”کلام نایاب ذخیرہ لا جواب ”دیوان ریختی عرف رنگیلی بیگم“ مصنفہ بابو محمد محسن خان تخلص محسن ،عنقا بیگم ،ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر روہیل کھنڈ کمایوں ریلوے مصنف ”ڈالی“ ،”خواب سرشار“،” برہستہ پوئٹری و سفر نامہ لندن ہزہائی نس عالی جناب نواب صاد ق محمد خان صاحب بہادر عباسی پنجم والیٔ ریاست بہاول پور دام اقبالہ “، ”مثنوی قہر عشق عرف مہندی جان حنا “ وغیرہ با اہتمام کیسری داس سیٹھ سپرنٹنڈنٹ نولکشور پریس لکھنو میں چھپا۔“
یہ الفاظ ہیں خان پور کے ایک پرانے اور گمنام شاعر جناب محسن خان پوری کی اس مطبوعہ کتاب کے سہ رنگا پرانے طرز کے سرورق کے جس کا ایک نسخہ خوش قسمتی سے میرے ہاتھ لگ گیا ہے۔اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۲۹۱ئ میں شائع ہوا۔ میرے پاس موجود نسخہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے اس سے یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ”دیوان ریختی“کا پہلا ایڈیشن ۱۲۹۱ءمیں شائع ہوا تھا مگر یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ دوسرا ایڈیشن کب شائع ہوا۔
”دیوان ریختی“ کے صفحہ ایک سے چار تک دوسرے ایڈیشن کا دیباچہ درج ہے اسی دیباچے میں درج ہے ”دیوان ریختی عرف رنگیلی بیگم کا پہلا ایڈیشن لکھنو کے گلزارابراہیمی پریس میں ۱۲۹۱ءمیں شائع ہوا تھا اور ایک ہی سال میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا“۔________” ہمارے احباب لکھنو، بریلی، لاہور، حیدر آباد نے رنگیلی بیگم کا دوسرا ایڈیشن طبع کرانے کے لیے بار بار لکھا اور تاکید شدید کی“۔
اس کے بعد دس صفحات پر مشتمل پہلے ایڈیشن کا دیباچہ درج ہے جس میں اس کتاب کی وجہ تصنیف یوں بیان کی گئی ہے۔
”آج تمام ہندوستان کے کتب خانوں اور کتب فروشوں کی دوکان پر ایک بھی ایسی کتاب نظرنہیں آتی جس کا نام دیوان ریختی ہو ۔جس کی دید سے حسینان دہلی اور لکھنو کی پیاری پیاری لبھانے والی بول چال شوخی، مذاق، رمزکنایہ اور شرارت بھری چتون کی ہو بہو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے کھنچ جائے۔“____ اس دیباچے میںجان صاحب کی شاعرانہ صلاحیتوں کے اعتراف کے ساتھ اس امر پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماحول کے مطابق فحش گوئی کے ”گناہ عظیم“کی طرف جھک پڑے۔ جان صاحبان کے دو شاگردوں ،نازنین اور چنچل کا بھی سرسری ساذکر کیا گیا ہے پھر ایک جگہ لکھتے ہیں۔”ہم نے یہ بارگراں احباب کی بزم سخن کو گرمانے یا ان کے ہنسنے ہنسانے کے لیے اپنے دوش پر نہیں لیا بلکہ صرف اس غرض سے کہ جان صاحب کے غیر مہذب کلام کے زہریلے اثر کوان کے دلوں سے دھوڈالیں جو درحقیقت ناپاک عادتیں پیدا کرنے والا، اخلاق اور تہذیب سے کوسوں دور ہے اور ایک ایسی جدید طرز کی طرف توجہ دلائیںجو حرف گیری سے بالا تر اور حقیقی واقعات کا اصلی منظر ہواور جس سے ہم خرما و ہم ثواب دونوں باتیں حاصل ہوں
نہیں یہ رمز حور کی باتیں
غور کیجئے ہیںدور کی باتیں
خدا کا شکر ہے کہ جس نیک پالیسی اور سچی خواہش سے ہم نے اپنا کلام یا کام شروع کیا تھا اس کوآخیر تک اسی صورت میں نباہ بھی دیا جس کا انصاف اہلِ بصیرت کی کامل توجہ پر منحصر ہے۔“
اسی دیباچے میں ”دیوان جان صاحب سے مقابلہ “کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔
”چونکہ ہم نے اپنے دیوان میں نو ایجاد پھول پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے جو موجود ہ زمانہ کی ترقی نے شاید ہماری ہی قسمت میں لکھ رکھے تھے لہٰذا ہماے اور جان صاحب کے کلام میں اس قدر اختلاف ہے جو ہوا اور پانی ، خاک اور آتش یادن اور رات میں “۔
اس کے بعد جان صاحب اور اپنے کلام میں نمایاں فرق کے اجزا یوں بیان کرتے ہیں۔
”ان کے کلام میںفحش یا ننگی گالیاں لبالب بھری ہیں اس کے برعکس ہمارے کلام کا چمن ان کانٹوں سے با لکل پاک ہے۔‘ ‘___ ”دوسری بات جو بالکل برعکس پیچیدہ اور چونکا دینے والی ہے کہ جان صاحب کے دیوان میں اصنافت کا نام نہیں، اس کے بر خلاف ہمارے دیوان میںاس کی وہ بھر مار ہے جس کا شمار نہیں“۔۔ایک اور فرق یوں لکھتے ہیں۔
”جان صاحب مرحوم اپنے سامعین کو خوش کرنے کے لیے ایک من گھڑت فحش مضمون دل سے ایجاد کر لیا کرتے تھے جس کو واقعات سے کچھ سرو کار نہ ہوتا تھا۔……..اس کے برخلاف راقم نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب واقعات کی تصویر اور مشاہدات ذاتی کا فوٹو ہے۔ “
”نتیجہ تقریر بالا “ کے عنوان کے تحت اعتراف کیا گیا ہے کہ ہمارا کلام نقص سے پاک نہیں کہ بے عیب صرف خدا کی ذات ہے، البتہ ”ہم نے اس دلفریب کلام کی شاخ میں ایک ایسا جدید ، سہل اور صاف راستہ کھول دیا ہے جو دل کشا ، خوش نما، ہر دلعزیز اور مرغوب عام ہے۔“
اسی عنوان کے تحت اصحاب باریک بین کی کسی بھی معقول اصلاح یا ترمیم کو باوقعت ہونے کی صورت میں شکریہ کے ساتھ قبول کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ”نا شائستہ الفاظ“کے عنوان کے تحت کسی رنڈی ، چھنال، مالزادی، بھڑوا، دھگڑا،ننگا، اٹھائی گیرا وغیرہ الفاظ کو ناشائستہ تسلیم کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ یہ الفاظ“اشتعال طبع کے و قت بڑی سے بڑی مہذب اور شائستہ بیگمات اور شہزادیوں کی زبان سے بھی نکل جاتے ہیں۔“اس لئے اسے ”نقل کفر،کفر نباشداور محض ”نقل روایت“قرار دے کر بھی ان احباب سے معافی مانگی گئی ہے جنہیں یہ الفاظ ناگوار گزریں۔
”حاشیہ اور نوٹ“کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔ ”اس دیوان میں ریختیاں زیادہ تر ہیں“تمام ایسی ریختیوں کے ساتھ ان کی تصنیف کی کیفیت وغیرہ حاشیے میں درج کرنے کے ذکر کے ساتھ لکھاہے ۔”حاشیہ کلام جوایزاد کیا گیا ہے وہ خالی از لطف نہیںبلکہ انشاءاللہ نہایت پر لطف ثابت ہوگا“دیباچہ کے آخر میں ریختیوں کی تقسیم کے عنوان سے اپنی ریختیوں کی اقسام یوں بیان کی ہیں۔
۱۔ اخباروں کی طرح پر ریختیاں ۲۔ مشاعروں کی طرح پر ریختیاں ۳۔ بر طرح شعرائے قدیم ۴۔ احباب کی فرمائشی ریختیاں ۵۔ ریختی قصائد اردو ۶۔ ایضاََ انگریزی اردو ۷۔ پولیٹیکل کلام انگریزی ، اردوجن میں قصائد لارڈ کیچنر مرحوم و شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم بھی شامل ہیں۔ ۸۔ ریختی کافیاں، زبان لکھنو۔ دھن پنجابی۔ یہ خالص مصنف کی ایجاد ہیں۔ اگر اصحاب تاریخ دان پتہ لگا دیں کہ اس سے قبل بھی کہیں ایسی تصنیف ہو چکی ہے تو مصنف ان کا کمال مشکور ہوگا۔ _____
اس دیوان ریختی میں حروف ابجد کے حساب سے ردیف وار ریختیاں درج کی گئی ہیں۔ژ اور ء کے علاوہ تمام حروف کو استعمال کیا گیا ہے۔ اب میں اس دیوان کا ان اہم اشعار کی حد تک مطالعہ پیش کرتا ہوں جن کے ساتھ خاص نوعیت کے حاشیے درج ہیں۔ ان اشعار اور حاشیوں سے ۱۹۲۱ءکے لکھنو ، دہلی، بریلی وغیرہ ادبی مراکز کا کچھ احوال بھی معلوم ہو جاتا ہے اور ز وال کے آخری مرحلے میں پہنچی ہوئی تہذیب کے اسباب پر بھی اچٹتے اشارے مل جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں معاشرتی زندگی کے بعض اور گوشے بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
ہوتا بسم اللہ سے آغاز ہے دیوان کا
راز سر بستہ ہے وہ باجی در قرآن کا
دم عدم کا بھرتی ہیں سانسیں نگوڑی دم بدم
کیا بھروسہ ہے بو ادم میں دمِ انسان کا
جانتے طاعونِ ملعوں کو وہ ہیں قہر خدا
حادثہ ہے یاد جن کو نوح کے طوفان کا
جان صاحب کی طرح پر لکھی گئی تھی جیسے بسم اللہ ہو پھاٹک بوا قرآن کا۔ ۲۱
سراپا عصمت ہیں اور حیا ہیں،ہے شرم باجی شعارا بنا
وہ بھڑوا ننگا ہے مسخرا ہے، بنائیں ہم نوج یار اپنا
٭ایک بیگم صاحبہ نے یہ مصرع تصنیف فرمایا تھا۔ وہ بھڑوا ننگا ہے مسخرا ہے بنائیں ہم نوج یارا پنا
اس پر میں ریختی لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی جو پوری کر دی گئی ۔ ۱۲محسن
کھیل سمجھاہے سفر بھڑوا عدم آباد کا
حوصلہ دیکھو تو گوئیاں اس دلِ ناشاد کا
٭شکر گوالیار کے مشاعرہ کی یاد گار ہے جو میاں حیرت صاحب کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا۔ حاضرین مشاعرہ نے ہر ایک شعر مکرر اور سہ کر رپڑھنے کی فرمائش کی اورخوب داد دی۔ ۲۱محسن
بیٹھنے پائے نہ تھے چوتڑ اٹھائے چل دئیے
خاک نکلے حوصلہ شوقِ دلِ ناشاد کا
٭یہ شعر میاں حیرت صاحب نے بالخصوص کئی بار پڑھوا یا اور خوب ہی ہنسے ۔ مجلس مشاعرہ دیوار قہقہہ نظر آتی تھی۔ ۱۲محسن
پھر گیا طبلہ بجانے آج گوہر جان کا
کیسا ننگا ہے نگوڑا باپ چندر بھان کا
٭والدہ چندر بھان کی خاطر سے لکھی گئی تھی جوبی الہٰی جان کی خاص گوئیاں اور علی گڑھ کی رہنے والی ہیں آج کل کوئی ایسا شہر نہیں جہاں دو تین گوہر جان نہ ہوں لہذا ہمارے مطلع کی گوہر جان کلکتہ والی گوہر جان نہیں بلکہ ایک اور حسینہ ہیں۔ ۱۲محسن
تم نے کیا نہیں بوا دیکھا
یار سا کوئی چلبلا دیکھا
دل میں کر کر کے گھر مجھے مارا
پیار ان کا بوا بلا دیکھ
ایک شوخ، چنچل، چلبلی اور چلتی ہوئی معشوقہ بازاری یا بھٹیاری کی خاطر لکھی گئی تھی جو سرائے آغا میر لکھنو میں مقیم تھی، لکھنو کے رئیس زادے اس کی ایک ایک ادا پر سینکڑوں خرچ کر ڈالتے تھے۔
دیکھنا امی تماشا پیر کا
کر لیا شیدا مجھے تقریر کا
سن چکی ہوں حال سب تحریر کا
بوسے لینا سوت کی تصویر کا
پارا کشتہ کر دیا بے پیر کا
مل گیا نسخہ مجھے اکسیر کا
لکھنو کی ایک شوخ دشنگ آفت کا پر کالا فریندۂزاہد صد سالا شاہد بازاری بی نصیر جان متخلص بہ نصیر کے در دولت پر ایک مشاعرہ ہواتھا ۔یہ ریختی اسی جلسہ عابد فریب کی یاد گار ہے جو ہمیشہ تر وتازہ رہے گی۔
۱۲محسن
کھل گیا وہ پیٹ کا رازِ نہاں
خوف تھا جس کی بوا تشہیر کا
راز نہاں ہمیشہ پیٹ میں محفوظ رہتا ہے مثلاً ہمارے پیٹ میں سینکڑوں راز بھرے ہیں۔ ۲۱محسن
کوئی مر جائے یا ہو جان بلب
اپنے مطلب سے ہے انہیں مطلب
ایک پاکباز پری پیکر کی فرمائش سے لکھی گئی تھی جس کی شوخی طبع نے یہ مصرع موزوں کیا تھا۔
”اپنے مطلب سے ہے انہیں مطلب“۔ ۱۲محسن
دیکھنا پان کی جاخاک نہ بھر دوں منہ میں
شیخ الجھے تو مواخاک بسر آپ سے آپ
ہم بگڑتے نہیں ایسے کہ بوا من جائیں
وہ منایا کریں سوبار اگر آپ سے آپ
کرو تدبیر وہ گوئیاں کہ میاں ترک کریں
کوٹ پتلون سے ہوٹل کا ڈنر آپ سے آپ
انگریزی قافیہ اردو میں انوکھی بات ہے ۔ ہمارے اکثر احباب اس کو دیکھ کر چونک پڑیں گے مگر اصلیت یہ ہے کہ بعض انگریزی الفاظ نے اردو میں وہ د خول نا جائز اختیا کر لیا ہے کہ وہ کسی کے ہٹائے ہٹ نہیں سکتے۔ ان کے ہم معنی یا تو اردو میں تھے ہی نہیں یا با لکل معدوم ہو گئے ہیں۔ڈنر کا نعم البدل تو ممکن ہے مگر کوٹ پتلو ن، اردو الفاظ کہاں سے لائے جائیں تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انگریزی بادشاہ وقت کی زبان ہونے کے باعث اردو میں بزور دخیل ہو تی جاتی ہے اور وہ وقت دور نہیں کہ جب ان دونوں زبانوں کے اتحاد سے ایک تیسری زبان پیدا ہو جائے۔ ۲۱محسن
کس پہ جھپٹا بوا شکاری آج
چیخ پر چیخ کس نے ماری آج
بریلی کے ایک پرانے مشاعرہ کی یاد گار ہے جس کی طرح غالباً یہ بھی تھی کس نے کی گل سے ہمکناری آج ۔اس میں بھی خاکسار محسن نے بڑے بڑے استادوں سے خراج تحسین وصول کیا تھا۔ ۱۲محسن
آج دی تعلیم گت گت کی مجھے تالوں کے بیچ
اب نہ آﺅں گی کبھی استاد کی چالوں کے بیچ
میں تو خود کہتی ہوں باجی خاک ڈالوں شیخ پر
پھانس لیتا ہے نگوڑا پیار کی چالوں کے بیچ
ایک شاہد بازار ی نے شوخی اور چلبلے پن کی بدولت یہ مصرع تصنیف کیا تھا۔
اب نہ آﺅں گی کبھی استاد کی چالوں کے بیچ
اتفاقِ وقت کہ یہ مصرع محسن کے ہاتھ بھی لگ گیا اور پوری غزل تیار ہو گئی۔ محسن
لال کمرے کا آج سا مان سرخ
دیکھ کر ہو گیا وہ نادان سرخ
کہو ساقن سے سرخ مے لائے
آج جوڑا ہے زیب جانان سرخ
پرائیویٹ مشاعروں کا یاد گار اور اس وقت کی بہار ہے کہ جب آٹاروپیہ کا پندرہ سیر فروخت ہوتا تھاموزونی اور روانی طبع کے لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بے فکری ،شکم سیری، آزادی او رآسودگی ہو ۔ خوش مزاجی اور خوش طبعی جس کی مزاجِ انسان کے لیے سخت ضرورت ہے صرف انہیں حالتوں میں اپنا جوہر دکھاتی ہیں اور جناب جب آٹا تین سیر کا ہو تو پھر یہ باتیں کہاں :
سن رہو تم فسانہ ہیں ہم لوگ۔ ۱۲محسن
در بدر بھیک ہی مانگے گا موا میرے بعد
یاد رکھنا یہ مری بات بوا میرے بعد
ہائے نواب ستمگر کی کدورت نہ گئی
ہو گی حسرت کی لب گو رصدا میرے بعد
لکھنو میں ہزار ہا نواب اور ہزار ہا بیگمات ہیں۔ وہ غریب لوگ جو صرف پانچ یا چھ روپیہ ماہوار پاتے ہیں وہ بھی عام طو رپر نواب کہلاتے ہیں اور ان کی مستورات بیگم صاحبان، ممکن ہے کہ وہ بھی کسی زمانے میں رئیس ہوں۔ مگر ان کی شرافت اور اعلیٰ خاندانی میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا۔ انہیں میں ایسے بھی ہیں جو رﺅسائے اعظم ہیں اور ہزارہا روپیہ سرکار سے پاتے ہیں۔ خاکسار محسن کو عرصہ دراز تک انہیں بزرگوں کی صحبت میں رہنا پڑا ہے اور اس کا دیوان انہیں حضرات کے جلسوں کا فوٹو ہے ۔ تاہم اس کا روئے سخن کسی خاص نواب صاحب یا بیگم صاحبہ کی طرف نہیں ہے اور اس میں ان کے نام بھی فرضی ہیں۔۱۲محسن
دل میں حسرت کمال گوہر، ہوں عاشقِ خستہ حال گوہر
ہوئی ہوں غم سے نڈھال گوہر، دکھا دو گوئیاں جمال گوہر
موئی نے پہلے کیا تھا ڈپٹی، جو چُھوٹا ڈپٹی توجج سے لپٹی
کسی سے چپٹی کسی سے چپٹی برا ہے موئی کا حال گوہر
مہاراجہ صاحب دنیا کے ولی عہد بہادر کی شادی کے موقعہ پر گوہر جان کلکتہ سے بلائی گئی تھیں اور رخصتانہ آپ کو مہاراجہ کی طرف سے ایک لاکھ روپیہ نقد ، ایک ہاتھی، کئی گھوڑے اور گھوڑیاںعطا ہوئی تھیں۔ اندرون محل سے منجانب رانی صاحبان بھی ہزار ہا روپیہ کے زیورات و جواہرات عطا ہوئے تھے۔ بی گوہر جان کو اپنی تمام عمر میں کبھی ایسی حاتمانہ سخاوت سے سابقہ نہ پڑا تھا۔ لہٰذا وہ اس گراں بہا عطیہ پر جس قدر فخر اور ناز کرتی بجا اور لازم تھا۔ بی عنقا بیگم نے بھی اس خوشی میں کچھ کم حصہ نہیں لیا اور جھٹ اپنی گوئیاں کو ایک ریختی لکھ کر بھیج دی جو بقول راوی گوہر جان نے بھی پسند فرمائی تھی۔ ۱۲محسن
ناچنا رنڈیوں کے سامنے ننگا ہو کر
زیب دیتا نہیں مرشد کو یہ آقا ہو کر
کرلی مغلانی کی بھی چھوکری رسوا ہو کر
باز آتا نہیں دولہا مرا بوڑھا ہو کر
جب سے کنجڑن کو کیا شیخ نے شیدا ہو کر
رہ گیا سوکھ کے امچور کا چھلکا ہو کر
علی گڑھ کے چلبلے نوجوانوں کامشاعرہ، بزرگان فن کا اجتماع، مریضوں اور دل لگی بازوں کا ہجوم ۔غرض سب کے آخیر میں یہ ریختی پڑھی گئی تھی جس نے محفل کا رنگ ہی بدل دیا اس کے آگے ہم کچھ نہ کہیں گے۔محسن
آیا کیے وہ بہرِ ملاقات چند روز
پر نائکہ سے ہو نہ سکی بات چند روز
لکھنو کا شہر سراپا راز وا سرار ہے اور خود یہاں کے رہنے والوں کو بھی یہ نہیں معلوم ہو تاکہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ سب اپنے اپنے اشتیاق میں مسرور اور اپنی اپنی جماعتوں کو جوہر طبع دکھانے میں مصروف ہیں۔ سب نے اپنی اپنی ٹولیاں قائم کر رکھی ہیں۔ سب کے راز او رمقاصد علیحدہ ہیں۔ ایک جماعت دوسرے کے معاملات میں ہر گز دخل در معقولات نہیں ہوتی اور پرائی پھٹی میں پاؤں ڈالنا گناہ سمجھتی ہے۔یہی سبب ہے کہ یہاں ہر روز عید اور ہر رات شب برات ہے۔ یہ دونوں ریختیاں انہیں جلسوں کو انٹروڈیوس کراتی ہیں۔۲۱محسن
ہیں چلتے پرزے کرتے ہیں ہر بات کا لحاظ
حرکات کی بھی فکر ہے سکنات کا لحاظ
حرکات کی فکر اور سکنات کا لحاظ ؟ کی ایجاد ہے اگر غور فرمائیے تو دریا ایک چھوٹے سے کوزے میں دکھائی دے گا۔
کیوں نہ اس دھگڑے کی باتوں پر اری جل جل مروں
تیل تو گھر میں نہیں اور کہتا ہے کرزن چراغ
کر ۔زن چراغ اور کرزن چراغ کیا اچھا واقع ہو اہے۔ یہ ریختی لارڈ کرزن صاحب کے زمانے میں جب وہ ہندوستان کے گورنر جنرل تھے ۔تصنیف ہوئی تھی۔ ۲۱محسن
دن کو ٹرایا موا پر مجھ سے ہارا رات کو
ڈھونڈتا پھرتا تھا تنکے کا سہارا رات کو
رات کے وقت تو آپ کے مرید ہیں۔ تنکھے کا سہارا کافی سے بھی زیادہ ہے۔ ۲۱محسن
سنتی ہوں سوت سے اب تکرار ہو گئی ہے
بلبل فراقِ گل میں بیمار ہو گئی ہے
یہ تو اپنی ہے کہ گھی کے چراغ جلوائیے اور مٹھائی بھی کھلوائیے۔۲۱محسن
محسن خان پوری عرف عنقا بیگم نے جیسا کہ شروع میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوںنے اردو زبان اور پنجابی دھن میں ریختی کی طرز پر کافی بھی ایجاد کی ہے۔ ان کی اس ایجاد کے دو نمونے بھی دیکھ لیں۔ انہیں کے دعویٰ کے مطابق یہ ”کافی اردو، بر دھن تلنگ سندھڑا۔ ملتانی۔ زبان لکھنو ، بطور ریختی“ ہے۔
ہوا یاد چمن میں گل باجی
گئی بھول میں گل بلبل باجی
شبِ فرقت کا نہیں یارا ہے
دل غم سے پارہ پارہ ہے
دراصل کا یونہی سہارا ہے
نہیں قبر میں تھی بالکل باجی
ہوا یاد چمن میں گل باجی
گئی بھول میں گل بلبل باجی
کیا برپا فتنہ نے شر خالہ
جائے خصم نخصمی کا مرخالہ
کیوں ان کو مجھ سے نفرت ہے
جاتے کیوں ہیں چوک نکھر خالہ
کیا برپا فتنہ نے شر خالہ
جائے خصم نخصمی کا مرخالہ
ریختیوں کے آخر میں ”معذرت “ کے عنوان کے تحت مصنف نے پہلے خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ دیوان ریختی اختتام کو پہنچا۔ اسے اپنے عالم شباب کا ایسا کلام قرار دے کر جو خون جگر پی پی کر تصنیف ہوا۔ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ ”ہمارا مطلق ارادہ نہ تھا کہ ہم اس کو شائع کرائیں۔ یا اس کو ذریعہ معاش بنائیں بلکہ یہ ارادہ تھا کہ یہ ہماری بیاض تک ہی محدودر ہے اور اس سے ایک قدم بھی نہ بڑھنے پائے مگر افسوس احباب لکھنو بریلی ، علی گڑھ اور گوالیار کے تقاضائے شدید سے ہم مجبور ہو گئے اور آخر کار وہی کرنا پڑ ا جس کے نہ کرنے کا عزم بالجزم کر چکے تھے۔چونکہ یہ روسیاہی ازل سے ہمارے نام لکھ دی گئی تھی ۔لہٰذا ہم اس کے مٹانے میں قاصر رہے۔“
اس کے بعد مصنف نے مزید وضاحت کی ہے کہ انہوںنے اپنے کلام کو فحاشیت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر بعض طبائع کو یہ ناگوار گزرے تو ان کی ناراضگی کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اپنی قلیل صفائی میں صرف اس قدر عرض کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں کہ آپ برائے خدا ذرا اپنے اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کر اپنا عالم شباب یاد فرمائیں کہ کیا کیا بے اعتدالیوں کے مرتکب نہ ہوئے ہوں گے۔۔۔۔اچھا یہ بھی نہ سہی مانا کہ آپ شروع ہی سے فرشتہ سیرت رہے اور ہر قسم کی آلودگی سے مبرا چلے آتے ہیں۔ زاہد اور پارسا کہلاتے ہیں۔چشمِ ما روشن، دلِ ماشاد، مگر جناب اس جہالت میں بھی آپ کو مناسب نہیں کہ کسی بداطواریا گنہگار بندۂ خدا کے افعال ناشائستہ پر نکتہ چینی کریں۔۔۔۔۔ اس پر بھی اگر آپ نہ مانیں تو ہم دل وجان سے آپ کی خدمت میں اپنی عاجزانہ معذرت پیش کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ آپ اپنے اوصاف کریمانہ اور اخلاق رحیمانہ سے ہماری جہالتوں کو نظرانداز فرما دیںگے۔“۔۔۔۔۔آگے چل کر مصنف نے بتایا ہے کہ اب وہ پبلک کے پرزور اصرارکے باوجود بھی ریختی نہیں کہتے بلکہ غزل کی طرف توجہ کر رہے ہیں (چنانچہ اس معذرت کے بعد انہوں نے اپنی تین غزلیں بھی نمونتہً در ج کی ہیں) اور معذرت جو خدا کے شکر سے شروع ہوئی تھی اس کا اختتام ان لفظوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
”ہم اپنی گزشتہ روسیاہی کو کافی سمجھ کر ذات پاک باری تعالیٰ سے معافی کے خواستگار ہیں جس کو ہمارے قلب کی صفائی اور کلام کی صداقت کا صحیح علم ہے۔
ایسا اک جام دے تو ساقی مے نو ش مجھے دونوں عالم نظر آنے لگیں روپوش مجھے
خاکسار محسن خان پوری“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس معذرت کے بعد تین غزلیں درج ہیں۔پہلی دو غزلوں کے بارے میں یہ نوٹ بھی درج ہے ۔”اوپر کی دونوں غزلیںاخبار عام روزانہ لاہو ر میں شائع ہو چکی ہیں جس کا مصنف برسوں نامہ نگار رہ چکا ہے۔۱۲محسن“
تیسری غزل کے تین شعر بھی ملاحظہ فرمائیے۔
کسی کا غصہ میں آنچل سنبھال کو کہنا
میں دوں گی گالیاں او بے حیانہ گھور مجھے
میں خود ہی جاتا ہوں یہ لیجئے عدم کی طرف
حضور کرتے ہیں کیوں بار بار دور مجھے
نہیں ہے قدرتِ حق سے بعید کچھ محسن
کہ لے ہی جائے وہ ساون میں خان پور مجھے
غزلوں کے بعد ” معذرت دومی“ کے عنوان کے تحت اپنے غیر اہل زبان ہونے کا اعتراف کر کے کلام کے عیوب پر معذرت چاہی ہے اور درخواست کی ہے کہ حضرات لکھنو بالخصوص اگر دیوان میں کوئی عیب دریافت کریں تو مصنف کو آگاہ فرمائیں۔
علاوہ ازیں ”قطعہ تاریخ طبعزاد مصنف “ اور ”تاریخ دیگر از مصنف “کے تحت دو مختصر سی نظموں میں عیسوی اور ہجری تاریخیں بھی لکھی ہیں۔ساتھ ہی حسب ذیل نوٹ بھی درج ہے۔
”کہاں ہیں ہمارے احباب عابد، زاہد ، فائق ، حسرت ، لائق، شائق وغیرہ وغیرہ جنہوںنے دیوان ریختی کے لیے تاریخیں بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔افسوس کسی مہربان مکرم کی تاریخ وقت پر نہیں پہنچی ۔ دو ایک آئیں بھی تو ایسے موقعہ پر کہ جب کاپیاں مکمل ہو کر پریس میں جا چکی تھیں۔ جن کو ہم درج کرنے سے قاصر اور معافی کے خواستگار ہیں۔ انشاءاللہ تعالیٰ دوسرے ایڈیشن میں سب دوستوں کی تاریخیں یکجائی طور پر درج کر دی جاویں گی۔ “ محسن
اس نوٹ سے ظاہر ہے کہ یہ پہلے ایڈیشن کے موقعہ پر ہی لکھا گیاتھا۔ میرے پاس موجود دیوان دوسرا ایڈیشن ہے مگر اس میں بھی مذکورہ تاریخیں بھیجنے والوں کی کوئی تاریخ شامل نہیں۔اس نوٹ کے ساتھ ایک دلچسپ ”التماس“ بھی شامل ہے۔
”خاکسار مصنف رؤسائے عالیشان کی خدمت میں ملتمس ہے کہ تصنیف کا لطف جیسا کہ مصنف کی زبان سے حاصل ہو سکتا ہے۔ وہ غیروں سے ہرگز ممکن نہیں۔ اگر حضور بھی یہ لطف حاصل کرنے کا اشتیاق رکھتے ہیں تو بسم اللہ سنیئے۔مصنف دیوان ہذا اپنے کلام کو ایک نہایت پر لطف، پر مذاق، دلکش اور شائستہ پیرائے میںادا کر کے سناتا ہے۔ وہ لطف دلربائی اور شان کبریائی دکھاتا ہے کہ جل وصل، محفل عیش و طرب سراپا پر ی بن جاتی ہے۔حور بھی رشک سے زہر کھاتی ہے۔ حق تویہ ہے کہ وہ اس فن میںمشاق ہے۔ دوسرا ریختی گو اس کے مقابلے میں بالائے طاق ہے۔ حسن طالب کو اس خوبصورت رمز اور شوخیانہ انداز سے ادا کرتا ہے کہ جان صاحب مرحوم کی روح بھی بے تعریف کیے نہ رہتی ہو گی۔ کون سی شمع ہے جو اس پر کالۂ آتش کے ہجر میں رنج سوزش نہ سہتی ہو گی۔ کوئی طبیعت کیسی ہی غمگین کیوں نہ ہو ۔ممکن نہیں کہ دوچار شعر سن کر بے اختیار یا بیقرار نہ ہو جائے یا تبسم راحت کے جوش و خروش کو ضبط کر سکے۔یہ وہ جوہر خداداد ہے کہ جو قدرت کے جوہری نے ازل ہی سے مصنف کے نام لکھ دیاتھا اور صرف اسی کے حسن ِ بیان اور لطف ادا کا حصہ ہے۔ اغیار اس سے سراسر محروم ہیں۔فرمائش کے ہمراہ یک صدروپیہ نقد بغرض اخراجات سفر ضرور آنا چاہیے ورنہ تعمیل نا ممکن، انعام بشرط قدردانی۔
دام کچھ خرچ کریں ناز ہمارے دیکھیں
ہیں کہاں ناز حسینوں کے اٹھانے والے
خاکسار محمد محسن خان ،خان پور متخلص محسن و عنقا بیگم مصنف دیوان ریختی عرف رنگیلی بیگم حال مقیم بہاول نگر ، ڈاکخانہ صادقیہ، ریاست بہاول پور۔“
سرورق سمیت اس دیوان ریختی کے کل صفحات ۱۱۲ہیں۔ ”دیوان ریختی“ کے اس مطالعے سے اگرچہ مضحک تضادات کی کئی صورتیں سامنے آتی ہیں تاہم ان ”اوراق گم گشتہ“ کو بنابریں اہمیت حاصل ہے کہ اس کے مطالعہ سے ہمیں پون صدی پہلے کے لکھنو کے گھروں، گلیوں اور بازاروں کی زبان سے آگاہی ہوتی ہے۔ اس دور کے مشاعراتی ماحول کا پتہ چلتا ہے جو بے شک اِس وقت خا صا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے لیکن اُس وقت یہ ساری مضحکہ خیزیاں تہذیب اورادب، آداب کا اہم حصہ تھیں۔
میرے نزدیک ان کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ آج سے لگ بھگ پون صدی پہلے خا نپور کے ایک سرائیکی نے اردو زبان لکھنوی میں رائج الوقت روز مرہ، محاورہ اور شعری رویوں کوا س طرح برتا کہ ” اہلِ زبان“ اور ’غیر اہلِ زبان“ کا فرق ہی نہ رہنے دیا۔یہ اس دور کی بات ہے جب ساری ریاست بہاول پور میں دو جماعتیں پاس کر لینے والے کو پڑھا لکھا سمجھا جا تا تھا اور سارا شہر ایسے شخص سے اپنے خطوط پڑھانے اور لکھانے کا کام لیا کرتا تھا ور ایسے پڑھے لکھوں کی تعداد بھی انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔
محسن خان پور (عنقا بیگم)کے اس مجموعہ سے ان کی جن دیگر تصنیفات کا پتہ چلتا ہے ان کے نام یہ ہیں ”ڈالی“، ”خواب سرشار“، ”برہتہ پوئٹری و سفر نامہ لندن ہز ہائی نس عالیجناب نواب صادق محمد خان صاحب بہادر عباسی پنجم والی ریاست بہاول پور “ ، ” مثنوی قہر عشق“ ۔ان دیگر چار تصنیفات میں سے تین کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکاہے۔ ”مثنوی قہر عشق “جو بہاول پور کے پہلے ہائی سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر کے ایک طوائف سے معاشقے کی سچی کہانی ہے، اس کے قلمی نسخے کا پہلا حصہ میرے پاس محفوظ ہے ٭ اس کے دوسرے حصے کی تلاش میں ہوں۔اگر دوسرا حصہ مل گیا تو ٹھیک وگرنہ ایک سوبرس پہلے کے واقعات کا کھوج لگانے کے لیے ”صادق الاخبار“(بہاول پور کا قدیم اخبار) کی پرانی فائلیں تلاش کرنا پڑیں گی کیونکہ مصنف کے دعویٰ کے مطابق ان واقعات کی تفصیلات ”صادق الاخبار“ میں بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔
(مطبوعہ جدید ادب خانپور۔شمارہ: نومبر ۱۹۸۰ء)
٭ پاکستان سے چلتے وقت میں نے ”مثنوی قہر عشق“ کا قلمی نسخہ برادرم ناصر عباس نیر کے سپرد کیا تھا۔مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اس نسخہ کی پوری حفاظت کی اور جب انہیں اس امانت کو سنبھالنے والا ڈاکٹرعامر سہیل کی صورت میں ملا تو انہوں نے اسے عامر سہیل کے حوالے کر دیا۔جو اس کی تدوین کا کام کر رہے ہیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ عامر سہیل کی محنت کا ثمر جلد ادبی دنیا کے سامنے آسکے گا۔(ح۔ق)