بیسویں صدی میں دنیا حیرت انگیز اورتےز رفتار تبدیلیوںسے گزری ہے۔بیل گاڑی سے راکٹ تک، گراموفون ریکارڈ سے سیٹلائٹ تک، تختی اور سلیٹ سے کمپیوٹر تک، بندوق سے ایٹم بم تک، میٹرنٹی ہوم سے کلوننگ تک۔۔ ہرآن تبدیل ہوتی ہوئی ترقیات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کا ابھی تک کوئی انت نظر نہیں آرہا۔ ان ترقیات کے سلسلے میں ایک بات واضح طور پر سامنے ہے کہ ہمارا ایک قدم آگے کی طرف بڑھتاہے تو ایک قدم مسلسل پیچھے کی طرف بھی جار ہا ہے ۔ ایک طرف پوری دنیا ایک گاﺅں بنتی جارہی ہے تو دوسری طرف علاقائی سطح پر شکست و ریخت کا عمل جاری ہے۔۔۔۔اس برق رفتاری کے مثبت اور منفی اثرات اردو ادب پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ ایسے اثرات کو سطح پر تلاش کرنا مناسب نہیں اور گہرائی میں جائیں تو پوری صدی کے ادب پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے۔ اہلِ نظر اس سلسلے میں توجہ کریں تو تجزیہ و تنقید کاکام ایک نئے زاویے سے شروع کیا جا سکتاہے، یہاں میں بیسویں صدی کے اردو ادب کے سفر کو پلٹ کر بس ایک نظر دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ایک سو سال کے اس ادبی سفر کے صرف اہم ترین حوالے ہی یہاں آسکیں گے۔ ان میں بھی صرف وہ حصے سامنے آئیں گے جو میری اچٹتی نظر میں آگئے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے اردو ادب کے دامن میں شاعری کی اصناف میں غزل، قصیدہ ، مثنوی، پابند نظم کی بعض اقسام، قطعہ اور رباعی وغیرہ موجودتھیں۔بیسویں صدی میں ان میں سے بیشتر اصناف پہلے نصف میں از خود دم توڑ گئیں۔ قطعات اور رباعیات کاتھوڑا بہت سلسلہ ابھی تک جاری ہے لیکن ادبی سطح پر ان کی پہلی سی مقبولیت قائم نہیں رہی۔صرف غزل نہ صرف پہلے سے زیادہ مقبول ہوئی ہے بلکہ باقی شعری اصناف کے مقابلہ میں بے حد زرخیز اور جاندار بھی ثابت ہوئی ہے۔ غزل کو ختم کرنے کے لیے اس صدی میں دو تین بارشدید حملے کیے گئے لیکن شاید یہ سارے حملے اس لیے ناکام رہے کہ اردو بلکہ برصغیر کے کلچر میں غزل کی جڑیں بہت دور تک اتری ہوئی ہیں۔ہندی روایت کی دو شعری اصناف دوہا اور گیت اردو کے لیے ہمیشہ اہم رہی ہیں۔ہندی گیت کی روایت فلمی اور کیسٹ کمپنیوں کے گیتوں کے شور میں گم ہوتی جار ہی ہے،تاہم دو ہے کو اردو میں ایک بار پھر اہمیت ملنے لگی ہے اور یہ اہمیت دوہے کے اصل وزن کی بُنیاد پر مل رہی ہے۔
نئی شعری اصناف میں آزاد نظم نے اردو ادب میں اپنی بنیادوں کو مستحکم کیا ہے۔آزاد غزل کا تجربہ اگرچہ ابھی تک بہت زیادہ رائج تونہیں ہو پایا پھر بھی اس میں ایک نئے ذائقے کا احساس ضرور ہوا ہے۔ گذشتہ دو تین دہائیوں سے مختصر شعری اصناف کے بعض تجربے ہو رہے ہیں۔ہائیکو، ثلاثی،تروینی اور ماہیے کے سہ مصرعی تجربے اپنی اپنی الگ ہیئت اور مزاج کے باعث اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ مقبولیت کے لحاظ سے ماہیا شاید دوسری تمام سہ مصرعی شعری اصناف سے کہیں آگے ہے کہ یہ خالصتاً برصغیر کے ایک بڑے علاقے کا لوگ گیت ہے جو اردو میں باقاعدہ شعری صنف بن گیاہے۔حالیہ دنوں میں امیر خسرو کی کہہ مکرنیوں کی روایت پھر سے کچھ کچھ مقبول ہونے لگی ہے۔
اردو کا دامن داستان کی روایت سے بھرا ہواتھا لیکن بدلتے وقت اور حالات کے پیش نظر داستان کی جگہ چپکے سے ناول نے لے لی ۔ پھر افسانہ آیا ناولٹ آیا، افسانچے آئے۔ اردو فکشن نے ا پنی داستان خود مرتب کی۔ فکشن کے دوش بدوش سفر نامہ،رپورتاژ، خاکے اور خود نوشت لکھنے کا رجحان تو انا ہوا۔ انشائیہ نے اردو ادب میں پاﺅں جمائے تو پرانے قصوں کے طنزیہ مزاحیہ حصے اردو میں باقاعدہ ایک ادبی صنف کی صورت اختیار کر گئے۔طنزو مزاح سے بھرے ہوئے مضامین نے نہ صرف اپنا الگ تشخص قائم کیابلکہ قاری کے ادب کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تھیٹر کے ذریعے اردو ڈرامہ مقبول ہو کر ایک ادبی صنف بننے لگا تھا لیکن ٹی وی ڈراموں کی یلغار نے ادبی ڈرامہ کے ساتھ وہی کچھ کیا ہے جو کچھ فلمی گیتوں کے ہاتھوں ہندی روایت کے گیت کا ہو چکا ہے۔بہر حال یہ سب کچھ ہماری ادبی تاریخ کا حصہ ہے۔
اردو تذکروں کو تنقید کے ابتدائی آثار مانا جاسکتا ہے۔بیسویں صدی میں اردو تنقید نے آہستہ روی سے اپنا سفر شروع کیا اور اب پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اردو تنقید اپنے اصل مآخذ مغربی تنقید کے برابر آن کھڑی ہے،تاہم یہ بات بھی افسوس کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے ذہین نقادوںنے مشرقی ادب کی پرکھ کے لیے مشرقی مزاج سے ہم آہنگ ادبی پیمانے مقرر کرنے کی طرف بہت ہی کم دھیان دیا ہے۔ بیسویں صدی میں ادبی رسائل کی اشاعت کی سہولت نے ادبی صحافت کو فروغ دیا ‘یوں ادبی اداریہ ، کتابوں پر تبصرے اور رسائل میں چھپنے والے خطوط بھی ادبی حوالے سے اہمیت حاصل کر گئے۔ ادیبوں کے انٹرویوزکے ذریعے نہ صرف ان کی شخصیت کے بلکہ ان کی تخلیقات کے بعض مخفی گوشے بھی ابھر کر سامنے آنے لگے۔ تحقیق کے میدان میں بھی قابل ذکر پیش رفت ہوئی۔
ادبی اصناف میں قصیدہ ، مثنوی، مسدس وغیرہ مطلع ادب سے غائب ہو گئیں۔رباعی قطعہ اورگیت بھی آہستہ آہستہ متروک ہوتے جا رہے ہیں۔داستانیںاور قصے بھی اب صرف ادبی تاریخ کا حصہ ہیں۔تاہم اپنے ایسے سارے گم شدہ ادبی سرمائے کے حوالے سے ہی اردو ادب آج اتنا مالا مال ہے۔ کچھ اضافے ، افسانہ ، ناولٹ، ناول ، سفر نامہ ، رپورتاژ،خود نوشت، یاد نگاری ، خاکہ ،انشائیہ،طنزو مزاح اور تنقید جیسی ادبی نثری اصناف کی صورت میں اور کچھ غزل ،آزاد نظم، ماہیا،دوہا اور دیگر شعری اصناف کی صورت میں یقینا بیسوی صدی کے سفر کا حاصل ہیں۔
اس صدی کے اوائل میں غزل کو چھوڑ کر دیگر بیشتر اصناف ادب میں معاشرتی اصلاح اور اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے واضح پیغام دیا جاتا تھا یا پھر رومان انگیز تحریریں پیش کی جاتی تھیں۔علامہ اقبال کی آوازبجائے خود ایک تحریک تھی انہوںنے اپنی تخلیقی قوت کے ذریعے اپنا پیغام قوم تک پہنچایا اور ادب میں ایک استثنائی مثال بن کر ابھرے ۔ ترقی پسند تحریک نے لکھنے والوں میں ایک نئی روح پھونک دی ، اردو ادب کو جتنے اعلیٰ پا ئے کے تخلیق کار ترقی پسند تحریک کے ذریعے نصیب ہوئے بعد میں کسی اور تحریک کے ذریعے اتنی تعداد میں نہیں مل سکے۔ اس میں شک نہیں کہ اس تحریک کے ذریعے مقصد کو ادب پر نہ صرف فوقیت دی جانے لگی بلکہ ادب کو محض آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے بڑے فورم کی طرف سے بے شمار ٹریش بھی ادب کے نام پر پیش کیا جانے لگا۔ تاہم ترقی پسند تحریک نے ادب کے دھارے کا رخ تبدیل کر کے ایک انقلابی کارنامہ انجام دیا۔ بیسویں صدی کے ادب پر سب سے گہرے نقش ترقی پسند تحریک کے ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے بعد جدیدیت کا دور آیا۔ معتدل اور متوازن جدیدیت ادب کے لیے نیک فال تھی لیکن پھر یہاں جدید علامتی پیرائے کی جگہ گہرے تجریدی بادل چھا گئے۔ادب کی تخلیقی سحر انگیزی کی جگہ الفاظ کا مداری پن نمایاں ہوا۔قاری ادب سے ہی بے زار ہونے لگا۔خدا خدا کر کے یہ دور گزرا،ا ور اب بیسوی صدی کا آخری کنارا ہے۔ اس دور کو مابعد جدیدیت کہہ لیں‘چاہے جدیدیت کی توسیع کہہ لیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ادیبوں کی نئی نسل لفظ و معنی سے ہم رشتہ ہونے ہی میں اپنی ادبی بقا سمجھتی ہے اور اس میں ادب کی بقا بھی ہے۔
ایک عرصہ تک دوسری زبانوں کا ادب اردو میں ترجمہ ہوتا رہا ہے، تاہم اب کچھ عرصہ سے اردو ادب کے تراجم بھی دوسری زبانوں میں ہونے لگے ہیں۔اگرچہ تراجم کا زیادہ تر کام نجی سطح پر ہو پایا ہے اور تا حال ایسے تراجم کے اچھے اثرات بھی سامنے نہیں آئے تاہم ایک اچھے کام کی ابتداہوئی ہے تو اس کے اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے ادب کے عالمی دھارے کا چرچا ہو رہا ہے ۔ جب ساری دنیا عالمی گاﺅں میں تبدیل ہو رہی ہے ،ادب کا عالمی دھارابھی اگر معرض وجود میں آجائے تو اچھی بات ہے لیکن ہر زبان کا اپنا ایک لسانی کلچر ہوتا ہے اور اس کلچر سے اُگنے والی تخلیقات ہی اس زبان کا اعلا ادب ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ادب کے عالمی دھارے میں ایسی تخلیقات کو کہاں رکھا جائے گا جو ترجمہ کی ٹھیس بھی برداشت نہیں کر سکتیں؟ ہم نے مغرب سے ہر سطح پر استفادہ کیا ہے لیکن اہلِ مغرب کی برکات کو مشرقی سانچے میں ڈھال کر۔ مغربی ادبی اصناف بھی ہمارے ہاں صرف وہی رائج ہو سکی ہیں جو مشرقی مزاج میںآسانی سے رچ بس سکتی تھیں۔
اہلِ مغرب کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانہ میں اردو کو خصوصی اہمیت دی گئی۔اب ویسی اہمیت عربی اور جاپانی کو دی جارہی ہے تو اہل مغرب کے ”نظریہ ضرورت“ کو سمجھا جا سکتاہے۔ساختیات کے مغربی دانشوروں نے جس طرح جنرل تھیوری کا حربہ آزمانے کی کوشش کی تھی کہیں ادب کے عالمی دھارے کا بھی ویسا ہی مقصد تو نہیں ہے؟عالمی ادبی برادری کا تصور خوش کن ہے لیکن ادب کے کسی بڑے سے بڑے دھارے میں بھی ہر زبان کے ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں اردو ادب کے ثقافتی تشخص کو قائم رکھنے کے لیے ہمارے اہل ادب کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کیونکہ نئی صدی میں ادب کے عالمی دھارے کا مسئلہ زیادہ بڑی سطح پر سامنے آ رہا ہے۔
انیسویں صدی تک اردو ادب کے سفر کی رفتار اس زمانے کی رفتار کے مطابق رہی اور بیسوی صدی میں زمانے کی پے در پے تبدیلیوں کے ساتھ اردو ادب کا دامن وسیع ہوا۔ادب میں وسعت کے ساتھ ادیبوں کے ساتھ ادیبوں کی معاصرانہ چشمک، مفادات کی دوڑ، گروہ بندیوں اور نجی کدورتوں کے منفی اثرات بھی نمایاں ہوئے۔ تنقید میں غلط بخشیوں نے مذکورہ منفی اثرات کو مزید مستحکم کیا۔ اس کے باوجود اردو ادب کی ترقی کا گراف بڑھ رہاہے۔ اردو زبان اپنے سارے ادبی سرمائے کے ساتھ اکیسویں صدی میں داخل ہور ہی ہے۔ اکیسویں صدی میں ہمارے سامنے ادب کے عالمی دھارے کے مسئلہ کے ساتھ ایک اور سوال بھی غور طلب ہے۔
اکیسویں صدی میں صرف اردو ادب ہی کا نہیں ، دنیا بھر میں ادب کا مستقبل کیا ہوگا؟
امید ہے ہمارے اہلِ ادب اس سوال پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔
(مطبوعہ ماہنامہ کتاب نما دہلی،شمارہ جولائی ۱۹۹۹ء)