سو ادارہ جدید ادب پروفیسر عتیق احمد صاحب کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہے کہ ان سے کوئی رابطہ ہوئے بغیر انڈیا کے ایک دوست کے توسط سے ہم نے ان کی کتاب سے استفادہ کیا ہے ۔ پورے حوالہ جات یہاں دستیاب ہوتے تو میں ہر ماخذ کا حوالہ درج کرتا۔بہر حال دوست احباب اور بالخصوص ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے تعاون سے جو کچھ ممکن ہو سکا اس نمبر میں پیش خدمت ہے۔کینڈا کے ڈاکٹر بلند اقبال اور سردار علی صاحب کا بھی شکریہ کہ اس نمبر کی تکمیل میں ان کا بھی تعاون حاصل رہا ۔
میں نے اس نمبر کی اشاعت کے جواز میں شروع میں علامہ اقبال کا بھی حوالہ دیاتھا۔اس جواز کا ذکر بھی یہاں ناگزیر ہے۔ اور وہ ہے ترقی پسند تحریک سے چندبرس پہلے علامہ اقبال کے ہاں کیمونسٹ روس کی فکر کے اثرات اور ان کا بر ملا اظہار۔علامہ اقبال کی نظمیں’فرشتوں کا گیت‘’خدا کا خطاب‘اور’ لینن خدا کے حضور میں‘اس کی روشن مثال ہیں۔ داخلی سطح پردیکھا جائے تو اقبال کے ہاں اس فکر کے ڈانڈے اسلام میں انقلابی اور ترقی پسند سوچ کی ’بوذری ؓفکر‘ سے جا ملتے ہیں،یوں اسلام اور ترقی پسندی کے مشترکہ رویوں کو با آسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے مخلصانہ وابستگی رکھنے والوںکوایک طرف تحریک کی خامیوں کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے،دوسری طرف ڈاکٹر وزیر آغا کی نشان زد کی گئی فکر کے حوالے سے از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔تو علامہ اقبال کے ہاں ترقی پسند تحریک سے پہلے کی ترقی پسند اپروچ کے فکری و روحانی ماخذ تک پہنچنے اور اس پر مزید کام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔امید ہے سجاد ظہیر نمبر اہلِ ادب کی سوچ کو متحرک کرنے کا باعث بنے گا۔
(اداریہ جدید ادب جرمنی ،سجاد ظہیر نمبر شمارہ جنوری تا جون ۲۰۰۶ء)