اپنی ادبی زندگی کے دوران تخلیقی کام کے ساتھ میں نے بہت سارے مضامین بھی لکھے ۔
ماہیے کی تحقیق و تنقید کے سلسلہ میں میری پانچ کتابوں کو چھوڑ کرباقی مضامین زیادہ تر کسی شعری،افسانوی مجموعہ، ناول یا کسی اور ادبی کتاب کے مطالعہ پر مبنی رہے۔چند مضامین مختلف حوالوں سے ادبی صورتحال کے بارے میں بھی لکھے گئے۔پچیس سال کے عرصہ پر محیط ان سارے بکھرے ہوئے مضامین کو جمع کرنے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔میرا اندازہ ہے کہ ابھی کم از کم دس پندرہ مضامین مزید ایسے ہیں جو دستیاب نہیں ہو سکے۔تلاش کے بعد ان مضامین اور بعد میں لکھے جانے والے مضامین سے ایک اور مجموعہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔تاہم فی الحال جو مضامین مل سکے ہیں مضامین کے اس مجموعہ میں شامل کر دئیے ہیں۔
میں بنیادی طور پر تخلیق کار ہوں۔تنقید کو ہمارے ہاں سکہ بند نقادوں کا فریضہ بنا کرنقاد کوادب میںکسی مذہبی پیشوا سے ملتی جلتی حیثیت دے دی گئی ہے۔رہی سہی کسر ان مابعد جدید شارحین سارقین نے پوری کر دی جنہوں نے مختلف حیلوں سے مصنف اور متن دونوں کو بے وقعت قرار دے کر اپنی تشریحات اور سرقوں ہی کو ادبِ عالیہ قرار دلوا ناچاہا۔میں یہاں کسی لمبی چوڑی بحث میں گئے بغیر مختصراََاتنا عرض کروں گا کہ میرے نزدیک تنقید، تخلیقی عمل کا ایک جزوی حصہ ہے۔کسی فن پارے کی تخلیق کے دوران جب تخلیق کار اپنے فن پارے کے اظہار کے ساتھ اس کے الفاظ کے استعمال اوران کی پیشکش کے اندازکو دیکھتا ہے تو در اصل ایسا دیکھنا،اس کی تنقیدی نگاہ بھی ہوتی ہے۔تخلیق کارکی یہ تنقیدی نظراپنی تخلیق کے اظہار کے دوران اس کے حسن و قبح کا جائزہ لیتی ہے ،تاکہ اسے خوب سے خوب تر صورت میں پیش کیا جا سکے ۔ اپنے فن پارے کو خوب سے خوب ترصورت میں پیش کرنے والی نظرہی کسی تخلیق کار کی تنقیدی نظر ہوتی ہے، اور اسی کے نتیجہ میں کسی تخلیق کار کا فن پارہ معرضِ وجود میں آتا ہے۔یوں تنقید، تخلیق سے ہٹ کر کوئی الگ چیز نہیں رہتی۔کوئی تخلیق کار، تخلیقی طور پر جتنا اچھا ہو گا ،اس کی تنقیدی سوجھ بوجھ یا تنقیدی بصیرت بھی اسی طرح لازماً عمدہ ہو گی،کیونکہ اسی کی بنا پر وہ اپنے تخلیقی تجربے کو بہتر طور پر اظہار کی صورت دے رہا ہے۔
ایک تخلیق کار کی یہی تنقیدی نگاہ دوسرے تخلیق کاروں کے فن پاروں کو بھی اسی انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ہر چند دوسروں کی تخلیقات کے مطالعہ کے دوران اتنی وابستگی تو نہیں ہوتی جتنی اپنے تخلیقی عمل کے دوران اپنی تخلیق کے ساتھ ہوتی ہے۔تاہم وہ سوجھ بوجھ کسی نہ کسی طور دوسروں کے مطالعہ میں بھی اپنااثر دکھاتی ہے۔سو اس زاویے سے آپ میرے ان مضامین کو تنقیدی مضامین کہہ سکتے ہیں۔ میں نے زندگی بھر جو کتابیں پڑھیں ،ان سب پر رائے دینا تو ممکن نہ تھا۔تاہم جن کے بارے میں رائے لکھنے کا موقعہ ملا وہ مضامین تبصرے اس حاصلِ مطالعہ میں پیش ہیں۔
میں نظری تنقید کی اہمیت کا بھی معترف ہوں۔اس کی وجہ سے ادب کے سرے فلسفہ اور سائنس سے جاملتے ہیں۔تاہم مجھے اعتراف ہے کہ میں براہِ راست نظری تنقید کی طرف توجہ نہیں کر سکا۔شاید میں اس ذہنی سطح تک پہنچ نہیں پاتاجس کا تقاضا فلسفہ اور سائنس جیسے مضامین کرتے ہیں۔سرسری مطالعہ کی حد تک فلسفہ اور سائنس سے جو تھوڑی بہت شُد بُد حاصل ہوئی وہ نظری تنقید کی بجائے براہِ راست میری تخلیقات میں دکھائی دے جاتی ہے۔اس کا ہلکا سا عکس اگر بعض مضامین میں آگیا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا۔
میں نے بعض مضامین پر نظر ثانی کی ہے۔پرانے مضامین میں کچھ ایڈیٹنگ کی ہے تو نئے مضامین میں بھی کہیں کہیں کچھ حذف و ایزادا ور ترامیم کی ہیں۔اگرچہ مضامین کی اشاعت کا حوالہ دے کر میں نے ابتدائی متن تک رسائی کو آسان کر دیا ہے۔تاہم مضامین کی ایڈیٹنگ میں جو تھوڑی بہت کمی بیشی ہوئی ہے وہی اب میری طرف سے میرے ان مضامین کی حتمی صورت ہے۔
ایک مضمون ”اردو زبان و ادب کے چند مسائل“میں اردو،ہندی کے حوالہ سے جو کچھ لکھا گیا ہے،اس کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔میرے پیش نظر صرف اردو اور ہندی کی لسانی صورتحال تھی جسے میں نے پنجابی کے پاکستانی اور انڈین اسکرپٹس کے تناظر میں بھی دیکھا اور یورپ میں ایک ہی رسم الخط ہونے کے باوجود یورپی زبانوں کی باہمی اجنبیت کے تناظر میں بھی دیکھا۔مضمون کی اشاعت کے بعد جو ردِ عمل سامنے آیا ،اس سے اندازہ ہوا کہ ہندوستان میں اردو ،ہندی کا مسئلہ کسی لسانی اصول کی بنیادپرنہیں بلکہ ہندو مسلم تنازعات کی بنیاد پر قائم ہے۔اس ردِ عمل کے نتیجہ میں مجھے تقسیم برصغیر سے بھی پہلے کے ادوار میں اس تنازعہ کی تاریخ جاننے کا موقعہ ملا۔ظاہر ہے یہ سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر قائم ہونے والاحساس اختلاف ہے،اسے محض کسی لسانی اصول کی بنیاد پر دیکھنا دلوں کو دکھ پہچانے والی بات بن جاتی ہے۔اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ بر صغیر کے تین ممالک انڈیا،پاکستان اور بنگلہ دیش تینوں میں اردو کی صورتحال ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔پاکستان میں کسی موثر سرکاری سرپرستی سے محرومی کے باوجود بھی اردو کے لیے اس کی بقا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔بنگلہ دیش میں یعنی مسلم بنگال میں اردو جاننے والوں کو ڈھونڈنے کے لیے چراغ لے کرنکلنا پڑے گا۔(اس کے برعکس ہندوستانی بنگال اردو کا ایک مضبوط گڑھ بنا ہوا ہے)۔پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورتحال سے ہٹ کر انڈیا میں اردو مسلمانوں کی عزت ،بلکہ کسی حد تک زندگی اور موت کا مسئلہ بن گئی ہے۔میں نے اپنے اس مضمون میں کوئی ترمیم نہیں کی بلکہ اسے اسی طرح شامل کیا ہے جیسے پہلی بار شائع ہوا تھا۔تاہم اس کے بعد کے ایک مضمون”تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردو کا منظر“میں اپنے پہلے موقف پر نظر ثانی کر لی ہے۔
میرے تنقیدی مضامین کا یہ مجموعہ سکہ بند تنقید سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ادبی صورتحال کو جس طرح سے دیکھا اور سمجھا،اور ایک تخلیق کار کی نظر سے دوسرے تخلیق کاروں کو پڑھتے ہوئے جیسا محسوس کیا،اپنے تاثرات کا اظہار کر دیا۔قارئینِ ادب بھی ان مضامین کے بارے میں جو تاثر قائم کریں وہ اس میں حق بجانب ہوں گے۔
حیدر قریشی
جرمنی سے ۔۔۔