جب تک اردو لکھنے، بولنے،اور سمجھنے والے موجود ہیںاردو ایک زبان کی حیثیت سے موجود رہے گی۔زمانے کے نئے تقاضے جتنے اردو کے لئے اہم ہیں اتنے ہی دوسری زبانوں کے لئے بھی اہم ہیں۔اس لشکری زبان کو اردو کا نام ملنے سے پہلے ہندوی یا ہندوستانی زبان کہا جاتا تھا لیکن یہ گاڑھی ہندی سے مختلف تھی۔موجودہ ہندی زبان میں سے اگر گاڑھے الفاظ کو نکال دیا جائے اور اردو میں سے گہرے فارسی آمےز الفاظ نکال دئیے جائیں تو بول چال اور تفہیم کے لحاظ سے یہ دو مختلف زبانیں نہیں رہتیں۔ آج کے سیٹلائٹ دور میں جہاں اردو کے فارسی آمےز الفاظ بھی عام ہندی جاننے والوں کو سمجھ میں آنے لگے ہیں اور ہندی کے گہرے الفاظ بھی اردو والوں کے لئے اتنے مشکل نہیں رہے تو سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ایک زبان کی دو زبانیں صرف اسکرپٹ کے جھگڑے میں بن گئی ہیں ۔اگر بول چال کے حساب سے اردو ،یاسابق ہندوستانی زبان کو دیکھا جائے تو یہ دنیا کی غالباََ تیسری یا چوتھی بڑی زبان ہے لیکن اسکرپٹ کے چکر میں یہ زبان عالمی سطح پر غےر اہم ہو کر رہ گئی ہے۔اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے دو اہم باتیں ایک خاص پس منظر سے بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔
۱۔
عہدِ حاضر میںعالمی سطح پر کسی اہمیت کا جواز مغرب کی دلچسپی سے پیدا ہوتا ہے اور مغرب والوں کی دلچسپی کی اپنی ترجیحات ہیں۔جب بّرِ صغےر میں برطانیہ کی دلچسپی تھی تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اردو کے لئے کیا کیا خدمات انجام نہیں دے ڈالیں۔لیکن جیسے ہی ان کی ترجیحات تبدیل ہوئیں انھوں نے اردو زبان اور اس کے ادب سے لا تعلقی اختیار کرلی۔ایسے ہی شاہ اےران کے دور میں اہلِ مغرب کی فارسی زبان میں دلچسپی اور ایک عرصہ سے عربی زبان سے ان کی ”محبت“ کوئی ڈھکی چھپی چےزیں نہیں ہیں۔جاپان کی مضبوط اقتصادی حالت کے باعث جاپانی زبان اور ادب میں مغرب والوں کی دلچسپی بھی قابلِ فہم ہے۔اس پس منظر سے دیکھیں تو عالمی سطح پرکسی زبان اور اس کے ادب کی اہمیت کا تصوّرمتعلقہ زبان والے ملک یا ممالک کی اقتصادی اور سیاسی اہمیت سے اور اس اہمیت کے ساتھ اہلِ مغرب کی دلچسپی کی نوعیت سے مشروط ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی مارکیٹ کی تجارتی زبانوں کی اپنی اہمیت ہے لیکن کسی زبان کے ادبی سرمائے سے ہی اس کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جاناچاہئے۔زبانوں کے ادبی کردار میں اس کے لوک اور ثقافتی سرمائے کا بڑا عمل دخل رہتا ہے۔اردو کے لسانی ساختیوں میں ایک طرف عربی اور فارسی روایات کا دخل ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی مقامی بولیوں اور یہاں کی ثقافت کا گہرا اثر ہے۔جس زبان کے پس منظر میں عربی اور فارسی جیسی امےر زبانوں کی روایات کا سرمایہ ہو اور جس کی جڑوں کو برِ صغےر کی مقامی زبانوں نے اپنی ثقافت سے سینچا ہو اور جو اتنی قوّتِ جذب رکھتی ہو کہ چند صدیوں کے مختصر سے سفر میں بّرِ صغےر کی رابطے کی زبان بن جائے تو اس زبان کی اہمیت کا کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
اپنے ماضی کے سرمائے کے ساتھ اس زبان کا اپنا ادبی سفر بھی پوری شان کے ساتھ جاری ہے۔دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب کرلینے کی زبردست صلاحیت رکھنے والی یہ زبان دوسری زبانوں کے ادبی تجربات کو بھی اپنے اندر سمونے کا وصفِ خاص رکھتی ہے،تاہم اس سلسلے میں یہ بھی ہے کہ اپنے ثقافتی وجود کے دائرے میں جو تجربہ اسے فطری نہیں لگتا اسے یہ رد بھی کردیتی ہے۔اس سلسلے میں رد کرنے کی اور قبول کرکے جذب کرلینے کی متعدد مثالیںدی جا سکتی ہیں۔سو ایسی زبان کو اگر عالمی سطح پر اہمیت نہیں مل رہی تو اس کی وجہ صرف اہلِ مغرب کی اپنی ترجیحات ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اردو اس وقت ادبی لحاظ سے دنیا کی کسی بھی دوسری زبان سے پیچھے نہیں ہے۔اردو ادب کا اچھا انتخاب دوسری زبانوں میں اچھے طریقے سے ترجمہ ہوتا رہے تو ہو سکتا ہے مغرب کے غےر افادی اہلِ ادب کو اس زبان کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔
۲۔
تقسیم بّرِ صغےر کے بعد ہندوستان میں دیو ناگری رسم الخط کو رائج کرنے کے لئے اردو ،ہندی تنازعہ میں شدت پیدا کرائی گئی۔ ہندی کو قومی زبان قرار دلوانے کے لئے شدید بھاگ دوڑ کے باوجود اسمبلی میں ووٹ برابر پڑے ۔تب اسپیکر کے کاسٹنگ ووٹ سے اردو کے مقدر کا فیصلہ کیا گیا۔ہندی کو ،در اصل دیو ناگری رسم الخط کو ہندوستان کی قومی زبان کا درجہ مل گیا۔ پھر بات یہیں ختم نہیںہوئی،ہندوستان بھر کی رابطہ کی زبان کو علاقائی زبان بنا کر اس کے اپنے علاقوں میں بھی دوسرے درجہ ،بلکہ تیسرے درجہ کی زبان بنا دیا گیا ۔اردو کو یہ سزا قیام پاکستان کے ”جُرم“میں دی گئی۔اُدھر پاکستان میں بھی اگرچہ اردو کو سرکاری زبان تو بنا لیا گیا تاہم وہاں کی اشرافیہ کی زبان انگرےزی ہی رہی۔اور گزشتہ تریپن برسوں سے وہاں ہماری بیوروکریسی اورسیاست تک کالے انگرےزوں کا ہی عمل دخل رہا ہے۔یوں اردو زبان کو اس کے اپنے گھر سے بھی بے دخل کر دیا گیا اور پاکستان میں بھی اسے جائے اماں نہ مل سکی ۔ہندوستان ہو یا پاکستان ،یہ زبان صرف اپنے بولنے والوں اور لکھنے والوں کے بل پر نہ صرف زندہ ہے بلکہ قائم و دائم ہے۔
اردو اور ہندی کے تنازعہ سے قطع نظر ،رسم الخط کے فرق کو الگ رکھ دیں تو یہ ایک ہی زبان کے دو بڑے علاقائی روپ ہیں۔اگر اسے اس کی سپوکن حیثیت سے ایک مانا جا سکتا ہے تو رسم الخط کے تنازعہ کا بھی کوئی بہتر نکالنے پر غور کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں مےرے سامنے دو اہم مثالیں ہیں۔یورپ کی ساری زبانوں کا رسم الخط ایک ہے اس کے باوجود ہرزبان دوسری زبان سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ ایک ملک کی زبان دوسرے ملک میں سمجھی ہی نہیں جاتی۔گویا ایک رسم الخط ،اور ایک ہی رنگ کے لوگ ایک دوسرے کے لئے یکسر اجنبی ہیں جب تک کہ رابطے کی کوئی تیسری زبان درمیان میں نہ آئے۔اس کے بر عکس پاکستان اور انڈیا کے پنجاب کی زبان ایک ہے لیکن رسم الخط ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہیں۔پاکستان کا پنجابی، گورمکھی اسکرپٹ میں لکھی ہوئی پنجابی کا ایک لفظ نہیں پڑھ سکتا اور انڈیاکاپنجابی اردو اسکرپٹ میں لکھی ہوئی پنجابی کو پڑھنے سے قاصر ہے۔حالانکہ دونوں کی زبان ایک ہے۔ان دونوں مثالوں کو مدِ نظر رکھیں اور پھر سوچیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے وسیع تر علاقے میں بولی جانے والی،سمجھی جانے والی اور رابطے کی زبان جو بڑی حد تک ایک ہے وہ صرف رسم الخط کے جھگڑے میں عالمی سطح پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب نہیں ہورہی۔ میں ایک اور تازہ صورتحال بھی یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ہم لوگ جو مغربی ممالک میں آکر آباد ہو رہے ہیں ،ہماری نئی نسلیں اردو زبان سے تو واقف ہیں لیکن اردو یا دیوناگری رسم الخط سے واقف نہیں ہیں۔زیادہ تر بچے اردو نظمیں یا مضمون رومن میں لکھ کرانہیں یاد کرتے ہیں۔اگر ابھی تک بعض بچوں کی مستثنیات موجود ہیں تو آنے والے وقت میں یہ بھی قائم نہیں رہ سکیں گی۔اور تو اور پاکستان کے سب سے بڑے اخبارروزنامہ”جنگ“نے انٹر نیٹ پر اپنے ادبی پیج کے لئے میٹر رومن٭ میں بھیجنے کا رستہ کھول دیا ہے۔رومن رسم الخط سے مجھے یاد آرہا ہے کہ غالباً ۱۹۹۳ءمیں دہلی میں ہمدرد دواخانہ کے حکیم مجید صاحب نے ایک تجوےز پیش کی تھی کہ اردو کو اردو،ہندی اور رومن ،تینوں اسکرپٹس میں روا کرلیا جائے۔ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اردو کی پہچان اس کے اصل رسم الخط ہی میں ہے کہ اس کے ساتھ اس کاپورا ثقافتی پس منظر جُڑا ہوا ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی طرح زبانوں کو بھی عروج و زوال سے گزرنا پڑتا ہے۔آج سے پانچ سو سال پہلے کی اردو کیسی تھی اور اس کے مقابلہ میں آج کی اردو کیسی ہوگئی ہے۔اگلے پانچ سو سال میں کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کیا روپ اختیار کرلے۔زبانوں کا بننا،بگڑنا ایک تاریخی تسلسل سے گزرتا ہے اور تاریخ کا عمل تو ہو کر رہتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس سلسلے میںحقائق کا سامنا جذباتیت سے نہیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ کریں ۔اردو کے ثقافتی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے (جو کہ اس کے رسم الخط میں موجود ہے)ہمیںہندی اور ہندوستانی زبان سے اپنے فطری قرب کو محسوس کرنا ہوگا۔یہ ایسی قربت ہے کہ اپنا مافی الضمےر بیان کرنے کے لئے اردو سے کسی ترجمے کی نہیں بلکہ صرف اسکرپٹ بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اور اپنی سپوکن حیثیت میں یہ ایک ہی زبان کے مختلف لہجے ہیں۔اسی بنیاد پر ہم اردو کو دنیا کی تین چار بڑی زبانوں میں شمار کرنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔
جہاں تک بڑے ادب کا تعلق ہے وہ کسی زبان میں ہو ،بڑا ادب ہمیشہ بڑا ہی رہتا ہے۔ وہ قدیم زبانیں جو اب صرف ماہرین لسانیات کی حد تک رہ گئی ہیں ،ان کے شاہکار ہوں یا ہماری علاقائی زبانوں کے لوک اور صوفیانہ شاہکار ہوں ان سب کی عالمی حیثیت ہے ۔سو آج بھی جو بڑا ادب جہاں بھی تخلیق ہو رہا ہے وہ بڑا ادب ہی ہے اگر کوئی اس کی بڑائی سے بے خبر ہے تو قصور اس کی اپنی بے خبری کا ہے۔
ابھی تک میں نے اردو زبان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اب ادب کے حوالے سے بھی چند باتیں کرلینا چاہتا ہوں۔ایک زمانہ تھا جب مشاعرہ کا ادارہ دوہری افادیت کا حامل ہوتا تھا۔یہ ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ بھی تھا اور نئے لکھنے والوں کی تربیت گاہ بھی تھا۔ اس دور کے گزرنے کے بعد ادبی رسائل کی صورت میں وسیع ذریعۂ ابلاغ سامنے آیا جو ادبی تربیت گاہ کا کرداربھی مشاعرہ سے کہیں بہتر کرتا ہے۔اس کے باوجود مشاعرہ کی روایت کسی نہ کسی صورت میں ابھی تک چلی آرہی ہے۔ مجھے مشاعرہ بازی کی مخالفت نہیں کرنی لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ ادارہ اپنی ادبی افادیت کھوچکاہے اور ادبی حوالے سے اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ثقافتی میلے کی صورت میں یہ بے شک چلتا رہے۔
ادب کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی آرہی ہے ۔مادہ پرستی کے غلبہ سے لے کر ٹی وی چینلز تک اس کے بہت سے اسباب ہیں۔لیکن ایک بڑا سبب خود ادیبوں کی ادب سے بے توجہی ہے جوادبی شعور کی کمی یا ادبی شعور نہ ہونے کے باعث ہے۔اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عموماََ شاعروں کو شاعری کے علاوہ ادب کی دوسری اصناف سے مطالعہ کی حد تک بھی کوئی رغبت نہیں رہی اور ایسی ہی صورتحال دوسری اصناف کے لکھنے والوں کے ہاں دیکھی جا سکتی ہے۔مستثنیات کو چھوڑ کر ہمارے شاعروں اور ادیبوں کی ادب سے وابستگی کی یہی نوعیت ہے۔اور تو اور شاعری میں بھی یہ حال ہے کہ اپنی ناک سے آگے کسی کو کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔یہ سارے رویے خودادیبوں کی ادب سے بے رغبتی کو ظاہر کرتے ہیں۔ایسی صورتحال میں قاری کی کمی کا رونا بے معنی ہو جاتا ہے ۔سو مےرے خیال میں عوام میں یا اردو کے قارئین میں ادب کا ذوق پیدا کرنے سے پہلے خود ادیبوں اور شاعروں میں ادب کا ذوق پیدا ہونا ضروری ہے ۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ادیب اور شاعر ادب کے سنجیدہ قاری بنیں۔ان کے اندر Sense of Literatureپیدا ہو اور اس کی جھلک دکھائی بھی دے۔مغربی ممالک میں مقیم اردو کے شاعروں اور ادیبوں میں اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے۔میں یہ بات کسی پر طنز کے طورپر نہیں کہہ رہا بلکہ حقیقتاََ یہ ہمارے ادب کا سنگین مسئلہ ہوتا جارہا ہے۔اس کے نتیجہ میں جعلی شاعروں اور ادیبوں کی ایک کھیپ تیار ہو چکی ہے۔یوں اصل اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔مارکیٹنگ سسٹم کی طرح ادب میں بھی نمبر دو مال کو اوریجنل ادب کے طور پر پیش کیا جارہاہے۔اس کے لئے سنجیدگی سے اور بہادری کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے معاملات میں ذاتی دوستیوں اور تعلقات کے مقابلہ میں ادب کو اوّلیت اور اہمیت دینا بے حد ضروری ہے۔
جدید عصری تقاضے اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی ہر لحظہ بدلتی ہوئی شان نے اہلِ دنیا کو حےران کر رکھا ہے۔تاہم تخلیقی ادب کسی تقاضے اور ڈیمانڈ کو پیش نظر رکھ کر تخلیق نہیں ہوتا۔نئے عصری تقاضوں کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،لیکن وہ سارے اثرات ہر تخلیق کار پر اس کی صلاحیت اور توفیق کے مطابق مرتّب ہوتے ہیں اور اپنی داخلی تخلیقی قوت کے ساتھ ہی وہ ان کا اظہار کر پاتا ہے۔بیل گاڑی کے دور کا داستان گو اگراپنے تخلیقی وژن سے ہمیں اڑن کٹھولے،اڑن قالین ،پریوں اور دیووں کے اڑنے کے مناظر دکھا کر ہمارے دل میں اڑنے کی خواہش جگا سکتا تھا اور ہمیں جہاز کی ایجاد تک لا سکتا تھا ،اور کسی چھوٹے سے دیہات کا قصہ گو ہمیں جامِ جمشید کی صداقت کا یقین دلاتے دلاتے سیٹلائٹ کے جامِ جمشید تک پہنچا سکتا تھا تو آج کا ادیب جس کا وژن کمپیوٹر کے عہد کا وژن ہے بلکہ کلوننگ کے عہد کا وژن ہے وہ اپنے ارد گرد سے بھی با خبر ہے اور اپنے باطن کی آواز بھی سن رہا ہے ایسی صورتحال میں مایوسی کی کوئی بات نہیں۔لیکن مجھے ایک خیال گزشتہ دو دہائیوں سے پریشان کرتا آرہا ہے اور اب اس کا احساس اور بھی شدید ہو گیا ہے۔ہم ساری دنیا کے لوگ ،بارود کے ڈھےر پر نہیں۔۔۔۔ایٹمی بارود کے ڈھےر پر بیٹھے ہوئے ہیں۔کون کہہ سکتا ہے کب یہ ساری ترقیات ،ساری رونقیں بھک سے اڑ جائیں۔گنتی کے چند لوگ بچیں اور پھر اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے زمانے کے احوال قصے کہانیاں کہہ کر سناتے رہیںکہ انہیں سچ کہہ کر بتائیں گے تو ان کی اپنی اولاد انہیں پاگل گردانے گی۔لیکن کیا پتہ گنتی کے چند لوگ بھی بچیں گے یا سب کچھ ہی ختم ہوجائے گا۔ایسا ہوا تو اردو اور ہندی سمیت دنیا کی ہرزبان کسی سے یہ بھی نہیں کہہ سکے گی :
کفن سرکاؤ مےری بے زبانی دیکھتے جاؤ
بات اردوکے مستقبل کی تھی میں ساری زبانوں کے مستقبل کی بات لے بیٹھا ہوں۔سچی بات ہے دنیا اسی وقت امن کا گہوارہ بن سکتی ہے جب ہر بڑا بھائی، بڑا چاچا یا بڑا ماںماں،بڑائی کے زعم سے نکل کر محبت کا رویہ اختیار کرے گا اور دھونس کی بجائے ایثار کا رستہ اختیار کرے گا،وگرنہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی کوئی لغزش بھی کمپیوٹرائزڈ ایٹمی ہتھیاروں کو چلا کر پوری دنیا کو نابود کرسکتی ہے۔اردو زبان کا مستقبل ہو یا دنیا کی دوسری تمام زبانوں کا مستقبل ہو،ان سب کی بقا اور ترقی کا انحصار علاقائی سطح سے لے کر عالمی سطح تک محبت کی زبان اختیار کرنے پر ہے اور اس کی بیشتر ذمہ داری دنیا کے سارے بڑے بھائیوں،چاچوں اور ماموں پر عائد ہوتی ہے ۔ادیب تو اپنے دائرہ کار میں حسبِ توفیق اپنا کام کر ہی رہے ہیں۔
(مطبوعہ :مجلہ ملینئیم اردوکانفرنس ۲۰۰۰ء انگلنیڈ)